تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

پنجاب اسمبلی میں ’’تحفظ بنیادِ اسلام بل‘ ‘ کی منظوری

سید محمد کفیل بخاری 22؍ جولائی 2020ء کو پنجاب اسمبلی میں ’’تحفظ بنیادِ اسلام بل‘‘ منظور ہوا۔ یہ قرار داد صوبائی وزیر جناب حافظ عمار یاسر نے پیش کی، جسے اپوزیشن اور حکومتی ارکانِ اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کی طرف قابلِ قدر پیش رفت ہے۔ اس سے قبل بھی پنجاب اسمبلی میں تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم، تحفظِ ناموسِ صحابہ رضی اﷲ عنہم اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسمِ گرامی کے ساتھ لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ صلی اﷲ علیہ وسلم لازمی لکھنے کے عنوان سے متعدد بل منظور ہو چکے ہیں۔ نیز مقدس شخصیات، قرآنِ کریم، انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اﷲ

ماتحت مجالس احرار اسلام متوجہ ہوں !

عبداللطیف خالد چیمہ مجلس احراراسلام پاکستان نے ضروری مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ عیدالاضحی کے بعد تنظیمی وجماعتی اور خصوصاََ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے گی اور ایس او پیز کا لحاظ رکھتے ہوئے ۱۴؍ اگست کو پاکستان کے یوم آزادی کی تقریبات منعقد کی جائیں گی جبکہ ۲۱؍ اگست کو حضرت امیر شریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے یوم وصال کی مناسبت سے یوم امیر شریعت کی نشستوں کااہتمام کیاجائے گا اور مجلس احراراسلام کی روایات کے مطابق ۷؍ ستمبر کو یوم تحفظ ختم نبوت اہتمام کے ساتھ منایا جائے گا۔ جبکہ یکم ستمبر تا دس ستمبر عشرۂ ختم نبوت منایا جائے گا۔ اسی طرح مجلس احراراسلام پاکستان کی

ایا صوفیا جامع……یادیں اور باتیں

ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ستمبر 2014میں شعبہ اردو، استنبول یونیورسٹی(جس کے صدر شعبہ ڈاکٹر خلیل طوقار ہیں)کی طرف سے منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے ترکی کے خوبصورت شہر استنبول پہنچے، میرے ساتھ میرے شعبہ(اسلامی تاریخ، کراچی یونیورسٹی)سے ڈاکٹر سہیل شفیق اور ڈاکٹر زیبا بھی تھیں۔چار روزہ کانفرنس سے فراغت کے بعد ہم دو ہفتے مزید استنبول میں ٹھہرے اور بے تحاشا گھومے۔تین دن تو ایسا ہوا کہ ہمارے مہمان سعید صاحب جو ترکی ہی کے ہیں، اپنی شاندار لینڈ کروزر میں صبح 9 بجے ہوٹل سے ہمیں لیتے اور رات نو بجے واپس چھوڑتے۔ان بارہ گھنٹوں میں بس ہم گھومتے ہی رہتے۔(مولانا رومی کے ملک میں جو تھے )۔پہلے ہی دن ہم ایا صوفیا اور نیلی مسجد(ینی جامع) دیکھنے گئے۔ ایا صوفیا

بھٹو صاحب اور قادیانیت

حفیظ اﷲ خان نیازی پاکستان کے سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بہت سے کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ جو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا ہے۔ ان کی جگہ اگر کوئی دوسرا لیڈر حکمران ہوتا، تو وہ اتنا بڑا قدم شاید نہ اٹھا پاتا۔ یہ پہلو ذہن میں رہے کہ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں قادیانیوں نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی تھی اور اسی لیے انھیں امیدیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ وہ بھٹو کو اپنا ’’خاص بندہ‘‘ سمجھتے اور باور کراتے اور عام طور پر یہ کہتے تھے: ’’ہم نے تن، من، دھن سے پیپلز پارٹی کی مدد کی تھی اور اب بھٹو صاحب کی جانب سے ادائیگی واپس کرنے کا وقت آ گیا ہے‘‘۔ لیکن بھٹو صاحب نے لیپا پوتی

خواجہ آصف اور مسلم لیگ کی مسلم کش تاریخ

محمد اسامہ قاسم ان روزوں مسلم لیگ ن اگر چہ اپنے قائدین کی بد عملیوں کے وبال میں شدید سیاسی ناکامی کا شکار ہے مگر اس کی صف قیادت میں کہیں کوئی ندامت یا کسی قسم کی اصلاحِ احوال کی کوشش نظر نہیں آ رہی۔ مسلم لیگ کا مردہ گھوڑا ہمیشہ فوجی آمروں کے زیرِ زانو رہا ہے۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک سبھی آمروں نے اس گھوڑے میں بہت جان ڈالی اور خوب دوڑایا۔ مسلم لیگ نے پاکستان میں سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ اسلام کا نام لے کر نفاذ اسلام کا راستہ روکا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں مسلم لیگ ہی کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے پہلا

قربانی…… یا ……مالی امداد

مفتی محمد شعیب آج کل معاشی حالات کی وجہ سے ایک سوچ یہ بھی پائی جا رہی ہے کہ ’’قربانی دینے کی بجائے غریبوں کی مالی امداد کر دی جائے‘‘ ۔ لیکن یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں۔آج کل کے حالات میں بھی قربانی ضرور کرنی چاہیے، کیونکہ: 1۔ قربانی ایک مستقل عبادت ہے، جس سے مقصود اﷲ کا حکم پورا کرنا ہے، غریبوں کی امداد اس سے براہ راست مقصود نہیں اور عبادات مقرر کرنے یا انھیں تبدیل کرنے کا اختیار صرف اﷲ کے پاس ہے۔ علماء کے پاس بھی نہیں ہے۔ 2۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال دو خوبصورت مینڈھوں کی قربانی فرمائی، حالانکہ اس زمانے کے معاشی حالات آج

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعض بشری تقاضے اور خصائل

مولانا محمد الیاس با لاکوٹی سمجھ لینا چاہیے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بشریتِ کا ملہ میں جو بشری تقاضے اور آثار وخصائل ہیں، وہ بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے انسان او ر ذی مرتبت شخصیت کے آثار و مظاہر سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں، مثلا دیکھیں: پسینہ: ہر آدمی کو پسینہ آتا ہے اور یہ پسینہ آنا کوئی عیب ونقص نہیں، بلکہ صحت کے لیے ضروری ہے۔ تاہم پسینہ کی کثرت ناگواریِ طبع اور ناپسندیدگی کا باعث ضرور ہوتی ہے، بلکہ بعض افراد کے پسینہ سے جلد ہی بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بہر نوع بدبو نہ بھی آئے تو پسینہ میں کون سی کشش اور دلچسپی کا عنصر ہوتا ہے؟ پسینہ

حضرات عشرہ مُبشرہ رضی اﷲ عنہم

حضرت علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ ۱۔ سیدنا ابوبکر صدیق ۲۔ سیدنا عمربن الخطاب ۳۔ سیدنا عثمان بن عفان ۴۔ سیدنا علی المرتضیٰ ۵۔ سیدنا طلحہ ۶۔ سیدنا زبیر ۷۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ۸۔ سعدبن ابی وقاص ۹۔سیدنا ابوعبیدۃ بن الجراح ۱۰۔سیدنا سعیدبن زیدرضی اﷲ عنھم اجمعین امام ابن عبدالبرایک جگہ چند صحابہ کرام کے اسماء گرامی لکھ کر فرماتے ہیں: وفضائلہم لایحیط بھا کتاب (الاستیعاب ص۳۲۷) ان حضرات کے کے فضائل تو ایک کتاب میں بھی نہیں آسکتے۔ یہی گزارش ہم کرتے ہیں کہ حضرات خلفاء راشدین، خاتون جنت سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا اور سیدا شباب اہل الجنۃ حسن و حسین رضی اﷲ عنہم کے حالات ایک تو لکھے پڑھے لوگوں کو کچھ معلوم ہی ہیں، دوسرے اگر ان حضرات پر کچھ

زبان کی آفتیں

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ انسان جتنے کام یا کلام کرتا ہے بظاہر اس کی تین قسمیں ہیں: 1۔ مفید: جس میں کوئی دین یا دنیا کا فائدہ ہو۔ 2۔ مضر: جس میں دین یا دنیا کوئی نقصان ہو۔ 3۔ نہ مفید نہ مضر: جس میں نہ کوئی فائدہ ہو نہ نقصان۔ اس تیسری قسم کو حدیث میں لا یعنی کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے لیکن جب ذرا غور سے کام لیا جاوے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تیسری قسم بھی درحقیقت دوسری قسم یعنی مضر میں داخل ہے۔ گالی گلوچ کرنا: گالی اور فحش کلامی سے مراد یہ ہے کہ ایسے کام جن کے اظہار سے آدمی شرماتا ہو، ان کو صریح اور کھلے الفاظ

تزکیہ نفس، اہمیت و ضرورت

حافظ محمد ابوبکر شیخوپوری اﷲ رب العزت نے اپنے کلامِ مقدس میں نبوت کے جو مقاصدِ جلیلہ ذکر فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک بنیادی مقصد تزکیۂ نفس ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’تحقیق ہم نے اہلِ ایمان پر احسان کیا کہ ان میں ایک رسول بھیجا، جو انھیں میں سے ہے، ان پر اس کی کتاب کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ دوسرے مقام پر تزکیہ نفس کو فوز وفلاح کامدار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تحقیق وہ شخص کامیاب ہو گیا، جس نے خود کو پاک کر لیا‘‘۔ تزکیہ نفس کو علم تصوف، سلوک، احسان اور علم باطن کے عنوانات سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور

حج اور اس کی برکات

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ اﷲ تعالیٰ شانہ نے یوں تو ہر عبادت کے لیے قدم قدم پر رحمت و عنایت اور اَجر وثواب کے وعدے فرمائے ہیں، نماز وزکوٰۃ اور روزہ واعتکاف وغیرہ سب پر جنت اور جنت کی بیش بہا نعمتوں کے وعدے ہیں، لیکن تمام عبادات میں ’’حج بیت اﷲ‘‘ کی شان سب سے نرالی ہے، حج گویا دبستانِ عبدیت کا آخری نصاب ہے، جس کی تکمیل پر بار گاہ عالی سے رضا وخوشنودی کی آخری سند عطا کی جاتی ہے، کتنے عجیب انداز سے فرمایا گیا ہے: ’’والحج المبرور لیس لہ جزاءٌ الاالجنۃ‘‘ ’’اور ’’حج مبرور‘‘ ایک ایسی عالی شان عبادت ہے کہ بجز جنت کے اس کا اور کیا بدلہ ہوسکتا ہے۔ ’’حج مبرور‘‘ جس کا

قربانی کے مسائل

مولانا ڈاکٹر مفتی عبد الواحد رحمۃ اﷲ علیہ قربانی کس پر واجب ہے: جس پر صدقہ فطر واجب ہے، اس پر بقر عید کے دنوں میں قربانی بھی واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہو، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر کر دے تو ثواب ہے۔ مسئلہ: اگر پہلے اتنا مال دار نہ تھا، اس لیے قربانی واجب نہ تھی، پھر بارہویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے کہیں سے مال مل گیا تو قربانی کرنا واجب ہے۔ قربانی مقیم پر واجب ہوتی ہے، مسافر پر نہیں۔ مسئلہ: قربانی کے تینوں دن اقامت کا ہوناشرط نہیں ہے۔ دسویں، گیارہویں تاریخ کو سفر میں تھا، پھر بارہویں تاریخ کو سورج ڈوبنے سے

مفکر اسلام علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمۃ اﷲ علیہ

سید محمد کفیل بخاری  تیسری وآخری قسط 31 اگست 1992ء کو جناح ہال لاہور میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام حضرت امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی یادمیں جلسہ تھا۔ ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ جلسہ کی صدارت فرمارہے تھے۔ اکثر خطباء اپنی تقاریر کرچکے اور اب صاحبِ صدر کے خطاب کا اعلان ہونا تھا کہ اچانک حضرت علامہ خالد محمود اور حافظ عبدالرشید ارشد (مکتبہ رشیدیہ) رحمھمااﷲ ہال میں داخل ہوئے۔ میں انہیں سٹیج پر لے آیا۔ عرض کیا کہ ایک تو مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں ۔ ورنہ آپ کو جلسے میں خطاب کی دعوت دیتا۔ دوسرا یہ کہ اب آخری تقریر حضرت ابن امیر شریعت

