ڈاکٹر خلیل طوقار
(ڈاکٹر خلیل طوقار نسلاً ترک ہیں۔ ان کی پیدائش استنبول (ترکی) میں ہوئی۔ ترکی میں ہی انھوں نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ فی الوقت وہ استنبول یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ہیں۔ڈاکٹر طوقار کی تقریباً دو درجن کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔وہ ترکی سے شائع ہونے والے اردو کے واحد ادبی مجلہ’’ارتباط’’کے مدیر بھی ہیں۔ یورپین اردو رائٹرز سوسائٹی، لندن نے سن ۲۰۰۰ میں انھیں ’’علامہ اقبال’’ایوارڈ سے نوازا۔اس کے علاوہ عالمی اردو مرکز، لاس انجلس اور دیگر قومی وبین الاقوامی اداروں کی جانب سے انھیں اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔)
۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء روزِ جمعہ ہم سب کے لیے ایک معمولی دن تھا۔ ترکی کے تمام لوگ اپنے اپنے روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھروں میں واپس آئے۔ گھروں میں کچھ گھر بار کی بات ہوئی، کچھ مسائل کا حل ہوا اور شاید گلی کوچوں میں جوانوں کے بیچ جھگڑا لڑائی بھی ہوا۔ یعنی ۱۵ جولائی ترکی کے ہم سب لوگوں کے لیے ایک عام سا دن تھا اور ہم میں سے کسی کو ایک شبہ کا احساس تک نہیں تھا کہ اُس شام کو فوج کے ایک ٹولے کی غداری کی وجہ سے ترکی میں کس قدر دردناک واقعات ہونے والے ہیں۔ مگر اُس رات ترکی کی جمہوریت پر غداروں نے جو شب خون مارنا تھا اور ترک عوام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنی حکومت، اپنے ملک بلکہ اپنی عزت بچانی تھی یہ ترکی جمہوریت کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے والی ایک کم نظیر داستان تھی مگر اِس کااندازہ شام ڈھلنے تک کسی کو نہ تھاویسے بھی کس طرح ہوتا جن باغیوں نے ترکی کو خون خرابہ کا میدان بنایا اُن لوگوں نے اپنی اِس مہم کو بہت ہی خفیہ انداز میں چھپائے رکھا تھا۔
اُس شام اچانک خبر آئی کہ فوجیوں نے باسفورس برج کو ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے بند کئے رکھاہے۔ اِسی طرح استنبول میں اتاترک ائیرپورٹ پر بھی فوجیوں کے قبضہ کی خبر ملی۔ پھر شام آٹھ نو بجے سے اگلے دن شام تک حوادثات کا جو خونی سلسلہ شروع ہوا اِس کو اگر بندہ بذات خود نہ دیکھے تو یقین ہی نہیں کرے گا بلکہ غلط فہمی کا بھی شکار ہوگا۔ خیر یہ تو ہوا بھی ہے اور کچھ لوگ اپنی غلط فہمیوں کی وجہ سے گمراہ ہوئے اور کچھ لوگ امریکہ، یورپ اور خود پاکستان میں مختلف بامقصد گروہوں کی پھیلائی ہوئی با مقصد افواہوں کی آڑ میں آکر اِس بغاوت کو ’’خلیفہ اردوگان کا تیار کردہ ڈرامہ‘‘ کہنے تک کی بے شرمی کا رویہ اختیار کرنے لگے۔ میں اِسی جھوٹی خبروں کو پھیلانے والوں کے لیے ’’بے شرمی‘‘ کا لفظ اِس لیے استعمال کرتا ہوں کہ اُن کی باتیں سن سن کر میں غصے میں آرہا ہوں۔