اوریا مقبول جان
جس واقعہ نے گزشتہ پندرہ سالوں سے اس دنیا کو ایک جہنم میں بدل کررکھ دیا ہے وہ نیویارک کے ورلڈٹریڈ سنٹر پر چار امریکی طیاروں کو اغوا کر کے حملہ کرنا ہے۔ ان میں دو تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر نشانہ بناتے ہوئے پوری دنیا کی ٹیلی ویژن سکرینوں پر نظر آئے جب کہ ایک پینٹا گون کی عمارت اور دوسرا پنسلونیا کے آس پاس کہیں گرا۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے اس واقعہ کو نائن الیون یعنی گیارہ ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کی دنیا اور اس کے بعد کی دنیا میں اس قدر فرق آیا ہے کہ دنیا بھر میں جرم کے معیارات اور مجرم کی شناخت کے پیمانے تک بدل گئے ہیں۔ دنیا بھر میں مشتبہ لوگوں کا حلیہ ہی بدل گیا ہے۔ دہشت گردی کی اصطلاح عام ہوئی تو دنیا کے کارپوریٹ سرمائے سے چلنے والے میڈیا نے دہشت گردوں کی نرسریوں سے لے کر ان کے اعتقادات، خیالات، علم حاصل کرنے کے مقامات اور آخر کا ران کے حلیوں تک کو ایسے پیش کیا جیسے ہر وہ شخص جو اسلام میں بظاہر دلچسپی لیتا ہو، داڑھی بڑھا لے، ٹخنوں سے اونچی شلوار کر لے، پانچ وقت نماز کے لیے قریبی مسجد کا رخ کرے، سر پر پگڑی، ٹوپی یا صافہ رکھ لے، تو ایسا شخص عین ممکن ہے دہشت گرد ہو یا پھر ایسے حلیے والے بہت سے لوگوں کے درمیان دہشت گرد چھپ سکتا ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں کی اس میڈیا جنگ نے آج پوری دنیا میں ظالم، دہشت گرد اور تخریب کار ایک ایسا چہرہ تسلیم کروا لیا ہے جو کبھی ایک تہجد گزار، اﷲ کے دین پر عمل پیرا، دنیا کے طعنوں سے بے نیاز ایک ایسا لباس زیب تن کرنے والا تھا جو قرونِ وسطیٰ کے مسلمان پہنا کرتے تھے۔ اس لیے مجھے بالکل حیرت اور تعجب نہیں ہوا جب حکومت پنجاب نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تبلیغی جماعت کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ ایسے حلیے کے لوگ اس مغرب زدہ مخلوط تعلیمی اداروں میں کتنے برے لگتے ہیں۔ وہ سارے کا سارا تصور ہی پاش پاش ہو جاتا ہے جو ہم نے ’’سافٹ‘‘ پاکستان کا بنا رکھا ہے۔ تبلیغ پر تو ویسے بھی پابندی لگانی ہی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ جس طرح ہم اسلام کو خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں، یہ لوگ تو بالکل اس کے الٹ ہیں۔ مسجد کے ایک کونے میں پڑے رہتے ہیں۔ عصر کے بعد لوگوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ ایک ان میں نظریں نیچی کیے میرے بھائی کے لفظ سے آغاز کرتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میری اور آپ کی بھلائی پورے دین میں ہے اور بات کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے کہ مغرب کے بعد مسجد میں اس سلسلے میں بیان ہو گا، آپ تشریف لائیے گا۔ گزشتہ پچاس سالوں سے میں ان کا یہ رویہ دیکھ رہا ہوں اور اس معاشرے کا رویہ بھی جو ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ کون ہے جو اِن پر اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔ انھیں تمسخر کا نشانہ نہیں بناتا۔ ان پر مغلظات نہیں بکتا۔ لیکن یہ بھی نجانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ ایک دروازے سے گالیاں سن کر اگلے دروازے پر دستک ضرور دیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں دو گروہ ایسے ہیں جنھوں نے مسلمانوں میں انا، غرور اور نفس کو کچلنے کی اس طرح ترغیب دی ہو۔ ایک اہلِ تصوف اور دوسرے تبلیغی جماعت کے لوگ۔ اہلِ تصوف تو کسی میں ذرا سا بھی غرور یا تکبر دیکھتے تو کشکول ہاتھ میں پکڑا دیتے کہ جاؤ بھیک مانگ کر لاؤ یا پھر جھاڑو پکڑا دیتے کہ تم خانقاہ کی صفائی پر مامور کر دیے گئے ہو۔ تبلیغی جماعت والوں نے بھی ضبطِ نفس کی جو تربیت پائی ہے اس پر حیرت ہوتی ہے۔ گریڈ بائیس کے بیوروکریٹ سے لے کر کروڑوں کمانے والے تاجر تک اور جسمانی طور پر دس لوگوں پر بھاری انسان تک سب کے سب اس طرح سر جھکائے لوگوں کو اﷲ کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جیسے یہ اس شخص کے مجرم ہوں جسے دعوت دے رہے ہیں۔ کوئی ان کی ہنسی اڑائے، ان کی بات سننے سے انکار کرے، انھیں بے نقط سنائے، یہ خاموشی سے چپ چاپ اپنی راہ لیتے ہیں۔ ایسا رویہ اگر اسی طرح کے گریڈ بائیس کے افسر، کروڑ پتی تاجر یا جسمانی طور پر مضبوط شخص کے ساتھ عام زندگی میں کیا جائے تو اس کا نتیجہ انتہائی خوفناک نکلتا ہے۔ گیارہ ستمبر سے پہلے ان لوگوں کو بے ضرر سمجھا جاتا تھا۔ دفتر میں ان کوچِلّے، چار ماہ کے لیے چھٹی مانگنے پر دے دی جاتی تھی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواہ وہ سیکنڈے نیویا کے ممالک کی طرح سیکس فری ملک کیوں نہ ہو، تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کبھی ویزا کی مشکلات نہ ہوئیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکہ کے ساحلوں تک یہ لوگ آزادانہ تبلیغی کام کرتے تھے لیکن گیارہ ستمبر کے بعد صرف ان کے حلیے نے انھیں مشکوک کر دیا۔ یہ میڈیا کس قدر طاقتور چیز ہے۔ یہ پراپیگنڈہ کی مشنری کس قدر خوفناک ہے کہ جرم کوئی بھی کرے آپ مجرم جس کو چاہے ثابت کردیں۔ گیارہ ستمبر کا واقعہ جن چودہ افراد نے کیا ان میں چار لیڈر ان جنھوں نے جہاز اغوار کیے ان کے حلئے اور حالات زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ محمد الامیر السید عطا جس نے امریکن ایئر لائن کی فلائٹ نمبر ۱۱؍ کو اغواء کیا۔ ایک کلین شیو نوجوان جس نے قاہر ہ یونیورسٹی سے آرکیٹکٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر ۱۹۹۰ء میں جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ہمبرگ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوا۔ مردان یوسف محمد رشید لکراب شیحی۔ متحدہ عرب امارات سے انگلش میڈیم سلوک سے میٹرک کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوا۔ فوج سے وظیفہ لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی روانہ ہوا اور پہلے یونیورسٹی آف بون اور پھر ٹیکنیکل یونیورسٹی ہمبرگ میں پڑھتا رہا، اس نے یونائیٹڈائیر لائنز کی پرواز اغوا کی۔ ہانی صالح حسن حنجور ایروزونا یونیورسٹی امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے سیرا اکیڈیمی Sierra Acadmy of Aeronotics میں کورس مکمل کیا۔ اس نے یونائیٹڈ ایئر لائنز کی پرواز 175کواغواکیا۔ زیاد سمیر جراح لبنان کے شہر بیروت سے 1996 ء میں جرمنی کی یونیورسٹی GREIFSWALD میں جرمنی زبان سیکھنے کے لے داخل ہوا اور پھر ہمبرگ کی یونیورسٹی فار اپلائڈ سائنسز Applied Sciences میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ یہ وہ چار لوگ تھے جنھوں نے باقی دس لوگوں کے ساتھ مل کر جہاز اغواکیے اور گیارہ ستمبر کا معرکہ برپا کیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی کسی مدرسے کا پڑھا لکھا نہیں تھا۔ جنھیں آج کے میڈیا میں جہاد کی نرسریاں بتایاجاتا ہے۔ سب کے سب سیکولر مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھ کر نکلے تھے۔ ان میں کسی کا حلیہ بھی ویسا نہ تھا جیسا آج دہشت گردوں کا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ القاعدہ کی پوری کی پوری قیادت کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کوئی بھی کسی مدرسہ کا فارغ التحصیل نہیں ملے گا۔ خود اسامہ بن لادن مغربی طرز پر قائم یونیورسٹی میں پہلے انجینئرنگ اور پھر اسلامیات کی ڈگری حاصل کرنے والا، ایمن الظواہری میڈیکل کالج سے میڈیسن کی ڈگری لیے ہوئے، خالد شیخ محمد جسے انتہائی خطرناک بنا کر پیش کیا جاتا ہے، پہلے یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں پڑھتا رہا اور پھر اس نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔ رمزی یوسف کویت سے پڑھائی کے لیے نکلا اور مشہور عام سوانسا (Swansa) انسٹیٹیوٹ سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر کے لوٹا۔ یہ تو وہ لوگ تھے جنھوں نے گیارہ ستمبر برپا کیا یا القاعدہ قائم کی۔ آج اس وقت وہ لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں یورپ کے ممالک سے شام میں جا کر لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہو۔ پورا یورپ حیران ہے کہ یہ ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنس اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے والے، جدید سیکولر نظامِ تعلیم میں پلے بڑھے، انھیں کس بات نے مجبور کیا کہ یہ شام میں لڑنے والے گروہوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ لیکن کمال ہے اس میڈیا کا جس کی طنابیں اس کارپوریٹ انڈسٹری کے ہاتھ میں ہیں جو اس دنیا کو پُرامن دیکھنا نہیں چاہتی۔ اس دنیا میں جتنے میدانِ جنگ ہوں گے اُن کا اسلحہ اتنا ہی بکے گا۔ لوگ جس قدر خوفزدہ ہوں گے ان کے سامان کی اتنی ہی کھپت ہو گی۔ انھوں نے خوبصورت زندگی کا ایک تصور میڈیا پر پیش کیا ہے، مخلوط ماحول، ساحلِ سمندر پر نیم برہنہ زندگی، نائٹ کلب، بڑی بڑی عمارتیں، تیز رفتار ٹریفک، محبت کی کہانیاں، فیشن شوز، فلم کی دنیا اور اعلیٰ تعلیمی درس گاہیں۔ وہ اس خوبصورت زندگی کو جسے وہ لائف سٹائل کہتے ہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا مال بِکتا رہے، میک اپ سے لے کر برگر تک اور اس کے برعکس ایسا لائف سٹائل جس میں کچا کمرہ، سوکھی روٹی، پیوند لگے کپڑے اور قناعت کا سامان ہو، وہ انھیں زہر لگتا ہے۔ اس لیے خواہ سارے کے سارے دہشت گرد اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے ہوں، گالی مدرسے کو پڑے گی، دہشت گرد داڑھی اور پگڑی والا ہی ہو گا اور پابندی تبلیغ کرنے والوں پر ہی لگے خواہ ان جیسا مرنجا مرنج اور ضبطِ نفس والا کوئی اور ذی نفس دنیا میں نہ ہو۔ جس بازار میں جھوٹ اور منافقت کی چکا چوند ہو وہاں پنجاب حکومت کی آنکھیں چندھیا جائیں تو کچھ عجب نہیں۔ اکبر الٰہ آبادی یاد آتے ہیں۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں