مولانا زبیر احمد صدیقی
(ناظم وفاق المدار س العربیہ جنوبی پنجاب)
حمد وثناء رب لم یزل کے واسطے جس نے کائنات وعالم کو بنایا، درودو سلام سیدِکونین صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور جنہوں نے کائنات وعالم کو سنوارا۔ امابعد!
بلاشبہ اسلام دینِ فطرت اور معاشرتی مذہب ہے۔ اسلام نے معاشرہ کے ضعیف، مجبور، ناتواں اور بے بس طبقات کے حقوق کو دوٹوک اور اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ خواتین کے سلسلہ میں اسلام کی تعلیمات اور ہدایات تمام طبقات کے حقوق سے زیادہ اور تاکیدی ہیں۔ خواتین کوشریعت نے جو حقوق دیے ہیں شاید دیگر طبقات کو اتنے حقوق نہیں ملے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی ایک مستقل سورت خواتین کے احکام اور نام کے ساتھ مختص کی گئی یعنی سورۃ النساء (خواتین کی سورت) علاوہ ازیں سورۃ النور، سورۃ الطلاق اور بعض دیگر سورتوں میں بھی خواتین کے حقوق کو اجاگر کیا گیا۔ رحمتِ دوعالم ﷺ کی خواتین کے متعلق تعلیمات بھی دوٹوک، واضح اور لاریب ہیں۔ آپ ﷺ نے صرف زبانی قوانین ہی ارشاد نہیں فرمائے بلکہ عملاً خواتین بالخصوص ازواجِ مطہرات وبنات کے ساتھ حسنِ سلوک کا شاندار مظاہرہ فرماکر اُمت کے لیے راہ متعین فرمائی۔
اِس سے قبل کہ زیرِ نظر بل اور اس کے ممکنہ معاشرتی خرابیوں کا جائزہ لیں، ضروری محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کے متعلق اسلام کی تعلیمات کا اجمالی خاکہ پیش کردیا جائے۔ اس لیے کہ اِس بل کی پنجاب اسمبلی سے منظوری کے بعد حکومتی اور نشریاتی اداروں کی جانب سے مذہب، اہل مذہب یعنی علماء کرام کے خلاف یہ منفی تأثر قائم کیا جارہا ہے کہ یہ طبقہ خواتین کے سلسلہ میں تنگ نظر اور العیاذ باﷲ مذہب کی تعلیم اِس سلسلہ میں ناقص ہے۔ ذیل میں سورۃ النساء میں خواتین سے متعلق ذکر کیے گئے قوانین کا اشاریہ ذکر کیا جارہا ہے:
(۱)…… خواتین کو مہر کی ادائیگی کی تاکید (النساء:۴)
(۲)…… خواتین کے لیے وراثت کی ادائیگی اور اُن کے حصص کی تفصیل (النساء: ۱۲، ۱۱، ۷)
وراثت میں حصص کی تفصیل بلحاظ بیٹی، ماں، بیوی، اور بعض صورتوں میں بہن وغیرہ ایضاً
(۳)…… بدکارہ بیوی کی اصلاح کاطریقہ (النساء: ۱۶)
(۴)…… خواتین پر ظلم وستم سے منہی (النساء: ۲۰،۱۹)
(۵)…… وہ خواتین جن سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں اُن کی فہرست (النساء: ۲۳تا ۲۲)
(۶)…… مہر کی کمی بیشی کی صورت (النساء:۲۴)
(۷)…… خواتین وحضرات کو مخالف جنس کی آرزو سے ممانعت (النساء: ۳۲)
(۸)……مردوں کی درجہ میں خواتین سے فوقیت اور اس کے اسباب (النساء: ۳۷)
(۹)…… نیک خواتین کون ہیں؟ اور اُن کے اوصاف (النساء: ۳۴)
(۱۰)…… جھگڑالو بیوی کی اصلاح کا طریقہ کار (النساء: ۳۴)
(۱۱)……زوجین میں مصالحت کی ترغیب اور طریق کار (النساء: ۳۵)
٭……خواتین کے سلسلہ میں قرآن کریم نے مختلف مقامات پر جو ہدایات ارشاد فرمائیں، اُن کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:
(۱۲)…… شوہر کی حیثیت کے مطابق بیوی کا نفقہ بذمہ شوہر (البقرہ: ۲۳۶)
(۱۳)…… اولاد کی پرورش کرنے پر بھی بیوی کا نفقہ بذمہ شوہر (البقرہ: ۲۳۳)
(۱۴)…… خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک (النساء: ۱۹)