میں غصے میں اِس لیے نہیں آرہا ہوں کہ وہ لوگ ہمارے صدر کے خلاف جھوٹی افواہیں پھیلا رہے ہیں، میں غصے میں اِس لیے آرہا ہوں کہ وہ لوگ اِس قوم کی قربانیوں کا اور ہمارے سیکڑوں شہیدوں جن کی نماز جنازہ پانچ دنوں سے ہم مسلسل پڑھ رہے ہیں وہ اُن کے خون کا مذاق اُڑارہے ہیں۔ اُن کو کیا پتہ کہ ترکی میں اُس رات کیا کیا ہوا اور اِس قوم نے اُن ملک و ملت دشمن باغیوں کوروکنے کے لیے کتنی عظیم قربانیاں دیں۔کیونکہ اِس خونی بغاوت کو ’’ڈرامہ‘‘ کہنے والے وہ حقیقت ناشناس لوگ یہ بات سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں کہ نہتے عوام ایک مسلح فوج کو کس طرح روک سکتے ہیں وہ بھی چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر؟ اب میں تمام قارئین کرام کے لیے اُس رات کے کچھ واقعات پیش کروں گا جس سے ترکی میں ۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کی رات واقعتا کیا ہوا ہے اور ترکی مملکت اور ترکی میں جمہوریت غداروں کی گرفت سے کس طرح بال بال بچ گئی وہ سمجھ آجائے:
۱) اُس شام کثیر تعداد میں باغی فوجیوں پر مشتمل ایک ٹولہ اسلحہ سے لیس ترکی کے دارلحکومت انقرہ میں آرمی ہیڈ کواٹرز میں آکر آرمی چیف آف اسٹاف خلوصی آکارلر کے آفس میں زبردستی داخل ہوا۔ جب آرمی چیف کے گارڈز نے باغیوں کو روکنے کی کوشش کی تو باغیوں نے اُن پر گولی چلاکر آرمی چیف آف اسٹاف کے گارڈز کو شہید کردیا۔ اُن باغیوں نے خلوصی آکارلر صاحب سے یہ مطالبہ کیا کہ اُن کا ساتھ دے کر حکومت کی برطرفی کے الٹی میٹم پر دستخط کریں تو چیف آف آرمی نے اِس مطالبے سے صاف انکار کردیا۔ اِس پر اُن لوگوں نے خلوصی آکارلر صاحب کے ماتھے پر پستول لگاکر اُنھیں زبردستی اپنے گھٹنوں پر بیٹھنے پر مجبور کیا اور ایک باغی آفسر نے اپنی بیلٹ نکال کر اُن کا گلادبایا تاکہ وہ مجبور ہوکر اُلٹی میٹم پر دستخط کریں مگر اُنھوں نے اِس کے باوجود نہیں مانا تو اُن کو اور آرمی ہیڈکوارٹرز میں موجود دوسرے فورس کمانڈروں کو گرفتار کرکے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کسی اور چھاؤنی میں لے گئے۔آرمی ہیڈگوارٹرز میں باغی فوجی ٹولے اور چیف آف آرمی اسٹاف کے حامی فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ اگلے دن دوپہر تک جاری رہا۔ اُس رات چیف آف اسٹاف خلوصی آکارلر کو موت کی دھمکی کے باوجود اُن کے مطالبے سے انکار اِن باغیوں کی شکست کا پہلا قدم تھا۔جب خلوصی آکارلر صاحب بغاوت کے خاتمہ کے بعد ٹی وی پر دکھائی دیے تو اُن کے گردن پر اُس بیلٹ کا نشان واضح طور پر نمایاں تھا۔
۲) اُس وقت باغی فوجیوں کے ایک اور ٹولے نے ایک باغی جنرل کی قیادت میں آرمی اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر میں اسپیشل فورسزکے کمانڈر میجر جنرل ذکائی آق صاقاللی کو گرفتار کرکے ہیڈکوارٹر پر قبضہ کرنا چاہا تاکہ وہ لوگ اسپیشل فورسز کو اِس بغاوت میں استعمال کرسکیں۔مگر میجر جنرل ذکائی آق صاقاللی کے ایڈجوائنٹ نے یہ سن کر ایک پل بھی تأمل کیے بغیر اپنا پستول نکالا اور باغی جنرل کے ماتھے پر گولی چلائی اور اُسے ڈھیر کردیا۔ یہ دیکھ کر باغی جنرل کے ساتھیوں نے بھی اُن پر گولیاں چلاکر اُنھیں شہید کردیا۔ یہ دوسرا قدم تھا جو اُس رات بغاوت کو ناکامی کی طرف لے گیا۔
