انتظار احمد اسد
ان کے والد محترم بچپن میں انہیں اجمیر شریف لے گئے وہاں انہوں نے خواجہ اجمیریؒ سے نہ صرف فیض حاصل کیا بلکہ خواجہ بزرگ نے بلند مرتبے کے اشارے بھی دیے۔آپ کی پیدائش 1900ء بمطابق 1318ھ بھیرہ ضلع سرگودھا میں ہوئی۔والد محترم مولانا عبدالعزیز بگویؒ استاذالکل مولانا غلام محی الدینؒ کے بیٹے اور مولانا احمد الدین بگویؒ کے بھتیجے تھے جو اس زمانے میں بادشاہی مسجد لاہور کے مہتمم اور خطیب تھے ۔اس خاندان کی علمی، تحقیقی اورمذہبی خدمات کا یہ عالم ہے کہ تاریخ لاہور ان کے بغیر نامکمل ہے اور شمالی پنجاب کے زیادہ تر علماء نے اس خانوادے سے خاندان ولی اﷲی کی انقلابی،فکری اور اجتہادی تعلیمات حاصل کیں۔
مولانا ظہور احمد بگوی کی ولادت کے وقت ان کے بڑے بھائی مولانا محمد ذاکر بگوی اور مولانا محمد یحییٰ بگوی لاہور میں مقیم تھے۔ والد محترم نے ولادت کی خبر دی اور ظہور احمد نام تجویز کیا ۔آپ کی تعلیم کا آغاز بھیر ہ میں ہوا ،ابھی کم سن ہی تھے کہ والد محترم 1908ء میں انتقال کر گئے۔آپ کی تربیت برادر محترم مولانا محمد ذاکر بگوی اور مولانا محمد یحییٰ بگوی نے کی۔آپ ان دنوں اپنی والدہ کے ہمراہ بھیرہ کے محلہ املی والا میں اس جگہ رہائش پذیر تھے جہاں مرزائی فرقے کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین بھیروی کا مسکن تھا اور لاہور کی بیگم شاہی مسجد میں مدفون مولانا غلام قادر بھیروی بھی اسی گلی میں رہتے تھے۔کسے علم تھا کہ یہ تینوں شخص مستقبل قریب میں برعظیم کے افق پر بجلی بن کر چھا جائیں گے۔
آپ نے ابتدائی دینی اور درسی کتب اپنے برادر مکرم مولانا محمد ذاکر بگوی سے پڑھیں جو پیر سیال حضرت محمد الدین سیالوی ؒ کے خلیفہ اجل تھے۔نہم تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ میں حاصل کی لیکن برادر مولانا محمد یحییٰ بگوی کے ٹرانسفر کی وجہ سے آپ سرگودھا منتقل ہوگئے اور یہیں سے آپ نے 1919ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔مولانا اس کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور تشریف لے گئے اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے داخلے اور اخراجات کے تمام امور خواجہ ضیاء الدین ثالث سیالوی ؒ کی مشاورت سے طے پائے۔لاہور میں آپ کا قیام کوچہ سراج الدین کشمیری بازار میں مفتی مظفر الدین کے ہاں رہا جو آپ کے بڑے بھائی مولانا محمد ذاکر بگوی ؒ کے سعادت مند شاگرد تھے ۔ابھی آپ اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھے کہ 8نومبر1920کو کلکتہ میں آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد ہوئی ،آپ نے مجلس خلافت میں کام کرنا شروع کردیا۔26اگست1920کو آپ نے اپنے برادر مکرم مولانا نصیر الدین بگوی ،ان کی اہلیہ اور شیر خوار بھتیجے افتخار احمد کے ہمراہ پہلا حج کیا ۔سفر حج سے لوٹے تو تحریک خلافت پورے برعظیم میں زوروں پر تھی۔آپ نے ترک موالات کی حمایت میں زعماء کے فتو ؤں اور فیصلوں کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور اور اس دہکتے آلاؤمیں کود گئے۔بھیرہ میں آپ معتمد مجلس خلافت مقرر ہوئے ۔آپ نے شعبہ صحافت کو چنا اور نومبر 1920کو بھیرہ سے رجسٹرڈ ایل نمبر 1256کے تحت ’’ضیائے حقیقت‘‘ کا اجراء کیا ۔