سید عطااﷲ شاہ بخاری کے آٹوگراف

نوراﷲ فارانی شورش کاشمیری مرحوم لکھتے ہیں:لکھنے لکھانے کا شوق کبھی نہ تھا،البتہ خطوط کا جواب سفر وحضر دونوں صورتوں میں خود لکھتے۔(سید عطااﷲ شاہ بخاری ……سوانح وافکار ص:۳۶) اسی کتاب میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: قرطاس وقلم سے انہیں چڑ تھی۔با ایں ہمہ شاہ جی کے نثری ذخیرہ میں چند مضامین ایک دو مقدمات اور متعدد خطوط شامل ہیں جو ان کے تحریری بانکپن کا پتہ دیتے ہیں۔عموما آٹوگراف دینا پسند نہیں کرتے تھے،فرماتے میں درویش آدمی ہوں یہ باتیں لیڈروں کو زیب دیتی ہے،آٹوگراف کو انگریزی بدعت سے تعبیر کرتے۔آٹوگراف لینے والے کو اپنی خدا داد برجستہ گوئی اور گفتگو کے خطیبانہ طرز میں خوب سمجھاتے اور آٹوگراف دینے سے پہلو تہی کرلیتے۔ جناب ندیم انبالوی مرحوم لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں

بطل حریت، امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ

مولانا محمد وسیم اسلم ماضی قریب کی ایسی چند جلیل المرتبت شخصیات جو کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں، ان میں ایک نمایاں شخصیت ایسے مرد مجاہد، عاشق رسول عربی صلی اﷲ علیہ وسلم، بطل حریت اور آزاد منش درویش کی ہے جس کے گھنگریالے بال، نورانی چہرہ، موٹی موٹی آنکھیں، کروڑوں انسانوں کے لیے سامانِ راحت، جوخطابت کے میدان میں آئے تو میدان ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا منظر پیش کرے، کلام مجید کی تلاوت کرے تو لحن داؤی کا رس سامعین کی سماعت میں بھر دے، جن کے قصوں کی تاریخ اٹھائیں تو تاریخ بھی رشک کرے۔براعظم ایشاء کے بے مثل کھدر پوش خطیب جوحضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ جنہیں متحدہ ہندوستان

رہتا ہوں مدینے میں

فیاض عادل فاروقیؔ گھر میرا ہے لندن میں، رہتا ہوں مدینے میں رکھتا ہوں سدا الفت آقاؐ کی مَیں سینے میں یوں دُور مدینے سے جینا بھی ہے کیا جینا اب جی ہی نہیں لگتا یوں دور سے جینے میں ہاں دُور تو ہوں لیکن، دل دُور نہیں انؐ سے نگری ہے محمدا کی، دل میرا یہ سینے میں اس ایک حقیقت کے دو رُخ بھی حقیقت ہیں دل میں بھی مدینہ ہے، دل بھی ہے مدینے میں اس عشق کی دنیا کے اوقات نرالے ہیں یا دِن کٹے ہفتے میں، یا سال مہینے میں محبوبؐ کی یادیں ہیں، یادوں سے بھرا دل ہے کیا مسکنِ الفت ہے، یہ دل جو ہے سینے میں جس شان سے آپؐ آئے وہ شان ابھی تک ہے وہ

شرابی رہبر

علامہ عبدالرشید نسیم طالوت رحمہ اﷲ پوچھو نہ مجھ سے اس کی خرابی جس قوم کے ہوں رہبر شرابی اک ہاتھ میں ہے مفتی کا فتویٰ اک ہاتھ میں ہے ساغر گلابی معجون بھی ہے الہام بھی ہے پیری کو آئی وحیِ شتابی سنتے نہیں وہ اب بات میری لے ڈوبی مجھ کو حاضر جوابی بچتے ہیں اب تو ہر جعفری سے اﷲ ان کی عصمت مآبی جامِ پلومر پھر ہاتھ میں ہے چندوں میں ہوگی پھر بے حسابی اپنا رہے ہیں ہر گندگی کو رکھتے ہیں گویا وصف ذبابی تقلید سے ہیں جو دور کوسوں کہتے ہیں مجھ کو وہ بھی وہابی دل میں ہے میرے عشق ان کا نافذ شاہد ہیں جس پر اشک ِصنابی

