پروفیسر خالد شبیر احمد
غالباََ سترہ مارچ کو چناب نگر سے جناب مولانا محمد مغیرہ صاحب کا فون آیا کہ بیس مارچ کو ملتان میں جماعت کی مجلس عاملہ کی ایک اہم میٹنگ ہے جس میں آپ کو شریک ہونا ہے ۔عبداللطیف خالد چیمہ صاحب کا چیچہ وطنی سے فون پر یہ پیغام مجھے ملا ہے کہ آپ کو اطلاع کردی جائے ۔چنانچہ میں 18 مارچ کو گھر سے اپنے بیٹے طلحہ شبیر کے ساتھ ’’ ڈیوو‘‘کے اڈے پر تقریباََ تین بجے سے پہلے پہنچا اور سوا تین بجے بس روانہ ہوئی ۔دس منٹ کے لیے جھنگ اڈے پر بس رکی تو نماز عصر ادا کی اور پھر ملتان روانہ ہوئے ۔رات 8 بجے کے قریب دار ِ بنی ھاشم میں تھا ،نماز عشاء کے بعد کھانا کھا کر ابن امیر شریعت سید عطاء المومن شاہ بخاری صاحب سے ایک طویل ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی جسمانی صحت تو فالج کی وجہ سے دل کو بڑی تکلیف کا باعث تھی ،لیکن جب رسمی گفتگو کے بعد اُن سے گفتگو ہوئی تو یہ احساس شدت کے ساتھ اُبھراکہ دینی طور پروہ اب بھی بیدار اور مستعد ہیں ،جیسے کہ وہ جوانی میں تھے ۔اُن کے لائق اور ارجمند بیٹے المعروف ’’ السید‘‘سے ملاقات کی خواہش کی تو انہیں سید عطاء المومن بخاری شاہ صاحب نے بلایا اُن سے بھی ملاقات کاشرف حاصل ہوا ،مختلف ملکی مسائل پر رات تقریباََ بارہ بجے تک حضرت قبلہ شاہ صاحب سے محو گفتگو رہا ۔اچھی چائے سے تواضع کے بعد اپنے کمرے میں واپس آیا تو میاں محمد اویس صاحب ایک اہم کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے ،غالباََ میرے انتظار میں جاگ رہے تھے ،ساری رات سونے کی کوشش کرتا رہا لیکن سو نہ سکا ،ایسی ہی کیفیت رہی کہ نہ سورہا ہوں نہ ہی جاگ رہا ہوں ۔جی چاہتا تھا کہ جلد اذان ہو اور مسجد جاؤں ۔چنانچہ صبح کی اذان ہوئی تومسجد میں گیا ساری رات کی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت کو سکون اور چین نصیب ہوا ۔ ناشتہ کے بعد تقریباََ 9 بجے کے قریب اپنے عزیز ترین دوست پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب سے فون پر اپنی ملتان آمد کی اطلاع دی اُن سے ملاقات کی خواہش کی تو اُنہوں نے کہاکہ دوپہر تین بجے سٹی کلب آرٹ کونسل میں ایک مشاعرہ میں شمولیت کرنا ہے وہیں پر آ جائیے ملاقات بھی ہو جائے گی اور مشاعرہ میں آپ کی شرکت اور اگر نہ آسکوں اور ملتان میں آپ کاکل تک قیام ہو تو کل صبح کے وقت میرے گھر بھی ملاقات ہو سکتی ہے ۔اس کے بعد بہاولپور پروفیسر محمد طیب قریشی صاحب سے فون پر بات ہوئی تو اُن سے معلوم ہواکہ پروفیسر عطاء اﷲ اعوان صاحب دل کے عارضہ کی وجہ سے شدید علیل ہیں،یہ خبر سُن کر ذہن کے کسی گوشہ میں یہ ارادہ کیا کہ میٹنگ کے بعد بہاولپور جاکر بہاولپور کے دوستوں سے جن میں مولانا جمیل الرحمن عباسی،ڈاکٹر عبدالرزاق ،پروفیسرمحمد طیب قریشی اور پرو فیسر عطاء اﷲ اعوان کے ساتھ ملاقات ہو جائے صرف ذہن کی حد تک رہ کر ختم ہوگیا ،جس کے بعد فون پر ہی سید محمد معاویہ شاہ صاحب سے دو دفعہ رابطہ کیا تو دو دفعہ ہی اس میں ناکامی ہوئی ۔