تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

طلب قرطاس کی حقیقت

عطاء محمد جنجوعہ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر زندگی کے آخری ایام میں مرض کی وجہ سے غنودگی طاری ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم تشریف فرما ہیں اتنے میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز آئی ہے کچھ لکھ نہ دوں کہ یاد رہے، کاغذ قلم دوات لاؤ۔ سیدنا عمر بن خطابؓ نے موقع کی مناسبت سے عرض کیا حسبنا کتاب اﷲ بعض صحابہ کرام نے سیدنا عمرؓ کی اس بات کی موافقت کی جبکہ بعض اختلاف کرنے لگے اور کہا کہ یہ جدائی یامریض کی بے ربط گفتگو نہیں بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم واقعی کچھ لکھنا چاہتے ہیں چنانچہ قلم دوات دینا چاہیے ان کے درمیان بحث مباحثہ ہوا۔ اُتنے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز آتی ہے کاغذ قلم دوات رہنے دو مجھے میرے حال پر چھوڑدو میں سمجھتا ہوں کہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں:
لَمَّا حُضِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَفیِ الْبَیْتِ رِجَالٌ فِیھِمْ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ ،قَالَ ھَلُمَّ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابَا لَّنْ تَضِلُّوا بَعْدَہٗ، قَالَ عُمَرُ: اِنَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَمَ غَلبَہُ الْوَ جَعْ وَعِنْدَکُمْ القُرْآنُ فَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ، وَاخْتَلَفَ أَھْلُ الْبَیْتِ وَاخْتَصَمُوا، فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُولُ قَرِّبُوا یَکْتُبْ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَاباً لَّنْ تَضِلُّوا بَعْدَہٗ، وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُولُ مَاقَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَکْثَرُوَااللَّغَطَ وَالاِخْتِلَافَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْھِ وَسَلَمَ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي۔
’’نبی اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کا وقت ہوا تو اس وقت گھر میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سمیت لوگ موجود تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: قلم کاغذ لاؤ، میں تحریر کردوں، جس کے بعد تم کبھی نہیں بھٹکو گے۔ عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کہنے لگے: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور قرآن تمھارے پاس موجود ہے۔ سو ہمیں اﷲ کی کتاب ہی کافی ہے۔ گھر میں موجود لوگوں نے اختلاف کیا اور بحث مباحثہ ہونے لگا، کچھ کہہ رہے تھے کہ (قلم کاغذ) دیں، تاکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تحریر فرمادیں، جس کے بعد آپ کبھی نہیں بھٹکیں گے، جبکہ کچھ لوگ حضرت عمر والی بات کہہ رہے تھے۔ جب اختلاف نے شدت اختیار کرلی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس سے اُٹھ جاؤ۔‘‘ (صحیح البخاری: 7366، صحیح مسلم: 1637)
سیدنا سعید بن جبیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں، میں نے سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ سے سنا، وہ رو رہے تھے، فرماتے تھے: جمعرات کا دن کتنا پریشان کن تھا!
