نور اﷲ فارانی
پان کھانے کی عادت برصغیر میں صدیوں سے چلی آرہی ہے ۔ایک زمانہ تھا امیر غریب چھوٹے بڑے سب کو پان مرغوب خاطر تھا۔البیرونی نے جہاں ہندوستان کے دیگر رسوم کا ذکر کیا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اس ملک کے لوگ پان چونہ کے ساتھ کھاکر اور سپاری چباکر اپنے دانتوں کو سرخ کرتے ہیں‘‘۔ پان کی تاریخی اور سماجی اہمیت ومقبولیت کے پیش نظر شعرا اور ادبا نے پان کی قصیدہ نگاری میں خوب زور قلم صرف کیا ہے اور مختلف طریقوں پر اپنے اشعار میں پان کا ذکر کیا ہے۔امیر خسرو دہلوی نے ’’مثنوی قران السعدین‘‘میں فارسی نظم میں پان کی خوب تعریف کی ہے۔
چنانچہ ڈاکٹر محمد عمر لکھتے ہیں:امیر خسرو نے پان کی توصیف وتعریف بیان کرنے میں خوب زورِ قلم دکھایا ہے۔ انہوں نے پان کے بیالیس فوائد اور اسی تعداد میں نقائص بیان کیے ہیں۔امیر خسرو نے پان کی تعریف میں ایک من گھڑت حدیث بھی اپنی نظم کاحصہ بنایا ہے۔فرماتے ہیں :
تیزی او آلتِ قطع جزام قول نبی رفتہ علیہ السلام
اس شعر کے بارے میں ’’مثنوی قران السعدین‘‘کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ حدیث میں ہے کہ ’’ان فی الہند شجر ورقھا کاذن الفرس من اکل امن الجزام والبرص‘‘۔ہندوستان میں ایک درخت ہے جس کے پتے گھوڑے کے کان جیسے ہیں، جس نے بھی کھائے جزام اور برص سے محفوظ رہے گا۔(۲)
فارسی اور اردو شاعری میں سینکڑوں ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں مختلف تشبیہات اور استعارات کی صورت میں پان کا ذکر ہوا ہے۔ مصحفی غلام ہمدانی،حفیظ جونپوری، ارشد علی خان قلق،عبد الرحیم نشتر،ریاض خیر آبادی، اکبر الہ آبادی، میر تقی میر وغیرہم نے اپنے اشعار میں پان کا ذکر کیا ہے مؤخر الذکر نے تو بہت سارے اشعار پان کے ذکر سے مزین کیے ہیں۔
شوکت تھانوی نے اپنی کتاب ’’بارِ خاطر‘‘ میں مولانا ابوالکلام آزاد کی طرز پر مشاہیر علم وادب کو جو خطوط لکھے ہیں۔ ان میں مولانا آزاد کی چائے کی طرح پان کے تذکرے پر خوب زور قلم صرف کیا ہے۔ جیسے مولانا آزادؒ نے غبار خاطر میں چائے کا تذکرہ جابجا بڑی چاہ اور محبت سے کیا ہے۔ اس کی پیروڈی کرتے ہوئے شوکت تھانوی نے اپنی پان خوری کا تذکرہ بڑی کثرت سے اور بے تحاشا کیا ہے۔ مگر تحریر میں مولانا آزاد کا بانکپن پیدا کرنا اور اس کی ہوبہو نقل اتارنا کارے دارد۔ اور آزاد کے معجز رقم قلم جیسی رقمطرازی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ……
عمگروہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اگرچہ شوکت تھانوی خطوط کے اس مجموعہ کے آخر میں آخری خط اپنے نام لکھ کر بڑی خوش اسلوبی سے قلمِ آزاد کی اعجاز بیانی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کہاں مولانا آزاد کا انداز بیاں کہاں جناب کا قلم ……