اسی دوران حکیم عبدالمجید سیفی کے ہمراہ ضلع سرگودھا میں تحریک خلافت کو منظم کیا ۔اس دورمیں بیرسٹر محمد عالم سیکرٹری خلافت کمیٹی سرگودھا تھے۔حضرت پیر ضیاء الدین سیالوی ؒ کی سرپرستی میں آپ ضلعی مجلس خلافت سرگودھا کے ناظم مقرر ہوئے اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔مولانا ظہور احمد بگویؒ کو انگریز حکومت نے 15مارچ1922کو سرگودھا شہر سے گرفتار کیا اور جہلم اور راولپنڈی کی جیلوں میں ڈیڑھ سال قید رکھا۔1923میں آپ کو رہائی ملی لیکن انگریز سرکار آپ سے اس قدر خوف زدہ تھی کہ آپ کی خفیہ نگرانی کی جانے لگی۔اب بھیرہ کے اس سپوت نے اپنے لیے وہ پر خطر راہ متعین کر لی جس میں کانٹے اور صعوبتیں تھیں۔ضلع سرگودھا اور شاہ پور انگریز کے نمک خواروں ٹوانوں اور نونوں کا گڑھ تھا آپ نے یہاں آواز حق اور حریت و آزادی کا نعرہ بلند کیا یوں ضلع بھر کے پہلے سیاسی اسیر ٹھہرے۔
رہائی کے بعد ضلع بھر کے قصبات اور گاؤں کا دورہ کیااور مجلس خلافت کی شاخیں قائم کیں۔آپ نے 107شہروں اور دیہاتوں کے دورے کیے اور یہاں مبلغین اور معتمدین خلافت بھیجے۔مجلس خلافت میں آپ کی سرگرمیاں سات سالوں پر محیط ہیں۔اس زمانے میں مولانا بگویؒ نے سفری اخراجات کے کلیم کا فارم اس انداز سے مرتب کیا کہ خلافتی کارکن کی سرگرمیاں اور صعوبتیں نظروں میں گھومنے لگتی ہیں۔مولانا بگویؒ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو مجلس خلافت مرکزیہ ہند کی مجلس عاملہ کا رکن مقرر کیا گیا اور 25مئی 1924کو مجلس خلافت دہلی کے اجلاس میں بھی شامل ہوئے اور پھر لاہور اور امرتسر کے اجلاسوں میں آپ نے شرکت کی۔یہاں آپ کی ملاقات امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سے ہوئی اور ان سے وہ رشتہ قائم ہوا جو ہنوز دونوں خاندانوں میں جاری و ساری ہے۔تحریک خلافت کے دنوں میں آپ کے شہر بھیرہ میں جن زعماء نے قیام کیا صاحب’’ تذکار بگویہ‘‘کے مطابق ان میں مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی،مولانا ظفر علی خان ،سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا آزاد، گاندھی،نہرو،ماسٹر تارا سنگھ،مسز سروجنی نائیڈو،حسرت موہانی،خواجہ ضیاء الدین سیالوی،مظہر علی اظہر ،شیخ حسام الدین اور ڈاکتر ستیہ پال کے نام نمایاں ہیں۔
1923میں مولانا ظہور احمد بگوی ؒ کی شادی اس وقت کے بادشاہی مسجد کے خطیب اور چیفس کالج لاہور کے علوم اسلامیہ کے پروفسیر مولانا محمد شفیق بگوی کی دختر صفیہ بیگم سے ہوئی۔آپ شادی کے بعد آبائی محلہ املی والا بھیر ہ میں آگئے جہاں محترمہ نے اپنا درس قرآن شروع کیا جس نے اپنی انفرادیت کی بدولت جلد شہرت پکڑی اور علاقہ بھر کے خاص و عام خاندانوں کی مستورات اس میں شامل ہونے لگیں۔یوں اس درس قرآن نے رشد و ہدایت کا وہ دیا جلایا جس کے ثمرات آنے والی نسلوں کو منتقل ہوئے۔آپ کی سعادت مند اہلیہ نے بعارضہ سرطان جگر10ستمبر 1962کو بھیرہ میں وفات پائی۔
