تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

امتیازی سلوک

احسان کوہاٹی (سیلانی کے قلم سے)

سیلانی کی ساجدہ تیمور سے پہلے کبھی بات ہوئی تھی نہ سوشل میڈیا پر رابطہ ہوا، مگر اس کا کہنا تھا کہ وہ بطور کالم نگار سیلانی کو جانتی ہے اور اسکی سوچ سے اختلاف کے باوجود اسکے کالم پڑھتی رہی ہے،ساجدہ تیمور نے بتایا کہ وہ گیارہ برس پہلے برطانیہ منتقل ہوئی تھی اور اب برسٹل میں رہتی ہے،ساجدہ تیمور کے مطابق وہ ایک این جی او سے منسلک ہے اور اسکا کام متنازعہ امور پر عوامی آراء مرتب کرنا ہے،ساجدہ کا چند روز پہلے اسے واٹس اپ پر پیغام ملا تھا کہ اسے سیلانی سے دس منٹ درکار ہیں ۔
’’میں میاں چنوں کی رہنے والی ہوں اورکراچی میں اپنے بھائی کے پاس پانچ سال رہی ہوں وہیں آپکے کالم بھی پڑھا کرتی تھی،آپکے کالم میں شدت پسندی نہ ہوتی تو زیادہ اچھے ہوتے‘‘۔
جواب میں سیلانی نے برجستہ کہا’’جو بات درست لگے اس پر شدت سے ڈٹ جانا شدت پسندی کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘۔
’’لیکن اپنے موقف کا اظہار نرمی سے بھی تو کیا جا سکتا ہے ‘‘۔
’’ہر جگہ نرمی نہیں چلتی،ماں سے زیادہ دنیا میں محبت کرنے والا کون ہوتا ہے لیکن آپ نے اور میں نے بھی ماں کی جوتیاں کھا رکھی ہوں گی کہیں کہیں سوٹیاں بھی ضروری ہوتی ہیں ‘‘ سیلانی کی اس بات پر ساجدہ ہنس پڑی اور کہنے لگی ’’سر ! پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے آپکی کیا رائے ہے،انہیں دی گئی آزادی سے آپ مطمئن ہیں ؟‘‘۔
’’پاکستان میں اکثریت پر بات ہونی چاہیے بیچاری اکثریت کو کوئی نہیں پوچھتا اقلیت کے لیے تو سات سمندر پار سے بھی پوچھ گچھ ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ میرے خیال میں پاکستان میں اقلیتیں اتنی ہی نظر انداز ہیں جتنی کہ اکثریت،اس میں کوئی فرق نہیں‘‘۔
’’سر میری مراد مذہبی آزادی سے ہے‘‘۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں کہیں کوئی مندر،گرجا،گوردوارہ بند کیا گیا ہو یا انتظامیہ کی جانب سے گرایا گیا ہو کم از کم بیس سے تیس برسوں میں تو ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ؟ ہاں مساجد شہید کی جانے کی اطلاعات خبریں بنتی رہی ہیں،کچھ عرصہ پہلے ہی ہل پارک کراچی میں مسجد شہید کی گئی تھی اس کے برعکس کراچی میں عیسائی برادری کے بڑے بڑے چرچ سلامت ہیں اور انہیں سلامت رہنا چاہیے وہاں بلا روک ٹوک عبادت ہوتی ہے،کراچی کے قلب صدر میں سینٹ پیٹرکس چرچ ہے جہاں ایسا رش ہوتا ہے کہ ٹریفک سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے،صدر ہی میں اینگلو انڈینز رہتے ہیں جنہیں گوانیز کہا جاتا ہے کی خواتین اسکرٹس اور پینٹ شرٹ پہنتی ہیں اوراپنے بوائے کٹ ہیئر اسٹائل سے الگ سے پہچانی جاتی ہیں میں طویل عرصہ کرائم رپورٹر رہا ہوں اور میں نے گوانیز پر حملے کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں کیا الحمداﷲ،اسی طرح مندر وں میں بھی گھنٹے بجتے رہتے ہیں،پوجا پاٹ ہوتی ہے کلفٹن میں بڑا تاریخی مندر ہے،ایم اے جناح روڈ پر کراچی میونسپل کمیٹی کے مرکزی دفتر کے سامنے ہی ہندؤں کا بہت بڑا مندر ہے اوراسکے بالکل ساتھ ہی وہاں سکھوں کا گوردوارہ بھی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’خیر ایسا بھی نہیں ہے لگتا ہے آپ کسی اور ہی پاکستان کے شہری ہیں،ایسا ہوتا توپاکستان کو یورپی یونین کا خط نہ آتا ‘‘ساجدہ نے یہ بات ہنس کر مذاقا کہی تھی۔