اِشْتَدَّ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَعُہٗ فَقَالَ: ائْتُونِی أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابَّا لَّنْ تَضِلُّوا بَعْدَہٗ أَبَدًا، فَتَناَ زَعُوا وَلاَ یَنْبَغِی عِنْدَ نَبِیٍ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا: مَاشَأْنُہٗ أَھَجَرَ اِسْتَفْھِمُوہُ؟ فَذَھَبُوا یَرُدُّونَ عَلَیْہِ فَقَالَ: دعُوْنِی، فَالَّذِی أَنَا فِیہِ خَیْرٌ مِّمَّا تَدْعُونِی اِلَیْہِ۔
’’نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر مرض موت کی تکلیف شدت اختیار کرگئی تھی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس کچھ لاؤ میں تحریر کردیتا ہوں، جس کے بعد کبھی نہیں گمراہ ہو گے، اس بات پر صحابہ اختلاف کرنے لگے، جبکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی موجودگی میں اختلاف ہرگز مناسب نہیں تھا۔ صحابہ کہنے لگے: آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کیا معاملہ درپیش ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ بات شدت تکلیف کی بنا پر تو ہر گزنہیں ہے۔ اس بات کو سمجھتے کیوں نہیں، وہ بار بار کہتے کہ آپ ضرور لکھیں، تب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے میرے حال پر چھوڑدیں، میں سمجھتا ہوں کہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (صحیح البخاری: 4431، صحیح مسلم:1637)
شبہ: ہجر کے غیرشائستہ الفاظ سیدنا عمرؓ نے کہے ہیں۔
ازالہ: ’’قالوا‘‘ کا مطلب ہے کہ صحابہ کے ایک گروہ کے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لفظ سیدنا عمرؓ کے نہیں ہیں بلکہ دوسرے صحابہ کرام کے ہیں جنھوں نے آپ کی رائے سے اختلاف کیا۔
اس روایت میں لفظ ہجر موجود ہے لغت میں اس کا ترجمہ فراق وجدائی ہے۔ حالت مرض میں قلم دوات طلب کرنا اور کچھ وصیت لکھ دینے کے متعلق ارشاد فرمانا ایسے عمل ہیں جو فراق وجدائی کی اطلاع دیتے ہیں۔ اسی واسطے حاضرین نے کہا پوچھو ’’کیا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس جہان سے تیاری فرما رہے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
بعض محدثین نے ہَجَرَ کو ہجر بمعنے مرض سے مشتق مان کر غیر ار ادی کلام کے کیے ہیں۔ یعنی شدت مرض میں بے محل کلام کو ہجر کہتے ہیں بخاری کی چھ روایتوں میں ہجر کے اوپر ہمزہ استفہام ہے۔ صرف ایک میں بے ہمزہ ہے۔ لہٰذا صول حدیث کے تحت اس میں بھی ہمزہ ماناجائے گا پس یہ لفظ ہجر اگر مریض کی شدت مرض میں بے رابطہ کلام کے معنی میں بھی ہو تو بھی استفہام انکاری ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تشریح اس طرح ہوگی قلم دوات لے آنے کو ترجیح دینے والے صحابہ نے کہا اے روکنے والو! تم قلم دوات لانے سے کیوں روکتے ہو؟ کیا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مریضوں جیسی گفتگو کر رہے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ جب تم بھی جانتے ہو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہجر ناممکن ہے تو پھر قلم دوات لانے میں پس وپیش کیوں کرتے ہو؟
جن صحابہ کرام نے قلم دوات لانے میں پس وپیش کیا اُن کی نیت بھی نیک تھی وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس حالت میں تکلیف دینے کے حق میں نہیں تھے۔ اُن میں سیدنا عمر بن خطابؓ بھی شامل تھے جنھوں نے فرمایا حسبناکتاب اﷲ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔
اہل بیت یعنی گھر میں موجود کچھ لوگوں نے حضرت عمر فاروقؓ کی بات کو پسند کیا کہ نبی کریم کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ او رجو صحابہ لکھوانے کے حق میں تھے انھوں نے اشتیاق کے سبب بار بار عرض کیا کہ ارشاد ہو تو ہم قلم دوات لے آئیں۔ اس پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں آپ جو مجھے کام کہہ رہے ہیں میرے مطابق نہ لکھنا بہتر ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب نے ایک دفعہ حسبنا کتاب اﷲ کہا گھر میں تشریف رکھنے والے بعض صحابہ کرامؓ نے تائید بھی کی لیکن کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ کوئی صحابی قلم دوات لینے گیا ہو حضرت عمرؓ نے اُسے روکا ہو ۔
