تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سلف صالحین ،گفتگو اور بات چیت کے آداب

انتخاب و ترجمہ: مولوی محمد نعمان سنجرانی
میمون بن مہران سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائیے۔ حضرت نے ارشاد فرمایا: بولنا بند کر دو۔ اس نے عرض کیا جو شخص انسانوں کے درمیان رہتا ہو وہ بولنا بند کرنے کی طاقت تو نہیں رکھتا۔ حضرت نے فرمایا اگر بولنا ضروری ہے پھر یا تو حق بات کہو یا پھر خاموش ہی رہو۔ اس نے عرض کیا کچھ مزید فرمائیے۔ حضرت نے فرمایا: غصہ چھوڑ دو۔ اس نے عرض کیا حضرت میرے اختیار کے بغیر ہی مجھ پر غصہ طاری ہو جاتا ہے۔ فرمایا: اگر غصہ آ بھی جائے تو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ کو روک کر رکھو۔ اس نے عرض کیا مزید کچھ ارشاد ہو۔ حضرت نے فرمایا لوگوں سے میل ملاقات ترک کر دو۔ اس نے عرض کیا جو شخص انسانوں کے درمیان رہتا ہو وہ کیسے ان سے میل ملاقات ترک کر سکتا ہے؟ حضرت نے فرمایا اگر تمھیں ان سے ملاقات کرنی ہی ہے تو پھر سچی بات کرو اور امانت ادا کرو۔(۱)
معاذ بن سعید سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ہم امام عطاء بن ابی رباح کی مجلس میں موجود تھے کہ ایک شخص نے کوئی بات کی جس کے دوران کسی دوسرے شخص نے اس کی بات کاٹ دی۔ امام عطاء فرمانے لگے: سبحان اﷲ! یہ کیسے اخلاق ہیں، یہ کیسے اخلاق ہیں۔ میں (کئی بار) کسی شخص کی بات سنتا ہوں تو اس بات سے بہتر طریقے سے واقف ہوتے ہوئے بھی یوں پوری توجہ سے سنتا ہوں جیسے مجھے کچھ اندازہ ہی نہ ہو۔(۲)
عثمان بن الأسود سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے امام عطاء سے عرض کیا: کوئی آدمی کسی مجلس کے سامنے سے گزرے اور اہلِ مجلس میں سے کوئی اس پر تہمت لگا دے، تو کیا اس مجلس میں بیٹھے کسی آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس شخص کو اس کی اطلاع دے؟ حضرت نے فرمایا: نہیں، مجلس امانت ہوتی ہے۔(۳)
خلف بن تمیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبد اﷲ بن محمد نے امام اوزاعی سے روایت کیا کہ انھوں نے فرمایا: امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیز نے ہمیں ایک خط لکھا جو میرے اور امام مکحول کے سوا کسی کو یاد نہیں۔ (خط کا متن تھا:) امّا بعد! بے شک جو شخص موت کو اکثر یاد رکھے گا دنیا کی تھوڑی مقدار پر بھی راضی ہو جائے گا۔ اور جو شخص اپنی باتوں کو بھی اپنے اعمال میں شمار کرتا ہو گا اس کا کلام بہت کم ہو جائے گا، سوائے اس کلام کے جو نفع عام کے لیے ہو۔ والسلام!۔(۴)
\ یعلی بن عبید سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ہم محمد بن سوقہ کے پاس گئے تو انھوں نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایک بات سناؤں؟ جس نے مجھے تو نفع دیا ہے شاید تمھارے لیے بھی فائدے کا سبب بنے۔ پھر فرمانے لگے کہ امام عطاء بن ابی رباح نے ہم سے ارشاد فرمایا: میرے بھتیجو! تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ کلامِ فضول کو نا پسند کرتے تھے۔ اور ان کے نزدیک ہر کلام فضول تھا، ما سوائے: کتاب اﷲ تعالی کے، کہ اس کی تلاوت کی جائے، یا نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے، یا پھر اپنی روز مرہ زندگی کے کام کاج سے متعلق کوئی ضرورت کی ناگزیر بات کر لی جائے۔ کیا تمھیں یہ بات تسلیم نہیں ہے کہ تم پر محافظ (فرشتے) مقرر کیے گئے ہیں جو معزز ہیں اور (سب اعمال کو) لکھنے والے ہیں؟ ایک دائیں جانب اور ایک بائیں جانب بیٹھنے والا ہے؟ جس بات کا بھی کوئی تلفظ کرتا ہے اس پر ایک چوکس نگہبان مقرر ہے؟ کیا تم میں سے کسی کو اس بات پر شرم نہیں آتی کہ تمھارے کسی دن کی باتوں کا صحیفہ جب کھولا جائے گا تو اس میں سے اکثر ایسی ہوں گی جو نہ دین کے کسی معاملے سے متعلق ہوں گی نہ دنیا کے۔(۵)
فیض بن وثیق کہتے ہیں میں نے حضرت فضیل کو سنا آپ فرما رہے تھے: اگر تمھا رے لیے ممکن ہو تو نہ محدّث بننا، نہ قاری اور نہ متکلم (خطیب  مناظر یا علم کلام کا ماہر)۔ اس لیے کہ اگر تم مؤثر گفتگو کرنے والے ہوئے تو لوگ کہیں گے: کیا فصیح و بلیغ شخص ہے، کیا عمدہ باتیں کرتا ہے، کیسی اچھی آواز ہے…… تمھیں یہ سب اچھا لگے گا اور تم پھول جاؤ گے۔ اور اگر تم غیر مؤثر گفتگو کرنے والے سادہ آواز والے ہوئے تو لوگ کہیں گے یہ نہ تو اچھی باتیں کرتا ہے اور نہ اس کی آواز ہی کچھ زیادہ اچھی ہے…… تمھیں اس پر غم ہو گا اور تم پر شاق گزرے گا۔ (دونوں صورتوں میں) تم پکے ریا کار بن جاؤ گے۔ اور (اگر تمھارا معاملہ ایسا ہو کہ) جب تم بیٹھ کر بات کرو اور تمھیں پرواہ نہ ہوتی ہو کہ کون تمھاری مذمت کرتا ہے اور کون تعریف……تب تمھیں بات کرنے کا حق ہے۔(۶)
حضرت فضیل بن عیاض سے پوچھا گیا: زہد کیا ہے؟ فرمایا: تھوڑے پر راضی رہنا۔ عرض کیا گیا: پرہیز گاری کیا ہے؟ فرمایا: حرام باتوں سے بچنا۔ عرض کیا گیا: عبادت کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: فرائض کو ادا کرنا۔ عرض کیا گیا: تواضع کیا ہے؟ فرمایا: حق کے سامنے جھک جانا۔ پھر ارشاد فرمایا: سب سے مشکل پرہیز گاری زبان کی پرہیز گاری ہے۔
امام ذہبی اس پر فرماتے ہیں: بالکل بجا ارشاد فرمایا۔ کئی بار ایسے لوگ نظر آئیں گے جو اپنے کھانے پینے، لباس اور معاملات میں بہت پرہیز و احتیاط برتنے والے ہوں گے، مگر جب گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا ہوگا…… پھر یا تو وہ سچ بولنے کی کوشش کریں گے پر پورا سچ نہ بولیں گے، یا سچ تو بولیں گے مگر بات ایسے پہلو سے اور اس طرح سجا سنوار کر کریں گے تا کہ ان کی خوش گفتاری کی تعریف کی جائے۔ یا اپنی بہتر حالت کو ظاہر کریں گے تاکہ ان کی تعظیم کی جائے۔ یا پھر جہاں بولنے کی ضرورت ہو گی عین اسی مقام پر خاموش رہیں گے تاکہ ان کی تعریف کی جائے۔ جب کہ اس سب کا ایک ہی علاج ہے کہ جماعت سے ادا کی جانے والی عبادات کے سوا لوگوں کے ساتھ مجلس بازی سے دور رہا جائے۔(۷)
احمد بن ابی الحواری کہتے ہیں کہ ہمیں عبد اﷲ الانطاکی نے بیان کیا کہ (ایک بار) حضرت فضیل بن عیاض اور امام سفیان ثوری ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور آپس میں مذاکرہ کیا، امام سفیان پر رقت طاری ہو گئی اور رونے لگے۔ پھر فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ یہ مجلس ہمارے لیے رحمت و برکت کا سبب بنے گی۔ حضرت فضیل نے فرمایا: لیکن اے ابو عبد اﷲ! مجھے خدشہ ہے کہ ہمارے لیے یہ مجلس شدید نقصان دہ ہو گی۔ کیا ایسا نہیں کہ آپ نے (میری خاطر) اپنی بہترین باتیں سنائیں اور میں نے (آپ کی خاطر) اپنی بہترین باتیں چن چن کر سنائیں، پس آپ میرے لیے سجے اور میں آپ کے لیے بنا سنورا؟ امام سفیان رو پڑے اور فرمایا: اﷲ آپ کو زندہ رکھے آپ نے مجھے زندہ کر دیا۔(۸)
٭ابو بکر بن عیاش سے روایت ہے، فرمایا کہ: خاموشی کا سب سے کم فائدہ یہ ہے کہ اس میں سلامتی ہے، اور اس سے بڑی عافیت کیا ہو سکتی ہے؟ اور گفتگو کا سب سے کم نقصان یہ ہے کہ اس میں شہرت و مشہوری ہے، اور اس سے بڑی آزمائش کیا ہو سکتی ہے؟(۹)