(۱۵)…… نکاح اور طلاق کی صورت میں ایام عدت میں سکنی (رہائش) بذریعہ شوہر(الطلاق: ۶،۲،۱)
(۱۶)…… تنازعہ کی صورت میں زوجین کو باہمی صلح (شرعی تقاضوں کے مطابق) سے نہ روکنے کا حکم (البقرہ: ۲۳۲)
(۱۷)…… بعد از طلاق بھی حسنِ سلوک کی ہدایت (البقرہ: ۲۴۱)
٭…… خواتین سے متعلق جناب رسول اﷲ ﷺ کے ارشادات وغیرہ کا ذخیرہ بھی کافی زیادہ ہے۔ ذیل میں چند احادیث نبویہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتسلیم ھدیتہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں:
۱)…… صالحہ خاتون بہترین خدائی تحفہ:
یحدث عن عبداﷲ بن عمرو بن العاص أن رسول اﷲ ﷺ قال: ان الدنیا کلھا متاع وخیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ۔ (سنن النسائی:۳۷۷/۶)
﴿دنیا سارا کا سارا مال ہے اور دنیا کا بہترین سامان عورت ہے﴾
۲)…… خواتین سے متعلق جناب رسول اﷲ ﷺ کاپالیسی بیان:
عن سلیمان بن عمروبن الاحوص ……فقال الاواستوصو بالناس خیراً فانما ھن عوان عندکم لیس تملکون منھن شیئاً غیر ذالک الا أن یأتین بفاحشہ مبینۃ فان فعلن فاھجروھن فی المضاجع واضربوھن ضرباً غیر مبرح فان أطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا الا أن لکم علیٰ نسائکم حقا ولنسائکم علیکم حقا فأما حقکم علیٰ نسائکم فلا یوطئن فرشکم من تکر ھون ولا یأذن فی بیوتکم من تکرھون ألا وان حقھن علیکم أن تحسنوا الیھن فی کسوتھن وطعامھن۔(سنن الترمذی:۲۷۳/۵)
راوی نے حدیث بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کیا اور کہا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’خبردار میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قید ہیں اور تم اُن پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو۔ البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں تو اُنہیں اپنے بستر سے الگ کر دو اور اُن کی معمولی پٹائی کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو اُنہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش نہ کرو۔ جان لو! تمہارا تمہاری بیویوں پر اور اُن کاتم پر حق ہے۔ تمہارا اُن پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر اُن لوگوں کو نہ بٹھائیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیں اور اُن کاتم پر یہ حق ہے کہ تم اُنہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔‘‘
۳)……بیویوں کے حقوق کاتعین:
عن حکیم بن معاویۃ القشیری عن ابیہ قال: قلت یارسول اﷲ! ما حق زوجۃ أحدنا علیہ؟ قال :’’أن تطعمھا وتکسوھا اذا اکتسبت ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت۔‘‘
رواہ احمد وابوداود وابن ماجہ (مشکوٰۃ المصابیح: ۲۴۰/۲)
﴿حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہاکہ میں نے عرض کیا: ’’ یا رسول اﷲ! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اُس کے شوہر پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہ جب تم کھاؤ تو اُس کوبھی کھلاؤ، جب تم پہنو تو اُس کو بھی پہناؤ اور اُس کے چہرے پر مت مارو نہ اُس کو بُرا کہو اور نہ یہ کہو کہ اﷲ تیرا بُرا کرے اور اس سے صرف گھر کے اندر ہی علیحدگی اختیار کرو﴾
۴)……خواتین کے معاملہ میں چشم پوشی کا حکم:
