پروفیسر محمد حمزہ نعیم
’’اچھا ذرا ٹھہرو، میں ابھی فیصلہ کرتا ہوں‘‘ وہ گھر کے اندر تشریف لے گئے، چند لمحوں بعد گھر سے نکلے توان کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی، آتے ہی مسلمانی کے دعوے دار کا سرقلم کردیا۔
وہ کہہ رہا تھا: ’’اے عمر! تم فیصلہ کرو‘‘ ابنِ خطاب نے کہا: ’’میرافیصلہ یہ ہے‘‘۔
ہوا یوں تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان کا آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ یہودی کو اپنے حق ہونے کا یقین تھا، اس نے کہا چلو تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے فیصلہ کروالیتے ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے بیانات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ وہاں تو نہ رشتہ داری کا پاس تھا، نہ جماعت اور ہم عقیدہ ہونے کا۔عدل کی بنیادیں اپنی ہوتی ہیں، جو صرف حقائق پر استوار ہوتی ہیں،وہاں کوئی استثنا نہیں ہوتا۔ نہ رشوت، نہ سفارش، نہ مال، نہ اونچا خاندان!
اس نام نہاد مسلمان کے دل میں کھوٹ تھا، یا یوں کہیں کہ ذاتی اغراض کے لالچ میں اس نے رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا، تو اس کے اثرات سے اس کے دل میں کھوٹ پیدا ہوگیا تھا۔ باہر گلی میں نکل کر یہودی سے کہنے لگا: ’’ عمر بن خطاب بڑے ذہین وفطین ہیں، ان سے نظرِثانی نہ کروالیں؟‘‘ ہدایت تو نصیب سے اور جھولی پھیلانے سے ملتی ہے مگر یہودونصاریٰ میں سے ان گنت لوگ ایسے گزرے اور آج بھی ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے، مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور ان کے اعمال واقوال اور ان کے اصحاب کو حق مانتے ہیں۔ اس یہودی کو بھی نبئ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحابِ معظم پر اعتماد تھا۔ اس نے سوچا، ابن خطاب جسے لسانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فاروق اعظم کا خطاب ملا ہے یقیناًمجھے وہاں بھی انصاف ہی ملے گا۔ اس نے کہا ’’چلومیں تیار ہوں‘‘۔ وہ دونوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچے۔ مسلمان نے پہل کر کے اپنا تعارف کرایا اور اپنا مقدمہ پیش کردیا۔ اس کا خیال تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میرا مسلمان ہونا سنیں گے تو وہ میرے حق میں فیصلہ سنادیں گے۔ یہودی نے اپنا مؤقف بیان کرنے سے پہلے یہ بھی کہہ دیا کہ:’’ اے خطاب کے بیٹے! اس قضیے کافیصلہ پہلے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے حق میں کرچکے ہیں‘‘۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمان سے پوچھا: ’’کیا یہ درست کہہ رہا ہے؟‘‘ مسلمان نے کہا: ’’جی ہاں، ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تھے مگر انھوں نے اس یہودی کو سچا کہہ دیا، اس کے حق میں فیصلہ کردیا‘‘۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اچھا ذرا ٹھہرو! میں ابھی فیصلہ کرتا ہوں ‘‘ گھر سے جا کر تلوار لائے اور اس کی گردن اڑادی۔ مسلمانی کے دعوے دار کے عزیز واقارب نے شور مچادیا کہ (سیدنا) عمر(رضی اللہ عنہ) نے ایک کلمہ گو مسلمان کو قتل کردیا۔ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت لے کرآئے کہ ان کو بدلہ دلوایا جائے۔ عدل سراپا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ خطاب کو اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے طلب فرمایا۔ یہاں استثنا نہیں تھا کہ عمر بن خطاب کو تو ملاءِ اعلیٰ میں عرضیاں پیش کر کے عزتِ اسلام کے لیے مانگ کر لیا تھا۔ ہاں! مرادِ مصطفی کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی استثنا نہیں د یا۔ شرعِ محمدی میں کوئی استثنا ہے ہی نہیں، لیکن رب العُلی، ربِ مصطفی جلّ جلالہٗ کو ابنِ خطاب کا عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہونا کب گوارا تھا ۔ جوکوئی بھی صحبتِ نبوی میں خلوصِ دل سے پہنچا، جس کسی کو صحابیت کا زرّیں تاج ایک بار سرفرازی دے گیا، بس پھر۔۔۔ دو جہانوں میں کامیاب ہو گیا۔
ابن خطاب کی آمد چند قدموں سے ہونے والی تھی مگر ہزاروں لاکھوں بلکہ انسانی فہم سے بالافاصلوں سے عرشِ معَلّیٰ سے انمٹ فیصلہ لے کر جبریل امین ان سے پہلے حاضر دربارِنبوی ہوگئے۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!عمر سچے ہیں، وہ مقتول منافق تھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے رب کی قسم! جو بندہ آنجناب کے فیصلے کو دل سے تسلیم نہیں کرتا وہ مومن نہیں منافق ہے، جسے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )کا فیصلہ منظور نہیں اس کا فیصلہ عمر کی تلوار سے ہوگا۔ اسے زمین کے اوپر رہنے کاکوئی حق نہیں‘‘۔ اب نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو صفائی او رگواہانِ صفائی پیش کرنے کی ضرورت رہی ،نہ خاتم المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم کو ریویو کی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ازلی ابدی کتابِ الٰہی کا انمٹ فیصلہ بن گیا۔ ابنِ خطاب کا یہ عمل اور اس پر آسمانی حکم اب ہر سال جب تک ماہِ صیام کی مبارک راتوں میں یعنی تراویح میں تمام چھوٹی بڑی مساجد میں علی الاعلان نہ پڑھا جائے، اہلِ ایمان کی نہ تراویح اور قیام اللیل قبول ہے اور نہ ختمِ قرآن ذی شان، ہر حافظ، ہرقاری اور ہر عالم وفقیہ تا قیامت قرآنی الفاظ میں ’’فیصلۂ عمر‘‘ کو درست کہتا رہے گا۔ سچ ہے قرآن اور صاحبِ قرآن کو جیسے اصحابِ نبی خصوصاً صدیق و عمر و عثمان و علی علیہم الرضوان نے سمجھا وہی حق ہے۔ آج بھی اگر کوئی ایمان اور اسلام کا دعوے دار شارع علیہ السلام کے فیصلوں اور اُن کے احکام پر لَیت و لعل کرتا ہے، وہ دھوکے میں ہے، وہ ایمان نہیں نفاق کا حامل ہے۔ یا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نبی علیہ السلام کے اقوال و اعمال و احکام سے روگردانی اسے نفاق کی اندھی کھائیوں میں گرا کر رہے گی۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ رجوع اور توبہ کا وقت ہاتھ سے نکل جائے، محمد اور اصحابِ محمد علیہم الرضوان کی راہ اختیار کر لینی ضروری ہے، دارین کی کامیابی اسی میں ہے۔
فَلَاْ وَ رَبِّکَ لَاْ یُؤْ مِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ۔۔۔الخ۔
’’تیرے رب کی قسم وہ ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ واپنے اندر کے اختلافات اور جھگڑوں میں تجھے حَکم تسلیم نہ کر لیں اور تیرے فیصلوں کو مان نہ لیں‘‘۔ النساء: ۶۵)