مولانا ابو ریحان سیالکوٹی
بحوالۂ سپردگی خلافت از خلیفۂ راشد :
وضاحت اس حوالہ کی یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے خلیفہ ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے اور خلیفہ بھی محض وقتی ، عارضی اور ہنگامی نہ تھے بلکہ اربابِ حل و عقد کی بیعت سے باقاعدہ و باضابطہ اور مستقل خلیفہ ہوئے تھے ۔ اسی لیے ان کی خلافت کو ۔۔۔ باوجود یکہ وہ خود مہاجرین اولین میں سے نہیں ہیں ۔۔۔ مہاجرین اولین ، خصوصاً حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تتمہ کے طور پر باقاعدہ طور پر شمار کیا جاتا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکومت و سلطنت حضرت حسن المجتبی رضی اللہ عنہ نے ہی سپرد کی تھی اور سپرد بھی بلا کسی جبر واکراہ ، بلا کسی کمزوری و مجبوری اور بلا کسی قلت و علت کے محض مسلمانوں کی خیر خواہی کے پیش نظر باختیار خود کی تھی اور باقاعدہ و با ضابطہ اور مستقل طور پر ملی ہوئی حکومت سے دست بردار ہو کر کی تھی۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے وہی حکومت ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو سپرد کی تھی اور اسی حکومت سے دست بردار بھی ہوئے تھے جو انہیں اوپر سے پہنچی تھی اور سب جانتے اور مانتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اوپر سے منتقل ہوتی ہوئی خلافتِ راشدہ والی حکومت ہی پہنچی تھی۔ بادشاہی والی حکومت نہ پہنچی تھی ۔۔۔ بلکہ اگر اہل سنت کے اس استدلال کو دیکھا جائے ۔ جس میں وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت کو حدیثِ سفینہ کے حوالہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلافت کا تکملہ بنا کر قرآن کی موعودہ خلافتِ راشدہ کے تیس سال پورے کیا کرتے ہیں تو پھر یہ تک بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت حسن کو قرآن کی موعودہ خلافت راشدہ ہی پہنچی تھی۔اسی سے دستبردار ہوکر اسی کو انھوں نے آگے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپر د کیا تھا۔بادشاہت والی حکومت نہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس تھی نہ ان کو اوپر سے پہنچی تھی اور نہ انھوں نے وہ آگے سپردہی کی تھی۔جب ان کو سپرد ہی خلافتِ راشدہ ہوئی تھی تو ادھر سے اُدھر جاتے ہی آخر وہ بادشاہت کیسے بن گئی؟ کیا صرف اس لیے کہ حدیث سفینہ میں تیس سالہ خلافت کے بعد ’’ثم یؤتی اللّٰہ ملک من یشاء‘‘آیا ہے؟تو یہ لفظ تو حدیث میزان میں ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کی خلافت کے ذکر کے بعد بھی آیاہے۔ان حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا !’’خلافۃ نبوۃ ثم یؤتی اللّٰہ الملک من یشآء‘‘(ابوداؤد، ازالۃالخفاء، خارجی فتنہ)اس سے توحضرت عثمان وحضرت علی رضی اللہ عنہما کی خلافت بھی بادشاہت ثابت ہوتی ہے۔نیز شاہ صاحب دہلوی نے احادیثِ خلافت کا تفصیلی ذکر کر کے یہاں تک تصریح کردی ہے کہ نقلِ متواتر سے کہ جس سے زیادہ معتبرشرعیات میں کوئی نقل نہیں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ثابت ہو چکا ہے کہ’’بعدشہادت حضرت عثمان کے خلافت برطریقِ نبوت نہ رہے گی اور کاٹ کھانے والی سلطنت ظاہر ہوگی۔‘‘(ازالۃ الخفاء،ص ۵۵۲؍ج۱)اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی کاٹ کھانے والی سلطنت بنتی ہے۔جو تاویلیں ان حدیثوں میں کی جاتی ہیں وہی آخر حدیثِ سفینہ میں کیوں نہیں ہوسکتیں اورکیوں نہیں کر لی جاتیں؟اور کیوں نہیں کی گئیں؟یہاں ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کو مَلِک اور ان کی حکومت کو ملوکیت کہنے کو ہی آخر ’’سنت‘‘کیو ں بنا ڈالا گیا؟
بحوالۂ قرآن:
آخر میں ’’ختامہ مسک‘‘کے طور پر قرآن وحدیث کے حوالہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خلیفۂ راشد ہونا ملاحظہ ہو۔
امام ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حضراتِ خلفاء راشدین کی خلافتوں کے برحق ہونے پر قرآن کریم کی جن آیات سے استدلال کیا ہے ان میں سے ایک سورۃ الانبیاء کی یہ آیت بھی ہے۔
ولقدکتبنا فی الزبورمنم بعدالزکران الارض یرثھاعبادی الصالحون۔
(اور بے شک ہم لکھ چکے ہیں (سب)آسمانی کتابوں میں،لوح محفوظ (میں لکھنے)کے بعد کہ زمین کے وارث ہوں گے، میرے نیک بندے)۔(سورۃ الانبیاء آیت ۱۰۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں سے زمین کی وراثت وخلافت کا وعدہ فرمایا ہے۔چنانچہ علامہ عثمانی رحمہ اللہ اس آیت پر اپنے تفسیری فوائد میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’کامل وفادار بندوں سے حق تعالیٰ کاوعدہ ہے کہ ان کو دنیا وآخرت کی کامیابی اور اس زمین اور جنت کی زمین کا وارث بنائے گا۔‘‘
آگے اس سلسلہ کی قرآنی آیات سے استشہاد کر کے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ یہ ایسا حتمی اور قطعی وعدہ ہے جس کی خبر اس نے اپنی کتب شرعیہ اور کتبِ قدریہ میں دی ، ’’ لوح محفوظ ‘‘ اور ’’ ام الکتاب ‘‘ میں یہ وعدہ درج کیا اور انبیاء علیہم السلام کی زبانی بار بار اعلان کرایا ۔ داؤد علیہ السلام کی کتاب ’’ زبور ‘ ‘ ۳۷۔۲۹میں ہے کہ ’’ صادق زمین کے وارث ہوں گے ۔‘‘ چنانچہ اس امت میں کے کامل وفادار اور صادق بندے مدت دراز تک زمین کے وارث رہے ، شرق و غرب میں انھوں نے آسمانی بادشاہت قائم کی ، عدل و انصاف کے جھنڈے گاڑ دیے ، دینِ حق کا ڈنکا چار دانگِ عالم میں بجا دیا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی ان کے ہاتھوں پر پوری ہوئی ۔ ’’ ان اللّٰہ زَویٰ لی الارض فرأیتُ مشارقہا ومغاربہا وَاِنَّ امتی سَیَبْلُغُ مُلکُہا ما زوِیَ لِی منہا ۔ ‘‘ (تفسیر عثمانی سورہ الانبیاء آیت نمبر ۱۰۵)
حدیث کا ترجمہ یہ ہے :
بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹا تو میں نے اس کے مشارق ومغارب دیکھ لیے ، اور بے شک میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی ہے ۔ ‘‘ (صحیح مسلم ص ۳۹۰ جلد ۲)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے جن نیک اور کامل وفا دار بندوں سے زمین کی وراثت و خلافت کا وعدہ کیا گیا ہے اب ان کا مصداق اور موعود لہم ، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ہی ’’ الصٰلحون ‘‘ ہیں ۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت ابو الدرداء اور بروایت امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ زبور سے یہی مصداق نقل کیا ہے ۔
(ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ۱۲۳جلد ۲)
پھر امتِ محمدیہ کے ’’ الصالحون ‘‘ میں سے سب سے بڑھ کر نیک اور کامل وفادار و فرمانبردار بندے چونکہ حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان ہیں لہٰذا امتِ محمدیہ میں سے بھی سب سے بڑھ کر اس آیت کے مصداق اور اس حتمی و قطعی وعدہ کے سب سے اول موعود لہم یہی حضرات ہیں ۔
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جن کو دنیا میں بالفعل خلافتِ ارضی کی یہ میراث ملی ان میں ، حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد نمایاں نام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہے ۔چنانچہ حضرت شاہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے اس آیت کے مصداق کا خلفاء کی تفصیل بیان کرتے ہوئے جو روایات نقل کی ہیں ، ان میں جہاں حضرات خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کا نام بنام ذکر کیا ہے ۔ وہاں اسی سیاق اور اسی انداز میں ان کے متصل بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام کی بھی تصریح کی ہے ، قارئین ملاحظہ فرمائیں ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ ناقل ہیں :