ملتان میں اُن سے ملاقات کی حسرت پوری نہ ہو سکی ۔صبح دس بجے کے قریب امیر جماعت ابن امیر شریعت سید عطاء المہیمن شاہ بخاری صاحب کی زیر صدارت ایک وسیع اور خوبصورت کمرے میں مجلس عاملہ کی میٹنگ ،تلاوت قرآن پاک کے بعد شروع ہوئی ۔تلاوت قرآن پاک کا شرف مولانا قاری محمد یوسف احرار لاہور کو حاصل ہوا ،مجلس عاملہ کی اس میٹنگ کا ایجنڈا ملکی حالات اور جماعتی معاملات سے متعلقہ بڑا اہم اور طویل تھا ۔تقریباََ تیس کے قریب پاکستان کے مختلف علاقوں جن میں شہر اور دیہات سے متعلقہ نمائندے تشریف لائے تھے ۔ایک ڈیڑھ بجے دوپہر یہ اہم میٹنگ ختم ہوئی ،تو دوپہر کا پر تکلف کھانا کھایا ،جس کے بعد نماز ظہر ادا کی گئی تو تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنے کی کوشش کی لیکن آرام کیا ،بے چینی بڑھ گئی کہ اب واپسی کا پروگرام کیسے ہوگا ،کفیل شاہ صاحب سے بات ہوئی اور اُنہوں نے بھی کہاکہ آپ نے تو اب واپس جانا ہے ۔میں نے کہاکہ بالکل واپس جانا ہے مفتی صبیح الحسن صاحب سے کہاکہ ’’ ڈیوو‘‘کے اڈے سے رابطہ کریں تاکہ چنیوٹ کے لیے کوئی ٹائم آج یا پھر کل ہو تو پروفیسر صاحب کی ٹکٹ بک کروالو،انہوں نے رابطہ کیا ،لیکن رابطہ نہ ہو ا،اس کے بعد سید محمدکفیل شاہ صاحب نے کہاکہ آپ ایسا کریں کہ چیمہ صاحب کے ساتھ چیچہ وطنی چلے جائیں ،آپ تھکے ہوئے بھی ہیں ،وہاں رات قیام کریں اور پھر صبح تازہ دم ہو کر چیچہ وطنی سے فیصل آباد پھر فیصل آباد سے چنیوٹ کے لیے روانہ ہو جائیں ۔یہ سنتے ہی میری ساری بے چینی ختم ہوگئی ،اس طرح رات آرام بھی ہو گااور چیچہ وطنی کے دوستوں سے ملاقات بھی ہوجائے گی ،چنانچہ عبداللطیف خالد چیمہ صاحب کی قیادت میں ہم امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کے داماد اور سید محمد کفیل شاہ صاحب کے والد گرامی سیدمحمدوکیل شاہ صاحب جو شدید علیل ہیں ،اُن کی عیادت کی اور دعا کی کہ اُنہیں اﷲ تعالیٰ شفاء عطاء فرمائیں(آمین) جس کے بعد پھر ہم ملتان سے چیچہ وطنی کے لیے روانہ ہوئے۔ گاڑی میں سفر میں چیمہ صاحب ، رانا قمرالاسلام اور مولانا منظور احمد سے مختلف موضوعات پر اس طرح باتیں ہوتی رہیں جیسے باقاعدہ ایک نشست ہو رہی ہے ۔نماز عصر راستہ میں میاں چنوں کے قریب ایک خوبصورت مسجد میں ادا کی اور نماز مغرب ہم نے چیچہ وطنی سے متصل ایک نئی زیر تعمیر کالونی میں زیر تعمیر مسجد ختم نبوت میں ادا کی ۔جناب چیمہ صاحب ہماری جماعت میں ایک منفرد اور انوکھے انداز کے انتہائی مستعد رہنما ہیں ،اُنہوں نے مجھے بتایا کہ اس نئی کالونی میں اُنہوں نے کوشش کرکے اپنے ہی جماعتی ساتھیوں کو پلاٹ دلوادئیے ہیں اور وہ کچھ زیر تعمیر ہیں اور کچھ تعمیر ہو چکے ہیں ،جہاں یہ مسجد بن رہی ہے ،اُس کے ارد گرد سبھی اپنے جماعتی ساتھیوں کے ہی مکانات ہونگے ۔