مفکر احرار چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ
آج اگر آواز آتی ہے کہ سب کو کافر بناؤ، میں کہتا ہوں تم سب کافروں کو مسلمان بنا لو۔ مگر کس طرح بناؤ گے؟ باتوں سے یا کام سے، فساد کر کے یا پیار کر کے، جو اِن سوالات کے جواب ہے وہی طریقۂ کار ہے۔
غافلو! جو کرنے کی بات ہے اس سے ڈرتے ہو، جو ڈرنے کے کام ہیں ان کے لیے مرتے ہو۔ زبان تو قینچی ہے مگر خود عمل سے محروم ہیں۔ کہتے بہت کچھ ہیں، کرتے کچھ نہیں۔ جس کے گھر چوہے قلابازیاں کھاتے ہوں لباس فاخرہ اُسے کب زیب دیتا ہے۔ عمل سے عاری ہونے کا اور کیا ثبوت ہے کہ بے زری کا رونا بھی ہے اور مصائب کا احساس بھی ہے۔
راز فطرت سے بے خبر بھائیو! انسان کبھی نفرت سے مرغوب نہیں ہوتا۔ بلکہ محبت سے رجوع کرتا ہے۔ وہ کبھی اچھا اور سچا مشنری نہیں، جس کا دل محبت انسانی سے مَملُو نہ ہو اور دماغ نور شرافت سے منور نہ ہو۔ جب میں کتے کو بھی پیار کرتا ہوں تو دُم ہلاتا میری طرف آتا ہے۔ درندہ بھی پیار سے متاثر ہو جاتا ہے، انسان کی تو غذا ہی پیار و محبت ہے۔ یہ تو دوڑ کر اسی جگہ پہنچتا ہے جہاں یہ چیز میسر آتی ہے۔ اگر ہم ڈرائیں گے، دھمکائیں گے تو وہ ہم سے دور ہو جائیں گے۔ قبل اس کے کہ ہم کسی قوم یا فرد کو اسلام کی دعوت دیں، پہلے ان کے دل میں جگہ بنا لیں۔ ایسا نہ ہو کہ نفرت سے دل کا دروازہ بند ہو جائے۔ پریم و پیار کی لہریں جو دل سے اٹھتی ہیں وہی دوسروں کو بہا سکتی ہیں۔ محبت کا نور ہی دلوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ پیارسے! روشن آنکھیں، رعب و جلال شاہی سے زیادہ مرعوب کرنے والی ہوتی ہیں۔ ایاز کی نگاہِ الفت بار، محمود کی چشمِ خشمناک پر حاوی رہی ہے۔ راز عشق سے واقف جانتے ہیں کہ مطلوب کو مرغوب کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ محبوب کے مزاج و رجحان کو پاکر اس کی افتاد کے مطابق اپنے اعمال و افعال کو ڈھالا جائے۔ سب سے بڑی چیز جس کا مطلوب طالب ہے، وہ عدم تشدد کا اصول ہے۔