تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تاریخ احرار

(قسط نمبر ۱۹)

مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ

احرار اور عدم تشدد:
مجلس احرار بے شک سیاسیات میں عدم تشدد کی قائل ہے، یعنی حکومت کے تشدد کو جبر سے برداشت کیا جائے۔ اسی اصول سیاست کوہم نے کئی ماہ شہید گنج کے ایجی ٹیشن میں بھی استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا ظفر علی خان اور ان کے رفقاء نے ہمارے خلاف غنڈہ گردی کی انتہا کردی کہ چلنا پھرنا مشکل ہوگیا۔ ہم پر تیزاب ڈالے گئے۔ ہمارے صبرنے مخالفوں کا حوصلہ بہت بڑھا دیا لیکن جب اس غنڈہ گردی کا نظام او رانتظام کے ساتھے مقابلہ کیا تو دوماہ کے اندر اندر مخالفت کے بادل چھٹ گئے اور معاملہ صرف تحریر تک محدود ہوگیا۔ ہم نے اپنا روزنامہ ’’مجاہد‘‘ نکال رکھا تھا،وہ ترکی بہ ترکی جوا ب دیتا رہا۔ پھر ہمارا اثر ورسوخ بڑھنے لگا بالآخر حکومت نے اس کی ضمانت طلب کرلی۔ غریبوں کا یہ اخبار کسی بڑے مالی نقصان کو برداشت کرنے کے قابل نہ تھا، ناچار اسے بند کرنا پڑا۔ اب پھر مخالفوں کے لیے میدان صاف ہو گیا۔ پھر ہمارے خلاف جھوٹ کا طوفان اٹھایا گیا۔ ہمارے عدم تشدد کی پھبتیاں اڑانے لگے۔احرار کے لیے عدم تشدد سیاسی پالیسی ہے مذہب نہیں۔ جب جان اور آبرو پر بن آئے تو ہر ہتھیار کا اٹھانا جائز ہے۔
جھوٹ کی دیوار گرنا شروع ہوگئی:
’’مجلس اتحادِ ملت‘‘ آخر کیا ہے؟ اس میں وہ تمام عناصر شامل تھے جنھیں احرار کی مخالفت منظور تھی۔ مگر ان میں کوئی ذہنی اتحاد نہ تھا زیادہ تر و ہ اصحاب شامل تھے جو خالص کانگریسی ذہن رکھتے تھے او رمسلمانوں کی کسی اور جماعت کا عروج دیکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ خصوصاً مجلس احرار کی سی غریبوں کی جماعت سے انھیں اسی لیے بیر تھا ۔ وہ غریبوں کو منظم او رطاقتور دیکھ کر کچلے سرسانپ کی طرح پیچ و تاب کھاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جماعت کسی اور جماعت کی مخالفت پر زندہ نہیں ہوسکتی اس کا اپنا پروگرام ہونا چاہیے مگر شہید گنج کے حامیوں کا تو کسی مسجد کی تقدیس پر ہی اتفاق نہ تھا۔ کہاں ڈاکٹر عالم اور کہاں مسجد شہید گنج۔ وہ توا لیکشن جیتنے کے لیے مسجد کی آڑ لے رہے تھے۔ مجلس احرار کے ساتھ غریب جماعت ہونے کے باعث انھیں تعاون سے گھن آتی تھی۔ اس لیے اکثر واقعی ان میں جوتا چلا۔ رپٹ رپورٹ تک بھی نوبت پہنچی۔ اتحاد ملت میں ایسے لیڈر پیدا ہوگئے جو کسی سیاسی اخلاق کے مالک نہ تھے۔ ہر روز کے رگڑے جھگڑے سے مولانا ظفر علی خان کی اتحاد ملت کا وقا رکم ہونے لگا۔ سیاست اسلامی کے اس شاطر کامل یعنی میاں سر فضل حسین کی عقابی نظرنے ڈلہوزی کی بلندیوں سے دیکھا کہ کیا کرایا کام بگڑرہا ہے۔ اس لیے مولانا ظفر علی خان کو، جو، اب سرکاری مہرے کے طور پر کام کررہے تھے پہاڑ پر بلایا۔ میاں سرفضل حسین کا خیال تھا کہ احرار کا اثرورسوخ زیادہ تر ان کی اپنی تنظیم اور بہادری پر قائم ہے کچھ اثرمرزائیت کی مخالفت کے باعث بھی ہے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ مرزائیت کو نقصان پہنچائے بغیر تردیدِ مرزائیت کا کام مولوی ظفر علی کے ہاتھ میں دیا جائے۔ اس طرح پبلک کی رہی سہی توجہ احرار سے ہٹا کر اتحاد ملت اور مولانا ظفر علی خان کی طرف کردی جائے۔خدا کا کرنا کیا ہوا کہ احرار کو اس منصوبے کی خبر ایک ایسے شخص نے دی جس کو میاں صاحب بڑا معتمد سمجھتے تھے۔ لیکن وہ دل سے میاں صاحب کے عروج کا مخالف تھا۔ اس نے اپنے خاص آدمی کی معرفت پیغام بھیجا کہ تجویزیوں ہوئی ہے کہ مرزائیوں کے خلاف مقدمہ دائر کر کے انھیں خارج ازاسلام قرار دلایا جائے۔ مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کی توجہ فضول مقدمہ بازی کی طرف مبذول ہوجائے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انگریزی عدالت بالآخر مرزائیوں کے حق میں فیصلہ دے گی۔ مرزائیوں کا اسلام بھی ثابت ہوجائے گا اور کئی سال تک مذہبی رجحان رکھنے والے مسلمانوں کی ہمدردی بھی احرار سے کم ہوجائے گی۔ جوں ہی معتبر ذریعہ سے یہ رپورٹ ہمیں پہنچی ہم نے اسے اخبارات میں شائع کردیا۔ اور اسی اشاعت میں اخبار زمیندار نے میاں سرفضل حسین کی تجویز کو اپنی تجویز ظاہر کر کے شائع کیا۔ ہماری اطلاع بہت پہلے ہی اخبارات میں پہنچ چکی تھی۔ تمام اخبارات اور پبلک کو یقین آگیا۔ کہ مولانا فریب افرنگ میں آگئے ہیں۔ مولانا نے خود بھی محسوس کیا کہ گویا وہ گنا کبیرہ کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ تجویز کا بھانڈا پھوٹ جانے پر مولانا نے ایسی چپ سادھی کہ پھر کچھ نہیں بولے۔ مولانا صاحب اور میاں صاحب کی ملی بھگت کا شہرہ ہر طرف پھیلا۔ اس سے ان کے مداحوں میں اور مایوسی پھیلی۔ لوگوں نے سمجھ لیا۔ کہ مولانا سستے داموں بک گئے۔
داخلہ اسمبلی کا ریزولیوشن:
مجلس اتحاد ملت جو مولانا ظفر علی خان کی واحد ملکیت تھی، اس میں ڈاکٹر محمد عالم کے اصرار پر اسمبلی میں داخل ہو کر شہید گنج کو حاصل کرنے کا ریزولیوشن پاس کیا گیا۔ یہ ریزولیوشن اتحاد ملت کے تابوت میں آخری میخ ثابت ہوا۔ سب نے سمجھ لیا کہ جو احرار نے کہا تھا وہ سچ ثابت ہوا۔ اتحاد ملت کا تو عملاً خاتمہ ہوگیا۔ البتہ ڈاکٹر عالم اور ملک لعل خان کو اسمبلی میں امیدوار کھڑے ہونے کے لیے ایک مردہ جماعت کانام مل گیا۔ یہ ساری خون ریزی یہ سارا ایجی ٹیشن گویااس لیے تھا کہ دو دوستوں کو اسمبلی میں جانے کا موقعہ مہیا کیاجائے ۔ سعید روحوں نے اس جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ چند کرایہ کے ٹٹو رہ گئے، جو الیکشنوں میں تھوڑی بہت مالی امداد کی امید پر اتحاد ملت کی ٹوٹی کشتی سے چمٹے رہے۔ اب پھر احرار کا بول بالا ہونے لگا۔ ہم مستعد ہو کر ان زہریلے اثرات کو دور کرنے میں لگ گئے۔ کسی کے خلاف بدظنی پھیلانا کیسا آسان ہے۔ مگر اس کا ازالہ کرنا کیسا دشوار ہے۔ بدظنی باز کی طرح تیز رفتار ہوتی ہے۔ حسن ظن چیونٹی کی طرح سست روہوتا ہے ہم نے بہت محنت کی۔ شہروں میں تو سوائے ابدی نامرادوں کے سب ہمارے ہم خیال ہوگئے۔ البتہ دور دراز مقامات میں ہم نہ پہنچے۔ وہاں ہمارے خلاف تعصب موجود رہا۔
احرار کی سول نافرمانی :