(۱) ’’ ابو القاسم بغوی نے سعید بن عبد العزیز سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ذی قربات حمیری سے ( جو یہود کے بڑے عالموں میں سے تھا ) پوچھا گیا کہ اے ذی قربات ! حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون (خلیفہ ) ہوگا ؟ اس نے کہا : امین (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ ) پوچھا گیا ، پھران کے بعد کون ؟ تو اس نے کہا : ایک روئیں تن ( یعنی عمر رضی اللہ عنہ) پوچھا گیا ، پھر ان کے بعد کون ؟ اس نے کہا : ایک سخی آدمی ( یعنی عثمان رضی اللہ عنہ ) پوچھا گیا ، پھر ان کے بعد کون ؟ اس نے کہا : ایک گورے رنگ کا فتح مند آدمی ( یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ ) (ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ ۱۳۱،جلد۱)
وضاحت :
یہاں ذی قربات نے ان خلفاء کا ذکر کیا ہے جن کی خلافتیں ، منتظمہ ہونی تھیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت چونکہ غیر منتظمہ ہونی تھی اس لیے اس نے یہاں اس کا ذکر نہیں کیا ورنہ پہلی کتابوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر موجود ہے ، جیسا کہ اگلی ہی روایت میں آرہا ہے ۔( نیز دیکھو ازالۃ الخفاء ۱۲۸۔۱۲۹جلد ۱)
(۲) ’’ ابن سعد نے ابو صالح سے روایت کی ہے کہ ( ایک مرتبہ ) حدی خواں ،حضر عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ شعر پڑھ رہا تھا (ترجمہ ) بے شک خلیفہ بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے علی رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔
اور زبیر رضی اللہ عنہ میں بھی پسندیدہ خلافت ( علامت ) ہے ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ( زبیر رضی اللہ عنہ ) نہیں بلکہ معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو انھوں نے ( کعب سے ) کہا کہ اے ابو اسحاق ! یہ کیونکر ہو سکتا ہے ۔درآں حالیکہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مثل علی رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ موجود ہیں ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ( میں جانتا ہوں ) تم ہی ہو ۔ ‘‘ (ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ ۱۳۱جلد۱۔البدایۃ صفحہ۱۲۷،جلد۸)
(۳) ’’سطیح ( ملک شام کے مشہور کاہن ) کا قول ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کر کے کہا کہ ان کے دین کے والی صدیق رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔۔۔ پھر ان کا خلیفہ ایک راست باز اور تجر بہ کا سردار ہوگا ۔۔۔ پھر ان کا خلیفہ ایک پرہیز گار اپنے کام میں تجربہ کار ہوگا ۔۔۔ پھر اس کا خلیفہ اس کا مدد گار ہوگا اور تدبیر کے ساتھا اپنی رائے کو مخلوط رکھے گا ، روئے زمین پر لشکروں کو جمع کرے گا ۔ (مدد گار سے یہاں مراد معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان ہیں ۔ ) ( ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ۱۳۲جلد۱)
پہلی آسمانی کتابوں اور ان کے عالموں کی ان روایات سے یہ بات آفتاب نیمروز کی طرح واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ کے بعد آسمانی کتابوں میں لکھے ہوئے اپنے حتمی و قطعی وعدے کے مطابق امتِ محمدیہ ( علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیمات ) کے پہلے طبقے میں سے جن اپنے نیک اور صالح بندوں کوزمین کی وراثت اور خلافت دی ، ان میں حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں جس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کا مصداق جس طرح حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں بالکل اسی طرح ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔ بلکہ اگر قرب عند اللہ کے مراتب و درجات سے قطع نظر کر کے صرف رقبۂ وراثت اور مدتِ خلافت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے پیشرو تمام خلفاء سے کہیں بڑھ کر اس کا مصداق ثابت ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مدتِ خلافت تو ان کی انیس سال سے بھی کچھ اوپر ہے جب کہ حضرات خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی کی خلافت کی بھی نہیں ۔ اسی طرح ان کا رقبۂ وراثت بھی سب سے حتیٰ کہ دنیا کے مشہور فاتحِ اعظم سکندر مقدونی کے زیرِ نگیں رقبہ سے بھی زیادہ ہے ، وہ اس طرح کہ عہدِ صدیقی میں اسلامی دنیا کا رقبہ گیارہ لاکھ مربع میل ، عہدِ فاروقی میں بائیس لاکھ مربع میل ، عہدِ عثمانی و مرتضوی میں چوالیس لاکھ مربع میل اور سکندر اعظم کی فتوحات کا رقبہ چونسٹھ لاکھ مربع میل تھا جب کہ عہدِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں اسلامی دنیا کا رقب چھیاسٹھ لاکھ مربع میل تک پہنچ چکا تھا ۔
یاد رہے کہ آباد معلوم دنیا کا کل رقبہ ایک سو بیس لاکھ مربع میل ہے ، اس اعتبار سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت ، آدھی دنیا سے بھی زیادہ پر بنتی ہے ۔ لہٰذا بلا خوفِ تر دید کہا جا سکتا ہے کہ اس زیر بحث آیت کے جتنے مصداق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ثابت ہوتے اور بنتے ہیں اس کا اتنا مصداق ، آج تک کی ساری اسلامی تاریخ میں کوئی اور خلیفہ نہیں بن سکا ۔ اسی لیے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا اور بالکل بجا فرمایا تھا کہ
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ، سرداری کے لائق ، معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
اس پر حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کا نام لے کر ان سے پوچھا گیا کہ ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا :
’’ کانوا واللہ خیرا من معاویۃ وکان معاویۃ اسود منہم ‘‘ ( اللہ کی قسم ! درجے مرتبے میں تو یہ حضرات ہی معاویہ سے بہتر تھے لیکن سرداری و حکمرانی میں معاویہ ان سے بڑھ کر تھے ۔ ) (الاستیعاب علی الاصابہ صفحہ ۳۹۷جلد۳)
واضح رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ سرداری و حکمرانی ، خلیفۂ راشد اور خلافت راشدہ والی ہی تھی ورنہحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کا تقابل حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کی سرداری و حکمرانی سے نہ کرتے ۔
اسی طرح حضرت کعب احبار رحمہ اللہ ( جو پہلے یہود کے بہت بڑے عالم تھے ) نے جو فرمایا تھا کہ
’’ لن یملک من ہذہ الامۃ ماملک معاویۃ ‘‘ ( اس امت میں کوئی حکمران ایسی حکمرانی نہ کرے گا جیسی معاویہ رضی اللہ عنہ نے کی ) ( سیرۃ حضرت معاویہ از مولانا نافع صفحہ۶۲۶جلد۱)
تو انھوں نے بھی کوئی مبالغہ نہ کیا تھا بلکہ ایک امرِ واقعہ ہی بیان کیا تھا ۔
الغرض قرآن کریم کی اس زیر بحث آیت میں جن عباد اللہ الصالحون سے خلافت اور زمینی وراثت کا حتمی وقطعی وعدہ کیا گیا ہے اس کے مصداق جیسے حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں ویسے ہی ان کے بعد اپنے مرتبے میں اس کا مصداق ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔ لہٰذا جیسے حضرات خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم راشدین خلفاء اور ان کی حکومتیں ، راشدہ خلافتیں ہیں ایسے ہی ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ راشد اور ان کی حکومت بھی خلافتِ راشدہ ہی ہے ۔ باقی رہا فرقِ مراتب ؟ تو وہ تو خود حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم میں بھی ہے بلکہ اس سے بھی آگے انبیاء اور رسولوں تک میں ہے ۔ لیکن اس سے نفسِ خلافت اورنبوت و رسالت پر کوئی اثر نہیں پڑا کہ کم درجے والے کی اصل خلافت یا نبوت و رسالت ہی ختم ہو گئی ہو ۔ خوب سمجھ لو ۔