اس زیر تعمیر مسجد کے بالکل ساتھ ایک وسیع پلاٹ بطور گارڈن پارک کا ہے جس سے مسجد کی اہمیت اور زیادہ ہوجائے گی کہ یہاں عیدین کی نماز بھی ادا ہو تی ہے ،اس نئی کالونی کے مشرق کی طرف کوئی اہم شخصیت بحریہ ٹاؤن کی طرح کی ایک نئی کالونی بنا رہی ہے ،جس میں اس نئی کالونی کی اہمیت اور بڑھ جائے گی ،نماز مغرب اسی مسجد ختم نبوت کی عارضی مسجد میں ادا کی گئی ،مسجد کی امامت کا فریضہ جماعت کے ہی ایک ساتھی جن کا نام قاضی ذیشان آفتاب نے ادا کیا ۔ اُنکی خوبصورت تلاوت سے دل ہی نہیں دماغ بھی محظوظ ہوا ،امام صاحب نے جب مجھے یہ بتایا کہ وہ میری آپ بیتی ’’ورق ورق زندگی ‘‘ بڑے تسلسل اور باقاعد گی کے ساتھ پڑھتے ہیں ،تو مجھے خوشی ہوئی ،نماز سے فارغ ہوئے تو اسی نئی کالونی میں ہی ایک جماعتی ساتھی شاہد حمیدصاحب کے زیر تعمیر گھر میں ہماری تواضع اچھی چائے اور مٹھائی سے کی گئی۔کافی دیر تک ہم تمام ساتھی اس نئی کالونی کے بارے میں باتیں کرتے رہے اور یہ بات میرے لیے انتہائی خوشی کا باعث ہوئی کہ اس کالونی میں کافی حصہ اُن لوگوں کے مکانات کا ہوگا ،جن کا تعلق جماعت سے ہے اور وہ جماعت کے متحرک کارکن ہیں ۔ اس کے بعد ہم پھر شہر میں مسجد عثمانیہ میں آئے ۔ جو کہ جماعت کاہی مرکز ہے اور کافی عرصہ پہلے ہی ہرطرح سے مکمل ہے ۔مسجدمیں داخل ہوتے ہی مجھے یاد آیا کہ یہاں اس مسجد میں تو میں نے ایک جمعتہ المبارک کے موقع پر تقریر بھی کی تھی ،انتہائی خوبصورت کشادہ مسجد دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا اور دل سے ہی بے اختیار جناب عبداللطیف خالد چیمہ صاحب کے لیے ڈھیروں دعائیں نکلیں ،جن کی مساعی سے چیچہ وطنی ہماری جماعت احرار کا ایک مضبوط ومستحکم اور مثالی مرکز بن چکا ہے ،مسجد عثمانیہ کے ایک ایک شعبے کو دکھایا گیا ،پھر یہ بھی بتایا گیا کہ مسجد کے سامنے کا حصہ بھی جماعتی ملکیت میں ہی ہے ،جس میں مسجد کے ساتھیوں کے رہائشی مکانات ہیں ،یہاں سے فارغ ہونے کے بعد پھر بلاک نمبر12 کی جامع مسجد کے ملحقہ جماعت احرار چیچہ وطنی کے دفتر احرار(زونل آفس) میں آئے اور یہاں بھی مفکر احرار چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ لائبریری دکھائی گئی وہاں اُس کمرے میں لے گئے ،جہاں شہر کے چھوٹے چھوٹے بچے قرآن ناظرہ پڑھتے ہوئے بھلے معلوم ہوئے ،جب میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور چیمہ صاحب مجھے یہ سب کچھ دیکھا رہے تھے ،میں نے کہاکہ یہ تو ایسے ہی سب کچھ ہو رہاہے ،جیسے کہ جیو کے الیکٹرانک چینل پر ایک پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘باقاعدگی کے ساتھ ہوتاہے ،راستہ میں میں نے چیمہ صاحب سے ایک فرمائش یہ بھی کردی کہ ہمارے پرانے اور جماعتی ساتھی جناب اکرام الحق سرشار صاحب جوکہ ایک معروف شاعر ہیں ،اُن سے ایک نشست ہو جائے ،تو سونے پر سہاگہ ہوگا ،اُنہوں نے جواب دیا کہ آپ کی یہ خواہش بھی پورے کردی جائے گی ،فوراََ انہوں نے سرشارصاحب کو فون کیا اور میری دفتر احرار میں آمد سے آگاہ اوراُن سے کہاکہ پروفیسر خالد شبیر احمد میرے ساتھ یہاں آئے اور آپ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کے آپ کے کلام سے مستفیض ہوں ،انہوں نے کہاکہ میں آ رہا ہوں ۔