اسلام اگر ایک طرف کفر کا سرنیچا کر تا ہے تو یہ دوسری طرف سرجا نکالتا ہے۔ مرزائیت یوں تو ہر گوشۂ ملک میں نامراد و ناکام ہوچکی تھی۔ لیکن شہید گنج کے ایجی ٹیشن میں احرار کی کمزوری اور اس کی توجہ مدافعانہ کارروائیوں کی طر ف دیکھ کر اسے اپنی زندگی کی امید پیدا ہوگئی۔ اور مرزائیوں نے اسی عرصہ میں تمام علاقے گورداسپور کو اپنے زیر اثر لانے کی سعی کی۔ حکومت کی مہربانی سے احرارکا داخلہ سارے ضلع میں بند کردیا گیا تھا۔ اب ہمارے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کا ر نہ تھا کہ ہم قربانی کر کے ضلع بھر کے مسلمانوں کو یقین دلائیں کہ ہم کسی مصیبت میں بھی مرزائیت کی اسلام دشمنی کو بھولے نہیں اور احرار ہر حال میں تمہارے ساتھ ہیں۔ چنانچہ سید عطاء اﷲ شاہ صاحب باوجود امتناعی احکامات کے قادیان میں جمعہ پڑھانے چلے گئے۔ اور گرفتار ہو کر سزا یاب ہوئے۔ اسی طرح یو۔پی۔ سے مولانا محمد قاسم اور پنجاب سے قاضی احسان احمد اور میں سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کر کے گرفتار ہوئے۔ پھر ہمارے مہربانوں نے انگریزی سرکار کو سمجھایا کہ یہ تو تم نے مردہ جماعت کو زندہ کردیا۔ مرزائیوں نے بھی محسوس کیا کہ یہ تو الٹی آنتیں گلے پڑ گئیں۔ سرحد اور علاقہ غیرمیں اس سول نافرمانی کا بہت زیادہ اثر ہوا آخر حکومت کو اپنا تھو کا چاٹنا پڑا اور حکم امتناعی واپس لے کر عام ہیجان کو روکنے کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا۔
مسلم لیگ سے ہمارا تعاون:
ایک مدت سے مسلمانوں کے آئین پسند طبقے میں میاں سرفضل حسین او رمسٹر محمد علی جناح (قائداعظم) رہنمائی کے دعویدار تھے۔ ان دونوں کا یکجا نہ دل و دماغ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے حق میں شمشیر برہنہ تھے۔ اور کوئی شخص ان کے مزاج میں دخیل نہ تھا اور وہ کسی کی نہ سنتے تھے۔ اس لیے کسی کو حوصلہ نہ تھا کہ ہمت کر کے ان کو کہتا کہ جنگ سے صلح بہتر ہے۔ دونوں میں میاں فضل حسین زیادہ باتدبیر تھے۔ میں نے ہندوستان میں ان سے زیادہ کائیاں شخص کوئی نہیں دیکھا۔ وہ سیدھی بات کرنے کے قائل نہ تھے۔ ہوشیار سے ہوشیار آدمی کا آسانی سے شکار کھیل لیتے تھے۔ کوّے کا شکار کرنا ہو تو بندوق کی نالی دوسری سمت رکھ کر کندھوں کے برابر اٹھانا چاہیے پھر اچانک رخ کوے کی طر ف کر کے نشانہ باندھنا چاہیے تا کہ زیرک جانور شکاری کی چال سے بے خبر رہے اور اڑنے کا موقع نہ پائے۔ ایسی ہی میاں صاحب کی تدبیریں ہوتی تھیں۔ وہ بڑے مزاج شناس تھے، اسی انداز سے بات کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ پرپیچ راستوں سے گذر کر مخالف کی پشت پر آنکلتے تھے۔ خاتمہ کر کے بھی دشمن کی موت کا الزام سر نہ لیتے تھے۔ برخلاف اس کے مسٹر جناح سیدھی راہ سامنے آکر چوٹ کرتے تھے۔ دشمن کوہوشیار اور خبردار کرکے وار کرنا مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔ اسی لیے مسٹر محمد علی جناح (قائداعظم) مولانا محمد علی اور شوکت علی کے مقابلے میں کانگریس سے پٹ کر نکلے اور مسلمانوں کے اعلیٰ طبقہ میں میاں صاحب کے جیتے جی معقول جگہ نہ کر سکے۔ حکومت ہند کی نظر میں مسٹر محمدعلی جناح میاں سر فضل حسین کے سامنے ایک بے اثر شخصیت رہی۔ اب جب الیکشن کی گہماگہمی ہوئی تو قائد اعظم مسٹر علی جناح نے دوڑ گھوم کر مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا چاہا ، وہ لاہور آکر میاں صاحب پر ڈورے ڈالنے لگے۔ مگر میاں صاحب کچی گولیاں نہ کھیلے تھے۔ انھوں نے صاف جواب دیا کہ خالص اسلامی جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا عملی سیاسیات میں مفید نہیں۔ کیونکہ اسلامی صوبوں میں مشترکہ حکومت کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔ہندوستان کی سیاسیات میں ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ ہندومسلمان عملاً دودشمن قومیں ہندوستان میں آباد ہیں مسلمان چونکہ محسوس کرتا ہے کہ ہندو اسے بطور اچھوت کے سلوک کرتا ہے۔ اس لیے عام حالات میں کسی قسم کے تعاون کے لیے تیار نہ تھے۔
دنیا کی سیاسیات کے دورخ ہیں؛ اصطلاح پسند لیڈر نیکی اور اخلاق کا بیج بوجانے پر پُراطمینان زندگی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ فوری کامیابی کو کامیاب زندگی کی بنیاد سمجھتے ہیں۔مسٹر جناح اور میاں سرفضل حسین دونوں آخری خیال کے علم بردار ہیں، ان کے سیاسی جوڑتوڑ فوری کامیابی کے کفیل ہوتے ہیں۔ وہ دونوں سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ صورت سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہیں۔ اس نظام میں تبدیلی کی سر دردی مول لینا پسند نہیں کرتے۔ اگر میا ں سرفضل حسین اور مسٹر جناح میں فرق ہے تو یہ ہے کہ میاں صاحب حکومت کی مشین کا پرزہ بن کر زندہ رہے اپنے مفاد اور قومی مفاد دنوں کے پلڑے برابر رکھے۔ یعنی شخصی شان کو برقرار رکھ کر اپنی صوابدید کے مطابق قومی خدمت کو جاری رکھا۔ مسٹر جناح کامیاب بیرسٹر تھے، اس لیے حکومت کی مشینری سے بے نیاز تھے لیکن اپنی شخصیت کو نمایاں رکھنے کے لیے کسی سے کم بے تاب نہ تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ میاں صاحب اورمسٹر جناح اسلامی سیاسیات کی نیام میں دو تلواروں کی طرح گنجایش نہ پاکر ہمیشہ الگ الگ اور بر سرِ پیکار رہے۔ تاہم میاں صاحب بڑے ہوشیار تھے۔ مسٹر جناح نے ان کے مقابلے میں ہمیشہ خاک چاٹی۔ میاں صاحب کی کامیاب چالوں نے تو مسٹر جناح کو قطعی مایوس کر دیا تھا۔ لیکن نئی اصلاحات کی گرماگرمی نے پھر مسٹر جناح کی عروق میں خون دوڑادیا۔ انھوں نے پھرپھریری لی اور میاں صاحب کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔ میاں صاحب کی عام سیاسیات سے احرار کو بھی اتفاق نہ ہوا۔ ہاں مسلمانوں کے حقوق حاصل کرنے میں ہم نے کبھی کوتاہی نہیں برتی۔ اگر میاں صاحب سے اتفاق کرنا پڑا تو اس سے گریز نہیں کیا لیکن آزادی ہند کے مسئلہ میں وہ زیادہ بے تاب نہ تھے۔ اس لیے ہماری ہمدردیاں مسٹر جناح کے ساتھ رہی ہیں لیکن یہ قیاس نہ کیا جائے کہ ہم مسٹر جناح کو انقلابی شخص سمجھتے تھے۔ نہیں، بلکہ میاں صاحب کی نسبت مسٹر جناح کو اپنی سیاسیات کے قدرے قریب سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ جب کانگریس اور جمعیت العلماء نے بھی لیگ کے ساتھ تعاون کا اعلان کر دیا تو ہمیں اپنی جگہ سوچنا پڑا کہ کانگریس نے بطور ملکی جماعت اور جمعیت نے بطور مذہبی جماعت لیگ کو قبول کر لیا تو ہمیں تعاون میں کیا عذر ہے۔ اس لیے اسلامی سیاسیات کی صورت یہ تھی کہ ملک کا رجعت پسند طبقہ زیرِ سایۂ برطانیہ منظم ہورہا تھا تاکہ آزاد خیال افراد کا مقابلہ کرے۔ لیگ اور احرار کا باہمی تعاون ناگزیر تھا۔ اس لیے ہم نے لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا ہونا قبول کرلیا۔
لیگ کا سرمایہ دارانہ نظام:
اگرچہ عقل کا تقاضا یہ تھا مگر تجربے کی تلخی نے عمل میں اوررنگ پیدا کردیا۔جونہی ہم نے لیگ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ امراء کے ایوان میں زلزلہ آیا۔ امراء نے سوچا کہ مفلسی ہمارے گھر میں کیسے گھس آئی؟ کوئی تدبیر لڑاؤ کہ احرار مکھن سے بال کی طرح نکال دیئے جائیں۔ سرمایہ دار بے حد ہوشیار تھا۔ احرار کا اخلاص تدبیر سے لاپروارہا۔ مگر تدبیر کیا کرتے۔ جہاں سرمایہ کا سوال ہو وہاں اخلاص کو ہتھیار ڈال دینے ہوتے ہیں۔ پہلے لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ۵۰ روپے کی رقم مقررتھی۔ اب احرار کو لیگ کے ٹکٹ کا خریدار دیکھ کر ارباب لیگ نے بھاؤ بڑھا کر ۷۵۰ روپے کردیا تاکہ غریب احرار کا کوئی امیدوار اتنی رقم دے کر ٹکٹ نہ حاصل کرسکے۔ ہم نے ہزار چاہا کہ یہ رقم ۲۵۰ ہی ہوجائے تومشکل آسان ہو مگر اس میں کامیابی بہت دور دکھائی دی۔ ناچار احرار نے اپنے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب امرائے لیگ نے سمجھا کہ اب خطرہ ٹل گیا کھل کھیلے۔ اب پھر وہی ۵۰ روپے شرح ٹکٹ ٹھہری۔ غریبوں کا امیروں کے نظام میں گھس آنا آسان نہیں۔ جو اسے کھیل سمجھتے ہیں تجربے کی تلخی سے بالآخر منہ بسورتے ہیں۔ جمہوری ادارے جن پر سرمایہ دار قابض ہوں ان میں داخل ہونا بڑا کٹھن کام ہے پھر ان پر قابض ہو کر عوام کے مفید مطلب کام چلانا کھیل نہیں جو بچے کھیلیں۔ بابوسبھاش چند بوس کی کوشش کا کیا نتیجہ نکلا۔ کانگریس کے سرمایہ دارانہ نظام پر قابض ہونے چلا تھا آخر روپوش ہونا پڑا۔ سوشلسٹ بھی نیشنل فرنٹ بنا کر کانگریس میں اقتدار پیدا کرنے گئے تھے، اپنی جماعتی افادیت بھی کھوبیٹھے اور کانِ نمک میں نمک ہو کر رہ گئے۔
جب بھی احرار کو ایسا مرحلہ درپیش ہو انھیں موجودہ تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ خوب سوچ بچار کر اور پوری تیاری سے کسی سرمایہ دارانہ نظام میں داخل ہونا چاہیے ایسانہ ہو کہ منہ کی کھا کر واپس لوٹنا پڑے۔
سرسکندر حیات او راحرار:
سرسکندر حیات خان کی سیاسیات نے اگرچہ میاں سرفضل حسین کے زیرِ سایہ پرورش پائی۔ مگر انھوں نے میاں صاحب کی امیدوں کو مایوسیوں میں بدل دیا۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ میاں صاحب سرفضل حسین ہندوؤں کی نظرمیں اورنگ زیب کا بروز تھے۔ سرسکندر نے بڑھ کر امید دلائی کہ ہندوؤں کے لیے وہ اکبر ثابت ہوں گے۔ اس طرح وہ ہندوؤں کا سہارا پاکر ابھرے۔ خاندانی خدمات کے باعث انگریزوں نے ان کا ہاتھ تھاما۔ یہ گمنامی کی سطح سے اونچے اٹھے پہلی دفعہ پولیس کمیٹی کے ممبر بنائے گئے۔ پھر سائمن کمیشن کی تعاونی کمیٹی کے صدر بنے۔ اس صدارت میں راجہ نریند ر ناتھ لیڈر ہندو پارٹی کے اثرورسوخ نے بڑا کام کیا۔ پنجاب کے ہندوؤں کو میاں صاحب کے مقابلے میں مہرہ درکار تھا۔ سرسکندر بھی انھیں پوری پوری امیداور حوصلہ دیتے رہے۔ ہندوان سے خوش یہ ہندوؤں سے راضی،راضی خوشی دونوں آنے والے دو رکے دن گننے لگے۔ وہ ایگزیکٹو کونسلر اسی خوبی کے باعث بنائے گئے کہ برخلاف میاں صاحب کے ہندوپارٹی کو آپ پر اعتماد تھا۔ سر سکندر کی یہی خوبی ان کی گورنری کا باعث ہوئی۔
میاں سرفضل حسین اگرچہ انگریزی سیاسیات کی کل کا بہترین پرزہ تھے لیکن انھیں اپنی لیاقت اور کامیاب سیاسی چالوں پر اتنا ناز تھا کہ وہ انگریز افسران کی ناز بردار ی کے بجائے ان سے خوشامد کی توقع رکھتے تھے۔ انگریز اعلیٰ افسران سے ان کا رات دن کا رگڑا جھگڑا تھا اور ہر مرحلے پر من مانی منواتے تھے اور خود کسی کی نہ مانتے تھے۔ اس لیے انگریز حکام جہاں ان کے کانگریس کے مقابلے میں کامیاب سیاسی ہتھکنڈوں کے معترف تھے، وہاں ان کی محکمانہ دراز دستیوں کے شاکی تھے۔ میاں صاحب کئی انگریز اعلیٰ افسروں کو ذلیل کر کے نکال چکے تھے۔ جس کو ذرا سر کش پاتے تھے اس کی سر کوبی پر آمادہ ہوجاتے تھے۔ میاں صاحب کی یہ ادا انگریز کو نہ بھاتی تھی۔ برخلاف اس کے سرسکندر حیات خان انگریزوں کے معاملہ میں ایسی مروت برتتے تھے کہ حاکم ہو کر محکوم نظرآتے تھے۔ انگریزی حسیات کے احترام میں وہ ہندوستانی یا اسلامی حقوق کے لیے بلند بانگ نہ تھے۔ مطالبات کے بجائے عرض داشتوں کے قائل تھے۔ مبادا انگریز کا مزاج برہم ہوجائے اورلینے کے دینے پڑجائیں۔
ظاہر ہے کہ میاں صاحب کے مقابلے میں احرار کو سرسکندر حیات سے بھی کوئی دل بستگی نہ تھی۔ مگر مصیبت یہ آئی کہ میاں صاحب نے سرسکندر حیات کے مقابلہ میں مرکزی حکومت میں اپنا اقتدار رکھنے کے لیے ظفر اﷲ خان قادیانی کو بڑھایا اور مسلمانوں کے جذبات کو پامال کر کے سیاسیات میں اپنا الو سیدھا کرنا چاہا۔ انھوں نے اس مسئلے کی اہمیت کو نہ سمجھا اور نہ احرار کی قوت کا ابتداء میں پورا اندازہ کیا لیکن جب طوفانِ مخالفت بڑھ گیا تو احرار کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے لیے خطرناک اور کامیاب تدبیریں کیں۔ بے شک ان تدبیروں سے احرار کمزور ہوگئے۔ لیکن میاں صاحب کے اثرورسوخ کو بھی ایسا دھکا لگا کہ وہ پھر سنبھل نہ سکے ۔ اور ان کا اپنے ہی غلط عمل سے دل ٹوٹ گیا۔ جب میاں صاحب فوت ہوئے تو سرسکندر کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا پہلے تو وہ لیگ سے وابستہ اس لیے ہوگئے تھے کہ مسلمانوں میں میاں صاحب کا کامیاب مقابلہ ہوسکے۔ ان دنوں احرار سے دل بستگی کی بظاہر وجہ یہی تھی لیکن اب انھیں آئینی کامیابی کے لیے میدان صاف نظر آیا اور مسٹر جناح کو دھتا دیا اوراحرار کو بھی ٹھینگا دکھایا۔
لیگ میں صرف شہری سرمایہ دار تھے۔ دیہات کی جامد آبادی کے سردار زمیندار انگریز افسروں کی ٹھوکر میں ہیں۔ دیہات میں کون زمیندار ہے جو سرکار کے اشارے کو سمجھ کر سرتابی کرے؟ اسمبلی میں ممبروں کی بڑی اکثریت دیہات سے آئی ہے۔ اس لیے سر سکندر کو لیگ کی چنداں پروانہ تھی ۔ معرکہ صرف احرار اور سرسکندر حیات کی یونینسٹ پارٹی سے تھا۔ کیونکہ بعض دیہاتی حلقوں میں احرار کا باوجود شہید گنج گرانے کی کامیاب چال کے اب بھی کافی اثرورسوخ تھا۔ احرار اگرچہ آزادی ہند کے ان تھک سپاہی ہیں۔ ہندو سرمایہ داروں کو ان کی پروا نہیں وہ ہر حال میں مسلمان سرمایہ داروں کے ساتھ ہیں۔ احرار سے دونوں خائف تھے۔ اس لیے ہندوؤں کے اونچے طبقے کی ہمدردی سرسکندر کے ساتھ تھی۔
جعلی اشتہار بازی:
جس طرح لیبر پارٹی کو گذشتہ الیکشن انگلستان کی انتخابی مہم میں تارے دیکھنے پڑے تھے۔ کیونکہ لیبر پارٹی پر بولشویکوں سے سازباز کا افسانہ تراش کر اس کی اشاعت کی گئی تھی۔ اس طرح ہمارے خلاف شہید گنج کے سلسلہ میں مولانا مظہر علی کا میرے نام فرضی خط اشتہارات کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ اس سارے کام میں مرزائیوں کا ہاتھ کام کررہا تھا۔ ان دنوں ہمارے خلاف قادیانی جماعت نے اخبارات کو خاص امداددی۔ یہ اشتہار الیکشن کے عین ایک دن قبل شائع کیا گیا۔جہاں احرار امیداوار کھڑے تھے یہ اشتہارخاص طور پر تقسیم ہوا۔
میرا حلقہ انتخاب سرسکندر او راس کے ساتھیوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ ہمارا سب سے زیادہ زور ان حلقوں میں رہاجہاں مرزائی اور مرزائی نواز امیدوار کھڑے تھے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ اسمبلیوں سے پہلے جب صوبہ جات میں دوعملی تھی۔ اس وقت کی کونسلوں کے ابتدائی برسوں کے انتخابات میں گھوڑا گاڑی کا خرچ ناجائز تھا۔ اس لیے بعض غریب اور درمیانے طبقے کے لوگ بھی کامیاب ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کونسلوں میں انتہا پسندوں کازور ہوگیا۔ حکومت نے فوراً معاملہ کو بھانپ لیا اورغریب طبقے کو غریبوں کی نمائندگی سے محروم کرنے کے لیے انھوں نے موٹروں اور موٹرکاروں کی عام اجازت دے دی تاکہ ووٹر پیدل نہ آئیں۔ اس ایک حکم نے غریب امیدواروں کا کامیاب ہونا مشکل بنا دیا پھر تو کونسلیں او راسمبلیوں کے انتخابات صرف سرمایہ داری کے کرتب رہ گئے۔ اب صرف کانگریس اورلیگ کے امراء کے لیے کامیابی ہے۔ غریب عوام کا اسمبلیوں میں عمل دخل ممکن نہیں۔
میری شکست:
میرے حلقہ انتخاب میں سرگرمی زیادہ رہی۔ میرے علاقہ کے امراء غیر راجپوت مجھ سے زیادہ خوش نہ تھے۔ انھیں یہ اندیشہ ہوا کہ راجپوت قوم کا پہلے ہی زیادہ اثرہے۔ اگرا س دفعہ یہ کامیاب ہوگیا تو شاید حکومت پر قبضہ جما بیٹھے ۔ اس لیے راجپوتوں کااقتدار اور بڑھ جائے گا۔ یہ قطعی غیراسلامی تصور تھا۔ مگر ہندوستان کا مسلمان اسلامی اسپرٹ سے نا آشنا ہے کہ وہ ہر جگہ چند امراء کے زیر اثر ہے۔ امراء کے ایمان کی کائنات اس اعتقاد سے خالی ہوتی ہے کہ مسلمان سب بھائی ہیں۔ اسی لیے عوام بھی ان ہی کے رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں علاقہ مالی لحاظ سے کمزور اور تعلیم زیادہ ہے۔ لازمی طور سے ہر نوجوان کی زندگی کی امید سرکاری ملازمت ہے۔ میں زندگی بھر حکومت کا مخالف رہا۔ یہ امیدیں میری معرفت پوری نہ ہوتی تھیں۔ یوں بھی امراء کے لڑکوں کے سوا عوام کو ملازمت کہاں ملتی ہے۔ سرسکندر حیات خان نے لوگوں کو بڑے سبز باغ دکھائے ہر نوجوان یہ سمجھا کہ افضل حق کو نیچا دکھایا تو ڈپٹی ہوئے۔ علاوہ ازیں اعلیٰ ادنیٰ ہر ملازم کو خیال تھا اور برملا حوصلہ افزائی ہوتی تھی کہ افضل سرکار کا دشمن اور اس کا ساتھی حکومت کا باغی سمجھا جائے گا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ سر سکندر خود افضل حق کے خلاف دوڑا بھاگا پھرتاہے۔
