سید محمد کفیل بخاری
۲۱؍ مئی ۲۰۱۶ء کو افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو ایرانی سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں امریکی ڈرون حملے کے ذریعے شہید کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈرون حملے کا شکار ہونے والی گاڑی سے جو لاشیں برآمد ہوئیں، وہ ولی محمد ولد شا ہ محمد اور پاکستانی ڈرائیور محمد اعظم کی ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو حملے کی پیشگی اطلاع دی گئی جبکہ پاکستان کے وزیر داخلہ اور محکمہ خارجہ نے امریکی بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ساتھ گھنٹے بعد اطلاع دی گئی۔
وزیر اعظم پاکستان، آرمی چیف، وزیر داخلہ اور سیکرٹری خارجہ نے امریکی ڈرون حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان میں مداخلت قرار دیا ہے۔ محکمہ خارجہ نے امریکی سفیر کو بلا کر باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ طالبان نے ملا اختر منصور کی شہادت کی تصدیق کرنے کے بعد ھیبت اﷲ کو اپنا نیا امیر منتخب کیا ہے۔ یہ بات محلِ نظر ہے کہ ملا اختر منصور، ولی محمد کے فرضی نام پر پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر سفر کر رہے تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد کا کہنا ہے کہ ولی محمد نے ۸ دفعہ دبئی اور بحرین کا سفر کیا، ایران بھی اسی پاسپورٹ پرگیا اور ایران سے پاکستان میں داخل ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اُسے دبئی یا ایران میں کیوں حملے کا نشانہ نہیں بنایا گیا؟ اس کے لیے پاکستان کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ انھوں نے اس امریکی دعوے کہ ملا اختر مذاکرات کا مخالف اور رکاوٹ تھا، کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملا اختر منصور مذاکرات مخالف ہوتا تو مری مذاکرات میں شرکت نہ کرتا۔ وہ مذاکرات کا حامی تھا۔
حکومتِ پاکستان کا مؤقف اور احتجاج سو فیصد مبنی بر حق ہے لیکن کیا پاکستان کے احتجاج کو امریکہ اہمیت دے گا؟ امریکہ سے احتجاج تو ماضی کے ڈرون حملوں پر بھی ہوتا رہا ہے جو بے نتیجہ بلکہ ’’ڈومور‘‘ کا باعث بنتا رہا۔ تازہ ڈرون حملے پر بھی غیرمؤثر احتجاج کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بلکہ امریکی صدر باراک اوباما نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے لیے پاکستان میں مزید حملے بھی کرے گا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حالیہ ڈرون حملہ مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر حملے کے بعد سب سے بڑا حملہ تھا۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان کی حیثیت کئی حوالوں سے بہت اہم ہے۔ اسی لیے پاکستان ہمیشہ عالمی استعمار کی سازشوں اور مظالم کا شکار رہا ہے۔ امریکہ اس وقت پاکستان کے خلاف افغانستان، ایران اور بھارت پر مشتمل نیا سہ فریقی اتحاد تشکیل دے رہا ہے۔ یہ ایک نہایت خطرناک سازشی کھیل ہے کہ پاکستان کے تینوں ہمسایہ ممالک کو اس کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے حامی طالبان کی حکومت کو ختم کر کے بھارت نواز حکمرانوں کو مسلط کیا گیا اور اب بھارت، ایران دوستی کے نئے رشتوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ طالبان کو ’’داعش‘‘ سے بچنے کا جھانسہ دے کر ایران کے قریب کیا گیا اور طالبان ٹریپ ہو گئے۔ چند ماہ قبل بھارتی جاسوس ’’کلبھوشن یادیو‘‘ ایرانی سرحد پر پاکستانی علاقے میں اس وقت گرفتار ہوا جب ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے دورے پر تھے۔ بھارت، ایران کا معاشقہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۵۰ء میں شروع ہوا۔ ۶۵ اور ۷۱ کی پاک بھارت جنگوں میں ایران نے پاکستان کی حمایت نہیں کی۔ افغانستان میں بھارت نواز شمالی اتحاد کو ہمیشہ سپورٹ کیا۔ بھارتی جاسوسوں کو اپنی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیں دیں جو ایران میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اپنی سرگرمیاں چلاتے رہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سرپرستی اور پاکستانی سرحد پر مسلسل راکٹ حملے، حکومت پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان اور چین نے جب سے گوادر پورٹ اور اکنامک کوری ڈور کے معاہدے پر دستخط کیے تب سے بھارت کے پیٹ میں سخت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ بھارت نے اس منصوبہ کے خلاف ایران کو سہولت کار کے طور پر استعمال کیا۔ حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دورۂ ایران کے موقع پر ایران کے ساتھ چاہ بہار بندر گاہ سمیت ۲۱ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ہدف پاکستان کو بائی پاس کر کے بھارت کو وسطی اشیا تک رسائی دینا ہے۔ جس کا اظہار خود ایرانی صدر نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کیا کہ ہم بھارت کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی دیں گے۔ ماہرین کے مطابق چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر سے گوادر بندر گاہ متاثر ہوگی۔ چاہ بہار سے گوادر صرف ۱۰۰کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ایران بھارت کے اس رومانس پر میڈیا کے ’’افلاطون‘‘ اینکرز منہ بند کر کے بیٹھے ہیں۔ آخر ان کی حب الوطنی کب جاگے گی؟
پاکستان کے خلاف انڈیا ، ایران اور افغانستان کی ٹرائیکا ایک غیر معمولی سازشی منصوبہ ہے۔اس وقت پاکستان ایک خطرناک صورتِ حال سے دو چار ہے۔ جس کے مقابلے کے لیے حکمرانوں کو اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو بہر صورت مکمل کرنا ہوگا۔ افغانستان اور ایران کو بھارت کے چنگل سے نکالنے کے لیے نئی اور مؤثر حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔
وزیر داخلہ چودھری نثار کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ اگر امریکہ کی بات مان لی جائے تو یہاں جنگل کا قانون ہوگا۔ لیکن معاف کیجئے ہماری پالیسیاں اس کے برعکس ہیں اور ملک میں جنگل کا قانون ہی چل رہا ہے۔ ہمیں اب امریکی دباؤ سے نکل کر ملکی سلامتی اور خو د مختاری کے تحفظ کے لیے بڑی قربانی دینی ہوگی۔