تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سفر ہجرت میں آل ابوبکرؓ کی خدمات

عطا محمد جنجوعہ
مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں میں جب شدت آگئی تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے اجازت چاہی۔
سیدہ عائشہؓ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہاری ہجرت کی جگہ مجھے خواب میں دکھائی گئی ہے۔ وہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع ہے، چنانچہ جنھیں ہجرت کرنا تھا، انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور جو لوگ سرزمین حبشہ ہجرت کرکے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ چلے آئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے بھی مدینہ ہجرت کی تیاری شروع کردی لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کچھ دنوں کے لیے توقف کرو، مجھے تو قع ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی مل جائے گی۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: کیا واقعی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی اس کی توقع ہے ؟میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت سفر کے خیال سے اپنا ارادہ ملتوی کردیا اور دو اونٹنیوں کو جو ان کے پاس تھیں، چار ماہ تک کیکر کے پتے کھلا کر تیار کرنے لگے (صحیح البخاری، کتاب مناقب الا نصار، باب ہجرۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، حدیث: ۳۹۰۵)
مشرکین مکہ نے جب دیکھا کہ مسلمان ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف نکلے جارہے ہیں تو انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا اس غرض کے لیے دارالندوہ میں ایک خاص اجلاس منعقد کیا گیا جس میں سارے قبائل کے رؤسا شامل تھے۔ بالآ خر ابوجہل کی رائے پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک نمائندہ بھیانک منصوبہ میں شریک ہو اور اسی وقت کا شانہ نبوت کا محاصرہ کر لیا گیا۔ قریش مکہ اسلام کی دعوت کے خلاف تھے لیکن انہیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی امانت و دیانت پر پورا یقین تھا اُن کی امانتیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاں محفوظ تھیں جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو قتل کی سازش کا علم ہوا تو آپ نے سیدنا علی المرتضیٰ کو بلایا اور کہا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہوا ہے تم میرے بستر پر سوجاؤ اور صبح کو ساری امانتیں واپس کردینا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت مل گئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سیدنا ابوبکرؓ کے گھر تشریف لائے۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن ہم اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، عین دوپہر تھی کہ کسی نے ابوبکر ؓ سے کہا: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سر پر رومال ڈالے تشریف لا رہے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول ہمارے یہاں اس وقت آنے کا نہیں تھا۔ سیدنا ابوبکرؓ بولے: آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، ایسے وقت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی خاص وجہ سے ہی تشریف لائے ہوں گے۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی، ابوبکر ؓ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اجازت دی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’اس وقت یہاں سے تھوڑی دیر کے لیے سب کو اٹھادو۔‘‘ سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا: اﷲ کے رسول! یہاں تو آپ ہی کے گھر والے ہیں، میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر فدا ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ ’’مجھے ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے‘‘۔ سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کی: اﷲ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، کیا مجھے رفاقت سفر کا شرف حاصل ہوسکے گا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ہاں‘‘ انھوں نے عرض کیا: اﷲ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، ان دونوں میں سے ایک اونٹنی آپ لے لیجئے! آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لیکن قیمتاً‘‘۔
