شاہ بلیغ الدین رحمۃ اللہ علیہ
قریش کے سردار کا کہنا تھا کہ ۔۔۔ اخلاق اچھے ہوں، آدمی ظلم نہ کرے اور غرور و تکبر سے بچا رہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ کوئی کہتا ہے اس سردار نے ایک سو دس برس عمر پائی، کوئی کہتا ہے ۵۷۹ء میں ۸۲ برس کی عمر میں خانۂ کعبہ کے اس رکھوالے کا انتقال ہوا۔ اس وقت ابرہہ اشر م کے واقعہ کو کوئی آٹھ برس گزر گئے تھے۔
یہ سردار یثرب میں پیدا ہوا، سات آٹھ برس کی عمر تک وہیں رہا، پھر مکہ آیا۔ ہجرت کے بعد یثرب کی بستی مدینۃ النبی کہلانے لگی۔ اس سردار کی والدہ سلمیٰ بنو نجار کی تھیں اور آج جہاں مسجد نبوی ہے اس کے پاس ہی رہتی تھیں۔ ابھی یہ سردار پیدا نہیں ہوا تھا کہ فلسطین کے شہر غزہ میں اس کے باپ کا انتقال ہو گیا۔ ہاشم نام تھا، عمر مشکل سے پچیس برس کی ہو گی۔ اسی زمانے میں قریش کا یہ سردار اپنے ننھیال میں پیدا ہوا۔ عجیب بات یہ تھی کہ نومولود کے سر میں ایک گچھا سفید بالوں کا تھا۔ اسی لیے عزیز رشتہ دار اسے ’’شیبۃ الحمد‘‘ پکارنے لگے۔ نام عامر تھا لیکن شہرت چچا کے نام سے ہوئی جو مطّلب کہلاتے تھے۔ چونکہ چچا بھتیجا اکثر ساتھ رہتے تھے اس لیے لوگوں نے بھتیجے کو عبدالمطّلب پکارنا شروع کیا یعنی، مطلب کا غلام!
عبدالمطّلب تجارت کرتے تھے۔ شام اور یمن کے علاقوں میں ان کا کاروبار تھا۔ اونٹوں کے بہت بڑے گلے کے مالک تھے۔ طائف میں بھی ایک کنواں ان کے پاس تھا۔ خانۂ کعبہ کے رکھوالوں میں ان کا بڑا اعزاز تھا اور مکے کی یاترا کے موقع پر دو بڑے کام ان کے سپرد تھے۔’’سقایہ‘‘ یعنی پانی پلانا اور ’’رفادہ‘‘ یعنی کھانا کھلانا۔ یاتری بڑی تعداد میں مکے میں جمع ہوتے تو آج کی اصطلاح میں عبدالمطلب کا ہوٹل کا کاروبار خوب چمک جاتا تھا۔ وہ بڑے خوش اخلاق اور فیاض آدمی تھے۔ ان کی مہمان نوازی کی دور دور شہرت تھی۔ دسترخوان ہمیشہ وسیع رکھتے تھے۔ انھوں نے بہت سے کنویں کھدوا دئیے تھے۔ زمزم کو پھر سے کھدوانے کے لیے انھوں نے تین راتوں تک مسلسل خواب دیکھا تھا۔ زمزم کا کنواں بڑے عرصے پہلے عمرو بن حارث جرہمی نے بند کرا دیا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی نہ یاد رہا تھا کہ یہ کنواں کہاں واقع تھا۔ عبدالمطّلب کا شمار موحدین میں ہوتا ہے۔ وہ دینِ ابراہیمی کے پیروکار تھے اور رمضان کا مہینہ غارِ حرا میں گزارتے تھے، جہاں بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ ابنِ حزم نے لکھا ہے کہ یہاں آپ ارادۂ الٰہی کی وجہ سے جاتے تھے۔ ان کی زیادہ اولاد ان کی بیوی بنو مخزوم کی فاطمہ کے بطن سے ہوئی۔ جن سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم اور چچاؤں میں زبیر اور ابو طالب کے علاوہ اُمّ حکیم البیضاء بھی تھیں جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی نانی تھیں۔ اُمّ حکیم حضرت عبداللہ کی تَواَم بہن تھیں۔ ان کے علاوہ عاتکہ، برّہ، اُمیمہ اور ارویٰ بھی سگی بہنیں تھیں، یہ تفصیل ابنِ سعد کی ہے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابو لہب بھی انھی کے بطن سے تھا۔ لیکن مستند روایت یہ ہے کہ ابو لہب کی والدہ بنی خُزاعہ کی تھی۔ چھے برس کی عمر میں جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو حضرت عبدالمطلب اپنے پوتے کو اپنے گھر لے آئے۔ وہ آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں یقین تھا کہ آمنہ کا جگر گوشہ بڑا نام پانے والا ہے۔ جب یہ بچہ آٹھ برس کا ہوا تو ایک دن اپنے دادا کی چارپائی کے پاس بیٹھا زار و قطار رو رہا تھا کیونکہ یتیم پوتے کے سر پر دستِ شفقت رکھنے والے سربراہِ خاندان نے وفات پائی تھی۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۵۳ برس کی عمر میں مدینہ ہجرت فرمائی، آٹھ برس کی عمر سے لے کر ۵۳ برس تک کل ۴۵ سال ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں خاندان کے تین سربراہ منتخب ہوئے۔ دادا کی وفات کے بعد جیسا کہ طبقاتِ ابن سعد میں ہے زبیر جو عبدالمطلب کے وصی اور جانشین تھے، خاندان کے سربراہ بنائے گئے۔ حربِ فُجّار اور حلف الفُضول کے وقت وہی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست اور خاندان کے سربراہ تھے۔ انھی کی بیوی عاتکہ نے حضرت آمنہ کی وفات کے بعد ان کے چھے سالہ بیٹے کو ماں کا پیار دیا۔ الاصابہ کی روایت ہے کہ ان کے بیٹے عبداللہ نظر آ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرطِ محبت سے پکار اٹھتے کہ یہ میری پیاری ماں کا بیٹا ہے۔
بعض روایتوں کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۱، ۲۲ برس کی تھی اور سیرت الحلبیہ کے مطابق ۲۴ برس کی تھی کہ زبیر کا انتقال ہوا اور ان کی جگہ ابو طالب خاندان کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ابو طالب نے ہجرت سے دو ڈھائی سال پہلے شعبِ بنو ہاشم میں انتقال کیا تو خاندان کا سربراہ ابو لہب منتخب ہوا۔ جو بدر کی لڑائی کے بعد سرطان میں مبتلا ہو کر فوت ہوا۔ اس وقت اسلامی مملکت قائم ہو چکی تھی۔ بنو ہاشم اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا سربراہ سمجھتے تھے۔
ابو طالب کی وفات کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر انچاس سال آٹھ مہینے گیارہ دن تھی۔ مکّی زندگی میں دین کی تبلیغ صرف دو چچاؤں نے کی۔ ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے، دوسرے امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے! امیر حمزہ رضی اللہ عنہ دارِ ارقم میں ایمان لے آئے۔ یہ نبوت کے پانچویں سال کی بات ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، آخری بیعت عقبہ کے موقع پر صرف وہی اللہ کے نبی کے ساتھ تھے۔ ان کی بیوی اُمّ الفضل بالکل ابتدائی ایمان لانے والوں میں شامل ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ایمان کا اعلان فتح مکہ سے ایک دن پہلے ’’جحفہ‘‘ کے مقام پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آخر المہاجرین کا خطاب عطا فرمایا۔ امیر حمزہ رضی اللہ عنہ تو اُحد کی لڑائی میں شہید ہوئے، لیکن حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے۔ آپ کے بعد کوئی بارہ سال زندہ رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں باغ فدک کی نگرانی ان کے اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے سپرد کر دی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ۸۸ برس میں ان کا انتقال ہوا۔
سربراہِ خاندان چاہے کوئی بھی رہے ہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کسی نے نہیں کی۔ آپ کے والد کے ترکے سے آپ کی آمدنی اتنی کچھ ہوتی تھی کہ آپ ہمیشہ خوشحال رہے اور دوسروں کی مدد فرماتے رہے۔
(ماخوذ: طوبیٰ، ص: ۵۱۷۔۵۲۰)