میری شکست کی سب سے مؤثر وجہ یہ ہوئی کہ لاہور کے لولے لنگڑوں کو مولانا ظفر علی خاں، مولانا عبدالقادر اور ڈاکٹر عالم کی جماعت اتحاد ملت نے اس غرض سے بھیجا تاکہ وہ علاقہ میں پھر کر لوگوں میں یہ پروپیگنڈا کریں کہ افضل حق نے مسجد شہید گنج گروائی اور اسی نے خود کھڑے ہو کر مسلمانوں پر گولی چلوائی۔ دیکھو اسی ظالم نے گولی چلوا کر ہمیں لولا لنگڑا کردیا۔ وہ درد ناک لفظوں میں اپیل کرتے تھے۔ ایک دوپولنگ اسٹیشنوں پر اس کا بہت برااثر ہوا۔ ایک عام آگ سی لگ گئی۔ اس طرح مجھے اس حلقہ سے شکست ہوئی جہاں سے مجھے شکست کی امید نہ تھی۔ میری شکست یونینٹسٹ پارٹی کی بڑی فتح تھی کیونکہ میں انتخابی مہم کا لیڈر تھا۔
لیکن ایک شکست میں فتح کے پھریرے اڑا کر شاد کام لوٹنے کا کوئی موقعہ نہ تھا۔ کم از کم بارہ ممبر ایسے تھے جو احرار کی مدد سے کامیاب ہوئے تھے۔ چونکہ وہ درمیانے اور اعلیٰ طبقے سے متعلق تھے، اس لیے امراء کی آواز میں ان کے لیے زیادہ کشش تھی، علاوہ ازیں یاد رکھنا چاہیے کہ اونچی کرسی پر بیٹھ کر غریب بھی اونچے طبقے کی سی سوچنے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احرار کے سب ممبر امراء کی کانِ نمک میں پڑ کر نمک ہوگئے اور احرار سے تعلق توڑ بیٹھے۔ یہ صورت حال صرف اسمبلی کے الیکشنوں میں ہی نہیں ہوئی بلکہ میونسپل انتخابات میں بھی یہ صورت درپیش ہوئی۔ لدھیانہ ، جالندھر، لائل پور میں غریب اور درمیانہ طبقہ کے لوگوں نے احرار کے نام پر فتح پائی اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کا ٹاٹ الٹ دیا۔ لیکن جونہی کامیاب ہوئے اور سوسائٹی میں ایک درجہ حاصل کر لیا، پھر کرسی نشین ہو کر خاک نشین احرار کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ یہ صرف احرار کا ہی تلخ تجربہ نہیں بلکہ مجلس خلافت نے پنجاب میں الیکشن لڑے، گمنام لوگوں کو ممبر بنایا ان لوگوں نے نام ور ہو کر مجلس خلافت کی پرکاہ کے برابر پروانہ کی ۔دونوں جماعتوں کے تلخ تجربہ کی بنیاد پر ہی اصول وضع کرنا پڑتا ہے کہ انتخابات میں غریب جماعتیں بے حد احتیاط برتیں اپنی پارٹی کے تجربہ کار اور ایثار پیشہ ممبروں کو آگے بڑھائیں۔ ہر سائل کو جماعت کا ٹکٹ نہ دیں جماعت سے وفاداری بڑے ایثار کا کام ہے بلند درجہ پر پہنچ کر اور بلند ہونے کی آرزوئیں دل میں چٹکیاں لینے لگتی ہیں اورکمتر درجہ کے لوگوں کی خدمت کا پاک جذبہ غرضیوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ سیاسیات میں ہمیشہ یہ خیال رہے کہ بھان متی کا کنبہ مضبوط پارٹی کا کام نہیں دے سکتا۔ پارٹی کے ممبر پختہ خیال ہوں اور پارٹی کے پروگرام پر جان دینے والے ہوں۔ سیاسی پارٹی فوجی مشین سے زیادہ مضبوط ہو تو بات ہے ورنہ ریت کی دیوار بھلی۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.