’’جی،جی وہ خط تو نہیں دھمکی تھی کہ اقلیتوں حقوق کی پامالی بند نہ کی گئی تو پاکستان کے تجارتی معاہدے ختم کر دیں گے لیکن اگر آپ اسے خط ماننے پر مصر ہیں تو یورپی یونین کے51ارکان کو یہ خط 10ڈاؤننگ اسٹریٹ کے پتے پر بھیجنا چاہیے تھا کیوں کہ آپکا بی بی سی کہہ رہا ہے کہ برطانیہ میں مسلمانوں پر نفرت انگیز حملوں میں چھ سو فیصد اضافہ ہوا ہے،میرا خیال ہے مارچ2019کی رپورٹ ہے یہاں پاکستان میں PUNISH a MUSLIM day کی طرح پاکستان میں ہندؤں،عیسائیوں،سکھوں یااقلیتوں کو سزا دو کا دن تو نہیں منایا جاتا،پھر ان یورپی یونین والوں کو بھارت بھی دکھائی نہیں دیتا،اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مشیل باچلیٹ نے تو ذات برادری اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے والی پالیسیوں پر اسے خبردار کیا تھا، بھارت میں تومسلمانوں عیسائیوں کو ہندو بنانے کے لیے باقاعدہ شدھی اور سنگھٹن تحریکیں چل رہی ہیں،تہاڑ جیل کے اس مسلمان قیدی کی تصویر تو بہت وائرل ہوئی ہے جسے ہندو نہ بنایاجا سکا تواس کی پشت پر ہندو دیوتا کا نام داغ دیا گیا۔ ‘‘
’’سر! سندھ میں تو اس قسم کی خبریں آپکا میڈیا رپورٹ کرتا رہتا ہے،ہندو لڑکیوں کو اغواء کر لیا جاتا ہے اور پھر مسلمان ظاہر کرکے نکاح کرلیا جاتا ہے ‘‘۔
’’ایسے واقعات سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ انفرادی فعل ہے یہاں ایسی کوئی تحریک نہیں چل رہی َکوئی منظم گروہ یہ سب نہیں کررہا اور یہ سب کے سب واقعات درست بھی نہیں،آخری واقعہ جو اس بارے میں رپورٹ ہوا تھا اس میں لڑکی نے خود عدالت میں بیان دیا اور پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس نے پسند کی شادی کی ہے اور مرضی سے مسلمان ہوئی ہے،سندھ میں ہندو برادری کافی مضبوط ہے اسلام کوٹ،ننگراور کچھ شہروں میں تو یہ اکثریت میں ہیں،ان کے وزراء حکومتوں میں رہے ہیں اور ابھی بھی ہیں، پارٹیوں میں بھی اہم عہدوں پر ہیں‘‘۔
سیلانی کے دلائل پر ساجدہ ہنس پڑی ’’آپ کی گفتگو سے ایسا لگ رہا ہے پاکستان ایک جنت ہے ‘‘۔
’’یہاں شکایات ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ مسلمان غیر مسلموں کو پکڑ پکڑ کر مسجدوں میں کلمہ پڑھاتے پھریں‘‘۔
’’پاکستان کے آئین میں کوئی غیر مسلم صدر اور وزیر اعظم نہیں بن سکتا یہ امتیازی سلوک نہیں ؟‘‘۔
’’یہ سوال مجھ سے پہلے کسی امریکی دانشور سے پوچھا جائے کیا وہاں کوئی مسلمان صدر بن سکتا ہے مجھے علم نہیں لیکن میرا نہیں خیال کہ برطانیہ کا آئین بھی یہ اجازت دیتا ہوگا‘‘۔
’’احمدیوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟‘‘۔
’’قادیانیوں کے حوالے سے اشوز ہیں انہیں پسند نہیں کیا جاتا‘‘سیلانی نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
’’شکر ہے آپ نے کچھ تو تسلیم کیا‘‘۔
’’جو سچ ہے وہ سچ ہے ‘‘۔
’’اور ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوتے ہیں ؟‘‘ساجدہ تیمور صاحبہ نے بات کاٹ کر تیزی سے سوال کیا۔