ع کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
(یہ پورا خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جس میں وہ مولانا آزاد کی تحریر کی ندرت اور بانکپن کے گن گاتے نظر آتے ہیں اور آزاد کی پیروڈی کرنا گستاخی تصور کرتے ہیں اور خود کو اس گستاخی کا مرتکب قرار دیتے ہیں تحریر میں سلیس مزاح بھی جھلکتا ہے)
بطورِ نمونہ پان کی مناسبت سے شوکت تھانوی کا مولانا آزاد کے طرز پر ایک پیراگراف زینت مضمون ہے جو مولانا آزاد کی چائے کے تذکرے کا ایک نقل ہے:
’’ناچار اُٹھ بیٹھا اور پاندان کی طرف دستِ طلب بڑھا دیا۔ میں اس سے پہلے پان کو صبوحی کہتا ہوں اور اس پان کو بنانے میں خاص اہتمام سے کام لیتا ہوں پان کے پتے پر کتّھا اور چونا اس احتیاط سے لگاتا ہوں جیسے کوئی ماہر مصور اپنے کسی حاصل زندگی نقش میں رنگ بھر رہا ہو۔برگ سبز پر کتھے اور چونے کا توازن درست کرکے اس کو اپنے سامنے رکھے بیٹھا ہوں کہ چند منٹ گزر جائیں اور کیف وتوازن اپنے معیاری درجے پر آجائے تو سڈول ترشی ہوئی چھالیہ اس پر ڈالوں،الائچی کے دانے اس پر سے نچھاور کروں۔قوام کا قشقہ اس کی پیشانی پر لگاؤں۔نظر بد سے بچانے کے لیے تمباکو کے کالے دانے اس پر سے واروں،گلوری بناؤں اور اس گلوری سے اپنی بے رنگ زندگی کو رنگین بنانے کی کوشش کروں‘‘۔(۳)
شوکت تھانوی کا مولانا عبدالماجد دریابادی کے نام لکھے خط کا یہ اقتباس بھی دلچسپی سے خالی نہیں، جس سے ان کی پان خوری کا ذوق بخوبی معلوم ہوتا ہے۔لکھتے ہیں:
جنت کے متعلق بہت کچھ سن رکھا ہے بہت کچھ پڑھا ہے، مگر پان کا کہیں ذکر نہیں۔ اعمال تو خیر ایسے نہیں کہ اپنا جنت جانا طے سمجھوں مگر خیال یہی آتا ہے کہ فرض کر لیجئے جنت نصیب ہوبھی گئی اور وہاں پان نہ ملا تو کیا ہوگا……
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو (۴)
جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ پان خوری کی عادت برصغیر میں صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ چھوٹے بڑے امیر وغریب سبھی شوق سے پان کھایا کرتے تھے۔ متعدد حکمران سپہ سالار اصحاب فکر ودانش،ادیب علما اور مشائخ پان خوری کی عادت کے رسیا رہے ہیں۔ علمائے کرام ومشائخ عظام میں سے حضرت شیخ الہند محمود حسن گنگوہی ،مولانا حسین احمد مدنی، مولانا انور شاہ کشمیری،مولانا مناظر احسن گیلانی،مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری وغیرہ جیسے اساطین علم وعمل پان شوق سے کھایا کرتے تھے۔ مفتی عزیز الرحمن بجنوری، شیخ الہند کی پان خوری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’آپ کو پان کھانے کی بھی عادت تھی۔ ایک ڈبیہ میں پان اور بٹوے میں چھالیہ تمباکو ہوتا تھا۔ سفر،حضر میں ساتھ رہتا۔ اثنائے درس میں بھی چند مرتبہ کھاتے۔ فرماتے میں نے ایک مرتبہ مالٹا میں پان چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ مگر ہندوستان سے پان چلے گئے تھے۔ اسی کو خشک کرکے بہت دنوں تک کھاتا رہا غرض کہ پان چھوڑنے کی تکلیف نہ ہوئی‘‘۔(۵)
