پروفیسر خالد شبیراحمد
امیر شریعت فرماتے ہیں:
’’میں نے’’الحمد سے لے کر والناس تک‘‘ کوئی ایک آیت ایسی نہیں دیکھی جس میں یہ موجود ہو کہ مسلمان اگر غلام ہوجائے تو وہ زندگی کیسے بسر کے۔ اس لیے کہ مسلمان نے تو بنی نوع انسان کو ہر طرح کی غلامی سے نجات دلا کر انسانوں کو اﷲ تعالیٰ کی غلامی لا کھڑا کرنا ہے جو انسانیت کی معراج اور اخروی نجات کا ذریعہ ہے۔ اگر مسلمان خود غلام ہوجائے تو پھر انسان کو وطن کی غلامی ، نسل کی غلامی، زبان کی غلامی، ثقافت کی غلامی سے کون نجات دلائے گا؟‘‘
درس حریت کے حوالے سے امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری مرحوم اور ان کی جماعت مجلس احرار اسلام کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ امیر شریعت اور ان کے تمام ساتھی رہنما جن میں مفکر احرار چودھری افضل حق، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، ضیغم احرار شیخ حسام الدین،ماسٹر تاج الدین انصاری، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا غلام غوث ہزاروی، آغا شورش کاشمیری، مولانا گل شیر شہید اور قاضی احسان احمد شجاع آبادی ان سب نے قید و بند کی صعوبتوں میں زندگی بسر کی۔ انگریزوں کی غلامی کے خلاف جہاد کیا اور مسلمانوں کے غریب اور متوسطہ طبقے میں انگریزوں کے خلاف ایسا جو ش ولولہ پیدا کردیا جس کی مثال بہت مشکل ہے۔ احرار رضا کاروں کی تعداد جو لاکھوں میں اس وقت موجود تھی قید و بند کے معاملے میں اپنے رہنماؤں سے کم نہ تھے۔ ہر رضاکار نے غلامی کے خلاف چلائی گئی سب تحریکوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک خلافت ہو یا پھر تحریک فوجی بھرتی بائیکاٹ یا پھر تحریک کشمیر یا پھر تحریک ردقادیانیت ہزاروں رضاکاروں نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا۔ رضاکاروں میں یہ جذبہ بھی امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ اور ان کے ساتھی رہنماؤں کے گفتار و کردار سے ہی پیدا ہوا۔
جہاں ایک طرف مولانا ابوالکلام آزاد کے ’’الہلال‘‘ و ’’البلاغ‘‘ مولانا محمد علی جوہرکے ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ ،مولانا حسرت موہانی کے ’’اردوئے معلی‘‘ اور مولانا ظفر علی خان کے ’’زمیندار‘‘نے رنگ جمایا۔وہاں دوسری طرف دبستانِ بخاری کے باہمت اور حوصلہ مند ساتھیوں نے اپنی تقریروں کے ذریعے عام مسلمانوں میں آزادی کی لگن اور غلامی سے نفرت کے جذبات پیدا کردیے۔ بلکہ دور دراز کے علاقوں میں کوئی نہ پہنچ پایا وہاں امیر شریعت کی قیادت میں خطبائے احرار کی قوتِ گفتار نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ انسان بے اختیار داد دینے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے۔ احرار رہنما اور احرار رضاکار آپس میں ایک مضبوط و مستحکم رشتے میں اس طرح منسلک ہوئے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا کسی کے بس کی بات ہی نہ رہی۔ اس طرح احرار رہنما اور احرار رضاکار انگریزوں کی غلامی کے خلاف ایک مضبوط سیسہ پلائی دیوار بن گئے دونوں نے باہم مربوط ہو کر پورے ہندوستان کے اندر ایک ایسی آگ لگادی تھی کہ انگریز اپنے تمام وسائل کے ساتھ بھی آزادی کی اس آگ پر قابو پانہ سکا اور بالآخر ہندوستان چھوڑ کر یہاں سے واپس اپنے ملک جانے پر مجبور ہوگیا۔
امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ تو رضاکاروں پر اپنی جان فدا کرتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ مجھے میرے رضاکار اپنے بچوں سے زیادہ پیارے ہیں۔ جو میرے ساتھ ہر جبروتی و قہرمانی طاقت سے ٹکرا گئے۔ فرماتے تھے کہ احرار رضاکار میری متاع عزیز ہیں۔ یہی تو ہیں جو ایک لمبے عرصے سے بغیر کسی لالچ کے صرف جذبہ ایمانی کے تحت میرا ساتھ دے رہے ہیں۔ جنگ آزادی کے اس طویل سفر میں اگر کسی سے خدا کے بعد میں نے اپنی امیدوں کو وابستہ کیا تو وہ یہی عاشقانِ حق و صداقت ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احرار رضاکاروں میں یہ جذبہ کیوں پیدا ہوا؟ اس کی وجہ احرار رہنماؤں کا خلوص ان کی محبت اور پھر ان کی وہ تقریریں تھیں جو ہر دل میں بڑی شدت کے ساتھ انگریزوں کے خلاف، غلامی کے خلاف نفرت کے جذبات پید اکردیتی تھیں آئیے آپ کو ایسے چند روشن ارشادات سے متعارف کرائیں جو امیر شریعت کی اس دور میں انگریزوں کی غلامی کے خلاف تقاریر میں سامنے آئے اور پوری قوم کے لیے ہدایت کا چاند بن گئے۔
’’میں ان علمائے حق کا پرچم اٹھائے پھرتاہوں جو ۱۸۵۷ء میں فرنگیوں کی تیغ بے نیام کاشکار ہوئے تھے۔ رب ذوالجلال کی قسم مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ لوگوں نے پہلے ہی کب کسی سر فروش کے بارے میں راست بازی سے کام لیا ہے۔ لوگوں کا تو شعار ہوچکا ہے کہ خامیوں کو عقاب کی نگاہ سے دیکھتے اور صبا کی رفتار سے پکڑتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی کی خوبیوں پر بھی نگاہ کر لیا کرو اس سے تمہاری سیرتیں سنورتی چلی جائیں گی‘‘
’’میں اس سرزمین میں مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ کا سپاہی ہوں، سید احمد شہید کی غیرت کا نام لیوا ہوں شاہ اسماعیل شہید کی جرأت کا پانی دیوا ہوں میں ان پانچ مقدمہ ہائے سازش کے پایہ زنجیر صلحائے امّت کے لشکر کا ایک خدمت گزار ہوں جنھیں حق کی پاداش میں عمر قید اور موت کی سزائیں سنائی گئیں۔ ہاں ہاں! میں انھی کی صدائے بازگشت ہوں۔ میں انھی کی نشانی ہوں۔ میری رگوں میں خون نہیں آگ دوڑتی ہے میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ میں قاسم نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کا علم لے کر نکلا ہوں میں نے حضرت شیخ الہند کے نقشِ قدم پر چلنے کی قسم کھا رکھی ہے۔میرا ایک ہی نصب العین ہے اور وہ برطانوی سامراج کی روش کو دفنانا اور کفنانا ہے‘‘
’’میں ان سوؤروں کا ریوڑ چرانے کو بھی تیار ہوں جو برٹش امپیریل ازم کی کھیتی کو ویران کرنا چاہیں ۔ میں کچھ نہیں چاہتا میں ایک فقیر ہوں اپنے نانا کی سنت پر مرمٹنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ اگر کچھ چاہتا ہوں تو صرف اس ملک سے انگریز کا انخلاء۔ میری دو ہی خواہشیں ہیں، میری زندگی میں ملک آزاد ہوجائے یا پھر میں تختۂ دار پر لٹکادیا جاؤں‘‘
’’میں ہندو کو اپنا دوست نہیں سمجھتا ۔ لیکن اس کی دشمنی ساحل سمندر تک ہی محدود ہے جبکہ انگریز تو سمندر پار تک اسلام کا تعاقب کر رہا ہے اس لیے اگر میں اپنے چھوٹے دشمن کے ساتھ مل کر بڑے دشمن کو شکست دے سکوں تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔‘‘
’’علمائے کرام اگر میرا بس چلے تو انگریز کے مقابلے کے لیے سوروں سے اتحاد کرنے میں گریز نہ کروں کیونکہ انگریز کی زندگی اسلامی تہذیب و تمدن اور انسانیت کی موت ہے اور اس کی موت سے اسلام اور مسلمان زندہ ہو جائیں گے۔ اسلامی ممالک میں اتحاد بڑھے گا۔ مسلمانوں میں روح جہاد جاگ اٹھے گی۔‘‘
’’یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ جنگ آزادی میں میرا حصہ کیا ہے میں تو یہ جانتا ہوں کہ میں نے لاکھوں ہندوستانیوں کے ذہن سے انگریز کی غلامی کو نکال پھینکا ہے۔ میں نے کلکتہ سے خیبر تک اور سری نگر سے راس کماری تک دوڑ لگائی ہے۔ وہاں پہنچا ہوں جہاں دھرتی پانی نہیں دیتی۔ رہا یہ سوال کہ آزادی کا کون سا تصور ہے جس کے لیے لڑتا رہا تو سمجھ لیجئے اپنی دھرتی پر اپنا راج۔ آپ غالباً کسی کتابی آئیڈلوجی کا پوچھ رہے ہوں گے۔ بابو لوگو! یہ کتابی نظریے عموماً روگ ہوتے ہیں۔ فی الحال جو مرحلہ در پیش ہے وہ کسی مثبت تصور کا نہیں منفی تصور کا ہے ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ غیر ملکی طاقت سے گلو خلاصی ہو۔ اس ملک سے انگریز نکلیں، نکلیں کیا، نکالے جائیں تب دیکھا جائے گا کہ آزادی کے خطوط کیا ہونگے۔ آپ تو نکاح سے پہلے چھوہارے باٹنا چاہتے ہیں پھرمیں کوئی دستوری نہیں ہوں۔ سپاہی ہوں تمام عمر انگریزوں سے لڑتا رہا اور لڑتا رہوں گا۔اگر اس مہم میں سور بھی میری مدد کریں گے تومیں ان کا منہ چوم لوں گا۔ میں تو ان چیونٹیوں کو شَکر کھلانے کے لیے تیار ہوں جو صاحب بہادر کو کاٹ کھائیں۔ خدا کی قسم میرا ایک ہی دشمن ہے اور وہ ہے انگریز۔ اس ظالم نے نہ صرف مسلمان ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی انھیں غلام بنائے رکھااور مقبوضات پیدا کیے۔ بلکہ خیرچشمی کی انتہاء ہوگئی کہ قرآن میں تحریف کے لیے جعلی نبی پیدا کیا پھر اس خود کاشتہ پودے کی ابیاری کی اور اب اس کو چہیتے بچے کی طرح پال رہا ہے۔‘‘
’’رب ذوالجلال کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں اپنی ان آنکھوں سے کسی شخص کو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے نازل ہوتا دیکھوں یہ شخص آب زمزم سے غسل کرتا ہو، غلاف کعبہ کا لباس زیب تن کرتا ہو مگر اس کے کسی قول یا پھر فعل سے مجھے انگریزوں کی اطاعت کی بو بھی آجائے تو میں اس کی مخالفت کرنا اپنے لیے فرض سمجھتا ہوں۔ انگریز ظالم کم گہرے پانی میں دھکا دے کر باہر نکالتا ہے اعتماد بحال کرتا ہے اور پھر گہرے پانی میں دھکا دے دیتا ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہوجائے۔‘‘
ان اقتباسات کو ملاحظہ فرمائیے، ان الفاظ کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے چشمِ تصور سے ذرا دیکھیے کہ امیر شریعت کس حوصلہ اور کس جرات کے ساتھ لوگوں کو درس حریت دیا کرتے تھے۔ ان الفاظ میں انگریزوں کے خلاف عدم مفاہمت کے پختہ عزم کو دیکھیے اور ان کی جرأت ، تیور، غیرتِ ایمانی پر بھی غور کریں۔ جب لاکھوں لوگوں کے سامنے یہ تقریریں وہ کرتے ہوں گے تو لوگوں کے جذبات اور ان کے احساسات کیا ہوتے ہوں گے۔
یہی عزم اور ایسا ہی غیر معمولی اظہار تھاجس کے طفیل تحریکیں چلتی رہیں اور لوگ سردھڑکی بازی لگا کر انگریز کے خلاف میدان عمل میں آئے اور بالآخر انھوں نے اپنی آنکھوں سے انگریزوں کو اس ملک سے نکلتے ہوئے بھی دیکھا اور ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوئی کہ میں چاہتا ہوں کہ آزادی ہند کی اس تحریک میں مسلمانوں کا حصہ وافر ہو اور مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہو کہ ہندوستان کی آزادی صرف اور صرف مسلمانوں کی ہی کاوشوں کی مرہون منت ہے
کاش ہمارے موجودہ سیاست دان بھی ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کا مطالعہ کر کے اس کا احساس کرسکتے کہ آزادی کے مراحل طے کرتے ہوئے حریت پسندوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ان کے جذبات کتنے شدید ان کے عزائم کتنے بلند اور ان کا کردار کتنا عالی تھا۔
اک جنوں کی داستاں ہے داستاں احرار کی عزم و ہمت، سرفروشی ، ولولہ ایثار کی
جا بجا لکھی ہوئی تاریخ کے اوراق پر خونچکاں سی اک کہانی لشکر احرار کی
ان کی تقریروں سے پھیلی ظلمتوں میں روشنی اک انوکھی ہی ادا تھی قوت اظہار کی
رعد ہے برق ہے باطل کو ان کا حرف حرف دھوم ہے ہر سو انھی کے لہجۂ گفتار کی
خالد ان کے دم قدم سے ہے جنوں کو حوصلہ یہ جماعت ہے روایت عشق کے اظہار کی