واقعہ قرطاس جمعرات کو پیش آیا جبکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سوموار کو دنیاسے تشریف لے گئے۔ قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ سرور کائنات محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے کفار کی پیشکش پر کلمہ حق میں لچک گوارا نہ کی تو صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم شرعی حکم کی تعمیل سے رک جائیں؟ یہ معاملہ ناممکن ہے۔ دراصل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اجتہاد سے ترک کردیا اور حضرت عمر فاروقؓ کی رائے کو پسند کیا اور قلم دوات لے آنے پر اصرار کرنے والوں کی رائے کو پسند نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے چھوڑ دو‘‘ میں اب قلم دوات منگوانے کے حق میں نہیں ہوں۔ معلوم ہو گیا کہ ’’قوْمُوْ اعَنِیّ‘‘ کا خطاب ان بزرگوں سے ہے جو قلم دوات لانے کے حق میں تھے ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بعض مواقع پر سیدنا عمر فاروق کی رائے کو ترجیح دی۔ ایک دفعہ آپ صلی اﷲ علیہ سلم مجلس میں تشریف فرماتھے۔ اچانک اُٹھ کر چلے گئے۔ کافی دیر ہوگئی تو صحابہ کرام آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلاش میں ادھر اُدھر گئے۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے آپ کو ڈھونڈ لیا آپ ایک باغ میں تشریف فرما تھے جب سیدنا ابوہریرہ نے ماجرا بیان کیا تو آپ نے اُن کو اپنا جوتا دیا فرمایا: جاؤ ’’جوبندہ راستے میں ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔ سیدنا ابوہریرہ نکلے سب سے پہلے سیدنا عمر فاروقؓ سے ملاقات ہوئی انھیں جنت کی خوشخبری سنائی تو انھوں نے سیدنا ابوہریرہؓ کے سینے پر زور سے ہاتھ مارا وہ زمین پر گر گئے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف بھاگے سیدنا عمر بن خطابؓ بھی اُن کے پیچھے ہوئے، وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور آپ سے شکایت کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب سے پوچھا۔
یَاعُمَرُ، مَاحَمَلَکَ عَلٰی مَافَعَلْتَ؟ قَالَ؛ یَارَسُولَ اللّٰہِ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، أَبَعَثْتَ أَبَا ھُرَیْرَہَ بِنَعْلَیکَ، مَنْ لَّقِیَ یَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِّھَا قَلْبُہٗ بَشِّرْہٗ بِالْجَنَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلاَ تَفْعَلْ فَاِنِی أخْشٰی أَنْ یَّتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْھَا، فَخَلِّھِمْ یَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّھِمْ۔
عمر ایسا کیوں کیا؟ آقا میرے ماں باپ آپ پہ قربان، کیا آپ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کو یہ پیغام دے کر بھیجا تھا کہ جو کلمہ گو ملے اسے جنت کی خوش خبری دے دو۔؟ فرمایا جی ہاں! تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کہنے لگے کہ آقا ایسا نہ کیجئے، مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسی پر تکیہ کرلیں گے، انہیں عمل کرنے دیجئے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جی درست ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 31)
سیدنا عمرؓ نے ابوہریرہ کے سینہ پرزور سے ہاتھ بھی مارا ہے۔ مگر جب اپنا موقف سامنے دکھا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ نے حضرت عمر کی رائے کی تائید فرمائی۔ اب حدیث قرطاس میں دیکھیے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب دین محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکمیل ہوچکی تھی، آیت: (اَلْیَوْمَ اکمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم)آج ہم نے تمہارا دین مکمل کردیا، نازل ہوچکی تھی۔ حدیث قرطاس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ ظاہر کرکے صحابہ کا امتحان لیا حضرت عمر فاروقؓ نے سب صحابہ کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا حَسْبُناَ کِتَْابُ اللّٰہِ مخبر صادق حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کی موافقت کی۔