مولانا ابوالکلام آزاد کو چائے کی کہانی کی طرح پان کی کہانی بھی خوب یاد تھی۔پان کی تاریخ،پان کی قسمیں، مختلف زمانوں اور ملکوں میں پان بنانے کی ترکیبیں، غرض پان کے حوالے سے متعدد باتیں اور نکات ان کے عجائب روزگار حافظہ کی زینت تھے۔عبدالرزاق ملیح آبادی ان کی پان خوری کے متعلق لکھتے ہیں:مولانا پان نہیں کھاتے تھے لیکن جب کھانے پر آتے تھے توہرپانچ منٹ پر طلب کرتے تھے اور تمباکو اتنی ڈالتے تھے کہ حیرت ہوجاتی تھی۔ عبد الرزاق ملیح آبادی نے پان کے حوالے سے مولانا آزاد کا یہ قول بھی نقل کیا ہے: ’’پان بغیر تمباکوکے کھانا، گناہ بے لذت ہے اور مذاق سلیم کی عدالت میں سنگین جرم‘‘۔(۶)
بہر حال علمائے کرام کی پان خوری کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں یہاں اس مضمون میں امیر شریعت کی پان خوری کے حوالے سے چند واقعات کی روشنی میں ان کی بھر پور زندگی کے اس پہلو پر نظر ڈالنا ہے۔جناب جانباز مرزا شاہ جی کی پان خوری کی عادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پان کھانے کی سخت عادت ہوگئی تھی، لیکن بغیر تمباکو کے کھاتے، بازار میں چلتے پھرتے نہیں۔ گھر میں یاتقریر سے پیشتر۔ اس کا سامان بھی چائے کی طرح کبھی الگ نہیں ہوا تھا‘‘۔(۷)
وہ پان خود بناتے،لوازمات خود شامل کرتے گلوری بناتے اور مزے سے منہ میں رکھ لیتے۔ متعدد ملاقاتیوں نے اپنے تاثراتی مضامین میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہم نے ان کواپنے بیٹھک میں بوقت ملاقات پان بناتے لوازمات کو ترتیب دیتے پایا۔چنانچہ شورش کاشمیری لکھتے ہیں:
’’پان شروع سے کھاتے تھے ایک چھوٹا سا پان دان ساتھ رکھتے، چھالیا خود کاٹتے،چونا خود بناتے اور کتھابھی خود پکاتے تھے، اس پان خوری میں دانت بھی گھلا دئیے تھے‘‘۔(۸)
شاہ جی کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں مزید لکھتے ہیں:’’جب پان کھانے کی عادت پختہ ہوگئی تو تیلیوں کی ایک غریب الحال ٹوکری میں پانوں کی ڈھولی، چونا، کتھا اور سپاری کی گولیاں کھدر کے ٹکڑوں میں لپیٹ لپاٹ کے رکھتے تھے‘‘۔(۹)
خطوط امیر شریعت میں پان کا ذکر:
چائے کی طرح شاہ جی نے پان کا تذکرہ بھی اپنے مکتوبات میں کیا ہے۔چونکہ جیل کی فضا میں انسان کو وہ کچھ میسر نہیں ہوتا جو اسے مطلوب ہو اس لیے اکثر قیدیوں کی برسوں کی عادت غیر ارادی طور پر چھوٹ جاتی ہے۔لیکن پھر آزاد ہونے اور اس چیز کے میسرہونے پر دوبارہ وہ عادت عود کر آتی ہے۔ شاہ جی سکھر جیل سے اپنی صاحبزادی ام کفیل بخاری رحمہا اﷲ کے نام اپنے مکتوب میں چائے اور پان کی عادت چھوڑنے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چائے چھوڑ دی ہے اور کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔پان بھی چوبیس گھنٹے میں ایک دو دفعہ۔یہ دونوں مصیبتیں دور ہوگئی ہیں اور یہ اﷲ تعالی کا بڑا فضل وکرم میرے حال پر ہے۔یہ اراد ۃً نہیں چھوڑیں بلکہ خواہش ہی جاتی رہی‘‘۔(۱۰)