غزل

حبیب الرحمن بٹالوی اک بے وفا سے وفا چاہتا ہوں ’’میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں‘‘ نفرت میں سب کچھ روا ہوتا ہوگا محبت میں صدق وصفا چاہتا ہوں اذاں میں کہاں وہ روح بلالی! اذانواں میں کیف صدا چاہتا ہوں لفظوں کی ترتیب، شعروں کی بندش میں حرفوں میں حُسنِ ادا چاہتا ہوں بالوں میں چاندی اُترنے سے پہلے بر دستِ دختر حنا چاہتا ہوں گلشن میں، بن میں، کوہ و دمن میں میں بادِ نسیم و صبا چاہتا ہوں کھری بات کرنے کا عادی ہوں پیارے ’بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں‘‘

کالج کے اثرات

مولانا سید محمد عبدالرب صوفی رحمہ اﷲ اب نہ تھم اے اشک غم، اے چشم نم جی بھر کے رو قوم کی پونجی لٹے جب اشک جاری کیوں نہو کالجوں میں جاکے اُف مومن کی پونجی لٹ گئی رنج سے اور شرم سے رو اور اسکے غم سے رو جاکے کالج میں میاں جو تھے وہ مسٹر ہوگئے غیر کی صورت بنے خود اپنی دی لُٹیا ڈبو کٹ گئی داڑھی، اُگی البرٹ لٹکے پائنچے جاکے کالج ہائے رکھدی دین کی پونجی گرو فیشن انگریزی بھی ہے انگریز کے دشمن بھی ہیں دشمن انگریز آخر کوئی ایسا بھی تو ہو ذہنیت یہ ہے کہ اسکی وضع آئی ہے پسند اور ہٹ دھرمی سے کہتے ہیں عدو انگریز کو پائجامہ بن گیا نیکر اوٹنگا آپ کا آپ

صفیہ بی بی کو بنادے اے خدا جنت مکیں

پروفیسر میاں محمد افضل ساہیوال صفیہ بی بی (۱) ہوگئی ہے عازم خلدِ بریں           باپ اور تایا کے پہلو میں ہوئی ہے ، جاگزیں تیرے داد مولوی صالح تھے ، عالم بے بدل           حضرت گنگوہیؒ کے خلفاء میں تھے ، مردِ ذہیں خانداں سارا جدائی میں تری ، بد حال ہے             اہلِ دل جانے سے تیرے غم زدہ ہیں ، بالیقیں زندگی ساری گذاری خدمتِ قرآن میں                 صالحہ و عابدہ تجھ سی نہیں دیکھی ، کہیں ساری تلمیذات (۲) تیری ، اس لیے نم دیدہ (۳) ہیں               تیرے جیسی مونسہ (۴) ، اُن کو کہیں ملتی ، نہیں خاندان

مفتی محمد نعیم رحمہ اﷲ سے ایک ایک یادگار انٹر ویو

سید عدنان کریمی فیس بک فرینڈز لسٹ میں ’’سرچ کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک گمنام، خاموش قاری ہوتے تھے، وال پر کسی قسم کی کوئی ایکٹیویٹی نہیں تھی، البتہ میسینجر پر راہ و رسم رکھتے تھے، کبھی اقوالِ زرّیں اور کبھی اپنی تصاویر بھیجا کرتے، بندہ جانا پہچانا سا لگتا تھا لیکن نام معلوم نہ تھا۔ ایک دن خاکسار نے اُن کا نام اور تعارف پوچھنے کی جسارت کی، بس پھر اُس دن سے تعلقات مزید پختہ ہوگئے۔جامعہ بنوریہ العالمیہ کی ختم بخاری سے ایک روز قبل خاکسار نے اُنہیں پیغام بھیجا کہ مجھے مفتی محمد نعیم صاحب سے ملاقات کرنی ہے، کوئی ترتیب بنا دیجیے، انہوں نے جھٹ سے جواب دیا چونکہ کل ختمِ بخاری کی تقریب ہے، لہٰذا آپ پرسوں آجائیے اور

فرقہ فرقہ کھیلنے کا قادیانی ڈرامہ

خالد محمود۔ کراچی پہلے بھی کئی بار عرض کیا جاچکا ہے، کہ قادیانی ٹولے کے دو فیورٹ موضوع ہوا کرتے ہیں، اول ’’حیات و وفات عیسیٰ علیہ السلام‘‘ اور دوم ’’نبوت جاری ہے‘‘۔ کچھ عرصہ سے قادیانی ٹولے نے اول موضوع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ’’رفع و نزول‘‘ کی گفتگو سے راہ فرار کا یہ رستہ اختیار کیا ہوا کہ اب اس موضوع کی گفتگو سے پہلے مسلمانوں سے ان کے فرقہ یا مکتبہ فکر کا پوچھتے ہیں۔ حالانکہ ایسے تمام سوالات جو ۱۹۷۴ کی کاروائی کے دوران قادیانی ٹولے کے اس وقت کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے مسلمانوں کے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کے بارے میں اسمبلی میں اٹھائے تھے، ان کے مفصل جوابات دے دیے گئے تھے۔ پھر یہ کہ

تاریخ احرار (چوتھی قسط )

مؤلف: مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ اشارات: مولانا عبید اﷲ احرار رحمہ اﷲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمْ نَحْمد ہُ ونُصَلّیِ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْم اشارات : مغلیہ بادشاہ اکبر، ہمایوں کے گھر میں اس وقت پیدا ہوا۔ جبکہ شیر شاہ سوری اس کے تعاقب میں تھا وہ بیچارہ صحراؤں ، دریاؤں ، پہاڑوں اور جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا تھا اس مسلسل بے چینی کی وجہ سے ہمایوں، اکبر کی تعلیم وتربیت کا کوئی بندوبست نہ کر سکا اس طرح یہ ذہین و فطین شہنشاہ ہر قسم کے علوم و فنون سے با لکل بے بہرہ رہا۔ اکبر نے اپنے دور حکومت میں نہ صرف اپنی سلطنت اور قلم رو کو وسیع کیا بلکہ سیاسی مصالح کی بناء پر ہندوؤں کو بہت زیادہ

مسافران آخرت

(ملتان) حضرت مولانا منظور احمد رحمۃ اﷲ علیہ, استاذ حدیث جامع خیرالمدارس ملتان، ۱۱ذیقعد ۱۴۴۱ھ3جولائی 2020ء (ملتان ) مجلس احرار اسلام ملتان کے قدیم کارکن محمد یعقوب خان خواجکزائی ،انتقال 9جولائی 2020ء (ملتان) ہمارے کرم فرما محمد فھیم خان ایڈووکیٹ کے ماموں، جون کے مہینہ میں انتقال کرگئے ۔ (ملتان) روز نامہ اوصاف ملتان کے چیف رپورٹر رفیق قریشی کی خوشدامن صاحبہ گزشتہ دنوں انتقال کرگئیں۔ (اوکاڑہ) قدیم احرار کارکن مولانا اﷲ بخش رحمہ اﷲ کی صاحبزادی اور رانا محمد اکمل شہزاد (لاہور )کی پھوپھی انتقال 9جولائی 2020ء (چنیوٹ) مخلص احرار کارکن محمد صفدر کی والدہ گزشتہ ماہ انتقال کرگئیں۔ (لاہور) معروف اہل حدیث عالم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اﷲ ۔ انتقال۲۰ ذیقعد۱۴۴۱ھ\ 12:جولائی 2020ء (جھنگ) قاری محمد اصغر عثمانی کی والدہ محترمہ۔

نقیب

گزشتہ شمارے

2020 August

پنجاب اسمبلی میں ’’تحفظ بنیادِ اسلام بل‘ ‘ کی منظوری

ماتحت مجالس احرار اسلام متوجہ ہوں !

ایا صوفیا جامع……یادیں اور باتیں

بھٹو صاحب اور قادیانیت

خواجہ آصف اور مسلم لیگ کی مسلم کش تاریخ

قربانی…… یا ……مالی امداد

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعض بشری تقاضے اور خصائل

حضرات عشرہ مُبشرہ رضی اﷲ عنہم

زبان کی آفتیں

تزکیہ نفس، اہمیت و ضرورت

حج اور اس کی برکات

قربانی کے مسائل

مفکر اسلام علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمۃ اﷲ علیہ

سید عطااﷲ شاہ بخاری کے آٹوگراف

بطل حریت، امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ

رہتا ہوں مدینے میں

شرابی رہبر

غزل

کالج کے اثرات

صفیہ بی بی کو بنادے اے خدا جنت مکیں

مفتی محمد نعیم رحمہ اﷲ سے ایک ایک یادگار انٹر ویو

فرقہ فرقہ کھیلنے کا قادیانی ڈرامہ

تاریخ احرار (چوتھی قسط )

مسافران آخرت