۳) مارشل لا اور بغاوت کی خبریں آنے پر ترکی پارلیمنٹ کے تمام پارٹیوں کے ممبران جو اُس وقت انقرہ میں تھے پارلیمنٹ میں جمع ہوئے تاکہ بغاوت کے خلاف ایک قرارداد پاس کرسکیں۔ اُس وقت رات کے اُس پہر میں ڈیڑھ سو سے زائد پارلیمنٹ کے ممبر مذاکرات کے ہال میں اکھٹے ہوئے جن میں ترکی کے سیکولر خیالات و تصورات کے علم بردار او ر رجب طیب ایردوغان کے سخت مخالف جمہوری خلق پارٹی کے ممبر بھی شامل تھے۔ اِس کی اطلاع ملتے ہی باغی فوج نے ایف ۱۶ بھیج کر ترکی کی پارلیمنٹ پر بمباری کرادی۔
۴) اِس اثناء میں صدر جناب رجب طیب ایردوغان چھٹیوں کے لیے ترکی کے مارماریس شہر کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے اُس ہوٹل سے ذرا جلدی نکلے۔ اُن کے ہوٹل سے الگ ہونے کے پندرہ منٹ بعد باغی فوج کے اسپیشل فورسز کے چالیس سپاہیوں نے ہوٹل میں بم بھی پھینکا اور فائرنگ بھی کی۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد اِس سپیشل فورس کے چالیس سپاہی جنگل کی طرف بھاگ نکلے اور ابھی تک ترکی فوج اُن لوگوں کی تلاش میں ہے۔ صدر کی حفاظت پر مامورجنرل، جو اُس دوران انقرہ میں تھا،نے بار بار صدر مملکت کے ساتھیوں کو فون کرکے صدر کے ہوائی جہاز کا روٹ دریافت کرنا چاہا مگر اُن لوگوں نے معلومات دینے سے انکار کیا۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ جنرل بھی اِس بغاوت کا حصہ ہے اور اب وہ گرفتار ہوا ہے۔
۵) اُسی رات آرمی ہیڈ کوارٹرز اور آرمی اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹرز کے ساتھ ساتھ باغیوں نے ترکی کے خفیہ سروس کے ہیڈکوارٹر میں ہیلی کاپٹرکے ذریعے اپنے فوجیوں کو اتارا اور باغیوں نے اترتے ہی خفیہ سروس کے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کردی تو پولیس اہلکار بھی جوابی فائرنگ کرنے لگے۔ باغیوں کی پہلی فائرنگ میں کافی تعداد میں خفیہ سروس کے پولیس شہید ہوگئے مگر پھر بھی پولس فورسز نے باغیوں کو گرفتار کرنے تک لڑائی جاری رکھی۔ مزید بر آں باغیوں نے پولیس اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر پر ایف ۱۶ سے بمباری کی جس کی وجہ سے پولیس کے سینتالیس اہلکار جن میں خواتین بھی تھیں ایک ہی دم میں شہید ہوگئے۔
۶) فوج کی کچھ چھاؤنیوں میں باغی آفیسرز نے بغاوت کے حکم سے انکار کی وجہ سے دوسرے سپاہیوں کو سبق سکھانے کی نیت سے انکار کرنے والے اپنے ہی سپاہیوں کے سروں کو گولیوں سے اڑادیا جن میں سے تین ہمارے ہمسائے کے بیٹے کی چھاؤنی میں تھے جہاں اُس کے سپاہی دوست اپنے کمانڈر کی گولیوں سے شہید ہوئے۔
