حبیب الرحمن بٹالوی
’’یہ سوچ کر میں نے چنی ہے آخری آرامگاہ
میں تھا مٹی اور مجھے مٹی کا گھر اچھا لگا‘‘
۱۶؍اپریل ۲۰۱۶ء بروز ہفتہ سید وکیل شاہ جی بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ دوسرے دن صبح سات کے قریب ان کا جسد خاکی جلال باقری قبرستان میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ طبیعت ان کی کافی دنوں سے مضمحل چلی آرہی تھی۔ خبریں ا چھی نہیں مل رہی تھیں۔ کولہے کی ہڈی کے فریکچر کے بعد ان کی نقل و حرکت اولاً لاٹھی کے سہارے اور پھر مریضوں والے واکر پر گھر سے باہر دارِ بنی ہاشم کے صحن اور پھر گھرتک محدود ہوکے رہ گئی تھی۔ اخبار بینی دوست احباب سے ملاقات ، مجلسی زندگی ان کا خاصہ تھا۔ کبھی دور تھا کہ ان کی زندگی میونسپل کالج اوکاڑہ سے لے کر خیرالمدارس اور پھر تعلیمی بورڈ ملتان سے زکریا یونیورسٹی تک پھیلی ہوئی تھی۔ سائیکل پر ایک سال خوردہ ’’پھرتیلا نوجوان‘‘ کبھی سول لائنز کالج جاتے ہوئے نظر آتا اور کبھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے دفتر میں دکھائی دیتا۔ اگر کسی امتحانی سنٹر میں طلباء کنٹرول نہیں ہو رہے تو چاہے وہ یونیورسٹی ہو یا بورڈ کا امتحان ایف اے ،ایف ایس سی کا معرکہ ہو یا ایم اے ، ایل ایل بی کا محاذ، شاہ جی کو بلایا جاتا کہ مہربانی کریں۔ پھر ایک دفعہ یہ بھی دیکھا گیا کہ شہر کا ایک اہم سول افسر ایل ایل بی کے امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا پوری انتظامیہ اس کی پشت پر ہے، سفارشی ہے مگر ہمارے شاہ جی کہتے ہیں مجھے معلوم ہے ڈسپلن کمیٹی آپ کو چھوڑ دے گی مگر میں اپنا فریضہ ضرور پورا کروں گا کہ میرا ضمیر مطمئن رہے۔ انھوں نے کام کرتے ہوئے کسی کی تعریف کی توقع یا کسی کی ملامت کی کبھی پروا نہیں کی۔ نڈر اور بے باک ہو کر کام کرتے۔ صاف ستھری زندگی بسر کی۔ انتہائی شریف النفس نیک اور صالح آدمی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملتان یونیورسٹی ، بعدازاں تعلیمی بورڈ ملتان میں بطور چیف سکریسی آفیسر ایک عرصہ کام کیا مگر کسی تخت نشیں کے سامنے کبھی جھکے نہیں، بکے نہیں۔ کام ملتا ہے نہیں ملتا۔ کبھی پروا نہیں کی کہ اقبال کا یہ مرددِرویش اس ابدی اورآفاقی عقیدے پر یقین رکھتا تھا کہ
تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری
شاہ جی سے میری ملاقاتوں کا سلسلہ کوئی نصف صدی پر محیط ہے۔ جب تعلیمی بورڈ ملتان وجود میں آیا اور مارکنگ کے لیے پرچے گھروں میں بھیجے جاتے تھے۔ شاہ جی اوکاڑہ سے اپنے ساتھی علامہ فضل احمد عارف (جنھوں نے تسبیح فاطمہؓ، سیرت بایزیدؒ اور استخارے کی حقیقت جیسی وقیع کتابیں تصنیف کیں)کے ہمراہ، پرچے جمع کرانے کے لیے دفتر تشریف لایا کرتے ۔ میں تو کچھ بھی نہیں تھا ان بزرگوں کے سامنے طفل مکتب تھا۔ ان کی عظمت اور بڑھائی کا معترف ہوں کہ مجھ ہیچ مدان کو ملاقات کا شرف بخشتے۔ طویل گفتگو رہتی۔
مختار مسعود نے اپنی کتاب ’’آواز دوست‘‘ میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
’’اردو نے جب بھی اپنے سرمایہ افتخار پر ناز کیا تو اسے بہت سے لوگ یاد آئیں گے۔ ان میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ بھی شامل ہوں گے۔ میں شاہ جی کی تقریر سے محروم رہا تو تقریب بہرملاقات نکال لی۔ یہ ملاقات منشی عبدالرحمن خاں کے ذمہ تھی۔ انھوں نے شاہ جی سے بات کی تو وہ ٹال گئے کہنے لگے کہ میں ساری عمر انتظامیہ سے لڑتا آیا ہوں ۔ ڈپٹی کمشنر اگر بلانا چاہے تو وارنٹ گرفتار ی نکالے میں نے عرض کیا، میں نے تو شاہ جی سے حاضری کی اجازت چاہی تھی۔ اگلے ہی روز شاہ جی میرے یہاں مہمان بن کر تشریف لے آئے۔ گفتگو شروع ہوئی تو منشی عبدالرحمن نے کاغذ نکالا اور یادداشت لکھنے میں مشغول ہوگئے یہ ملاقات کوئی تین گھنٹوں پر محیط تھی اور وہ جو ایک نوجوان اور تھا وہ تمام وقت خاموش بیٹھا رہا۔‘‘
وکیل شاہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ نوجوان میں تھا۔ چنانچہ ملتان بورڈ کی ملازمت کے دوران جب وکیل شاہ جی وہاں چیف سیکریسی آفیسر تھے۔ ان سے بہت ساری باتیں ہوتی رہیں اور شاہ جی کی یہ یادوں بھری باتیں اور باتوں بھری یادیں ایک عہد کی حیثیت رکھتی ہیں جو وسعت داماں کی متقاضی ہیں۔
ملتان یونیورسٹی میں سابق کنٹرولر چودھری شفیق احمد اور ڈپٹی کنٹرولر لالہ ظفر ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے ان میں لالہ ظفر جب بھی داربنی ہاشم آتے، شاہ جی راقم کو بھی یاد فرماتے شاہ جی ایک باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ ہنسی مزاح کے پھول بکھیررہے تھے کہ چائے آگئی لالہ ظفر کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔ کہنے لگے شاہ جی یہ میری ڈیوٹی (Due Tea) ہے۔ یعنی یہ میری وہ چائے ہے جوآپ کی طرف بنتی تھی۔
شاہ جی ایک مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ مجلسی زندگی پر جان دیتے تھے۔ بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور حاضر دماغی ان کی طبیعت کا زیور تھا۔ ایک رور دفتر میں بیٹھے ہوئے، ساتھیوں میں سے ایک گھریلو مسائل کا رونا رورہا تھا صنف مخالف میں نشاطِ شادی کے بعد پیدا ہونے والی مستی کا ذکر کر رہا تھا۔ کہ شاہ جی نے یہ واقعہ سنا کر محفل کو زعفران زار بنادیا۔ فرمانے لگے: ایک آدمی ہوٹل میں گیا، بیرا آیا۔ کہا، کہیں سے ٹوٹا ہوا پرانا چھا بالے کے آؤ۔ وہ لے آیا پھروہ آدمی اس بیرے سے کہنے لگا۔ اب اس طرح کرو کہ اپنے ہوٹل کے تندور سے دو جلی ہوئی روٹیاں لے کر آؤ۔ بیرے نے پریشان ہو کر پوچھا جناب! مسئلہ کیا ہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ گاہک تو اچھی اچھی چیزیں طلب کرتے ہیں۔ جواب دیا ’’میں ذرا گھر کا ماحول بنانا چاہتا ہوں‘‘
