منصور اصغر راجہ
پنجاب میں سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی 1920ء سے برسرِاقتدار چلی آرہی تھی ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب مسلم لیگ ابھی ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں ‘‘کے دور سے گزر رہی تھی ۔پنجاب کے زمیندار طبقے کی نمائندہ یونینسٹ پارٹی اتنی مضبوط تھی کہ اس نے 1937ء کے الیکشن میں صوبے میں 175کے ایوان میں 88نشستیں حاصل کیں جبکہ مسلم لیگ کے حصے میں صرف دو نشستیں آئی تھیں۔مسلم لیگ پنجاب میں قدم جمانے کے لئے ہاتھ پیر مار رہی تھی ۔اسی سلسلے میں الیکشن سے پہلے اپریل 1936ء میں قائداعظم لاہور تشریف لائے تو انہوں نے سر فضل حسین سے بھی ملاقات کی لیکن یہ ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی ۔سر فضل حسین سے مایوس ہو کر قائد اعظم مجلس احرار کی طرف آئے ۔اُس دور میں مجلس احرار پنجاب کے دین سے لگاؤ رکھنے والے متوسط اور نچلے درجے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت تھی۔قائد اعظم نے مجلس احرا ر کے مرکزی رہنما چوہدری افضل حق سے ملاقات کی جو خاصی کامیاب رہی ۔مسلم لیگ اور احرار کا انتخابی اتحاد پر اتفاق ہوگیا اور دونوں جماعتوں کا مشترکہ پارلیمانی بورڈ بھی تشکیل دے دیا گیا ۔خیر سگالی کے طور پر مجلس احرار نے باغ بیرون دہلی دروازے میں ایک جلسہ عام کا اہتمام بھی کیا جس سے قائد اعظم نے خطاب فرمایا۔قائداعظم اس کامیابی پر بے حد مسرور تھے کیونکہ وہ سر فضل حسین کے اثر ورسوخ والے پنجاب میں ایسی کھلی سیاسی سرگرمی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔لیکن قائد اعظم کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ ان کے پنجاب سے رخصت ہوتے ہی پیچھے رہ جانے والی لیگی قیادت نے اپنی اصلیت دکھانے میں دیر نہ لگائی ۔دراصل مسلم لیگ میں سوسائٹی کی ایلیٹ کلاس بیٹھی ہوئی تھی جن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو راوی کے مطابق اپنی پارٹی سے زیادہ اپنے اپنے ضلع کے انگریز ڈپٹی کمشنرکے وفادار تھے۔ دوسری طرف احرار میں مولوی اور غریب لوگ تھے ۔مسلم لیگی بھلا درویش صفت احراریوں کواپنے ساتھ بٹھانا کیسے گوارا کر سکتے تھے ۔لہٰذا ان سے جان چھڑانے کے لئے ایک واردات کی گئی ۔مسلم لیگ نے الیکشن کے لئے ٹکٹ کی درخواست کے ساتھ ساڑھے سات سو روپے چندے کی شرط بھی لگا دی ۔اُس زمانے میں ساڑھے سات سو روپے بہت بڑی رقم تھی ۔احراری اتنا بھاری بھرکم چندہ دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے لہٰذا وہ خاموشی سے پیچھے ہٹ گئے ۔دونوں جماعتوں کا انتخابی اتحاد ہوا میں اُڑ گیا۔مشترکہ پارلیمانی بورڈ تحلیل ہو گیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن احرار سے انتخابی اتحاد ختم ہوا ،اگلے ہی روز مسلم لیگ نے ٹکٹ کے لئے چندے کی رقم ساڑھے سات سو روپے سے کم کر کے پچاس روپے کر دی ۔گویا ساڑھے سات سو روپے چندے کی شرط صرف احرار کو بھگانے کے لئے عائد کی گئی ۔کیا یہ تاریخی واقعہ مسلم لیگ کے مزاج کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟
خان عبد الغفار خان اپنی خودنوشت میں 1946ء کے الیکشن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ متحدہ ہندوستان کا آخری الیکشن تھا ۔مسلم لیگ نے اس الیکشن کو یہ رخ دیا کہ……تم پاکستان چاہتے ہو یا ہندوستان ،ہندو کے غلام ہو یا مسلمانوں کے ،کفر کا ساتھ دو گے یا اسلام کا ،مندر کو ووٹ دو گے یا مسجد کو ؟
بانی ٔپاکستان نے جس پاکستان کے قیام کے لئے جدو جہد کی ،وہ ایک اسلامی پاکستا ن تھا ۔اگرچہ ہمارے سیکولر دوست قائد اعظم کی 11اگست 1947ء کی ایک تقریر کے حوالے دیتے نہیں تھکتے اور یوں باور کراتے ہیں کہ جیسے قائد نے زندگی میں صرف یہی ایک تقریر کی ۔اس کے علاوہ وہ کبھی کسی موضوع پر بولے اور نہ خطاب کیا ۔حالانکہ ایک تحقیق کے مطابق صرف 1940ء سے 1947ء کے درمیانی عرصے میں بانی ٔپاکستان نے ایسی 90اہم ترین تقاریر کیں جن میں انہوں نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ جو پاکستان وجود میں آرہا ہے ،وہ اسلامی ہو گا ۔ایک موقع پر فرمایا کہ ،’’پاکستان کا مطلب محض آزادی اور استقلال نہیں ۔اس کا مطلب مسلم نظریہ ہے جسے ہم نے بچانا ہے ۔جو ہم تک ایک بیش قیمت ہدیے اور خزانے کے طور پر منتقل ہوا اور جس کے متعلق ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ اس سے مستفید ہوں گے‘‘۔ ایک اور موقع پر فرمایا:’’مسلم لیگ پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہی ہے تاکہ مسلم عوام وہاں اسلامی قوانین کے تحت حکمرانی کریں‘‘ ۔ ایک اور موقع پر دستورساز اسمبلی کی نوعیت واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجلس دستوریہ ……مسلمانوں کے لیے ایسی قانون سازی کر سکے گی جو شرعی قوانین سے متصادم نہیں ہوگی ۔مسلمان اب مزید مجبور نہیں ہوں گے کہ غیر اسلامی قوانین کا اتباع کریں ‘‘۔ قیام پاکستان کے بعد جب مسلم لیگ کے’’کھوٹے سکے‘‘پر پُرزے نکالنے لگے توبابائے قوم نے اس سلسلے میں25جنوری1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کہ وہ ایسے لوگوں کو سمجھ نہیں پائے جو جان بوجھ کر فتنے کھڑے کرتے ہیں اور پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شرعی بنیادوں پر تشکیل نہیں دیا جائے گا ۔اسلامی اصول حیات آج بھی ویسے ہی قابل عمل ہیں جیسے 1300برس پہلے تھے۔
(سیکولر زم :مباحث و مغالطے از طارق جان )
ٍ لیکن ایک تلخ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سر ظفر اﷲ خان قادیانی کو وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا۔ دراصل بابائے قوم حسین شہید سہروردی کو وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپنا چاہتے تھے لیکن سہروردی صاحب اس لیے ناراض ہوگئے کہ بنگال کی وزارتِ اعلیٰ خواجہ ناظم الدین کے حوالے کیوں کی گئی ۔لہٰذا انہوں نے ہندو مسلم فسادات کے متاثرہ مہاجرین کی دیکھ بھال کا بہانہ بنا کر وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالنے سے معذرت کر لی،بعد ازاں یہ عہدہ ظفر اﷲ خان کو تفویض کر دیا گیا ۔1948ء میں جب مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں پہنچا اور سر ظفر اﷲ نے وہاں محض اپنی آتش بیانی اور طلاقت لسانی کے بل بوتے پر سلامتی کونسل کو متاثر کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے تو ان کے بارے میں معروف سیاستدان میاں افتخار الدین نے 5؍اکتوبر 1950ء کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ :’’ظفر اﷲ تیس یا چالیس سالہ تجربے کا مالک اور ایک قابل وکیل تو ہو سکتا ہے ، برطانو ی راج پر کامل یقین رکھنے والا ہو سکتا ہے اور شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہو سکتاہے جس نے ان تیس برسوں کے دوران ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ وہ آئے اور ملک کی آزادی کا سوال پیش کرے ۔