سیدہ عائشہؓ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جلدی جلدی ان کے لیے تیاریاں شروع کردیں اور کچھ توشہ ایک تھیلے میں رکھ دیا۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ نے اپنے کمربند کے ٹکڑے کرکے ایک تھیلے کا منہ اس سے باندھ دیا اور اسی وجہ سے ان کا نام ’’ذات النطاقین‘‘ پڑگیا۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابوبکرؓ نے جبل ثور کی غار میں پڑاؤ کیا اور تین دن وہیں چھپے رہے۔ سیدنا عبداﷲ بن ابی بکرؓ بھی رات وہیں جاکر بسر کرتے، یہ نو جوان اور سمجھدار تھے اور بے حد ذہین تھے۔ رات کے پچھلے پہر ان دونوں کے پاس سے واپس چلے آتے اور صبح مکہ میں قریش کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتے جیسے رات کو وہیں رہے ہیں۔ پھر وہ جتنی باتیں اور تدبیریں انھیں نقصان پہنچانے کی سنتے، انھیں یاد رکھتے اور رات کی تاریکی میں آتے ہی یہ تمام رپورٹ انھیں پہنچا دیتے۔ سیدنا ابوبکرؓ کے غلام عامر بن فہیرہ بھی ان کے آس پاس اس طرح بکریاں چراتے کہ جب کچھ رات گزر جاتی تو وہ بکریوں کو ان کے پاس لے جاتے تو وہ رات کے وقت تازہ اور گرم دودھ پی کر رات بسر کرتے۔ پھر عامر بن فہیرہ صبح منہ اندھیرے ہی ان بکریوں کو ہانک لے جاتے تھے، چنانچہ وہ تین راتوں میں ہر شب ایسا ہی کرتے رہے۔ پھررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابوبکرؓ نے قبیلہ بنودیل کے ایک شخص کو مزدور مقرر فرمایا۔ یہ بنو عبد بن عدی میں سے تھا جو بڑا واقف کار رہبر تھا۔ آل عاص بن وائل سہمی کا یہ حلیف بھی تھا اور کفار قریش کے دین پر تھا ان بزرگوں نے اس پر اعتماد کیا، اور اپنے اونٹ اس کے حوالے کردیے۔ طے یہ پایا کہ تین راتیں گزار کر یہ شخص غارثور میں ان سے ملاقات کرے۔ چنانچہ تیسری رات کی صبح کو وہ دونوں اونٹ لے کر آگیا، اب سیدنا عامر بن فہیرہؓ اور یہ راستہ بتانے والا ان حضرات کو ساتھ لے کر ساحل کے راستے سے ہوتے ہوئے روانہ ہوئے۔ (صحیح البخاری، کتاب مناقب الا نصار، باب ہجرۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، حدیث: ۳۹۰۵)
مشرکین مکہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا تعاقب کیا۔ نقوش قدم کے سہارے جبل ثور تک پہنچ گئے۔ نقوش گڈ مڈ ہوگئے پہاڑ کے اوپر چڑھے۔ غاز کے پاس سے گزرے دیکھا کہ غار کے منہ پر مکڑی کا جالا ہے۔ انھوں نے غار کو گھیر لیا پورا غار اُن کی نگاہوں کے سامنے آگیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو اطمینان دلایا اور اﷲ کی معیت کا مثر دہ سنایا، سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ابوبکرنے فرمایا: میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا جبکہ میں غار ثور میں تھا۔اگر مشرکین کے کسی آدمی نے اپنے قدموں پر نظر ڈالی تو وہ ضرور ہمیں دیکھ لے گا اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا (ماظنک یا ابابکر باثنین اﷲ ثالثھما) اے ابوبکر ان دونوں کے بارے تمہارا کیا خیال ہے جن کاتیسرا خود اﷲ تعالیٰ ہو۔ ’’البخاری فضائل صحابہ باب مناقب المھاجرین 3653 ۔
قرآن حکیم نے ہجرت کے واقعہ کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ قصہ سورۃ التوبہ کی چند آیات میں مذکور ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے:
اگر تم ان (نبی صلی اﷲ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اﷲ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اﷲ ہمارے ساتھ ہے پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنھیں تم نے دیکھا ہی نہیں اس کے کافروں کی بات پست کردی اور بلند وعزیز تو اﷲ کا کلمہ ہی ہے اﷲ غالب ہے حکمت والا ہے ۔