مولانا بگوی نے مولانا محمد حسین جو مولانا معین الدین اجمیری کے شاگرد تھے سے دوران قید جیل میں دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جو آپ کے ساتھ ہی اسیر تھے۔آپ نے یہاں تفسیر،حدیث،فقہ اور معانی کی تعلیم حاصل کی۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ نے حضرت اجمیری سے جو کہ خیرآبادی علماء کے اس سلسلے سے متعلق تھے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف زبردست جدوجہد کی تھی اور دارالعلوم دیوبند سے فارغ اور حضرت سیالوی ثالث کے مرید تھے اور سیال شریف میں مقیم تھے سے تکمیل تعلیم کی۔مولانا اجمیری جمعیت علمائے ہند کے نائب امیر،مجلس احرار اسلام ہند کے نائب صدر اور احرار کشمیر مومنٹ کے ناظم بھی رہ چکے تھے۔آپ خواجہ قمرالدین سیالوی کے بھی استاد تھے۔مولانا بگوی کے اندر پہلے ہی حریت کی آگ سلگ رہی تھی مولانا اجمیری نے اسے شعلہ جوالا میں بدل دیا ۔آپ بھٹی سے کندن بن کر برعظیم کے مسلمانوں کے لیے عظیم روحانی اور سیاسی راہ نما بن کر،اور قافلہ آزادی کے بے باک ہدی خواں بن کر میدان عمل میں آئے اور تاریخ میں وہ نقوش مرتب کر گئے جن سے کسی کو انکار نہیں۔
مولانا بگوی انگریز کے باغی اور ریاست و حکومت کے خلاف قرار پائے ۔ان حالات میں آپ نے 1925 میں رسالہ’’شمس الاسلام‘‘رجسٹرڈ نمبر 1855کے تحت اختر پریس سرگودھا سے جاری کیا یہ برعظیم کا وہ واحد جریدہ ہے جو آج بھی جاری ہے۔مولانا بگوی 1927میں مولانا ضیاء الدین ثالث سیالوی کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے جہاں کی مسند شیخ الحدیث پر وقت کے عظیم محدث مولانا انور شاہ کشمیری ؒ فائز تھے۔شاہ جیؒ نے پیر سال کی آمد پر دارالعلوم میں چھٹی کی اور دیوبند میں حضرت ثالث سیالوی ؒ کا شاہانہ استقبال کرتے ہوئے جلسہ منعقد کیا جس میں میرٹھ سے لیکر سہارنپور تک کے لوگ شریک ہوئے ۔حضرت کشمیری ؒ نے خود سپاسنامہ پیش کیا ،حضرت سیالوی کی طرف سے جوابی تقریر مولانا بگوی ؒ نے کی اور انہوں نے پیر سیال کی طرف سے وہ جملے کہے جس سے مسلمانوں میں اخوت، اتحاد اور یگانگت کا رشتہ مزید پختہ ہوا ۔آپ نے فرمایا حنفی ہم بھی ہیں لیکن اصلی حنفیت یہاں آکر دیکھی ہے۔پیر سیال کے ہمراہ مولانا بگوی کا قیام دارالعلوم دیوبند میں تین روز رہا۔
1927کے بعد آپ مستقل بھیرہ میں مقیم ہوگئے۔اپنی رہائش اندرون شہر سے جامع مسجد کی نامکمل ڈیوڑھی میں منتقل کی اب آپ نے اپنے آباء کے اس مرکز کی نشاط ثانیہ کرنے کا پروگرام ترتیب دیا ۔اس سلسلے میں بے سروسامانی کے عالم میں مذاہب باطلہ کی یلغار روکنے کے لیے آپ نے 5نومبر 1929کو ’’کل ہند مجلس مرکزیہ حزب الانصار‘‘قائم کی اور آپ اس کے امیر قرار پائے۔جو آج بھی باطل قوتوں سے برسر پیکار ہے۔اس کے تحت جامع مسجد بھیرہ میں تین روزہ جلسوں کی بناء ڈالی جس میں ہندوستان بھر کے تمام مسلمان طبقات دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور دیگر علمی حلقوں کے علماء کو وعظ کے لیے مدعو کیا جاتا تھا یہ مولانا کا اخلاص تھا کہ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف آپ نے دارالعلوم عزیزیہ میں تعلیم کا سلسلہ شروع کروایا ۔دنوں میں یہ ادارہ شمالی پنجاب میں معروف ہوگیا اور تشنہ علم کی سیرابی کے لئے دور دراز سے یہاں طلباء آنے لگے۔