کتاب اﷲ کے کافی ہونے سے حدیث کے انکار پر دلیل نہیں بنائی جا سکتی:
حسبنا کتاب اﷲ (ہمیں اﷲ کی کتاب کافی ہے) کا ہرگز مطلب نہیں کہ حدیث کی ضرورت نہیں ورنہ کیا قرآنی آیت حسبنا اﷲ (ہمیں اﷲ کافی ہے) کا یہ مطلب ہونا چاہیے کہ رسول کی ضرورت نہیں ۔
طلبِ قرطاس کس تحریر کے لکھنے کے لیے تھا:
فریق ثانی کا یہ دعویٰ کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جناب سیدنا علیؓ کی خلافت سے متعلق وصیت لکھنا چاہتے تھے کہ صحابہ کرام مانع ہوئے حقائق کی دنیا میں قطعاً درست نہیں۔ قابل غور پہلو ہے کہ اگر صحابہ کرام خلافتِ علی لکھنے سے مانع ہوئے تو انھوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بیان کرنے سے تو نہیں روکا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی وفات سے قبل تین وصیتیں فرمائی تھیں کسی وصیت میں ذکر نہیں فرمایا اور نہ ہی حضرت علی المرتضیٰ نے خلافت کا مطالبہ کیا۔
سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:
’’سیدنا علیؓ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیان سے واپس آئے ،یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرض موت کا واقعہ ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا ابوالحسن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم کی طبیعت کیسی ہے؟ کہا الحمداﷲ! کافی بہتر ہے پھر سیدنا عباس بن مطلبؓ نے سیدنا علیؓ کا ہاتھ تھام کر فرمایا: اﷲ کی قسم! تین دن بعد آپ محکوم ہوجائیں گے۔ اﷲ کی قسم! نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس مرض سے جاں بر نہیں ہوسکیں گے۔ مجھے آثار نظر آگئے، بوقت وفات بنو عبدالمطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔ ہم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جاکر خلافت کے متعلق پوچھ لیتے ہیں اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو معلوم ہو جائے گا، اگر کوئی دوسرا ہے تو بھی پتہ چل جائے گا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں اس کی وصیت فرمادیں گے سیدنا علیؓ نے کہا اﷲ کی قسم! اگر ہم نے اس وقت آپ سے مطالبہ کیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انکار کردیا تو لوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے میں تو یہ مطالبہ نہیں کروں گا۔ (صحیح بخاری 4447)
سیدنا علی المرتضیٰ نے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلبؓ کے مشورہ کے باوجود خلافت کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس وضاحت کے باوجود اگر مخالفین اصرار کریں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سیدنا علی المرتضیٰؓ کی خلافت سے متعلق لکھنا چاہتے تھے، تو یہ دعوی تاریخی حقائق کی روشنی میں غلط ثابت ہو گا۔ بلکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جناب سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت کے بارے لکھنا چاہتے تھے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ارادہ ملتوی کردیا کہ اﷲ تعالی بھی اور مومنین بھی ابوبکر کے علاوہ انکار کردیں گے۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مرض دعوت میں مجھ سے فرمایا:
لَقَدْ ھَمَمْتُ أَوْأَرَدْتُ أن أُرْسِلَ اِلٰی أَبِی بَکْرٍ وَابْنِہٖ فَأَ عْھَدَ، أَنْ یَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْیَتَمَنَّی الْمُتَمَنُّونَ، ثُمَّ قُلْتُ: یَأْبَی اللّٰہُ وَیَدْفَعُ المُؤْمِنْوُنَ، أَوْ یَدْ فَعُ اللّٰہُ وَیَأْبَی المُؤْمِنُونَ إلا أبا بکر۔
’’ارادہ تھا کہ میں ابوبکر اور ان کے بیٹے کی طرف پیغام بھیج دوں اور انھیں (ابوبکر کو) خلیفہ نامزد کردوں کہ باتیں کرنے والے باتیں کریں گے یا خواہش کرنے والے خواہش کریں گے۔ پھرمیں نے کہا: اﷲ اور مومن ابوبکر کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں مانیں گے۔ (صحیح بخاری: 7217، صحیح مسلم: 2387)