مفتی محمد شفیع علیہ الرحمہ نے معارف القرآن میں وضاحت فرمائی:
آیت میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کا واقعہ پیش کر کے یہ بتلا دیا گیا کہ اﷲ تعالیٰ کا رسول علیہ الصلاۃ والسلام کسی انسان کی نصرت و امداد کا محتاج نہیں اﷲ تعالیٰ آپؐ کو براہ راست غیب سے امداد پہنچا سکتے ہیں، جیسا کہ ہجرت کے وقت پیش آیا، جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی برادری اور اہل وطن نے وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا، سفر میں آپ کا رفیق بھی ایک صدیقؓ کے سوا کوئی نہ تھا، دشمنوں کے پیادے اور سوار تعاقب کر رہے تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جائے پناہ بھی کوئی مستحکم قلعہ نہ تھا بلکہ ایک غار تھا، جس کے کنارے تک تلاش کرنے والے دشمن پہنچ چکے تھے، اور رفیق غار ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اپنی جان کا تو غم نہ تھا، مگر اس لیے سہم رہے تھے کہ یہ دشمن سردار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوجائیں گے۔ مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کوہ ثبات بنے ہوئے نہ صرف خود مطمئن تھے بلکہ اپنے رفیق صدیقؓ کو فرما رہے تھے لا تحزن ان اﷲ معنا ’’تم غمگین نہ ہو کیونکہ اﷲ ہمارے ساتھ ہے‘‘
یہ بات کہنے کو تو دو لفظ ہیں جن کا بولنا کچھ مشکل نہیں، مگر سننے والے حالات کا پورا نقشہ سامنے رکھ کر دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں کہ محض مادیات پر نظر رکھنے والے سے یہ اطمینان ممکن ہی نہیں، اس کا سبب اس کے سوانہ تھا جس کو قرآن نے اگلے جملے میں ارشاد فرمایا کہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر تسلی نازل فرمادی اور ایسے لشکروں سے آپؐ کی امداد فرمائی جن کو تم لوگوں نے نہیں دیکھا‘‘
یہ لشکر فرشتوں کے لشکر بھی ہوسکتے ہیں اور پورے عالم کی قوتیں خود بھی خدائی لشکر ہیں وہ بھی ہوسکتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر کفر کا کلمہ پست ہوکر رہا اور اﷲ ہی کا بول بالا ہوا (معارف القرآن)
مشرکین مکہ کو سیدنا ابوبکرؓ سے خاندانی عداوت نہ تھی جب سے انھوں نے اسلام قبول کیا اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعوتی امور میں ساتھ دیا تو مشرکین نے ابوبکرؓ کو بھی نکلنے پر مجبور کیا، ہجرت کے دوران اﷲ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوئی تو اُس دوران سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ دو میں سے دوسرے تھے اور اﷲ تعالیٰ تیسرا تھا۔
اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ کے مصداق سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہیں ان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جب غار میں پہنچے تو ابوبکرنے عرض کیا یا رسول اﷲ آپ ٹھہریں پہلے میں غار صاف کرلوں جب ابوبکرؓ نے دیکھا غار میں ایک سوراخ ہے تو اس پر اپنا قدم رکھ کر بند کردیا اور عرض کیا یارسول اﷲ ہوسکتا ہے اس میں سانپ وبچھو ہوں وہ مجھے ڈنگ مار دیں آپ اس سے محفوظ رہیں یہی وجہ ہے کہ جب کفار غارثور کے اوپر پہنچ گئے تو ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو غم ہوا کہ کہیں کفار آپ کو قتل نہ کردیں تو رسول اﷲ نے فرمایا لا تحزن ان اﷲ معنا
شب ہجرت اﷲ کی معیت خاصہ میں رسول اﷲ کے ساتھ ابوبکرؓ شریک تھے مخلوق میں سے کوئی آپ کا شریک نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر تسکین نازل فرمائی جب خوف کے وقت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نبی کریم کے ساتھ تھے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اطمینان دلایا کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سکینت کے نزول کے وقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت کی وجہ سے سیدنا ابوبکرؓ بھی یقینا شریک تھے۔
