مولانا تنویرالحسن احرار
قانونِ قدرت ہے جو شخص بھی اس دنیا میں آیا اس نے دارالبقا کا سفر اختیار کرنا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی زندگی مثالی ہوتی ہے اور ان کا دارالفنا سے دارالبقا کا سفر صرف اپنے خاندان کو ہی نہیں بہت ساروں کو غمگین کرتا ہے۔ انھی لوگوں میں سے ایک خاموش طبع انسان ماسٹر غلام یٰسین تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دینِ الٰہی کی اشاعت و ترویج اور خدمت میں گزاریں۔ ماسٹر غلام یٰسین مرحوم ۱۹۳۶ء میں تلہ گنگ کے نواحی گاؤں شاہ محمد والی میں پیدا ہوئے۔ پانچ بھائی اور ایک بہن تھی، بڑے بھائی پیر بخش اور بہن اوائل عمر میں ہی فوت ہوگئے ماسٹر صاحب بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ناظرہ قرآن مجید اور پانچویں تک تعلیم شاہ محمد والی میں ہی حاصل کی۔ مڈل تک کی تعلیم قریبی قصبہ ٹمن کے مڈل سکول سے حاصل کی۔ جبکہ اسی دوران ٹمن میں مشہور علمی شخصیت حضرت مولانا امام غزالی رحمہ اﷲ کے درس میں شریک ہوتے رہے اور باوجود شرک و بدعت سے اٹے ہوئے علاقے میں رہنے کے حضرت کے دروس کی برکت سے عقیدہ درست ہوگیا۔
مڈل سے فراغت کے بعد ۱۹۵۰ء میں گجرات میںJ.V ٹیچر کا کورس کیا اور ۱۹۵۴ء میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ تحصیل پنڈی گھیپ کے نواحی قصبہ میرا شریف میں جہالت کو نور میں تبدیل کرنے کے لیے گامزن ہوگئے۔ میراشریف پسماندہ علاقہ تھا۔ حضرت خواجہ سلمان تونسوی رحمہ اﷲ نے اپنے شاگردِ خاص اور ولی وقت حضرت مولانا خواجہ احمد خان چکڑالوی رحمہ اﷲ کو میرا شریف بھیجا اور انھوں نے علم و عرفان کی شمع کو روشن کیا۔ ان کے خلیفہ اور شاگردِ خاص حضرت مولانا فقیر عبداﷲ چکڑالوی رحمہ اﷲ کے ساتھ تعلق خاطر قائم ہوگیا۔ حضرت کے بیٹوں کو پڑھاتے اور حضرت کے آنے والے خطوط پڑھتے اور ان کا جواب لکھا کرتے ، دس سال تک وہاں خدمت کی۔
۱۹۶۵ء میں اپنے آبائی علاقہ میں ٹرانسفر کروالیا اور ۱۹۷۰ء تک وہاں پرائمری سکول میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۷۰ء میں ہی تلہ گنگ زمین خرید ی اور رہائشی مکان کے ساتھ دکان شروع کردی۔ غالباً ۱۹۷۸ء میں ابنِ امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ جماعت کے امیر جناب رفیق غلام ربانی اور ملک محمد صدیق شاہ جی کے خادم ہوا کرتے تھے۔ تریڑاں ولی مسجد میں شاہ جی رحمہ اﷲ نے تقریر کی اور قیام، ملک محمد صدیق کے پاس تھا۔ رات کو تقریر واقعہ کربلا کے عنوان پہ تھی، ماسٹر صاحب نے شاہ جی کی زبانِ حق گو سے پہلی مرتبہ حقائق سنے تو ملک صدیق کے مکان پہ پہنچ گئے اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ شاہ جی رحمہ اﷲ نے تسلی بخش جوابات دیئے۔ خود فرماتے تھے کہ میرے اوپر ابتدائی طور پر جماعت اسلامی کا رنگ غالب تھا مگر شاہ جی نے بہت خوبصورت انداز سے میرے دل و دماغ کی صفائی کی۔ انھی دنوں حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ کے محب، بابا فضل (خالد فاروق امیر مجلس احرار اسلام تلہ گنگ کے دادا) کو شوق پیدا ہوا کہ توشۂ آخرت بناؤں، جہاں اب مسجد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہے، یہ ساری زمینیں ان کی تھیں۔ دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ مسجد کے لیے جگہ وقف کروں تو نظر انتخاب ابن امیر شریعت سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ پہ پڑی اور ۱۹۸۰ء میں حضرت شاہ جی رحمہ اﷲ کا بیان پھر تریڑاں والی مسجد میں تھا کہ بابا فضل نے شاہ جی سے عرض کیا: حضرت آپ کے علاوہ کوئی اس قابل نظر نہیں آتا کہ مسجد کی جگہ اس کے حوالے کروں، آپ جگہ قبول فرمائیں اور مسجد بنائیں‘‘۔ ۲؍جنوری ۱۹۸۲ء کو وقت طے ہوگیا،ابن امیر شریعت رحمہ اﷲ تشریف لائے اور مسجدکا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔
سنگِ بنیاد کے وقت شہر بھر سے دیوانگانِ ختم نبوت کا بھرپور اجتماع تھا۔ شاہ جی رحمہ اﷲ نے فرمایا یہ مسجد اب احرار کا مرکز ہوگیا، شہر کے احباب نے بھر پور تعاون کیا ۔ شاہ جی رحمہ اﷲ نے رجسٹر جس پر آمدن لکھی جارہی تھی ماسٹر غلام یٰسین کے حوالے کردیا، تعمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ محلہ کے دو بزرگ بابا لعل خان اور شیخ حفیظ اکرم مرحوم نے ماسٹر صاحب کے ساتھ مل کر تعمیر کے لیے بھاگ دوڑ کی۔ تین ماہ کے بعد حضرت شاہ جی رحمہ اﷲ افتتاحی جمعہ کے لیے تشریف لائے تو ماسٹر مرحوم نے رجسٹر آمدن و خرچ پیش کیا اور عرض کیا کہ شاہ جی یہ رجسٹر لے لیں اور کسی اپنے بندے کے سپرد کردیں ۔ شاہ جی رحمہ اﷲ نے رجسٹر دیکھا اور ’’علاؤالدین‘‘ نام پہ حمزہ ڈال کر رجسٹر ماسٹر صاحب کے حوالے کردیا اور فرمایا ’’ماسٹر جی تہا ڈاتے اﷲ دا معاملہ، سودا اﷲ نال کرلیا نیں میں کونٹرہونداں رجسٹر لینٹر آلا‘‘ (ماسٹر جی آپ کا اور اﷲ کا معاملہ ہے۔ سودا اﷲ کے ساتھ کرلیا ہے میں کون ہوتا ہوں رجسٹر لینے والا اور حساب کتاب چیک کرنے والا)۔
پھر ماسٹر صاحب نے تاحیات اس وعدے کو نبھایا۔مختلف اوقات میں بہت سی مشکلات سے واسطہ پڑا مگر ان کے قدم نہ ڈگمگائے۔ ۲۰۱۰ء میں جب ’’فہم ختمِ نبوت خط کتابت کورس‘‘ شروع ہوا تو مرحوم نے فرمایا میرا نام بھی داخل کریں۔ میں نے عرض کیا ماسٹر صاحب آپ کتابچے لے جائیں مطالعہ فرمالیں، فرمانے لگے مولوی صاحب! اس کورس کی سند کو حصول شفاعت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
ماسٹر صاحب مرحوم انتہائی امانتدار اور مسجد کے معاملے میں ہر وقت متفکر رہتے تھے۔ ماہنامہ نقیب ختم نبوت کا بہت ذوق و شوق سے مطالعہ کرتے اور جب کبھی رسالہ لیٹ ہوجاتا بار بار پوچھتے۔ ۲۰۱۵ء میں ’’احرار نیوز‘‘ کا سلسلہ وار اجراء ہوا تو بہت خوش ہوئے، مرض الوفات سے پہلے تک باقاعدگی سے مسجد آتے۔ ’’مسجد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ‘‘ اورملحقہ مدرسہ کی تعمیر کے مراحل میں صرف متفکر ہی نہیں معاونت کے لیے کوشاں رہتے۔ان کے نابینا بھائی بابا محمد یوسف ۱۹۸۴ء سے تاحال مسجد میں مؤذن ہیں اور ہر لمحہ مسجد کی آبادی کے لیے دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں۔
ماسٹر صاحب مرحوم نے ۱۹۸۲ء میں جو رشتہ مجلس احرار اسلام ، خاندان امیر شریعت رحمہ اﷲ مسجد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ساتھ جوڑا تھا، تادمِ مرگ اس کو نبھاتے رہے۔ بالآخر ۳۰؍جنوری ۲۰۱۶ء کو طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور رات سواگیارہ بجے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ۳۱؍جنوری ۲۰۱۶ء اتوا ر کے دن دو بج کر تیس منٹ پر مناظر ختم نبوت حضرت مولانا محمد مغیرہ(خطیب جامع مسجد احرار چناب نگر) کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور سٹیڈیم والے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، اپنے جوارِ رحمت میں جگہ نصیب فرمائے اور مرحوم کے دونوں بیٹوں ڈاکٹر محمد حسین، پروفیسر محمد صابر کو اپنے والد مرحوم کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے مجلس احرار اسلام ، مسجد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ساتھ تادمِ حیات وابستہ رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین