سید محمد کفیل بخاری
جامعہ خیرالمدارس ملتان کے شیخ الحدیث استاذ العلماء، حضرت مولانا محمدصدیق ۹؍جمادی الاوّل ۱۴۳۷ھ / ۱۸؍ فروری ۲۰۱۶ء برور جمعرات ملتان میں انتقال فرماگئے۔ انا لِلّٰہ وانا اِلیہ راجعون۔
حضرت مولانا محمد صدیق رحمہ اﷲ حقیقی معنوں میں عالم باعمل اور اتباعِ سنت کا نمونہ تھے۔ ان کے وجود سے تقویٰ ولَلّٰہیت کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ وہ عظیم محدث و فقیہ حضرت مولانا خیرمحمد جالندھری رحمہ اﷲ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے۔ جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے ہم عمر اور ہم درس تھے۔ ۱۹۴۴ء میں یہ دونوں بزرگ خیرالمدارس جالندھر میں حصولِ تعلیم کے لیے داخل ہوئے اورقیام پاکستان کے بعد خیرالمدارس ملتان میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ انھوں نے اپنے مربی واستاذ حضرت مولانا خیر محمد جالندھری نور اﷲ مرقدہ کی فرماں برداری اور مادرِ علمی سے وفاداری کی عظیم مثال قائم کی۔ وہ خیرالمدارس میں داخل ہوئے تو پھر یہیں عمر تمام کردی۔ ان کا جنازہ بھی خیرالمدارس سے ہی اٹھا۔وہ اپنا گھر چھوڑ کر خیرالمدارس میں ہی ہمیشہ کے لے مقیم ہوگئے تھے۔ انھوں نے کم و بیش ساٹھ سال علوم قرآن و حدیث کا درس دیا۔ مولانا ایک طویل عرصہ جامعہ خیرالمدارس کی مسجد میں بعد نمازِفجر درس قرآن ارشاد فرماتے رہے جس سے سینکڑوں مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوئی۔ حضرت مولانا محمدصدیق رحمہ اﷲ بڑی نسبت والے بزرگ تھے۔ مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمتہ اﷲ علیہ کے داماد تھے۔ انھوں نے اس نسبت کے لحاظ کا حق ادا کیا اور ہمیشہ اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ سے بے پناہ محبت تھی اور حضرت امیر شریعت بھی آپ سے بہت محبت و شفقت فرماتے۔ مولانا اپنے دروس اور نجی مجالس میں طلباء کو اکثر ان کے واقعات سناتے۔ خانوادۂ امیر شریعت سے بہت محبت فرماتے۔
ابنِ امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ ، مولانا کے شاگرد رشید تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی کسی مسئلے میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی تو مولانا سید عطاء المحسن بخاری سیدھے مولانا کے ہاں حاضر ہوجاتے۔ فرماتے کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میرے استاذ موجود ہیں۔ اپنی اصلاح و رہنمائی کے لیے مجھے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ فرمایا کرتے کہ میری زندگی میں اگر مولانا محمد صدیق جیسا شفیق، بارعب اور باکردار استاذ نہ آتا تو آج میں جو کچھ ہوں ایسا نہ ہوتا۔ مولانامحمد صدیق نے اپنی اولاد کی طرح مجھے پڑھایا، نگرانی اور تربیت کی۔ مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ مرض الوفات میں تھے کہ حضرت مولانا محمدصدیق رحمتہ اﷲ علیہ نشتر ہسپتال میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ دعاءِ صحت بھی کی اور شاہ جی کی درخواست پر انھیں دم بھی کیا۔ پھر شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ نے درخواست کی کہ میری وصیت ہے کہ میرا جنازہ آپ پڑھائیں گے۔ چنانچہ ۱۳؍نومبر ۱۹۹۹ء کو حضرت شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کی نماز جنازہ حضرت مولانا محمد صدیق رحمتہ اﷲ علیہ نے ہی پڑھائی۔