خوشی کی بات ہے کہ اِس کے بر عکس کچھ آفیسرز اور فوجی سپاہیوں نے باغی فوج کی نقل و حرکت کی اطلاع ملتے ہی اُن پر چھاپہ مارا اور اُن سب کو گرفتار کرکے چھاؤنیوں سے نکلنے نہیں دیا۔یہ چند ایک نمونے ہیں جو ترکی کے حق شناش فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے باغیوں کو روکنے کے لیے کیے جن کی وجہ سے فوجی بغاوت کو ناکامی کا سامنا ہوا۔
دوسری طرف ترکی کے عوام ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اِس بغاوت کو ناکام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُس رات جب ہمارے صدر نے ٹی وی پر ترکی کے عوام کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دی تو میں نے اپنی اہلیہ ثمینہ جو پاکستان کی بیٹی ہے سے کہا کہ ثمینہ میں نکل رہا ہوں، پہلے وہ کچھ شش و پنچ میں پڑی اور پھر اُس نے یہ کہہ کر مجھے روکنے کی کوشش کی کہ وہ لوگ بہت خطرناک ہیں براہِ کرم آپ باہر نہ جائیں۔ اِس پر میں نے کہا آج جو بھی ہونا ہے وہ ہوجائے مگر ہمیں ۱۹۸۰ء کا خوفناک منظر دیکھنا پسند نہیں۔ واضح رہے کہ ۱۹۸۰ء کے مارشل لا کے بعد فوجی حکومت نے سیکڑوں بے گناہوں کو پھانسیوں میں لٹکایا تھا اور مجھے ابھی تک یاد ہے ایک لڑکا جو سترہ سال کا تھا اور قانون کی رو سے اُس کو پھانسی نہیں دی جاسکتی تھی تو اُن لوگوں نے اُس بے چارے کی عمر ایک سال بڑھا کر اُسے دار پر چڑھایا۔ یہ سب کچھ میرے ذہن میں تھا۔ ثمینہ نے جب مجھے اس حالت میں دیکھا تو کہنے لگی کہ آپ جارہے ہیں تو میں بھی آرہی ہوں جو ہونا ہے تو ہم دونوں کو ہوجائے۔ اتنے میں ہماری ہمسائی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب ہم نے دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ اپنی دونوں جوان سال بیٹیوں کو ساتھ لے کر باہر جارہی ہیں۔ اُس نے کہا کہ یہ گھر میں رکنے کا وقت نہیں چلو باہر۔ حالانکہ ہماری ہمسائی اور اُس کی بیٹیاں بالکل سیکولر اور آزاد خیال لوگ ہیں۔ وہ چلی گئیں تو ہم بھی باہر نکلنے لگے تب ہمارے بیٹے محمد نے ڈر کے مارے ثمینہ سے چمٹ کر رونا شروع کیا کہ ہمیں نہ چھوڑیں۔ پھر میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ تم گھر میں رہو اگر ہمیں کچھ ہوا تو بچوں کا کون خیال رکھے گا۔ کیونکہ چند ایک دور کے رشتہ دارکے علاوہ میرے رشتہ دار بھی نہیں ہیں۔ پھر میں گھر سے نکلا۔اُس وقت ثمینہ گھر میں تو رہی مگر محمد کو تسکین دے کر اُسے اپنی باجی کے پاس چھوڑ تے ہوئے میرے گھر سے نکلنے کے کچھ منٹ بعد وہ بھی اپنی کچھ سہیلیوں کے ساتھ میرے پاس پہنچ گئی۔
ہمارے صدر کی دعوت سے میرے نکلنے تک پندرہ منٹ گزرگئے تھے مگر ہمارے گھر سے باسفورس برج تک کا گاڑی سے جو بیس منٹ کا راستہ ہے وہ انسانوں سے بھرا ہوا تھا اور آگے بڑھنا بہت مشکل تھا۔ اِس فاصلے کو بھرنے کے لیے تقریباً دس لاکھ انسان کی ضرورت ہوگی اور واقعی اُس وقت صرف ہمارے علاقے میں اِس تعداد میں لوگ جمع تھے اور باقی علاقوں کا آپاندازہ لگائیے۔ اِس مجمع میں مرد بھی تھے، خواتین بھی تھیں، جوان بھی تھے اور بوڑھے بھی۔ کچھ خواتین کے ساتھ اُن کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ سیکولر لوگ بھی تھے، مذہبی لوگ بھی تھے اور حکومت کے مخالف قوم پرست پارٹی کے کارکن بھی تھے۔ترک بھی تھے، کرد بھی تھے اور عرب بھی تھے۔ میں کہتا ہوں کہ وہاں تمام ترکی کے لوگ تھے بلکہ یہ کہیے تو بہتر ہوگا وہاں بذات خود ترکی موجود تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے پیغامات ملنے لگے کہ باغی فوجیوں نے لوگوں پر فائرنگ شروع کردی ہے اور لوگ کافی تعداد میں شہید اور زخمی ہیں۔ مگر اِس خبر کے ملنے کے باوجود کسی نے بھی تامل نہیں کیا نہ ہی واپس لوٹنے کے لیے سوچا۔ پھر خبریں آنے لگیں کہ باغی فوجیوں نے ٹینکوں کو لوگوں پر چلاکر بہت سے لوگوں کو کچل دیا ہے اور فوجی ہیلی کوپٹروں سے لوگوں پر فائرنگ کررہے ہیں۔ مگر کوئی بھی پیچھے نہ ہٹا اور سب لوگ آگے بڑھتے چلے گئے۔ دوسری طرف تمام مساجد سے صلوٰۃ الشریفہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں تاکہ لوگوں کو سڑکوں پر بلایا جائے۔صلوٰۃ شریفہ تو یا جمعہ کی نماز یا جنازہ کی نماز کی دعوت دینے کے لیے مساجد سے بلند ہوتی ہے۔ اِس طرح سے مساجد سے یہ پیغام مل رہا تھا کہ آپ مرنے کے لیے تیار ہوکر سڑکوں پر نکلیں۔
اُس رات ترکی عوام، باغی فوجیوں کو روکنے کی خاطر گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے، اُس رات ٹینکوں کو روکنے کی خاطر لوگ ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ لوگوں نے باغی فوجیوں کو ناکام بنانے کی خاطر ٹرکوں، بسوں اور گاڑیوں کو لے کر چھاؤنیوں کے دروازے بند کئے۔ ٹرک ڈرائیوروں نے فوجی لڑاکا طیاروں کو روکنے کے لیے فوجی ہوائی اڈوں میں اپنے ٹرکوں کو گھساکر فلائٹ ٹریکوں کو لاک کیا۔ لوگوں نے دھواں پیداکرکے لڑاکا طیاروں کو ٹیک آف کرنے سے روکنے کے لیے فوجی ہوائی اڈوں کے آس پاس موجود اپنے کھیتوں کو آگ لگا دی۔ ترکی کے عوام نے نہ صرف اپنی منتخب حکومت کو بچانے کے لیے بلکہ اپنے ملک کو اور اپنی عزت کو بچانے کے لیے شہید ہوئے، بہت سے بچے یتیم ہوئے اور خواتین بیوہ ہوئیں۔ ترکی میں شہیدوں کے خون نے جمہوریت کو بچایالیا۔ اگر اُس رات ترکی میں کوئی جمہوریت پسند شش و پنج میں پڑتا یا اپنی جان و مال کی فکر میں تامل کرتا توآج ترکی میں باغیوں کی حکمرانی ہوتی اور وہ لوگ ہمارے صدر کو پھانسی دینے کے لیے قانونی تیاری کرتے جس طرح انیس سو ساٹھ کے مارشل لا کے بعد ترکی کے ہر دل عزیز صدر عدنان مندیرس اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
ہم یہاں پانچ دنوں سے شہیدوں کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا وہ لوگ جو اِس خونی بغاوت کو ڈرامہ کہہ کر صورتحال کو کسی اور رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں اُن سب سے میری گزارش ہے کہ اگر اُن لوگوں میں انسانیت اور اُن کے دلوں میں انصاف نام کا کوئی احساس ہے تو کم از کم اپنی رجب طیب ایردوغان دشمنی کی وجہ سے ترکی پر حملہ کرکے ہمارے شہیدوں کے خون کا مذاق نہ اڑائیں۔