مولانا بگوی ؒ سلسلہ مجددیہ نقشبندیہ سراجیہ میں کھولہ شریف ضلع میانوالی کے بانی خانقاہ سراجیہ حضرت مولانا ابو السعد احمد خان نقشبندی مجددی ؒ سے بیعت تھے اور آپ اپنے شیخ کے اتنے قریب تھے کہ وفات سے پہلے انہوں نے جو وصیت نامہ لکھا آپ ؒ کی وفات پر مجمع عام میں اسے سنانے والے مولانا ظہور احمد بگویؒ تھے۔آپ بیک وقت اپنے پیر خانے کندیاں شریف ،اپنے آباء کے پیر خانے سیال شریف اور چورہ شریف ایسے مرکز رشد و ہدایت کے آنکھوں کے تارے تھے۔
مولانا بگوی کی بدولت بھیرہ میں حزب الانصار کے سالانہ جلسوں میں پیر جماعت علی شاہ علی پوریؒ ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ،مولانا فیض الحسن آلو مہاروی ؒ،مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ،پیران سیال ثانی و ثالثؒ، مولانا لال حسین اخترؒ،سید نذیر الحق میرٹھی،مولانا عبدالشکور لکھنویؒ جیسے لوگ آتے رہے ۔
مولانا بگوی کثیر الجہت شخصیت تھے وہ تحریکی ذہن کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا ہنر بھی جانتے تھے۔ـ’’برق آسمانی بر خرمن قادیانی،صور اسرافیل ،تازیانہ نقشبندیہ،تذکرہ مشائخ بگویہ،اسلامی جہاز،خاکساری مذہب،ہدایات القرآن آپ کی معروف تصانیف ہیں۔اس کے علاوہ 10مارچ 1945کو حزب الانصار کے سولہویں جلسے میں آپ نے جو تقریر کی وہ ان کی آخری تقریر تھی،اس کے نوٹ مولانا مفتی سیاح الدین کاکا خیل ؒ نے لئے۔اس تقریر کو 1945 میں پہلی بار اور 2001میں دوسری بار’’شمس الاسلام‘‘کی اشاعت خاص کے طور پر شائع کیا گیا۔مولانا بگوی نے فرقہ باطلہ مرزائی کے گڑھ بھیرہ میں اس فرقہ کے سدباب کے لیے جو کام کیا اس کے لیے الگ صفحات درکار ہیں۔ حکیم نورالدین کے شہر میں آپ نے اس کی ذریت کا ناطقہ بند کر رکھا۔مناظرہ ہو یا مجادلہ غرض ہر راستہ اختیار کیا۔ سالانہ جلسوں میں مجلس احرار اسلام کے زعماء کو مدعو کیا اور اس فرقہ باطلہ سے مناظرہ بھی کیا۔اس سلسلے میں پہلا معرکہ میانی، دوسرا بھیرہ، تیسرا خوشاب،چوتھا مجوکہ،پانچواں سلانوالی،چھٹا سرگودھا ،ساتواں چک نمبر 37جنوبی سرگودھا، آٹھواں مڈھ رانجھا،نواں کوٹ مومن اور دسواں چک 9شمالی یاد گار ہیں۔اس سلسلے میں آپ نے مجلس احرار اسلام کے ساتھ اشتراک عمل کوبڑھاتے ہوئے 1935میں بھیرہ میں ’’احرار تبلیغ کانفرنس ‘‘کا انعقاد کیا ۔جس میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور شیخ حسام الدین نے خطاب کیا ۔ اس وقت کے اخبارات کے مطابق کسی بھی اجلاس میں حاضری بیس ہزار سے کم نہ تھی۔ مولانا بگوی تحریک مداح صحابہ لکھنو ء کے سلسلے میں مولانا عبد الشکور لکھنوی ؒ کے فرزند مولانا عبدالسلام لکھنوی کے ہمراہ گرفتار بھی ہوئے ۔
1945میں برعظیم کا یہ بطل حریت مختلف علاقوں میں خطاب کرتے ہوئے 24مارچ 1945کو چنیوٹ پہنچے کے بخار کا عارضہ لاحق ہوااور اسی حالت میں دوران سفر سرگودھا کے قریب 25مارچ1945کو جان جان آفرین کے سپرد کردی اور بعد از نماز ظہر حضرت صاحبزادہ غلام فخرالدین سیالوی ؒ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کو خانقاہ بگویہ میں آپ کے آباء کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ کے بھتیجے مولانا افتخار احمد بگوی آپ کے جانشین مقرر ہوئے۔ آپ کی وفات پر ہندوستان گیر ہر مسلک،طبقہ ہائے زندگی نے تقریر ،تحریر ،نظم و نثر کی صورت میں آپ کی خدمات پر ہدیہ عقیدت پیش کیا۔