ایک دن میں حسبِ دستور ’’چٹان‘‘ کے دفتر کی طرف جارہا تھا کہ لکشمی چوک کے نزدیک پولیس والوں نے میرا رکشہ روک لیا۔ رات کے ساڑھے آٹھ بجے کا عمل ہوگا۔ انہوں نے مجھے رکشے سے باہر نکال کر تلاشی بھی لی۔ مجھے ان پر بہت غصہ آیا، میں ’’چٹان‘‘کے دفتر پہنچا ۔ وہاں پر ملک عبدالسلام نہیں تھے۔ میں نے شورش کاشمیری کو یہ واقعہ سنایا کہ میرے ساتھ یہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بیٹھ جائو‘‘۔ اس وقت وہ اپنی پرنٹنگ مشین کا کوئی پرزہ وغیرہ ٹھیک کررہے تھے۔ پندرہ بیس منٹ میں بیٹھا رہا۔ میں نے کہا کہ ’’میں چلتا ہوں۔‘‘ انھوں نے پھر مجھے روکا۔ مجھے ’’دوہری بوریت‘‘ ہورہی تھی۔ ایک تو پولیس والوں نے بور کیا دوسرے شورش بور کررہے تھے اور ملک عبدالسلام بھی نہیں تھے۔ مجھے بہت کوفت ہورہی تھی اور وہ کہے جارہے تھے کہ ’’بیٹھے رہو۔
‘‘ ایک گھنٹے بعد وہ فارغ ہوئے اور میرے ساتھ ’’چٹان‘‘ کے دفتر سے باہر نکلے اور جہاں پولیس والے کھڑے تھے وہاں پہنچ گئے۔ شورش کاشمیری جاتے ہی ان پر گرج پڑے اور کہا کہ ’’یہ کیا تم نے پولیس راج بنارکھا ہے، تم نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حبیب جالب ہیں ان کی تلاشی لی ہے، میں تم کو معاف نہیں کروں گا۔‘‘ وہاں لوگ اکٹھے ہوگئے۔ شورش کاشمیری کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ بہت بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے پولیس والوں کو گالیاں دینا شروع کردیں۔ اب پولیس والے ہمیں تانگے میں بٹھا کر تھانہ گوالمنڈی لے آئے۔ وہاں ایس ایچ او بیٹھا ہوا تھا۔ شورش نے اس پر بھی چڑھائی کردی اور وہیں سے ادھر ادھر ٹیلیفون کرنے شروع کردیئے ۔ مظفر علی شمسی بھی آگیا۔ امروز سے فوٹو گرافر بھی آگیا۔ مجید نظامی سے بھی رابطہ ہوگیا۔ اب تھانے والوں کو مصیبت پڑگئی کہ یہ کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ان سے کہا کہ ’’پولیس والوں پر مقدمہ بنائو۔‘‘ ایس ایچ او نے کہا کہ ’’آپ ہمیں معاف کردیں، ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔‘‘ لیکن شورش نہ مانے۔ میں ان کے ساتھ ہی ان کے گھر چلا گیا۔
چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی پتہ چل گیا حتیٰ کہ بھٹو صاحب کو اس معاملے کی خبر ہوگئی اور وہ فون پر کہہ رہے ہیں کہ ’’جالب صاحب کو چوٹیں تو نہیں آئیں؟ وہ خیریت سے ہیں؟‘‘شورش کاشمیری نے اعلان کردیا کہ ’’میں اور جالب گورنر ہائوس کے سامنے ہڑتال کریں گے۔ ایس ایچ او کو معطل کیا جائے۔‘‘ اب ساری حکومت ہل گئی، میں ان کے ساتھ ہی تھا، آئی جی پنجاب پولیس کی شورش کاشمیری سے ٹیلیفون پر بات ہوئی اور اس نے ہمارا مطالبہ پورا کردیا۔ ایس ایچ او کو معطل کردیا۔ یہ واقعہ بھٹو کے دور کا تھا۔ شورش کاشمیری اپنی ہی ادا کا آدمی تھا۔
(جالب بیتی از حبیب جالب)