عن ابی ھریرہ قال: قال رسول اﷲ ﷺ :’’استوصوا بالنساء خیراً فانھن خلقن من ضلع وان اعوج شی فی الضلع أعلاہ فان ذھبت تقیمہ کسرتہ وان ترکتہ لم یزل أعوج فاستوصوا بالنساء۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح:۲۳۵/۲)
﴿حضرت ابوھریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت کرو، اس لیے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے، جوٹیڑھی ہے اورسب سے زیادہ ٹیڑھا پن اس پسلی میں ہے جواُوپر کی ہے۔ لہٰذا اگر تم اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اُس کو توڑ دو گے اور اگر پسلی کو اپنے حال پرچھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی کی ٹیڑھی رہے گی۔ اس لیے عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت کرو﴾
۵)…… بیویوں میں انصاف نہ کرنے کی سزا:
وعن ابی ھریرہ عن النبی ﷺ قال: ’’اذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینھما جاء یوم القیامہ وشقہ ساقط۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: ۲۳۴/۲)
﴿حضرت ابوھریرہؓ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کے نکاح میں دو بیویاں ہوں اور وہ اُن کے درمیان عدل وبرابری نہ کرتا ہو، تو وہ قیامت کے دن اِس حال میں آئے گا کہ اُس کا آدھا دھڑ ساقط ہو گا﴾
۶)…… خواتین پرتشدد کی ممانعت:
وعن عبداﷲ بن زمعۃ قال: قال رسول اﷲ ﷺ :’’لا یجلد أحدکم امرأتہ جلد العبد ثم یجامعھا فی آخر الیوم‘‘ وفی روایۃ: ’’یعمد أحدکم فیجلد امرأتہ جلد العبد فلعلہ یضاجعھا فی آخر یومہ۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: ۲۳۶/۲)
﴿حضرت عبداﷲ بن زمعہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے اور پھر دن کے آخری حصے میں اُس سے صحبت کرے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے حالانکہ شاید وہ اُسی دن کے آخرحصہ میں اُس سے ہم بستر ہو﴾
۷)…… شوہر کی فرماں برادر زوجہ کے لیے بشارت ِجنت:
عن انس قال: قال رسول اﷲﷺ :’’المرأۃ اذا صلت خمسھا وصامت شھرھا وأحصنت فرجھا وأطاعت بعلھا فلتدخل من أی أبواب الجنۃ شائت۔‘‘ رواہ أبو نعیم فی الحلیہ (مشکوٰۃ المصابیح:۲۳۹/۲)
﴿حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت کہ رسول اﷲ نے فرمایا: ’’جب عورت پانچ وقت کی نمازیں پڑھے اور پورے مہینے کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کرے تو وہ جنت کے جس دورازے سے چاہے داخل ہوجائے ﴾
۸)…… بہترین بیوی کون؟
عن أبی ھریرہ قال قیل لرسول اﷲ ﷺ أی النساء خیر قال التی تسرہ اذا نظر وتطیعہ اذا أمر ولا تخالفہ فی نفسھا ومالھا بما یکرہ۔ (سنن النسائی: ۳۷۷/۶)
﴿حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا گیا کہ بہترین عورت کون سی ہے تو فرمایا: ’’وہ عورت جب اُس کا خاوند اُس کی طرف دیکھے تو وہ خوش کردے اور جب شوہر اُس کو کوئی حکم کرے تو وہ اُس کو بجا لائے اور اپنی ذات اور اپنے مال میں اُس کے خلاف کوئی ایسی بات نہ کرے جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو﴾
۹)……آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ کے ساتھ حسنِ معاشرت:
عن عائشہ انھا کانت مع رسول اﷲ صل اﷲ علیہ وسلم فی سفر قالت فسابقتہ فسبقتہ علی رجلی فلما حملت اللحم فسابقتہ فسبقنی قال ھذہ بتلک السبقتہ۔ رواہ ابودود (مشکوٰۃ)
حضرت عائشہ جو ایک سفرمیں رسول اکرم ﷺ کے ہمراہ تھیں، فرماتی ہیں کہ میں آنحضرت کے ساتھ اپنے پیروں کے ذریعہ دوڑی (یعنی ہم دونوں نے دوڑ میں مقابلہ کیا) اور میں آپ ﷺ سے آگے نکل گئی۔ پھر جب میں فربہ ہو گئی تو پھر ہم دونوں کی دوڑ ہوئی اور اس مرتبہ آنحضرت ﷺ مجھ سے آگے نکل گئے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس مرتبہ میرا آگے نکل جانا پہلی مرتبہ تمہارے آگے نکل جانے کے بدلہ میں ہے۔ (یعنی پہلی مرتبہ تم جیت گئی تھیں اِس مرتبہ میں جیت گیا، لہٰذا دونوں برابر رہے)
۱۰)…… شوہر کے حقوق:
عن أبی ھریرہ قال: قال رسول اﷲ ﷺ: ’’اذا دعا الرجل امرأتہ الی فراشہ فأبت غضبان لعنتھا الملائکۃ حتیٰ تصبح۔‘‘ متفق علیہ ۔ وفی روایۃ لھما قال: ’’والذی نفسی بیدہ مامن رجل یدعو امرأتہ الی فراشہ فتأبی علیہ الا کان الذی فی السماء ساخطا علیھا حتیٰ یرضی عنھا۔ (مشکوٰۃ المصابیح: ۲۳۷/۲)
﴿حضرت ابوھریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جب مرد اپنی عورت کو صحبت کے لیے بلائے اور وہ غصے سے انکار کردے تو ملائکہ اُس پر صبح ہونے تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے، فرمایا: ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جوکوئی اپنی بیوی کو صحبت کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے تو آسمانوں میں رہنے والا (اﷲ تعالیٰ) اُس سے ناراض رہتا ہے، یہاں تک کہ شوہر اُس سے راضی ہو جائے﴾
مذکورہ بالا سطور سے واضح ہوچکا ہے کہ اسلام خواتین کا محافظ اور حقوق دہندہ ہے۔ دینِ فطرت نے نہ صرف حقوق نسواں مرحمت فرمائے بلکہ خواتین کے گھر بسانے کے لیے اپنے پیروکاروں کو تقویٰ، خوفِ خدا، روزِ حشر کی مسؤلیت کا احساس بھی دلایا۔
ایک عرصہ سے اسلام دشمن قوتیں نہ صرف اسلام کو بدنام کرنے کی سعی مذموم میں مصروف ہیں بلکہ اسلامی اقدار کے استہزا، اسلامی تہذیب کے خاتمہ اور معاشرہ میں بے راہ روی کے فروغ کے لیے شب وروز ایک کیے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ذرائع بلاغ کو بزورِ زَر استعمال کرکے عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کے دباؤ پر حکومتوں سے غیر شرعی، غیر اخلاقی غیر معاشرتی قوانین بھی بنوارہی ہیں۔
حال ہی میں اس کی ایک مثال سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں تحفظِ خواتین 2016ء بل منظور کیا گیا۔ باوجودیہ کہ صوبائی اسمبلی سے ایک بڑی تعداد اراکین کی غیرحاضر تھی، موقع کو غنیمت جان کر یہ غیر شرعی بل پاس کروا کر عجلت میں گورنر کے دستخط سے نافذ کردیا گیا۔ ہرچند کہ اِس بل کا پسِ منظر وپیشِ نظر خواتین سے انسدادِ تشدد بتایا جارہا ہے۔ حقیقت میں یہ یورپین ثقافت کاعکاس، قانونِ اسلام، آئینِ پاکستان اور معاشرتی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے والا قانون ہے۔
بل کاجائزہ:
تحفظ خواتین بل کے منظور کرنے کا سبب حکومتی اور حکومتی ہم نوا حلقوں کی جانب سے یہ بتایا جارہا ہے کہ خواتین پر تشدد کے انسداد کے لیے یہ قانون منظور کیا گیا۔ چنانچہ ڈائریکٹر محکمہ سماجی بہبود وبیت المال نے کمیٹی کو مسودہ قانون کے اغراض ومقاصد سے یوں آگاہ کیا، انہوں نے کہا:
’’عورتوں پر تشدد کے واقعات بڑھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا موجودہ قانونی نظام خواتین پر مظالم اور تشدد کی بجا طور پر نشاندہی نہیں کرتا۔ چونکہ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ خواتین کو تحفظ اور شیلٹر فراہم کرنے اور تشدد زدہ بشمول گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی بحالی کے لیے مؤثر نظامِ تحفظ قائم کیا جائے۔ مسودہ قانون کامقصد خواتین پر تشدد کو روکنا اور خواتین کاتحفظ وبحالی کا نظام قائم کرنا ہے۔ مسودہ قانون خواتین پر ہر قسم کے تشدد کامحاصرہ کرتا ہے بشمول گھریلو تشدد، جذباتی، نفسیاتی اور بدکلامی، معاشی استحصال، سٹاکنگ اور سائبر کرائمز۔ مسودہ قانون یہ تجویز کرتا ہے کہ اگر کسی متاثرہ شخص، باعتبار ایجنٹ یا ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن آفیسر کی جانب سے شکایت کی جائے اور عدالت اس بات سے مطمئن ہوکہ تشدد ہوچکا ہے یا واقع ہونے کاامکان ہے تو وہ عبوری حکم پروٹیکشن آرڈر، ریذیڈینس آرڈر اور مانیٹری آرڈر جاری کرسکتی ہے۔ اِن احکامات کی خلاف ورزی پر جرمانہ اور قید کی سزا مقرر ہے۔
یہ پروٹیکشن سسٹم کاقیام بشمول ویمن پروٹیکشن کمیٹی کی تقرری، پروٹیکشن سنٹرز (خواتین مراکز بسلسلہ تحفظ تشدد) اور متاثرہ عورتوں کے تحفظ اور ریلیف فراہم کرنے کے لیے پنجاب بھر میں مرحلہ وار پروگرام کے تحت شیلٹر ہومز کا اہتمام کرنے کی تصریحات بھی واضح کرتا ہے۔ تشدد سے تحفظ، خواتین مراکز کے قیام کا مقصد خواتین کی سہولت کے لیے ایک چھت تلے متفرق خدمات فراہم کرنا ہے۔ شیلٹر ہومز کی شق بھی اس لیے وضع کی گئی ہے کہ تشدد کی شکار خواتین اور اُن کے زیرِ کفالت بچوں کو بورڈنگ اور لاجنگ کی سہولت فراہم کی جائے۔ اس نے کمیٹی سے گزارش کی کہ مسودہ قانون جیسے اسمبلی میں متعارف کروایا گیا ہے، اسمبلی سے منظور کروانے کی سفارش کی جائے۔ کمیٹی نے آراء سننے اور ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ نیز محکمہ قانون وپارلیمانی امور کانکتہ نظر لینے اور مختلف نکات پر بحث کے بعد متفقہ طورپر سفارش کرنے کافیصلہ کیا کہ مسودہ قانون درج ذیل ترامیم کے ساتھ اسمبلی سے منظور کیا جائے۔‘‘
بل کاخلاصہ یہ ہے کہ خواتین پر تشدد کے انسداد کے لیے حکومت کی جانب سے درج ذیل اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں:
٭…… ایک ٹول فری نمبر مقرر کیا جائے گا۔ اُس نمبر سے کوئی بھی متاثرہ خاتون جسے اپنے اوپر تشدد کادعویٰ ہے، بغیر کسی خرچ کے فون کرسکے گی۔
٭…… ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن کمیٹی قائم کی جائے گی۔ کمیٹی کاسربراہ ہرضلع کا ڈی ۔سی ۔او ہو گا اور اُس کے ارکان درج ذیل ہوں گے:
A)……ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر (صحت)
B)……ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر (کمیونٹی ڈوپلمنٹ)
C)……نمائندہ ضلعی پولیس آفیسر
D)……ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن آفیسر (سیکرٹری)
حکومت ہر ضلع میں سول سوسائٹی اور مخیر حضرات سے چار غیر سرکاری ممبران نامزد کرے گی۔ یہ کمیٹی ٹول فری نمبر کی بہتری ونگرانی کے لیے نیز شیلٹر ہوم کے قیام، خواتین تنظیموں کے انداراج، خواتین کی قانونی مدد وغیرہ کے لیے اقدامات کرے گی۔