۷مئی ۱۹۵۳ کے مکتوب میں لکھتے ہیں:’’باقی اﷲ کے فضل سے چائے،پان،برف اس وقت تو سب سے نجات حاصل ہے اور کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی‘‘۔(۱۱)
۹؍جون۱۹۵۳ کے مکتوب میں چائے اور پان کی برسوں کی عادت جیل کی محدود فضا میں ترک کرنے کی وجہ بتائے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چائے اور پان کا چھوڑنا بھی بلا وجہ نہ تھا۔کچھ دقتیں تھیں اور اس سے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔اگر چہ برسوں کی عادت تھی۔ دراصل ہماری کلاس، سی کلاس تھی۔آج دوتین دن ہوئے،ہمیں بی کلاس دی گئی ہے۔ اس میں چائے وائے بھی مل جاتی ہے اور غذا میں بھی خاصا فرق ہے اور جو رعایتیں سیکورٹی قیدی کی حیثیت سے حاصل تھیں، وہ بھی بحال ہیں‘‘۔(۱۲)
شاہ جی نے جیل سے رہا ہونے کے بعد چائے نوشی اور پان خوری کی عادت ترک نہیں کی۔ برسوں کی عادت ایسی آسانی سے کیسے چھوٹ جاتی۔ ہاں آخر عمر میں پان خوری کا مشغلہ چھوڑ دیا تھا جس کا تذکرہ ان کے فرزند ارجمند کے حوالے سے اس مضمون کے آخر میں ’’ختامہ مسک‘‘کے طور پر شامل ہے۔
پان میں زہر :
۱۹۴۲؍ میں(۱۳) ان کو شجاع آباد (ضلع ملتان)میں جلسہ کے دوران زہر دیا گیا۔ گلے میں کثرت تقریر سے کچھ خرابی محسوس ہوئی ہوگی۔ ایک احرار رضا کار سے کہا کہ پان بنوا لا۔ اتنا سنتے ہی کوئی مخالف اٹھا اور رضاکار سے پہلے پان کی دوکان پر پہنچ کر پان لگوایا اور شیشی میں سے کچھ نکال کر اس میں ڈالا اتنے میں رضاکار نے پہنچ کر دکان دار کو پان لگانے کا کہا تو وہ شخص بولا یہ میں نے لگوایا ہے۔ تمہیں جلدی ہے تم لے جاؤ میں اور لگوالیتا ہوں۔ سادہ لوح رضاکار وہی پان لے کر آگیا اور اباجی کو دے دیا۔ رضاکار پر تو کوئی شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اباجی نے پان لے کر منہ میں رکھ لیا۔پیک نگلتے ہی انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے اندر سے کوئی چیز کاٹ رہی ہے۔ ہتھیلی پر تھوڑی سی پیک ڈالی تو ہتھیلی کالی ہوگئی۔ رضاکار سے کہا کہ مجھے کیا ڈال کر دیا ہے؟ اس نے کہا میں نے خود نہیں لگوایا ہے اِس طرح ایک آدمی نے دیا تھا۔اسی وقت لوگ پان والے کے پاس دوڑے گئے۔ اس نے کہا میں نے کچھ نہیں ڈالا جس شخص نے لگوایا تھا،اس نے شیشی میں سے کچھ ڈالا تھا، یہ ویسے ہی لے گیا۔ پان تو اباجی نے تھوک دیا مگر شدید تکلیف شروع ہوگئی۔فرماتے ایسا لگتا تھا کہ انتڑیاں کٹ کر نکل جائیں گی۔ جوں توں کر کے تقریر ختم کی اور قاضی احسان احمد صاحب کے مکان پر پہنچے جہاں قیام تھا۔ ڈاکٹر نے آکر کہا کہ زہر دیا گیا ہے۔ قاضی صاحب کے والد قاضی محمدامین صاحب روتے پھرتے تھے کہ اگر میرے ہاں شاہ جی کو کچھ ہوگیا تو میں کیا منہ دکھاؤں گا۔ پھر اجابتیں اور قے شروع ہوگئی کچھ دن وہیں علاج کیا پھر لاہور لائے گئے۔ ہم نے اخبار میں ہی پڑھا۔ لاہور میں حضرت مولانا احمد علی رحمۃ اﷲ علیہ کے برادر نسبتی ڈاکٹر عبدالقوی لقمان صاحب کے زیر علاج رہے اور کافی دنوں بعد گھر آئے۔ بہت دن بخار اور قے میں مبتلا رہے اور انتہائی ناتواں ہوگئے۔ جس شخص نے زہر دیا اس کا نام سید عنایت اﷲ شاہ تھا۔ پولیس نے اسی رات اسے گرفتار کرلیا۔جب اسے اباجی کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’بھائی میں نے آپ کا کیا نقصان کیا تھا؟‘‘ پھر پولیس افسر سے فرمایا: ’’بھائی میں اس شخص سے کوئی انتقام نہیں لینا چاہتا میں نے اسے معاف کیا تم بھی معاف کردو اور اﷲ تعالی بھی اسے معاف فرمائے‘‘۔(۱۴)
شورش کاشمیری نے اجمالا اس واقعے کا ذکر اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح کیا ہے :’’مئی ۱۹۳۳ء میں شاہ جی مدرسہ عربیہ شجاع آباد میں مدعو تھے وہاں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو قاضی احسان احمد سے فرمائش کی، پان نہیں کھلاؤ گے؟ ایک صاحب پاس کھڑے تھے انہوں نے پان پیش کیااور چلے گئے۔ شاہ جی نے پان کو منہ میں رکھا تو چِلا اٹھے: ’’زہر دے دیا ہے۔‘‘ فورا تھوکا، چہرے کا رنگ سیاہ ہوگیا، ڈاکٹر لچھمن داس ریٹائرڈ سول سرجن (۱۵)رات تین بجے تک زہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے اور اس طرح موت کا وار ناکام ہوگیا‘‘۔(۱۶)
پھر آپ نے حکومت کرلی :
شاہ جی بیٹھک میں بیٹھے پان لگارہے تھے۔مولانا غلام مصطفی صاحب بہاولپوری بھی موجود تھے۔انہوں نے از راہ تفنن کہا: ’’شاہ جی !اگر میری حکومت ہو تو پان سگریٹ پر پابندی عائد کردوں‘‘۔ شاہ جی نے شفقت ومحبت بھری نظروں سے مولانا کو دیکھا اور فرمانے لگے:بیٹا آپ نے بھی کرلی حکومت‘‘۔
اور پھر ایک واقعہ سنا ڈالا کہ احرار کے عالمِ شباب میں ایک بہت بڑے اجتماع سے میں مخاطب تھا اور احرار کے پروگرام کو پیش کر رہا تھا کہ’’ اگر احرار کی حکومت ہوئی تو چکلے بند اور فحاشی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ شرابی،زانی اور چور وغیرہ کو شرعی سزائیں ملیں گی‘‘۔ جلسہ میں ایک بوڑھا جو میری تقریر پوری دلجمعی اور ہمہ تن گوش ہو کر سن رہا تھا۔ فورا بول اٹھا۔:’’ہاں شاہ جی! پھر آپ نے حکومت کرلی‘‘۔(۱۷)
لطیفہ :
