مفکر احرار چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ
مفکر احرار چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ نے ہندوسنگٹھن اور شدھی تحریکوں کے زمانے میں ایک کتاب ’’فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں‘‘ تصنیف کی تھی۔ یہ غالباً ۱۹۲۱ء یا ۱۹۲۲ء کا دور ہے جب مسلمانوں کو مرتد کر کے ہندو بنایا جا رہا تھا۔ چودھری افضل حق نے مسلمانوں کو اسلام کے نظام دعوت و تبلیغ کی طرف متوجہ کیا اور یہ ہدف دیا کہ ہمیں تمام ہندوستان کو مسلمان بنانا ہے۔ مگر کیسے؟ اس کتاب کے منتخب اقتباسات کو مرتب کر کے قائین کی نذر کر رہے ہیں۔ یہ تحریر تبلیغ کے میدان میں کام کرنے والے مبلغین کے لیے مشعل راہ ہے۔
حالات کی محشر خیزیاں اور حکمتِ عملی:
قوموں کی جدوجہد میں لفظی دھمکی کچھ شے نہیں۔ تیاری و تنظیم سب چیز ہے۔ آج مسلمانوں پر امتحان و ابتلا کا وقت ہے۔ صرف اخلاقِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہم حریف سے بازی لے جا سکتے ہیں۔ حالات بلاشبہ اشتعال انگیز ہیں مگر ہمیں تحمل کرنا چاہیے اور گالی کا جواب انکسار سے دینا چاہیے۔ محبت سے دل جیتیں اور اصلاح کی طرف قدم بڑھائیں۔ رسولِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی زندگی کی بھولی یاد تازہ کریں۔ ضربِ بیداد سے سر کا لہو جوتوں میں جم جائے مگر دل میں بال اور ماتھے پر شکن نہ آئے۔ دشمن کا روحانی حربہ سے مقابلہ کریں۔ نگاہ میں شرم و حیا اور محبت و مروت ہو، دل قوی اور ہاتھ بے ضرر ہوں۔ اگر ایک آمادۂ فساد ہو تو دوسرا مائل بہ صلح ہو۔ ورنہ وطن عزیز میں جن محشر خیزیوں کا سامنا ہو گا اس کے تصور سے ہی انسان لرزہ براندام ہو جاتا ہے۔ مخالف کی سرگرمیاں خواہ منتقمانہ ہوں مگر جواب مزید منتقمانہ تیاریوں سے نہیں دینا چاہیے۔ اگر ایک دوسرے کے انتقام میں لگ گئے تو یہ بھوت ہمیں کھا جائے گا۔ وقتی جوش سے متاثر ہو کر گلے پڑنا زندگی کا ثبوت نہیں بلکہ کمزور دل و دماغ کی دلیل ہے۔ زندگی مسلسل کام اور انتھک کوششوں کا نام ہے۔ جوش و ہیجان سے بے نیاز ہو کر دیکھو کہ کس مرض نے ہمیں مفلوج کر دیا ہے۔ عامۃ المسلمین کو دیکھو نہ دین سے سروکار نہ دنیا سے حصہ۔ کیا آج اصلاح کا وقت ہے یا فساد کا؟ ہمیں اس جوش کو صحیح راہ پر لگانا اور اس سے کام لینا چاہیے۔ اگر اصلاح کا کام کسی نیک نیت کے پیشِ نظر بھی ہو گا تو فساد کی وجہ سے رک جائے گا۔ جب طاقت فتنہ و فساد کی نذر ہو جائے گی تو مسلمان کمزور ہو جائیں گے۔
مسلمان بھائیو! میں تمھیں ہوشیار کرتا ہوں کہ تمھارے مقابل کے یہی سکیم پیش نظر ہے کہ بیرونی فسادات میں مبہوت ہو کر تم اندرونی اصلاح کی طرف مائل نہ ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر مسلمان بہادر اور مضبوط ہو مگر صبر سے نہ کہ جبر سے۔ دشمن کے لیے تیز تلوار ہو مگر ہمسایہ کا غم گسار ہو۔