تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

امیر المؤمنین خلیفۂ بلا فصل رسول سیدنا ابوبکر صدیق سلام اﷲ علیہ ورضوانہ

جانشین امیر شریعت، امام اہل سنُت مولانا سید ابو معاویہ ابوذربخاری قدس سرہ پہلی قسط

آپ کی ولادت با سعادت واقعہ فیل کے دو برس کچھ ماہ بعد ہوئی۔ آپ حضورعلیہ السلام سے اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ بچپن، جوانی، بڑھاپا، اور سب مال ودولت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر نثار کر دیا تھا۔ آپ ساتویں پشت پر مُرہ بن کعب پر جا کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے مل جاتے ہیں۔ اور تیم بن مرُہ کی وجہ سے بنو تیم کہلاتے ہیں ۔
آپ بہ اجماع اُمت اسلامیہ سوائے ابنیاء کے کل انسانوں میں سے مطلقاً افضل ہیں۔ بالغ مردوں میں سب سے پہلے آپ ہی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے جس شخص پر اسلام پیش کیا ایک دفعہ تو وہ ضرور ہچکچایا، سوائے ابوبکر صدیق کے ان پر میں نے جس وقت اسلام پیش کیا تو آپ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ آپ کی صاحبزادی افضل نساء انعالمین حبیبۂ حبیب ربّ العالمین۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اﷲ ورضوانہٗ علیہا ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن میں بلند رُتبہ صاحب علم و فضل اور فقیہ خاتون تھیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد باتفاقِ مہاجرین وانصار خلیفۃ الرسول مقرر کیا گیا، کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی آپ کو اپنی جگہ پر امامت نماز کے لیے مقرر کردیا تھا۔ کسی نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی بیعت کے متعلق پوچھا تو حضرت علی نے فرمایا کہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے اپنا مرتبہ اورحضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کامقام بتا دیا تھا جب میرے سامنے صدیق اکبر (رضی اﷲ عنہ) کو فرمایا کہ اٹھو! اور جاکر لوگوں کونماز پڑھاؤ۔ اور میں موجود تھا مگر مجھے نہ فرمایا، جب ان کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے لیے منتخب کیا تھا، تو ہم نے ان کو اپنی دنیا کے لیے منتخب کرلیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ہاں فصاحت و خطابت کا کمال ومعاملات سلجھا نے کا ایسا سلیقہ تھا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد انصار جب سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور خلافت کا حقدار اپنے آپ کو سمجھنے لگے تو حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو عرض کیا کہ چلیے انصار کے پاس چلیں۔ میں نے انصار سے بات کرنے کے لیے ایک بہت ہی عمدہ تقریر سوچی تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو پہلے انصار کے خطیب نے تقریر شروع کی اور اپنے فضائل ومناقب بیان کرنے کے بعد انصار کا استحقاق خلافت جتلایا۔ اس کے بعد میں کھڑا ہونے لگا تو حضرت ابوبکر نے مجھے روک دیا اور خود کھڑے ہوگئے، اور خدا کی قسم! جو کچھ بھی میں نے سوچا تھا وہ سب کچھ تھوڑے وقت مگر فصیح اور جچے تُلے الفاظ میں بیان کردیا۔ اس کے علاوہ انصار کے مناقب میں جو کچھ بھی حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا وہ بھی سب کا سب بیان فرمادیا۔ اس کے بعد رئیس انصار حضرت سعد بن عُبادہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے سعد! تم جانتے ہو کہ تم موجود تھے اورحضور علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اس امر خلافت کے حقدار قریش ہوں گے۔ حضرت سعد نے فرمایا کہ بے شک یہ صحیح ہے اور اب تم ہمارے امیر ہو اور ہم تمہارے وزیر ہوں گے۔ پھر مشہور کاتب وحی حضرت زیدبن ثابت انصاری رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ جس طرح ہم لوگ حضور علیہ السلام کے انصار تھے اُسی طرح ان کے خلیفہ کے بھی انصار ہوں گے۔ چنانچہ انصار و مہاجر بیعت پر ٹوٹ پڑے۔ پہلے پہل حضرت بشربن سعد نے بیعت کی ان کے بعدحضرت فاروق اعظم نے بیعت کی۔ تمام انصار ومہاجرین نے جو اس وقت موجود تھے بیعت کرلی۔ دوسرے دن مسجد نبوی میں عام بیعت ہوئی جس میں حضرت عباس، حضرت علی اور حضرت زبیر بھی تھے۔ حضرت زبیر نے اتنا عرض کیا کہ ہمیں شریک مشورہ نہ کرنے کا شکوہ ضرور ہے ورنہ ہم یہ تویقین کرتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ہی خلافت کے مستحق ترین شخص ہیں۔ وہ یارِ غار ہیں اور حضور علیہ السلام نے ان کو اپنی زندگی میں ہی ہمارا امام بنا دیا تھا۔ لیکن جب حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ کی اچانک کار روائی کی تفصیل بتائی اور پھر بتایا کہ وہاں مشورہ کی گنجائش ہی کہاں تھی اورمعذرت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’خدا کی قسم مجھے امارت کاشوق دن رات کے کسی حصے میں نہیں ہوا نہ ہی میں نے اس کے لیے دعا کی۔ لیکن میں امت کے فتنہ سے ڈرگیا۔ یہ خلافت میرے تکلیف کا باعث ہے۔ راحت کاباعث نہیں۔ اور میری طاقت سے زیادہ بوجھ ہے‘‘۔ تو ان کو حقیقت حال معلوم ہوگئی۔
پھر امور خلافت کے مشوروں میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ بہترین مشیر رہے۔ جب مرتدین عرب سے جنگ چھڑ گئی تو حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی خواہش تھی کہ اس جنگ کی وہ خود کمان کریں۔ چنانچہ اسی ارادہ سے آپ مدینہ سے ایک منزل ذی القصہ تک تشریف بھی لے گئے۔ آپ کے اونٹ حضرت علی چلا رہے تھے۔ اور ساتھ ہی روکتے بھی تھے کہ آپ تشریف نہ لے جائیں۔ جب ذی القصہ پر پہنچے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اونٹ بالکل روک لیا اور سختی سے اصرار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آپ کو وہ بات کہتا ہوں جو آپ کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بروز جنگ اُحد فرمائی تھی۔ جبکہ آپ نے جہاد کرنے کی اجازت مانگی تھیہ۔ کہ:’’ اپنی تلوار کومیان میں کرلو اور ہمیں صدمہ نہ پہنچاؤ‘‘۔ تو اے خلیفۂ رسول اﷲ؟ اگر ہمیں آپ کی ذات کا صدمہ پہنچ گیا تو پھر اسلام کا نظام کبھی بھی درست نہ ہوسکے گا۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ مشورہ قبول کرلیا اور گیارہ لشکر تیار کیے اور ان کے لیے گیارہ امیر مقرر فرمائے۔ ہر امیر کو ایک ایک جھنڈا عنایت فرمایا۔
ان کے اسمائے گرامی تبرّ کاً ملاحظہ ہوں۔ (۱) خالدین ولید، (۲) عکرمہ بن ابوجہل، (۳) شرحبیل بن حسنہ (۴) خالد بن عاص۔ (۵) عمرو بن عاص۔ (۶) حذیفہ بن محسن (۷) عرفجہ بن ہرثمہ (۸) طریفہ بن حاجز (۹) سوید بن مقرن (۱۰)علابن الحضرمی(۱۱) مہاجربن ابی امیہ رضی اﷲ عنہم اجمین ۔ پھر ان حضرت کوگیارہ مختلف سمتوں میں روانہ فرمایا جس سے پورے جزیرۃ العرب پر دوبارہ اسلامی حکومت کی دھاک بیٹھ گئی۔ جو لوگ مرتد ہوگئے تھے وہ یا دوبارہ مسلمان ہوگئے یامقابلہ میں ختم ہوگئے۔