’’یہ آدھا نہیں بلکہ چھٹانک بھر سچ ہے ہو سکتا ہے کہیں ایک آدھ ایسا واقعہ ہو گیا ہو،اگر ایسا معاملہ اور سوچ ہوتی توچنیوٹ کے پاس چناب نگر پر مسلمان چڑھ نہ دوڑتے وہاں نوے فیصد سے زائد قادیانی رہتے ہیں،یہ ان کا ہیڈکوارٹر ہے،مجلس احرار سال میں ایک بار وہاں بڑا جلوس نکالتی ہے جو چناب نگرشہر کے عین وسط میں ختم ہوتا ہے گذشتہ برس میرا بھی جانا ہوا ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے لیکن کسی نے کسی قادیانی کے گھر کی جانب کنکر بھی نہیں اچھالا،کسی درخت کی شاخ تک نہ توڑی‘‘۔
’’سر! آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں قادیانی بالکل محفوظ ہیں انہیں کسی قسم کی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں ؟‘‘۔
’’اتنے ہی محفوظ ہیں جتنے اور شہری،مسئلہ یہ ہے کہ قادیانی خود کو کھل کر قادیانی تسلیم نہیں کرتے وہ خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں،مساجد کے انداز میں اپنی عبادت گاہیں بناتے ہیں،تبلیغ کرتے ہیں،وہ آئین پاکستان میں رہیں تو زیاہ سہولت سے رہ سکتے ہیں ‘‘۔
’’سر !یہ سہولت کا لفظ بھی خوب کہا یہ بتائیں کہ کیا احمدیوں کے لیے اکثریت میں نرمی کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا؟‘‘۔
’’ہو سکتا ہے،پہلے قدم کے طور پر انہیں اپنے مذہبی پیشوا کی کتابوں میں مسلمانوں کے لیے لکھی گئی گالیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہیے جناب کی کتابوں میں اپنے نہ ماننے والوں کو خنزیر تک کہا گیا ہے،کنجر کے الفاظ کا استعمال بھی انکے مضامین میں مل سکتا ہے اچھا آپ یہ بتائیں کہ حیفہ کب کال کر رہی ہیں؟۔
’’حیفہ ؟‘‘ساجدہ تیمور کی آواز میں حیرت تھی اور ہونی بھی چاہیے تھی جسے سیمٹتے ہوئے سیلانی نے کہا ’’جی اسرائیل کا تیسرا بڑا شہر جہاں قادیانی بھی آباد ہیں وہاں آپ کسی صحافی سے ضرور پوچھیں گی کہ یہاں کوئی قادیانی وزیر اعظم بن سکتا ہے؟ چلیں یہ تو بہت چھوٹی کمیونٹی ہے اسرائیل میں اچھے خاصے مسلمان بھی ہیں آپ کو ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا وہاں کا آئین کسی مسلمان اسرائیلی شہری کو وزیر اعظم بننے کی اجازت دیتا ہے؟ یورپی یونین کی ساری چاہتیں پاکستان کی اقلیتوں کے لیے کیوں رہ گئی ہیں یہ بھی تو امتیازی سلوک ہے ؟‘‘سیلانی کی بات پر ساجدہ تیمور ہنس پڑی اور سیلانی کو رسمی طور پر خدا حافظ کہہ کر آف لائن ہوگئی،سیلانی سوچنے لگا کہ ان مہذب قوموں کے دلوں میں صرف پاکستان کی اقلیتوں کی محبت کیوں جوش مارتی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ڈرون حملے ہوں یا خودکش دھماکے ؟ اسکولوں میں بچوں کا قتل ہو یاباچا خان یونیورسٹی پر حملہ،عموما ٹارگٹ اکثریت ہی رہی ہے ایسا نہیں کہ اقلیتیں بالکل محفوظ اور مامون ہیں وہ اتنی ہی غیر محفوظ ہوں گی جتنا ایک عام پاکستانی اور یہ عام سی بات ’’خاص مقصد‘‘ کے لیے خاص لوگ سمجھنا نہیں چاہتے۔ ۔ ۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے لیپ ٹاپ لے کر پاکستان جنوبی افریقہ کا میچ دیکھنے کے لیے ٹی وی کے سامنے پہنچ گیا جہاں فخر امام آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ رہا تھا سیلانی کا موڈ خراب ہو گیااور وہ برا سا منہ بناتے ہوئے لیپ ٹاپ بند کرکے ٹیلی وژن دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
(روزنامہ’’امت‘‘،کراچی،24؍جون2019ء)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.