عبایۃ بن کلیب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سماک کو سنا آپ فرما رہے تھے: تمھارا درندہ تمھارے جبڑوں کے درمیان ہے جس کے ذریعے تم اپنے سامنے سے گزرنے والے ہر راہگیر کو کھاتے ہو۔ تم نے گھروں میں رہنے والوں کو ان کے گھروں کے اندر ستایا یہاں تک کہ اب تم قبروں میں رہنے والوں کے درپیش ہوئے ہو، تمھیں ان کی بوسیدگی اور پراگندہ حالی پر ترس نہیں آتا اور یہاں بیٹھ کر تم ان کی کفن چوری کرتے ہو۔ تمھارے لیے مناسب یہ تھا کہ کسی کے بارے میں (بری) بات کرنے سے تین باتوں کی وجہ سے رک جاتے۔ ایک تو یہ کہ تم کسی کے ایسے (عیب والے) معاملے کا ذکر کرو جو خود تم میں بھی پایا جاتا ہو، ایسے میں تمھارا کیا گمان ہے اپنے رب کے بارے میں جب تم اپنے بھائی کا وہ عیب کھولتے ہو جو تم میں بھی موجود ہے؟ یا شاید تم اپنے بھائی کا کوئی ایسا معاملہ ذکر کرو کہ تم میں سے اس سے بڑا اور شدید تر معاملہ پایا جاتا ہو، یہ تو اﷲ تعالی کے تم سے ناراض ہونے کا زیادہ شدید اور زیادہ پکا سبب ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تم اپنے بھائی کے کسی ایسے معاملے کا ذکر کرو جس سے اﷲ تعالیٰ نے تمھیں بچا رکھا ہے۔ تو کیا تم اﷲ کی طرف سے بچائے جانے کا یہی بدلہ دے رہے ہو؟ کیا تم نے سنا نہیں اپنے بھائی پر رحم کرو اور اس کی تعریف کرو جس نے تم پر رحم کیا (یعنی اﷲ تعالی)۔(۱۰)
٭ بکر بن منیر کہتے ہیں میں نے حضرت امام ابو عبد اﷲ بخاری کو سنا وہ فرما رہے تھے کہ مجھے امید ہے جب میں اﷲ تعالیٰ سے ملوں گا تو مجھے سے اس بات کا حساب نہیں لیں گے کہ میں نے کسی کی غیبت کی ہے۔
امام ذہبی نے فرمایا: اﷲ امام بخاری پر رحم فرمائے، ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ جو شخص جرح و تعدیل کے باب میں ان کے کلام کا مطالعہ کرے گا اسے لوگوں کے بارے میں کچھ کہنے سے ان کی احتیاط و پرہیز گاری اور کسی کو ضعیف ٹھہرانے میں ان کی انصاف پسندی کا اندازہ ہو گا۔ کیونکہ اکثر اوقات ان کی جرح یہی ہوتی ہے کہ: اس کی حدیثیں غیر معروف ہیں، اس کے بارے میں ائمہ خاموش ہیں، اس میں دیکھنا پڑے گا، وغیرہ وغیرہ۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ فرمائیں: فلاں شخص کذاب ہے، یا فلا ں شخص حدیثیں گھڑتا تھا۔ حتی کہ انھوں نے فرمایا جب میں کسی کے بارے میں یہ کہوں کہ اس کی حدیثوں میں دیکھنا پڑے گا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کمزور راوی ہے اور اس پر مختلف الزامات ہیں۔ امام ذہبی نے فرمایا کہ یہ مطلب ہے امام بخاری کے قول کا کہ ’’اﷲ تعالی مجھے کسی کی غیبت کرنے پر حساب نہیں فرمائیں گے‘‘۔ اور بلا شبہ یہ احتیاط کی انتہا ہے۔(۱۱)
٭ حضرت سہل بن عبد اﷲ تستری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: صدیقین کے اخلاق میں سے ہے کہ وہ جا و بے جا اﷲ کے نام کی قسم نہیں کھاتے، نہ وہ غیبت کرتے ہیں نہ ان کی مجلس میں غیبت کی جاتی ہے، نہ وہ پیٹ بھر بھر کے کھاتے رہتے ہیں، جب وہ وعدہ کرتے ہیں تو اس کے خلاف نہیں کرتے۔ اور وہ لطیفے بازی تو بالکل نہیں کرتے۔(۱۲)
حواشی:
(۱): صفۃ الصفوۃ: ۵۴۹/۱۔ (۲): صفۃ الصفوۃ: ۲۱۴/۲۔ (۳): مصدر سابق۔ (۴): سیر اعلام النبلاء: ۱۳۳/۵۔ (۵):صفۃ الصفوۃ: ۲۱۳/۲۔ (۶):سیر اعلام النبلاء: ۴۳۳/۸۔ (۷) سیر اعلام النبلاء: ۴۳۴/۸۔ (۸): سیر اعلام النبلاء: ۴۳۹/۸۔ (۹):سیر اعلام النبلاء: ۵۰۱/۸۔ (۱۰): صفۃ الصفوۃ: ۱۷۶/۳۔ (۱۱):سیر اعلام النبلاء: ۱۲/ ۴۳۹، ۴۴۱۔ (۱۲):سیر اعلام النبلاء: ۳۳۲/۱۳

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.