فقاہت اور اتباع سنت :
فقاہت اور اتباع سنت کا یہ مقام تھا کہ جب حضورعلیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا نے اراضیٔ خیبر سے اپنے حصے کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’ان (باغات) کے مفاد اور آمدن جس طرح حضور علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کوملتی تھیں اسی طرح اب بھی ملتی رہیں گی۔ باقی رہی اس کی تقسیم وتملیک بطور وراثت…… توحضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ یہ حدیث دوسرے بہت سے صحابہ کرام کے علاوہ خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے بھی مروی ہے اور امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اسے روایت کیاہے (اُصول کافی) اور اگر بطور ورثہ یہ تقسیم کی جاتی تو پھر حضرت عباس اور ازواج مطہرات بھی وارث ہوتیں اور ان کو بھی وراثت ملتی۔ بلکہ بروایت مشہور شیعہ مورٔخ ملا باقر مجلسی کی نقل کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے یہ بھی فرمایاکہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میری جائیداد حاضر ہے جو چیز پسند ہو منظور فرمالیں۔ آپ اپنے ابا جان کی کل امت کی سردار ہیں اوراپنے صاحبزادوں (حضرت حسن وحسین) کے لیے شجرہ طیبہ ہیں۔ آپ کے بلند شرف وفضل کا انکار کوئی نہیں کرسکتا۔ میرے کل اموال میں آپ کا حکم نافذ ہے۔ مگر مسلمانوں کے مال (صدقات) میں آپ کے ابا جان (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے فرمان کے خلاف ہر گز نہیں کرسکتا۔(۱) چنانچہ یہ تفصیل سن کر حضرت فاطمۃ الزہرا، حضرت صدیق اکبر پر راضی ہوگئیں۔ (۲)
لیکن چونکہ یہ وراثت نہ تھی اس لیے حضرت صدیق اکبر اس کوتقسیم نہ کرسکتے تھے البتہ خلافت کی طرف سے اراضی کا اہتمام وانصرام حضرت عباس اورحضرت علی کے درمیان تھا۔ پھر خلافت فاروق میں جب خود حضرت عباس اور حضرت علی کے درمیان اسی جائیداد کی تولیت کے معاملے میں اختلا ف ہوا اور دونوں حضرات نے آکر حضرت عمر کو درخواست کی کہ زمین تقسیم کر کے اُن کو الگ الگ متولی مقرر کر دیاجائے تو حضرت فاروق اعظم نے بھی انکار فرما دیا اورفرمایا کہ یہ ملکیت نہیں جو بطور وراثت تقسیم کی جاسکے۔ چنانچہ اسی سابق معمول کے مطابق وہ دونوں کے پاس رہی۔ پھر حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کے مشورے کے مطابق حضرت عباس بھی اس سے الگ ہوگئے کہ رد عمل کی وجہ سے انتظام ٹھیک نہ رہ سکتا تھا، تو صرف حضرت علی رضی اﷲ عنہ رہ گئے۔
اگر یہ وراثت ہوتی تو حضرت علی کوسب کی سب پر قبضہ کرنا درست نہ ہوتاکہ اس طرح حضرت عباس رضی اﷲ عنہ اور دوسرے ورثاء کا حق ضائع ہوتا تھا۔ لیکن چونکہ یہ وراثت نہ تھی اس لیے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اس کے تنہا نگران رہے۔ پھر یہ جائیداد حضرت حسن کے پاس آگئی۔ پھر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے پاس رہی۔ پھرحضرت زین العابدین بن حضرت حسین کے پاس اور حضرت حسن بن حسن کے پاس آگئی۔ پھر یہ ہمیشہ کے لیے اولاد حضرت علی کے پاس آگئی رضی اﷲ عنہم اجمعین۔چنانچہ ابن کثیر میں ہے۔ فَاسْتَمرَّفِیْ أَیْدِیْ العلویینپھریہ جائیداد ہمیشہ علویوں کے قبضہ و تصرف میں رہی۔ (۳)