۳)…… خاتون پرجسمانی تشدد ہو (مارپٹائی) یا نفسیاتی تشدد، گھریلو تشدد، جذباتی، نفسیاتی، بدکلامی، معاشی استحصال اور سائبر کرائمز کاارتکاب ہو تو خاتون ٹول فری نمبر سے فون کرکے کمیٹی کو آگاہ کرے گی۔ متاثرہ خاتون خود یا اُس کا وکیل یا ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن آفیسر کی جانب سے عدالت کو شکایت کی جائے گی۔
٭…… نفسیاتی تشدد سے مراد متأثرہ شخص (خاتون) کی نفسیاتی ابتری جو اُس کی کم اشتہائی، خودکشی کی کوشش اور متاثرہ خاتون کی آزادی، حرکت محدود کرنے سے ثابت شدہ مریضانہ بے چینی جس کی تصدیق کمیٹی کی جانب سے مقرر کردہ ماہر نفسیات کردے، سب نفسیاتی تشدد میں شامل ہے۔
۴)……شکایت کنندہ خاتون پر مذکورہ بالا کسی بھی طرح کے تشدد کے مرتکب شخص کو عدالت پروٹیکشن آرڈر جاری کرے گی جس کے تحت……
٭…… اب یہ شخص خاتون سے کسی قسم کارابطہ نہیں کرسکے گا۔
٭……خاتون سے دور رہے گا۔
٭…… خاتون سے اتنے فاصلہ تک دور رہے گا، جس کاتعین عدالت کرے گی۔ یعنی اُسے شہربدر یاضلع بدر تک بھی کیا جاسکے گا۔
٭…… سنگین تشدد کی صورت میں جس سے خاتون کی زندگی یاشہرت کوخطرہ ہوا، تو مرد کو کلائی پر جی۔ پی۔ ایس ٹریکر بریسلٹ (نگرانی کاکڑا) پہنایا جائے گا۔ جس سے اُس شخص کی نگرانی کی جائے گی۔
٭……مدعی علیہ شخص اسلحہ وغیرہ جمع کرا دے، آئندہ کے لیے اسلحہ کا لائسنس حاصل نہیں کرسکے گا وغیرہ۔
۵)…… عدالت متاثرہ خاتون کے تحفظ کے لیے ریذیڈنس آڈر بھی جاری کرے گی جس کے تحت……
٭…… خاتون گھر سے بے دخل نہ کی جائے گی، اسی گھر میں قیام پذیر رہے گی یا شیلٹر ہوم منتقل کی جائے گی۔
٭……مدعی علیہ متأثرہ خاتون کی جائیداد وغیرہ اُس کے سپرد کرنے کاپابند ہوگا۔
٭…… مدعی علیہ یا اُس کے کسی رشتہ دار کو خاتون کی رہائش اور آنے جانے کی جگہ پر جانے کی اجازت نہ ہو گی۔
۶)……علاوہ ازیں عدالت اس مقصد کے لیے مالی آڈر بھی جاری کرے گی جس کے تحت ……
٭…… مدعی علیہ متاثرہ خاتون کے نان ونفقہ، بچوں کے نان ونفقہ اور متاثرہ خاتون کے طبی، کمائی کے نقصان کی تلافی کرنے کابھی پابند ہوگا۔
۷)…… متاثرہ خواتین کے لیے حکومت مرحلہ وار پروٹیکشن سنٹر اورشیلٹر ہومز تیار کرے گی۔
۸)……افسر برائے تحفظ خواتین کا تقرر کیاجائے گا۔
بل کے تفصیلی مطالعہ کے بعد بل کاخلاصہ اور ضروری اجزاء ذکر کیے گئے ہیں۔ قارئین! مذکورہ بالا بل کے نفاذ کی صورت میں کیا بل کا مقصد پورا ہوگا یاخواتین کے مسائل میں اضافہ ہو گا؟ اِس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔ ہمیں مذکورہ بالا مقصد سے کوئی اختلاف نہیں۔ بلاشبہ خواتین سے تشدد کاخاتمہ اور اُن کے ساتھ ناانصافی کاازالہ ضروری ہے اور اِس مقصد کے لیے تعزیراتِ پاکستان پہلے سے موجود ہیں۔ اگر قانون کی حکمرانی اور انصاف کے حصول کو یقینی بنالیا جاتا توشاید اِس بل کو لانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ تاہم بل میں چند چیزیں ناقابلِ قبول اور شریعت، معاشرت، تمدن اور تہذیب سے کسی طرح مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ یہ امور فساد، خاندانی تنازعات اور خاندانی نظام کی تباہی کاذریعہ ہیں۔ ذیل میں اُن کی نشاندہی کی جارہی ہے:
۱)…… تعزیرات پاکستان اور شرعی قوانین کی موجودگی میں اراکین اسمبلی کی ایک بڑی تعداد کے موجود نہ ہونے کے باوجود عجلت میں اسے منظور کروالینا باعثِ تعجب ہے۔ شرعی معاملات میں راہنمائی کے لیے آئینی ادارہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ موجود ہے۔ اس بل کی منظوری سے قبل ضروری تھاکہ اِسے شرعی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج دیا جاتا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کی اسمبلی نے یہی بل مذکورہ ادارہ کوا رسال کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی دباؤ میں یہ بل منظور کرکے شریعت، قانون اور تمدن کا مزاق اڑایا گیا۔
۲)……خواتین پر تشدد اسلام میں سخت منع ہے، ہم تشدد سے منہی کی چند نصوص شروع میں ذکر کرچکے ہیں۔ بل میں تشدد کی تعریف اور اِس جرم کی سزا دونوں شرعی لحاظ سے ناقابلِ قبول ہیں۔ تشدد کی تعریف میں جذباتی تشدد، نفسیاتی تشدد، بدکلامی وغیرہ کو شامل کرنا، اِسی طرح ایسا عمل جس سے نفسیاتی ابتری جو اُس کی کم اشتہائی، خودکشی کی کوشش تک پہنچ جائے، محلِ نظر ہے۔
شرعی اور معاشرتی طور پر مرد (باپ، بھائی، شوہر وغیرہ) کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیٹی/ بہن/ بیوی کی تربیت کے لیے اُسے ڈانٹ ڈپٹ کرے، قابلِ مواخذہ امور پر سرزنش کرے، اُسے نامناسب مقامات پر یا بلاوجہ آنے جانے سے منع کرے۔ جناب رسول اﷲ ﷺ نے تو اولاد کو ۱۰ برس کی عمر میں نماز کے ترک پر ایک حد تک مارنے کابھی حکم فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے:
’’سیدنا معاذ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے اہلِ خانہ پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کیجئے اور اُن سے اپنا عصا بغرضِ اصلاح نہ بٹھائے اور اُن کو اﷲ سے ڈرائے رکھے۔‘‘ (احمد:۳۳۸/۵ طبرانی)
ظاہر ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ اگر جائز امور کے لیے ہوتو شرعی حکم ہے لیکن بل میں اِسے تشدد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بیوی شوہر کے حکم کی عدولی کرے اور شوہر کے اظہارِ ناراضگی پرتکرار ہو جائے تو یہ بھی بدکلامی ہوئی، اِسے بھی تشدد کے زمرے میں لایا گیا۔ بیٹی، بہن، بیوی کو نامناسب وقت میں یانامناسب مقام پر آمدورفت سے منع کرنا بھی تشدد قرار دیا گیا ہے۔ شوہر، باپ، بھائی وغیرہ اگر اصلاح کی کوشش کریں، اِس پر خاتون ناجائز طور پر خودکشی کی کوشش کرے یاظاہر کرے تو اِن سب کوتشدد کے زمرے میں لاکر گویا گھروں میں فساد پھیلایا جارہا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا شقیں خلافِ شریعت ہیں۔
تشدد کی شکایت پر اقدامات قطع نظر اِس کے کہ شریعت یاانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں یانہیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ محض شکایت پر سزا اور غیر معاشرتی توہین آمیز سلوک، کیا انصاف کے تقاضوں کوپورا کرتا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ ابھی تو خاتون کی طرف سے شکایت ہوئی نہ تو عدالتی کاروائی ہوئی نہ شھادتیں سامنے آئیں۔ محض شکایت پر ……
٭……مرد کو گھر سے نکال دینا یاشہر بدر کرنا۔