اس نے ساری زندگی برطانوی حکومت کی خدمت کی ہے اگر اسے رقم مل جائے تو یہ بھوپال،بہاولپوریا حکومتِ ہند کی خاطر بول سکتا ہے ۔اس شخص کو ہم نے اپنے مفادات کے لیے بھجوایا کہ یہ بہترین وکیل ہے ۔اس وکیل نے باؤنڈری کمیشن میں سرحدی مسئلے پر ہماری وکالت کی اور ہم سب جانتے ہیں کہ ریڈکلف نے ہمیں کیا دیا۔ یہ شخص کشمیری عوام کے جذبۂ آزادی کو بھی نہیں سمجھ سکتا ،یہ ان کے لئے نہیں لڑ سکتا۔یہ شخص بال کی کھال تو اتار سکتا ہے لیکن کوئی حکمتِ عملی دینے سے قاصر ہے ۔یہ شخص لازمی طور پر برطانوی مفادات کا نگہبان ہے ۔اس کا مقصد ہے کہ معاملات کو طوالت دی جائے تاکہ پاکستان اور ہندوستان مدد کے لئے امریکہ اور برطانیہ کو پکاریں ۔اس حکمتِ عملی سے ہمیں کشمیر نہیں مل سکتا‘‘۔(میاں افتخار الدین کی تقاریر و بیانات،مرتبہ:عبداﷲ ملک ،صفحہ 266)اس کردار کے حامل شخص نے پاکستانی وزیر خارجہ کی حیثیت سے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے ،اس بات کو سمجھنے کے لئے افلاطون کے دماغ کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔افسوس کہ اس شخص کو وزارتِ خارجہ اسی مسلم لیگ نے سونپی جس نے اسلام کے نام پہ نیا وطن حاصل کیا تھا ۔یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ تحریک ختمِ نبوت 1953ء کے دوران جب دس ہزارمسلمانوں کے لہو سے لاہور کی سڑکیں رنگین ہوئیں ،اس وقت عنانِ حکومت کس جماعت کے ہاتھ میں تھی ۔کیا ہمیں اجازت ہے کہ ہم اُس ’’بے دین‘‘اور ’’اسلام دشمن‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو ان اسلام پسندوں سے کئی درجے اچھا حکمران کہہ سکیں کہ کئی کوتاہیوں کے باوجود مسئلہ ختم نبوت پر وہ شخص جب ڈٹ گیا تو پھر کوئی قوت اسے اپنے عزم و ارادے سے پیچھے نہیں ہٹا سکی اور اس نے یہ دیرینہ مسئلہ پارلیمنٹ سے حل کرا کے ہی چھوڑا ۔اِس وقت بھی ہم مسلم لیگ کے عہد میں ہی جی رہے ہیں اور امرِ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے دین دار اور اسلام پسند طبقے نے میاں نواز شریف کو دیگر سیاسی قیادت پر ہمیشہ فوقیت دی ہے جس کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہ دین سے محبت رکھنے والے ایک روایت پسند مشرقی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔لیکن اپنے موجودہ دور میں انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل پاکستان بنانے کا نعرہ لگا کر، شرمین عبید چنائے کی فلم کی وزیر اعظم ہاؤس میں نمائش کر اکے، نیشنل ایکشن پلان کے نام پر دینی مدارس اور اسلام پسند طبقے کے خلاف اندھا دھند کارروائیوں اور پنجاب اسمبلی سے تحفظ حقوقِ نسواں بل منظور کر ا کے جو ’’نیک نامی ‘‘کمائی ہے ،وہ انہیں یقینااگلے الیکشن میں بہت مہنگی پڑے گی۔ مگر غازی ممتاز قادریؒ کی پھانسی کا فیصلہ تو ان سب پر بھاری ثابت ہو گا جس کے اثرات 22مارچ این اے 101گوجرانوالہ ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران سامنے آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘کے اندر اعلیٰ عہدوں پر براجمان لوگ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ پھانسی اگلے الیکشن میں مسلم لیگ کے لئے لال مسجد ثابت ہو گی ۔لال مسجدنے 2008ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ’’ق‘‘کو کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ اس موقع پر دینی جماعتوں کا اکٹھ حکومت کے لئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے ۔حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی طرح دینی طبقے کو غازی ممتاز قادری ؒکی پھانسی کا ایشو اجاگر کرنے سے روکا جائے ۔قانون تحفظ حقوقِ نسواں کو موضوع بحث بنانے کا اصل مقصد بھی یہی ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس قانون کے حوالے سے حکومت کسی ترمیم پر بھی آمادہ ہو جائے تاکہ حکومتی ذرائع کے بقول مولویوں کو ٹھنڈا کیا جا سکے ۔لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس وقت اصل مسئلہ غازی ممتاز قادری ؒکی پھانسی اور قانون توہینِ رسالت ہے ۔باقی سب مسائل جزوی ہیں ۔کیا ہم امید رکھیں کہ ہماری دینی قیادت اپنی پوری توجہ اصل مسئلے کی طرف مرکوز رکھے گی ؟…… دینی قیادت پر اس وقت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے ۔انہیں پھونک پھونک کر قدم اٹھانے ہونگے ۔گمان ہے کہ دینی جماعتوں کے اس اکٹھ سے پریشان قوتیں علما ء میں غلط فہمیاں اور توڑ پیدا کرنے کی کوشش بھی کر سکتی ہیں کیونکہ اس طرح کی مشکل صورتحال سے بچ نکلنے کے لئے حاکمانِ وقت Divide and Ruleکے فارمولے کو اکسیر نسخہ خیال کرتے ہیں ۔لہٰذا دینی قیادت کو حاکمِ وقت کی طرف سے دوپہر کے کھانے کی دعوت سوچ سمجھ کر قبول کرنی ہو گی۔ وگرنہ دعوت کھانے والوں کا انجام وہی ہوسکتا ہے جو مرحوم رفیق باجوہ کا ہوا تھا ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ سے واقف خواتین و حضرات کو رفیق باجوہ ایڈووکیٹ تو ضرور یاد ہوں گے ۔جے یو پی کے مرکزی رہنما ،اعلیٰ پائے کے مقرر ،پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل، لیکن تحریک نظام مصطفی کے دوران انہوں نے تحریک کے دیگر قائدین کو اعتماد میں لیے بغیر تنہائی میں بھٹو صاحب سے صرف ایک ملاقات ہی کی تھی لیکن ان کی اس حرکت کے باعث عوام ان سے اس قدر متنفر ہو گئے کہ اس کے بعد رفیق باجوہ کہیں دور گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے اور دوبارہ کبھی قومی سیاسی افق پر دکھائی نہیں دیے ۔لائق صد احترام مولانا فضل الرحمن کے اخلاص او ر دیانت داری پر شک کرنے کی ہم میں تاب کہاں، لیکن سچ یہی ہے کہ منصور ہ اجلاس سے ایک روز پہلے ان کی وزیر اعظم سے ملاقات کو دیوبندی مکتبِ فکر میں بھی زیادہ پسند نہیں کیا گیا ۔مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ کی تاریخ اور مزاج سے بخوبی واقف ہوں گہ۔ دورانِ ملاقات غازی ممتاز قادریؒ کی پھانسی کے تناظر میں اگر وہ حاکمِ وقت سے ذرا سا یہ بھی گلہ کر دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ……
اب تیری وضاحت میں صداقت نہیں لگتی اب اپنی محبت کی صفائی نہ دیا کر
(مطبوعہ: روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی ،19مارچ 2016ء)