مولوی کرم دین صاحب رحمۃ اﷲ علیہ (مولانا قاضی مظہر حسین چکوالی مرحوم کے والد گرامی) نے آفتاب ہدایت میں بجا طور پر موقف اختیار کیا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بامرِ الٰہی خود ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا انتخاب کیا تھا تو اس کے جواب میں رافضی مجتہد محمد حسین نے تردید کی ’’آنحضرت نے اس سفر ہجرت کے لیے نہ ابوبکر صاحب سے کوئی مشورہ لیا تھا اور نہ ہی خفیہ سفر میں اُن کو ہمراہ لے جانے کا کوئی پروگرام مرتب کیا تھا بلکہ آنجناب تو بامر الٰہی اپنے برادر خورد حضرت علی کو اپنے بستر پر سلا کر تنہا اس مہم پر روانہ ہوئے مگر جب ابوبکر کو کسی طرح آپ کے سفر کی اطلاع ہوئی تو (خدا معلوم کس قصد سے) راستہ میں آنحضرت سے جاملے اور ہمراہ چلنے کی خواہش ظاہر کی اور آنحضرتؐ نے (خواہ افشائے راز کے خوف سے یا کسی اور مصلحت سے) اُن کو واپس نہ لوٹا یا بلکہ ہمراہ ہی رکھا‘‘ ۔اپنے دعوی کے ثبوت میں مزید تاریخی حوالہ پیش کیا ہے کہ: ’’شب ہجرت حضرت علی چادر نبی اوڑھ کر بستر رسول پر سوئے ہوئے تھے اور کفار مشرکین ان کو رسول سمجھ کر پتھر مار رہے تھے اچانک ابوبکر آئے اور کہا یا رسول اﷲ! حضرت امیر نے چادر سے سرنکال کر فرمایا وہ تو بِئر میمون کی طرف تشریف لے گئے چنانچہ ابوبکر ان کے پیچھے گئے اور پھر ان کے ہمراہ غار میں داخل ہوئے‘‘ (تجلیات صداقت جلد اول ص 123)چونکہ اہل سنت کی روایات اُن کے ہاں قابل قبول نہیں چنانچہ مذکورہ بالا موقف کو مد نظر رکھ کر چند قابل غور نکات ہیں۔
(۱)قریش مکہ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا وہ آپ کی حرکات وسکنات پر نظر رکھے ہوئے تھے اُن کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہجرت کے سفر کی خبر نہ ہوئی حضرت ابوبکر کو کس طرح ہوگئی؟ خود چل کر اُن کے گھر گئے؟ اگر ابوبکر (نعوذ باﷲ) مومن نہ تھے توعلیؓ نے ابوبکر کو (نبی کریم کے بئر میمون کی طرف جانے کی) خبر دے کر نبوت کا راز کیوں فاش کیا؟
(۲) جب علی نے ابوبکر کو بتادیا تو ابوبکر نے دروازہ کے باہر کھڑے پتھر مار نے والوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیوں نہ کیا؟
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ تبلیغ سے جو مسلمان ہوئے آپ کے نزدیک اُن میں علیؓ کے سوا کوئی مومن نہ تھا جس سے آپؐ مشورہ کرتے اور اُسے ہم سفر بناتے آپ کے اس موقف سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعلیم وتزکیہ کی اثر پذیری ظاہر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت علی کے تزکیہ کے لیے نہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت بن کر مبعوث ہوئے ہیں۔
اہل سنت کااعتقاد ہے کہ حضرت علی المرتضیؓ کا شب ہجرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بستر پر سونا کٹھن مسئلہ تھا اور آپ کے لیے سعادت بھی۔ اُن کی استقامت پر قربان جائیں حضرت علیؓ پتھر کھا کر دوہرے ہوئے رہے اپنا سر چادر سے نہ نکالا اورنہ ہی زبان کو جنبش دی کہ کہیں دشمن کو پتہ نہ چل جائے کہ بستر پر کون ہے؟ یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور کفار حقیقت حال دیکھ کر ابوبکرؓ کے گھر کی طرف چل پڑئے۔
رافضی مجتہد محمد حسین اور ان کے متبعین سے کچھ سوال مزید یہ بھی ہیں کہ:
آپ کے بقول ابوبکر ایمان سے تہی دست ہونے کے باوجود سیدنا علیؓ سے پوچھ کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جاملے غورطلب پہلو کہ ہاشمی خاندان سے ما سوائے علیؓ کے کسی اورفرد نے مشکل وقت میں ساتھ کیوں نہ دیا؟ آپ کا یہ عقیدہ کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ تبلیغ سے مکہ کے چند لوگ مسلمان تو ضرور ہوئے مگر علیؓ کے سوا کوئی مومن نہ تھا۔ آپ کا یہ نظریہ صریحاً باطل اور تاریخی حقائق کے منافی ہے کیونکہ جو تپتی ریت دھکتے کوئلوں پر لیٹ کر احد احد پکارتے رہے وہ یقینا مومن تھے۔مخبر صادق محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی جماعت میں سے شب ہجرت کے لیے ابوبکر کا انتخاب کیا جو قبل ازیں سفر وحضرمیں دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ رہے۔ ہجرت نبوی کے رازدان علیؓ ابوبکرؓ اور آل ابوبکر تھے۔