مذکورہ بالا حدیث سے واقعہ قرطاس کا پس منظر نہایت خوش اسلوبی سے واضح ہوجاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا ہی ہوا۔ صحابہ کرام نے ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہْ وَسَلَّمَ امْرَأَۃٌ، فَکَلَّمَتْہُ فِی شَیْءٍ، فَأَ مَرَھَا أَنْ تَرْجِعَ اِلَیْہِ قَالَتْ: یَارَسُولَ اللّٰہِ، أَرَأَیْتَ اِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْکَ کَأَنَّھَا تُرِیدُ الْمَوْتَ، قَالَ: اِنْ لَمْ تَجِدِ ینِی، فَأتِی أَبَابَکْرٍ۔
’’ایک عورت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ سے کسی معاملے میں بات کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ حاضر ہونے کا حکم دیا۔ اس نے عرض کیا: اﷲ کے رسول!میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو؟ اشارہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کی طرف تھا۔ فرمایا: ابوبکر کے پاس آجانا۔‘‘
(صحیح البخاری: 7220، صحیح مسلم: 2386)
یہ واقعہ بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے ایام میں پیش آیا جس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس عورت کو ابوبکرؓ صدیق کے پاس پہنچے کے متعلق ارشاد فرمایا۔ اس نے نیابت وقائم ومقامی کے مسئلہ کو واضح کردیا۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتی ہیں:
لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْتِی قَالَ مُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ: فَقُلْتُ یَارَسُولَ اللّٰہِ، اِنَّ أَبَابَکْرٍ رَجُلٌ رَقِیقٌ اِذَاقَرَأَ الْقُرْآنَ لاَیَمْلِکُ دَمْعَہٗ فَلَوْ أَمَرْتَ غَیْرَ أَبِی بَکْرٍ، قَالَتْ: وَاللّٰہِ مَابِی اِلاَّ کَرَاھِیَۃُ أَن یَتَشَاءَ مَ النَّاسُ بِأَوَّلِ مَنْ یَقُومُ فِی مَقَامِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَرَاجَعْتُہٗ مَرَّتَیْنِ أَوْثَلَاثًا، فَقَالَ: لِیُصَلِّ بِالنَّاسِ أَبُو بَکْرٍ فَاِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوسُفَ۔
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف لائے تو فرمایا: ابوبکر کو حکم دیں کہ نماز پڑھائیں۔ میں نے عرض کیا: اﷲ کے رسول!ابوبکر رضی اﷲ عنہ رقیق القلب ہیں، قرآن پڑھتے ہیں تو آنسوؤں پر کنٹرول نہیں رہتا۔ کسی اور کو حکم دے دیں، تو اچھا ہو۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جگہ پر سب سے پہلے کھڑے ہونے والے کے بارے میں بدشگونی کریں، میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے دو تین بار تکرار کیا، لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ نماز پڑھائیں، تم خواتین تو صواحب یوسف علیہ السلام جیسی ہو۔‘‘ (صحیح البخاری: 679، صحیح مسلم: 418)
مرض الوفات کے ایام میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد سے اپنے مصلیٰ پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا امامت صلاۃ کے لیے تقرر حقانیتِ خلیفۂ الرسول کا قوی ثبوت ہے۔ انھی ایامِ بیماری میں بعض روایات سے ایک تحریرلکھنے کے ارادے کا ذکر موجود ہے اس ’’عمل نیابت‘‘ کے بعد جس کا ارادہ ملتوی فرمادیا ہے۔ چنانچہ واقعہ قرطاس دراصل خلافت ابوبکرؓ سے متعلق تحریر لکھنے کا ارادہ تھا۔ جسے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے علم الٰہی کے تحت خود ہی ملتوی کردیا۔ پھردنیا نے دیکھا کہ مخبر صادق سیدنا ومولانا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشینگوئی ’’اﷲ اور مومن ابوبکر کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں مانیں گے‘‘ حرف بحرف پوری ہوئی۔ مہاجرین ونصار کا امامت صلاۃ کی بنیاد پر خلیفۃ الرسول کے لیے اجتہادی فیصلہ اﷲ کے تکوینی انتخاب کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے حق میں تھا۔
ماخذومراجع:
مقالہ افضلیت صدیق اکبرؓ، از مولانا محمد نافع، قصہ قرطاس کا مختصر فیصلہ، از حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی، تحقیق حدیث قلم دوات، ازمولاناسید احمد شاہ چوکیروی، مقالۃ السنۃ، از علامہ غلام مصطفےٰ ظہیر مان پوری، خلفاء راشدین، مرتبہ پروفیسر علامہ خالد محمود رحمہم اﷲ ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.