لہٰذا جیسے حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کو آیت استخلاف کے حوالہ سے قرآن کے موعود ، خلفاءِ راشدین اور ان کی حکومتوں کو قرآن کی موعودہ ، راشدہ خلافتیں کہا جا تا ہے بالکل ویسے ہی یہاں زیر بحث اس آیت کے حوالہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی قرآن کامکتوب و مزبور خلیفۂ راشد اور ان کی حکومت کو قرآن کی مکتوبہ و مزبورہ خلافتِ راشدہ کہا جا سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ ہم نے اختصار کی وجہ سے بطور نمونہ صرف ایک آیت کے حوالہ پر ہی اکتفا کیا ہے ورنہ خلفاءِ راشدین کی حقیقتِ خلافت پر شاہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے جن آیتوں سے استدلال کیا ہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان میں سے بعض اور آیتوں کا بھی مصداق بنتے ہیں ۔
بحوالۂ حدیث :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو (خلافت کی بشارت دیتے ہوئے ) فرمایا : ’’کَیْفَ بِکَ لَو قَدْ قَمَّصَکَ اللّٰہُ قَمِیْصاً یعنی الخلافۃ‘‘
(تیرا کیا حال ہو گا اگر اللہ تعالیٰ تجھے پہنا دے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خلافت مراد لے رہے تھے ۔ ) اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا :
’’یا رسول اللّٰہ وان اللّٰہ مقمص اخی قمیصا‘‘
( یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اللہ تعالیٰ میرے بھائی کو (یہ )قیمص پہنانے والا ہے ؟ ) اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نعم ولٰکن فیہ ہنات و ہنات و ہنات‘‘
( ہاں ! لیکن اس میں فسادات اور فسادات اور فسادات ہوں گے ) ( ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ ۵۱۴ تا ۵۱۶ ، جلد ۴)
ایک روایت میں اس کے آگے یہ بھی ہے کہ یہ سن کر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ! پھر اس کے لیے دعا فرما دیں ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ۔
’’ اللہم اہدہ بالہدی وجنبہ الردی واغفر لہ فی الآخرۃ والاولی ‘‘
( اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت ( کے راستے ) پر چلا ۔ اور اس کو ( ان فسادات کے ) مضر اثرات سے بچا اور دنیا و آخرت میں اس کی مغفرت فر ما ۔ ) ( البدایۃ صفحہ ۱۲۰، جلد۸)
واضح رہے کہ فسادات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حالات کے وہ فسادات تھے جو سبائی مفسدوں اور بلوائیوں نے بپا کیے تھے ۔ مثلاً شہادتِ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و حضرت علی رضی اللہ عنہ ،جنگِ جمل و صفین ، نظامِ خلافت کا درہم برہم ہونا ، جہاد کا موقوف ہو جانا ، مسلمانوں کی تلواروں کا کافروں کے مقابلہ کی بجائے آپس میں چلنے لگ جانا وغیرہ وغیرہ ۔
اور خلافت کی بشارت کے ساتھ ، حالات کے ان فسادات کا ذکر کرنے سے مقصد ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی قابلیتِ سیادت اور صلاحیتِ قیادت کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ حالات تو گو اس وقت بے حد پر آسوب و پر پیچ ہوں گے ، ہر طرف فسادات ہی فسادات نہ صرف پھیلتے بلکہ پھوٹتے پڑتے ہوں گے مگر معاویہ رضی اللہ عنہ ، سرداری و حکمرانی کی خداد اور خاندانی قابلیت و صلاحیت کی بدولت ان پر ایسا قابو پا لے گا کہ دنیاءِ سبائیت ( جو ان فسادات کی ذمہ دار ہوگی ) اپنا سر پیٹ کر رہ جائی گی ۔ اور پھر وقت آنے پر ایسا ہی ہوا ۔