قریش مکہ نے محاصرہ سے مایوس ہو کر ابوبکر کے دروازہ پر دستک دی۔ اسماء بنت ابوبکرؓ باہر نکلیں انھوں نے پوچھا تمہارا باپ کدھر ہے؟ سیدہ نے ابوجہل کے طمانچہ کی تکلیف برداشت کرلی لیکن ہجرت کا راز فاش نہیں کیا۔
شب ہجرت سیدہ عائشہ، سیدہ اسماء دونوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے توشہ تیار کیا اور اس کو تھیلے میں رکھا اور اسماء نے اپنا کمر بند پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑے سے اس توشہ دان کو باندھا جس کی وجہ سے ان کا ذات النطاقین نام پڑ گیا (ماخوذ تاریخ ابن کثیر)
سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے بیٹے عبداﷲ کے لیے ہجرت سے متعلق جو ڈیوٹی لگائی تھی انھوں نے اسے احسن انداز میں سر انجام دیا وہ دن میں اہل مکہ کی نقل وحرکت اور پروگراموں کا مشاہدہ کرتے اور شام کو غار میں پہنچ کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور اپنے والد کو تمام باتوں سے مطلع کردیتے۔ غار کے پاس پہرہ دیتے ہوئے رات گزارتے جب صبح قریب ہوتی تو مکہ پہنچ جاتے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے غلام عامر بن فہیرہؓ کی عمدہ تربیت فرمائی کہ اُس نے ہجرت کے سلسلہ میں اہم ذمہ داری نبھائی وہ مکہ کے چرواہوں کے ساتھ بکریاں چراتے کسی سے فضول بات چیت نہ کرتے۔ جب شام ہوتی تو ابوبکرؓ کی بکریاں لے کر غار کے پاس پہنچ جاتے اور دودھ پیش کرتے پھر عبداﷲ بن ابوبکرؓ صبح کے وقت غار سے واپس ہوتے اپنی بکریاں لے کر ان کے پیچھے نکلتے تاکہ ان کے قدموں کے آثار مٹ جائیں سیدنا ابوبکرؓاور اُن کی آل نے انتہائی راز داری اور فطانت سے سفر ہجرت کے امور کو انجام دیا۔
غار ثور میں تین دن قیام کرنے کے بعد مدینہ کی طرف کوچ فرمایا۔ دوران سفر کسی نے ابوبکرؓ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ آپؐ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام ظاہر نہیں کیا بلکہ ارشاد فرمایا کہ یہ میرے رہبر ہیں۔
سیدنا ابوبکر صدیق نے سفر ہجرت کے دوران نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت میں کا رہائے نمایاں سر انجام دئیے۔ مخلوق میں سے کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ارشاد ربانی اذ یقول لصاحبہ سے ابوبکرؓ کی رفاقت غار تک خاص نہیں بلکہ رفاقت مطلقہ حاصل ہے۔ روضہ اطہر میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلو میں خلیفۃ الرسول ابوبکرؓ کی تدفین لصاحبہ کی عملی تعبیر ہے۔ یہی دعوت فکر ہے ۔ پس علمائے اہل سنت برحق طور پر یہ عقیدہ بیان فرماتے ہیں کہ :جوشخص سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت کا انکار کرے وہ نص قرآن کا منکر ہوکر ایمان سے تہی دست ہوا۔
اﷲ تعالیٰ کی مدد سے قافلہ ہجرت یثرب پہنچ گیا جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو سیدنا ابوبکرؓ نے کھڑے ہوکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر اپنی چاد رسے سایہ کیا او راہل مدینہ نے والہانہ انداز میں استقبال کیا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے غار ثور میں سانپ کے ڈسنے کی تکلیف برداشت کرلی مگر گود میں سر رکھ کر محواستراحت حبیب اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بیدار نہیں کیا۔ایسے سچے وفادار اور مخلص محب و عاشق رسول صحابی کے بارے بغض وعناد رکھناعدل وانصاف کے کس قدر منافی ہے ۔
مصادر ومراجع
1۔ معارف القرآن ازمفتی محمد شفیعؒ 2۔ صحیح البخاری
3۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ از ڈاکٹر علی محمد الصلابی
4۔ تجلیات صدقت بجواب آفتاب ہدایت از شیخ محمد حسین مجتہد جلد اول
5۔ سیرت خلفاء راشدین مرتبہ مولانا ارشد کمال

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.