چنانچہ رات عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر کھانا کھایا اور پھر ایک شعری نشست ہوئی ،سرشار صاحب پُر گو اور خوب گو شاعر ہیں شعر کہتے ہوئے ،ان کی کیفیت دیدنی ہوجاتی ہے ۔اُنہیں اپنا سارا دیوان زبانی یاد ہے ،رات 11 بجے تک اُن کے کلام سے مستفید بھی ہوا اور مستفیض بھی ،کبھی کبھی درمیان میں مجھے اگر کوئی غزل یا پھر اپنا شعر یاد آجاتا تو میں بھی اُنہیں سناتا،کچھ ایسے لوگ بھی خبر سنتے یہاں ہمارے پاس آگئے جنہیں شعروشاعری سے رغبت ہے اور چھوٹا سا بھر پور مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا ،اُن کی نعت کا ایک شعر ذہن پر محفوظ ہوگیا:
تمام پیڑوں پر سایہ جس کی رحمت کا بھرے جہاں میں وہی اک درخت ایسا ہے
, دوسری نعت کا ایک شعر:
ایسی مثال ہوگی نہ ایسی مثال ہے خوشبو گلاب کی ہے ،پسینہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا
اُن کی غزل کے دو شعر یوں تھے : دشت شب پر خون چھڑکا جائے گا تب کہیں جاکر اندھیراجائے گا
ایسا موسم بھی یہاں آجائے گا ہر شجر اپنا ثمر کھا جائے گا
اگلی صبح 21 ؍ مارچ ،پیر کو چیمہ صاحب دفتر تشریف لائے تو ہم نے ناشتہ اکٹھے کیا،ڈاکٹر محمد اعظم چیمہ ،عزیزی محمد آصف چیمہ ،حکیم حافظ محمد قاسم اور دیگر دوستوں سے ملاقات کیا ہوئی طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی ،چیمہ صاحب تو ُدوکان پر چلے گئے اور میرے لیے حکم یہ تھاکہ میں درجہ حفظ قرآن کریم کی کلاس میں طلباء سے خطاب کروں، بڑے دارالقرآن کے اساتذہ کرام حضرت قاری محمد قاسم ،قاری محمد سعید ،قاری محمد صفدر کا تعلیمی نظم دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی ،میں نے طلباء سے گفتگو میں گزارش کی کہ قرآن پاک کے تین تقاضے ہیں کہ اس کو پڑھیں ،اس پر عمل کریں اور پھر قرآن پاک کے نظام کو دنیا میں نافذکرنے کی پرُامن جدوجہد کرنے والے بن جائیں ۔آج سے پہلے تو میں اپنی افتادطبع کی بنیاد پر یہی سمجھتا رھاکہ جماعت کے متحرک رہنماؤں نے مدارس ،مساجد، ادارے تو بنا دئیے لیکن جماعت کہاں ہے ؟ لیکن ان دودنوں میں احساس نہیں یقین ہوگیا کہ اب ملک بھر میں تعلیم القرآن کے اداروں اور مساجد ومراکز کی وجہ سے ہی جماعت میں تحرک اور بیداری پیدا ہوئی ہے ۔میں جانے سے پہلے چیمہ صاحب کو ملنے دُوکان پر گیا تو ہمارے ناظم اعلیٰ صاحب ایک عام دوکاندار کی طرح گاہکوں سے مشغول تھے ،اﷲ نظر بد سے محفوظ رکھیں (آمین)دفتر چیچہ وطنی کے دیرینہ اور مستعد کارکن حافظ حبیب اﷲ رشیدی صاحب نے مجھے فیصل موور اڈے پر پہنچایا اور میں فیصل آباد سے سواری بدل کر چنیوٹ گھر پہنچا تو فون پر چیمہ صاحب کو پہنچنے کی اطلاع دی تو میں سوچوں میں گم ہو گیا کہ یہ وہی ہمارے ناظم اعلیٰ ہیں جو بچہ ہوتا تھا تو سید ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے حکم پر میں ان کی ٹریننگ کیا کرتا تھا ،اﷲ تعالیٰ جماعت کو مزید ایسے نوجوانوں کی کھیپ عطاء فرماویں تاکہ ہم اﷲ کی دھرتی پر اﷲ کے قانون کے نفاذ کی جدوجہد مزید منظم کر نے والے بن جائیں ،آمین ، یارب العالمین !