تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

شذرات

عبداللطیف خالد چیمہ
شہدائے ختم نبوت 1953ء کو خراج عقیدت
جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نوجوان صحابی سیدنا حبیب ابن زید انصاری رضی اﷲ عنہ پہلے شہید ختم نبوت ہیں جنہوں نے اس وقت کے طاغوت مسیلمہ کذاب کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے شہادت قبول فرمائی، پھر فتنہ ارتداد کے قلع قمع کے لیے بارہ سو حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہید ہوئے۔
پاکستان بننے کے بعد جب قادیانی وطن عزیز کے اقتدار پر شب خون مارنے کی تیاریاں کرنے لگے تو بانیٔ احرار حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے تمام مکاتب فکر کو کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت جیسے مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھاکرکے چار مطالبات حضرت مولانا ابوالحسنات قادری رحمتہ اﷲ علیہ کی قیادت میں حاجی نمازی حکمرانوں کی میز پر رکھے۔ وہ مطالبات یہ تھے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیاجائے ، قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایاجائے ، موسیو ظفر اﷲ خان قادیانی سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے ، اور ربوہ کو کھلا شہر قراردیاجائے ۔ ان معقول مطالبات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ ایسا کرنے سے امریکہ ہماری گندم بند کردے گا۔
راست اقدام ہواتو لاہور کے مال روڈ سمیت ملک بھر میں دس ہزار سے زائد نفوس قدسیہ کے سینے گولیوں سے چھلنی کردیئے گے کہ وہ ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تحفظ کا حق مانگتے تھے۔ انھی نفوس قدسیہ اور شہداء ختم نبوت کی یاد میں ہم احرار والے مارچ میں لہو گرم رکھنے کے لیے انہیں زیادہ یاد کرتے ہیں۔ اس مارچ میں اﷲ تعالی کی نصرت کے ساتھ ہم نے حتی الامکان ملک بھر میں اجتماعات کو زیادہ اہتمام سے کرنے کا رادہ کیا تو اﷲ تعالی نے 7ستمبر یوم ختم نبوت کی طرح اس کو پذیرائی بخشی ، 1953ء کی پابندی ، مارشل لاء اور ظلم وستم کی انتہاکے حالات اور ادوار سے ہمارے بزرگ گزرے اور آج فرزندان امیر شریعت اور ان کے قابل قدر رفقاء کرام کی جانکاہ محنت کے بعدا لحمدﷲ احرار زندہ ہیں ، اور اپنی وضع قطع کے ساتھ زندہ ہیں۔ مغربی جمہوریت کے دلدادہ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے جو گل کھلائے ہیں، اس کا لازمی وفطری نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہے ، شہداء 53ء کی منزل اسلامی والہامی نظام کا نفاذ تھا سو ہم آج بھی انہی اہداف کو لیکر آگے چل رہے ہیں اور سمجھتے ہیں۔
مقصود کی منزل نہ ملی ہے نہ ملے گی
سینوں میں اگر جذبۂ احرار نہیں ہے
نکاح نامے میں عقیدۂ ختم نبوت کی وضاحت
2022ء مارچ کے بالکل آغاز میں پنجاب کی صوبائی کابینہ نے مسلم فیملی لاز آرڈیننس میں ضروری ترمیم کے بعد نکاح نامے میں عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامے کی شق کا اضافہ کرنے کا فائق فیصلہ کیا ہے ، اس کے نتیجے میں پنجاب میں نکاح کے وقت دولہا اور دلہن کو جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان وعقیدے کا حلف دینا ہوگا۔ دراصل صوبائی کابینہ نے اس ترمیم کی منظوری پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والی ایک قرار داد کی روشنی میں دی ہے۔ یہ قرارداد کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ (ق )کے رکن صوبائی اسمبلی جناب حافظ عمار یاسر نے پیش کی تھی چودھری پرویز الہی اور ان کے معتمد ساتھیوں نے اس قسم کے کئی امور میں اہم کردار ادا کیا ہے،اس سلسلہ میں روز نامہ اوصاف لاہور 3مارچ 2022ء کے ادارتی شذرے کا ایک حصہ اس طرح ہے :
’’رکن پنجاب کی قرار داد کی متفقہ طور پر منظوری دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی نے مطالبہ کیا تھا کہ پنجاب میں شادی کے موقع پر دولہا اور دلہن کے ختم نبوت کے حلف نامے کو لازمی قرار دیا جائے ۔ یہ مطالبہ اس لیے لانا پڑا کہ ماضی میں قادیانیوں کی جانب سے دھوکہ دہی کی بے شمار وارداتیں سامنے آئی تھیں ، کئی معاملات میں لڑکا اور کئی معامالات میں لڑکی کے قادیانی ہونے کے باوجود نکاح کردیا گیا ، بعد میں حقیقت سامنے آنے پر دونوں خاندانوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے ، ایسے بے شمار کیسزموجود ہیں جن میں قادیانی لڑکوں نے اپنا مذہب چھپا کر مسلمان بچیوں سے دانستہ نکاح کیے اور ان کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ۔ پنجاب کابینہ کی اس قانون سازی سے اندھیر نگری اور دھوکہ بازی کا خاتمہ ہوسکے گا ، ہم سمجھتے ہیں کہ وفاق اور دوسرے صوبوں کو بھی ایسی قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ شادی کے بعد کی پریشانیوں سے بچیوں کو بچایا جا سکے۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.