اور ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا بھی منقول ہے ۔
’’ اللّٰہم اجعلہ ہادیا مہدیا واہد بہ ‘‘ ( ترمذی صفحہ ۲۴۷،جلد۲باب مناقب معاویہ )
بعض روایات میں ’’ واہدہٖ ‘‘کے اضافے کے ساتھ پوری دعا یوں منقول ہے ۔
’’اللّٰہم اجعلہ ہادیا مہدیا واہدہٖ واہد بہ ‘‘ ( البدایۃ صفحہ۱۲۱جلد۸)
اب معنی ومطلب یہ ہوگا :
’’اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت کرنے والا، ہدایت یافتہ بنا ، اور اس کو ہدایت ( ثابت قدمی ) عطا فر ما ۔ اور اس کے ذریعہ سے دوسروں کی ( بھی ) ہدایت نصیب فرما ۔ ‘‘
اس پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعا اس لیے فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کسی نہ کسی وقت میں خلیفہ ہوں گے ۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بہت ہی شفیق تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمالِ محبت نے اقتضا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے خلیفہ کے لیے ہدایت کرنے اور ہدایت پانے کی دعا فرمائیں ۔
(ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ۵۷۲۔۵۷۳جلد۱)
اور یہ تو واضح ہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا ئیں ان کو خلافت کا اور ان دعاؤں کا اہل اور مستحق سمجھ کر ہی فرمائی ہیں ۔ نااہل اور غیر مستحق سمجھ کر نہیں فرمائیں ۔
پھر شاہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر صحابی سے متعلق جو کچھ فرمایا ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، غیب کے ترجمان تھے ۔ ( ازالۃ الخفا صفحہ۶۰۸، ۳۸۰جلد۲)
پھر حافظ ملا علی قاری رحمہ اللہ اور علامہ ابن حجر مکی ہیتمی رحمہ اللہ نے بالتصریح لکھا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر دعاؤں کی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا بھی مقبول ہوئیں ۔
( ملاحظہ ہو مرقات شرح مشکوٰۃ باب جامع المناقب تحت ہذ الدعاء ۔وتطہیر الجنان صفحہ ۱۱،۱۲)
پھر آگے چل کر اپنے موقع پر وقت اور زمانے نے بھی حافظ ملا علی قاری اور علامہ ہیتمی رحمہ اللہ مکی کی باتوں کی خوب خوب تصدیق کر دی ۔ دنیا نے سر کی آنکھوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤں کی مقبولیت دیکھی ۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو متعدد بار مختلف انداز سے خلافت کی بشارت سنائی اور ان کا آخر کار خلیفہ ہونا بیان فرمایا ، پھر ان کو ہادی ومہدی اور دوسروں کے لیے ذریعہ ہدایت ہونے نیز ہدایت پر ثابت قدم رہنے جیسی دعائیں دیں تو نا ممکن تھا کہ خارج میں غیب کی اس نبوی ترجمانی کے مطابق ان باتوں کا وقوع و ظہور نہ ہوتا ، لہٰذا وہ اس کے عین مطابق خلیفہ بھی ہوئے اور ہادی ومہدی بھی ، دوسروں کے لیے ذریعۂ ہدایت بھی بنے اور تا دمِ واپسیں ان کو ہدایت کی پر ثابت قدمی بھی نصیب رہی ۔ خلیفۂ ہادی ومہدی ہی دوسرے لفظوں میں خلیفۂ راشد کہلاتا ہے اس لیے حدیث کی رو سے بھی وہ خلیفۂ راشد ہی ہوئے نہ کہ مَلِک و بادشاہ ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق اور صحیح بات جاننے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اللم ارنا الحق حقا وارزقنا ابتاعہ ۔ آمین۔ واضح رہے کہ یہ اس موضوع کا صرف مثبت پہلو ہے اور وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ ۔ خود اس کی بھی بہت کچھ تفصیل باقی ہے اور اس کا منفی پہلو یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف آیتِ استخلاف اور حدیثِ سفینہ سے استدلال اور اس کے جواب کی بحث تو مکمل طور پر باقی ہے ۔ ایک ماہنامہ کا دامن چونکہ اس کا متحمل نہیں تھا اس لیے اس کو یہاں نہیں چھیڑا گیا۔ یہ تمام تفصیلات قارئین ان شاء اللہ ،سبائی فتنہ جلد دوم میں ملاحظہ کر سکیں گے