موضوع کی مناسبت سے یہ لطیفہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس کوامیرشریعت کی صاحبزادی ام کفیل بخاری رحمہا اﷲ نے اپنی کتاب ’’سیدی وابی‘‘ میں مولوی مظہرعلی اظہر کے تذکرہ میں نقل کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’ایک دن اباجی نے لطیفہ سنایا۔مولوی مظہر علی اظہر صاحب کے ساتھ لاری میں سفر کر رہے تھے۔چھوٹی سی ٹوکری میں پان کا سامان ساتھ ہوتا تھا۔ سیٹ پر ٹوکری رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ پان لگانا تھا، اس لیے پان کا ٹکڑا تو خود ہاتھ میں پکڑا اور ڈبا نما پاندان مولوی صاحب کو تھماتے ہوئے کہا: بھائی مظہر علی ’’تعاونوا علی البر والتقوی‘‘۔ مولوی صاحب نے ڈبا پکڑا اور چونے کتھے کے خانوں کی طرف انگلی کرکے کہنے لگے: ’’اینہاں وچوں بِر کیہڑا اے تے تقوی کیہڑا اے؟‘‘ (ان میں سے ’’بِر‘‘کون سا ہے اور ’’تقوی‘‘کون سا؟)‘‘
ہمیشہ کے لیے پان کھانا ترک کردیا :
سید عطاء المؤمن بخاری رحمہ اﷲ فرزند امیر شریعت فرماتے ہیں:اباجی کے آخری دنوں کی بات ہے روزانہ کے معمول کے مطابق سلیمی دواخانہ جانے کے لیے اٹھے پان بنانے لگے۔ اکڑوں بیٹھ کر ہتھیلی پر پان رکھا، لوازمات اوپر ڈالے اور پھر پان کو ہتھیلی پہ مروڑنے لگے چورا کرکے منہ میں ڈالتے تھے کہ دانت باقی نہیں رہے۔ اچانک پتہ نہیں کیا خیال آیا پان کا چورا کرتے کرتے غالب کا شعر گنگنانے لگے :
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
شعر پڑھتے پڑھتے پان کا چورا ہاتھ سے نیچے گرادیا اور پھر ہمیشہ کے لیے پان کھانا ترک کر دیا۔(۱۸)
مصادر:
1۔ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثرص:۲۲۴ ۔ 2۔مثنوی قِران السعدین ص: ۱۸۵
3۔بارِ خاطر__از شوکت تھانوی۔ص: ۹۱خط بنام مولانا ابوالکلام آزاد۔
4۔بارِ خاطر__ص: ۱۵۸ ، از شوکت تھانوی
5۔تذکرہ شیخ الہند __ص: ۱۷۳ مصنف مفتی عزیزالرحمن بجنوری تالیف وتدوین : ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری
6۔ذکر آزاد _ص۱۱۲ از عبدالرزاق ملیح آبادی 7۔حیات امیر شریعت__ص: ۴۷۵ از جانباز مرزا
8۔سید عطااﷲ شاہ بخاری_ سوانح وافکار __ص ۶۱،از شورش کاشمیری۔
9۔ماہنامہ “نقیب ختم نبوت” امیر شریعت نمبر جلد دوم __ص ۵۲۔
10۔سیدی وابی __ص:۲۱۵۔از ام کفیل بخاری ۔مکتوب ۱۴؍ اپریل ۱۹۵۳ء۔
11۔سیدی وابی __ص:۲۳۱۔ 12۔سیدی وابی __ص:۲۶۰
13۔واقعے کا سن شورش کاشمیری اور جانباز مرزا دونوں نے مئی ۱۹۳۳ء لکھا ہے یہی سن درست معلوم ہوتا ہے،سیدہ ام کفیل بخاری سے حافظے کی بنیاد پر لکھنے کی وجہ سے تسامح ہوا ہے۔
14۔سیدی وابی __ص:۹۵
15۔شورش کاشمیری نے حضرت شاہ جی کا معالج ڈاکٹر لچھمن داس قرار دیا ہے۔معالج کے سلسلہ میں شورش کا شمیری کی بات بھی درست ہے کیونکہ ڈاکٹر عبدالقوی لقمان کے ساتھ ڈاکٹر لچھمن داس کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔
16۔سید عطااﷲ شاہ بخاری ۔سوانح وافکار ۔۔ص:۶۵، از شورش کاشمیری ۔طبع ۲۰۱۲
17۔فرموداتِ امیر شریعت __ص ۶۳ ازحکیم مختار احمد الحسینی۔
18۔نقیب ختم نبوت امیر شریعت نمبر جلد دوم__ص۳۱۸۔