چند سال قبل بعض تاریخی مسائل کے حوالے سے چند ناعاقبت اندیشوں نے ابناء امیر شریعت پر ناجائز تنقید کے نشتر چلائے۔ جھوٹ ، تہمت اور دجل و تلبیس کا بازار گرم کیا تو ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم جامعہ خیرالمدارس میں حضرت مولانا محمدصدیق رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری، حضرت مفتی عبدالستار رحمتہ اﷲ علیہ، مولانا محمد ازہر، راقم الحروف اور کچھ دیگر حضرات موجود تھے۔ کو مولانا سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ نے عرض کیا کہ حضرت آپ میرے استاد اور بزرگ ہیں۔ میں آپ کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ اپنا عقیدہ و مسلک آپ کے سامنے عرض کروں۔ اگر غلط ہو تو اصلاح فرمادیں، سزا دیں تو قبول کروں گا اور صحیح ہو تو میرے لیے استقامت کی دعا فرما دیں۔ مولانا سید عطاء المہیمن بخاری نے عرض کی کہ:
’’اہل بیت رضی اﷲ عنہم کے بارے میں اور حادثہ کربلاء کے حوالے سے میرا وہی مسلک ہے جو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کا ہے۔میں اکابر علماء دیوبند خصوصاً حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم اﷲ کے مسلک پر کار بند ہوں۔ میں اپنے اسلاف کا مقلد اور ان کے مؤقف پر قائم ہوں۔ حضرت الاستاذ مولانا خیر محمد جالندھری رحمتہ اﷲ علیہ کے فتویٰ پر عمل پیرا ہوں۔ سید نا حسین رضی اﷲ عنہ اور تمام اہل بیت کی محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ میرے ایمان کا حصہ ہیں اور یزید تاریخ کا حصہ ہے۔ میں ایمان کو تاریخ پر ترجیح دیتا ہوں ‘‘۔
حضرت مولانا محمد صدیق رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت مفتی عبدالستار رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ آپ صحیح مسلک پر ہیں اور یہی ہمارے اسلاف کا موقف و مسلک ہے۔ اس کے بعد دونوں بزرگوں نے دعا فرمائی۔ مولانا سید عطاء المہیمن بخاری جب واپس جانے لگے تو حضرت مولانا محمدصدیق رحمتہ اﷲ علیہ انھیں دروازے تک چھوڑنے آئے اور فرطِ جذبات میں ان کے جوتے سیدھے کردیے۔ حضرت کی آنکھوں میں آنسو تھے، شاہ صاحب نے عرض کیا حضرت مجھ گنہگار کے ساتھ یہ آپ نے کیا کیا؟ میں تو آپ کے جوتوں میں بیٹھنے کے قابل ہوں، فرمایا: آپ آلِ رسول ہیں۔ اﷲ اﷲ! یہ بے نفسی، عاجزی، انکساری اور چھوٹوں پر اتنی محبت و شفقت اب کہاں۔ وفات سے دس روز پہلے راقم اور برادرم عبداللطیف خالد چیمہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بہت ساری دعائیں لیں۔ ان کا خلوص اور محبت یاد رہے گا اور کبھی نہیں بھولے گا۔ ۱۹؍فروری کی رات قاسم باغ سٹیڈیم میں آپ کی نماز جنازہ میں علماء و مشائخ اور طلباء و عوام کے بے پناہ ہجوم نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔حضرت مولانا سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم اپنی علالت و معذوری کے باوجود نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور فرمایا کہ مولانا تو مقبولِ بارگاہِ الٰہی اور بخشے ہوئے ہیں۔ میں نے اس عظیم الشان ہستی کے جنازے میں اس لیے شریک ہونا ہے کہ اﷲ تعالیٰ میری مغفرت فرمادے۔ مولانا کی دینی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ آہ! ہم اپنے مربی و شفیق استاد اور پیکرِ علم وعمل سے محروم ہوگئے لیکن ان کی دعائیں ہمیشہ ہمارے شامل حال رہیں گیں۔ان شاء اﷲ
رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ، الھم اغفرلہ وارحمہ وعافہٖ واعف عنہ