سید محمد کفیل بخاری
۲۴؍ فروری ۲۰۱۶ء کو پنجاب اسمبلی نے ’’تحفظ خواتین‘‘ کے عنوان سے ایک ایسا مضحکہ خیز بل منظور کیا جو اس وقت میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اخباری تفصیلات کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے مردوں کو ٹریکنگ کڑے لگائے جائیں گے اور کڑے اتارنے پر سزا دی جائے گی۔ خواتین پر گھریلو تشدد ،معاشی استحصال، جذباتی ، نفسیاتی، بدکلامی اور سائبر کرائمز قابل تعزیر جرائم ہوں گے۔ مرد کو ۲؍دن کے لیے گھر سے نکالا جاسکے گا، خواتین کے تحفظ کے لیے شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔بل کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ ہماری دانست میں خواتین پر تشدد کا اصل سبب یہاں کا جاگیردارانہ نظام ہے جس کی جڑوں کو ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ ’’ونی‘‘ قرآن سے شادی کی رسمیں اور بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنا ظالمانہ جاگیرداری نظام کا حصہ ہے۔ پنجاب اسمبلی نے اس بل کے ذریعے گنگاہی الٹی بہادی۔
ہمارا دین، تعلیم و تربیت ، تہذیب و ثقافت اور سماجی و مذہبی قدریں ہمارے خاندانی نظام میں ہی محفوظ ہیں۔ جسے تباہ کرنا مغرب کا قدیم ایجنڈہ ہے او رمذکورہ بل اسی ایجنڈے کا حصہ ہے، اگر عدالتی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے اور عوام میں تعلیم و تربیت کے ذریعے شعوربیدار کرنے کی محنت کی جائے تو ایسے لا یعنی بل کی ضرورت ہی نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ عالمی استعمار نے بنا بنایا بل پنجاب حکومت کو ای میل کیا جسے ارکان نے بغیر پڑھے، سوچے سمجھے اسمبلی میں پاس کر لیا۔ تقلید مغرب کی یہی رفتار رہی تو خواتین کے مطالبے پر آئندہ مردوں کو اپنی جنس تبدیل کرنے پر بھی مجبور کیا جاسکتا ہے۔ ٹریکنگ کڑے، بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے اور ریاست کے شہریوں کی پرائیویٹ لائف میں بے جا مداخلت ہے۔ یہ بل قرآن و سنت اور ہماری تہذیبی قدروں کے بھی خلاف ہے۔ اس وقت جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری مرحلے میں ہے یہ سیکولر فاشسٹوں کا وطنِ عزیز کی نظریاتی اساس پر بڑا حملہ ہے۔ موجودہ حکمران ایسے اقدامات کے ذریعے مغرب کو اپنے سیکولر، لبرل اور روشن خیال ہونے کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ کیا اس طرح وہ اپنے اقتدار کو طول دے سکیں گے؟ خدارا، کچھ تو سوچیں۔