شاہ جی اکثر اپنے دوستوں کا ذکر کرتے۔ ان میں سے انگریزی کے پروفیسر شیخ فیاض کے بارے میں کہتے یہ میرا دوست شیخ بھی ہے اور فیاض بھی ہے۔ ہے نا مزے کی بات! پروفیسر صابر لودھی کی باتیں کرتے ہوئے ایک دفعہ بتایا کہ پروفیسر صابر کے والد صاحب کو آخر عمر میں فالج ہوگیا تھا۔ وہ ویسے ہی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے۔ صابر لودھی اپنے درس و تدریس کے فریضہ سے فارغ ہو کر ہمہ وقت والد صاحب کی خدمت میں گزارتے۔ اٹھاتے، بٹھاتے، لٹاتے، کروٹ بدلتے، دوا دارو اپنے ہاتھ سے دیتے۔ صابر لودھی کہتے ہیں ایک دفعہ میں گھر آیا تو والد صاحب کو چارپائی پر نہ پایا۔ وہ کہیں ادھر ادھر ہوتے ہواتے، لڑھک کر گرگئے۔ دیکھا تو چارپائی کے نیچے پڑے ہوئے تھے۔میں نے انھیں اپنے ہاتھوں میں اٹھایا۔ بڑے پیارے سے ان کا بوسہ لیا۔ چارپائی پر لٹایا۔ اب وہ مجھے کوس رہے ہیں۔ برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ تیری وجہ سے یہ سارا کچھ ہوا ہے۔ میں ان سے پیار کر رہاہوں اور کہہ رہا ہوں ابا جی! آج آپ مجھے بہت خوبصورت لگ رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے آپ کی شادی کردوں!
شاہ جی کا گھرانہ دین و دانش کا گہوارہ ہے۔ بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی حوصلہ ہمت نہ ہارنا ان کا خاصہ ہے۔ سید ذوالکفل بخاری کی جدائی پر تعزیت کرنے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔ اندر سے ٹوٹ پھوٹ رہا تھا۔ طبیعت سنبھل نہیں پارہی تھی۔ تقریباً سبھی کا یہی حال تھا۔ معاویہ شاہ جی کہہ رہے تھے ’’استاد جی دھوکا دے گئے‘‘ الیاس میراں پوری کے آنسو نہیں تھمتے تھے۔ ریاض جام اور ماسٹرمحمد یوسف حسرت ویاس کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ جیسے
قوائے بدن سب چُور ہوئے اک دل کے شہادت پانے سے فوجوں میں تلاطم برپا تھا سالار کے مارے جانے سے
وکیل شاہ جی ہمیں کہنے لگے یار! تم لوگوں کو ہمیں حوصلہ دینا چاہیے۔ تمہارا اپنا یہ حال ہے تو ہم کدھر جائیں۔ بڑی ہمت کے ساتھ انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھتے جاتے۔ مگر جوان موت، ایک خوبصورت اور خوب سیرت بیٹے (کہ مشفق خواجہ، ڈاکٹر اسلم انصاری اور حبیب الرحمن ہاشمی جیسے لوگ جس کے مداح تھے)کی موت سے، شفقت پدری کی کمر اسی دن دوہری ہوگئی تھی۔ جس دن عطاء المکرم اور عطاء المنعم کے سر سے سایہ اٹھ گیا تھا۔ صبیح الحسن اور عطاء المنان کی دین و دنیا کی نشو ونما کا ابتدائی در بند ہوگیا تھا۔ کفیل شاہ جی کا بازو کٹ گیا تھا اور بہنوں کی آنکھوں کا چراغ بجھ گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اپنے مشفق و مہربان بھائی وکیل شاہ صاحب کی موت پر مرتضیٰ شاہ جی حزن و ملال کی زبانِ حال میں گویاہیں :
’’ممکن نہیں ہے درد کا اظہار دوستو! لیکن نہیں ہے موت سے انکار دوستو
اک شخص جس نے زندگی میری سنواردی کیسے بھلاؤں اس کا بھلا پیار دوستو
وہ باپ، دوست، بھائی تھا سب کچھ میرے لیے صنّاعیٔ خدا کا تھا شاہکار دوستو
اس کی نصیحتیں ہیں مجھے یاد آج بھی وہ میرے کارواں کا تھا سالار دوستو
اس کی لحد کو اے خدا جنت نظیر کر دامن میں اپنی دیں پناہ، سرکارؐ دوستو