٭…… خاتون سے رابطہ منقطع کرانا خواہ بیٹی، بہن یا بیوی ہی کیوں نہ ہو۔
٭…… بریسلٹ پہنا کراُس کی غیر محسوس انداز میں کڑی نگرانی کرنا حتیٰ کہ قضائے حاجت/ غسل وغیرہ کے وقت بھی اُسے یہ کڑا اُتارنے کی اجازت نہ ہو، کیا انصاف ہے؟
اگر خاتون سے محض بدکلامی ہو یا اُس کی شہرت کو نقصان پہنچے تو تشدد اور قابلِ گرفت، اگر مرد کے خلاف شکایت کرکے اُس کو اپنے ہی گھر سے نکال دیا جائے اور کڑے پہنا کراُس کی تذلیل کی جائے جبکہ کل ثابت ہو کہ شکایت غلط تھی، تو کیایہ تشدد نہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت مرد کی فطری، شرعی فوقیت کو سلب کرکے اُسے خاتون کا غلام اور ملازم بنانے کی سعی میں مصروف ہے، ورنہ ایسا قانون خلافِ فطرت ہے۔
مذکورہ بالا اقدامات سے کیا خواتین کو حقوق مل جائیں گے یا خواتین سرپرستوں اور خیر خواہوں سے محروم ہو کر تنہائی کی زندگی گزاریں گیں؟ کیا مرد ایسے اقدامات پر ایسی تذلیل کاباعث بننے والی خواتین سے کنارہ کش نہیں ہوں گے؟ کیا اِن حالات میں کوئی غیور شخص اسی خاتون کی کفالت کرسکے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن پر ٹھنڈے دل سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
۳)……ودھین پروٹیکشن کمیٹی میں سول سوسائٹی سے ۴ افراد لینے کامطلب یہ ہے کہ این۔ جی۔ اوزکو حکومتی اختیار دے کر غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کی جارہی ہے۔ کیا یہ عیاں نہیں ہوچکا کہ یہ طبقہ غیر ملکی فنڈنگ کے سہارے ملک میں عدمِ استحکام، فرقہ واریت، بے راہ روی، اسلام اورملک دشمن ودیگر ناقابل معافی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اب اِس بل کے ذریعے اس طبقہ کو بااختیار بنا کرغیر وں کے ایجنڈے کو پورا کیا جارہا ہے۔
۴)…… دارالامان اور شیلٹر ہومز کی تعمیر وآبادی کاری سے کیا خواتین بے گھر، بے سہارا ہوکر بے راہ روی اور کسمپرسی کی زندگی نہیں گزاریں گی؟ یقیناً ایسا ہی ہوگا۔ قبل ازیں ہر بڑے شہر میں دار الامان موجود ہیں اور وہاں خواتین قیام بھی کرتی ہیں۔ ان اداروں کی کارگردگی نیز خواتین پر اس ماحول کے اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ دارالامان اورشیلٹر ہومز کاقیام بہرحال اچھا اثر نہیں لائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا بل پاکستانی ثقافت بالخصوص اسلامی تعلیمات سے قطعی مختلف ہے۔ ایسا قانون اُس معاشرہ میں کارگر ہوسکتا ہے، جہاں مردوزن کا باہم تعلق رسمی اور معمولی ہو، جہاں میاں بیوی ایک دوسرے سے بیزار، اپنا اپنا روزگار، اپنے اپنے اکاونٹ، اپنا اپنا حلقہ نیز احباب اور دوست رکھتے ہیں۔ جہاں بوائے فرینڈز، گرل فرینڈز کو مسلمہ حیثیت حاصل ہو۔ اسلامی تعلیمات اور پاکستانی ثقافت میں باپ بیٹی، بھائی بہن یا میاں بیوی کا آپس میں تعلق غیر معمولی مستحکم، احترام اور محبت کا ہے۔ یہاں اِس قوم کی توہین آمیز دفعات معاشرہ میں فساد برپا کردینے کا سبب ہوں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اِس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پلیٹ فارم یا جید علماء ومشائخ کی آراء، شرعی اور معاشرتی تقاضوں میں ڈھالے تاکہ حقیقی معنوں میں خواتین کو اُن کے حقوق میسر آسکیں اور بجائے نفع کے اُن کا نقصان نہ ہو۔