اس تفصیل سے ان ناسمجھوں کے اس اعتراض کا بھی جواب ہوگیا کہ حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ (رضی اﷲ عنہما) پر ظلم کیا کہ ان کو ان کا حق بطور وراثت تقسیم کرکے نہیں دیا۔ تو جب اس جائیداد کا قبضہ بھی ان کے ہی پاس تھا اور اس کے صنائع اور مفادات بھی حضرات اہلیت ہی وصول کرتے تھے۔ تو پھر ظلم واقعاتی تو نہ ہوا، مسئلے اور نظریے کا اختلاف ہوا۔ اور وہ مسئلہ ایسا تھا کہ نہ صرف ازواج مطہرات اور حضرت علی اور حضرت عباس کو معلوم تھا بلکہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعدبن ابی وقاص، حضرت ابوہریرہ اور دوسرے بے شمار اکابر صحابہ کو معلوم تھا رضی اﷲ عنہم اجمعین۔ اور اگر ان حضرات میں سے کوئی بھی خلیفہ بنایا جاتا تو وہ بھی اسی فرمان نبوی پر عمل کرنے پر مجبور تھا۔ چنانچہ حضرت نے اسی طرز کو اپنے عہد خلافت میں قائم رکھا اور حضرت زیدبن حسن بن علی بن حسین نے فرمایا کہ اگر اس وقت بجائے صدیق اکبر کے میں ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے کیا (۴)
اور بالفرض اگر یہ ظلم ہی ہوا تو پھر ظلم تنہا حضرت فاطمہ ہی پر تو نہیں ہوا بلکہ ان کے ساتھ حضرت عباس اور بہت سی امہات المومنین پر بھی جن میں خود حضرت صدیق اکبر کی صاحبزادی حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بھی تھیں۔ رضی اﷲ عنہم اجمعین۔
شجاعت اور استقامت :
شجاعت اور ثابت قدمی کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں۔ کہ جب جنگِ بدر کے دن ہم نے حضور کے لیے عریش یعنی چھپر بنایا تو ہم نے مشورہ کیا کہ کون شخص حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہے گا۔ کہ قریش اس طرف کا قصد نہ کرسکیں۔ کیونکہ قریش کی اصلی عداوت تو حضور علیہ السلام سے تھی۔ تو خدا کی قسم!ہم میں سے کوئی شخص بھی سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمراہ ٹھہرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ حضرت صدیق اکبر ہی تھے جو تلوار ہاتھ میں لیے حضور علیہ السلام کے سر مبارک پر کھڑے جان نثارا نہ پہرہ دیتے رہے (۵)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ جب قریش نے خانہ کعبہ میں حضور علیہ السلام پر حملہ کیا تو خدا کی قسم ہم میں سے کوئی بھی آپ کی امداد نہ کرسکا سوائے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے۔ وہ آئے اور قریش کو دھکے دے کر حضور علیہ السلام سے الگ کردیا۔
حضرت عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور علیہ السلام خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے حضور کے گلے میں چادر ڈال کر اس کو مروڑنا شروع کردیا۔ ادھر سے حضرت ابوبکر صدیق آگئے اور عقبہ کو دھکا دیکر حضور اقدس کے گلے سے اس کی چادر نکال دی (بخاری)
حضرت عمر کہتے ہیں کہ جب حضور علیہ والسلام کی وفات ہوگئی تو عرب کے بہت سے نومسلم قبائل مرتد ہوگئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت صدیق اکبر نے ان سب سے جہاد کرنے کا ارادہ فرمایا۔ تو میں حضرت صدیق اکبر کے پاس گیا اور عرض کی کہ یا خلیفۃ رسول اﷲ ان لوگوں کے ساتھ نرمی کریں کہ وہ وحشی جانوروں کی طرح ہیں۔ نرمی اور دلا سے سے تو قابو آجائیں گے لیکن سختی کرنے سے اور زیادہ بِگڑ نہ جائیں؟ حضرت صدیق اکبر نے ناراض ہو کر غصے سے فرمایا کہ عمر! تم کو کیا ہوگیا مجھے تو اس موقع پر تمہاری امداد وتائید کی ضرورت تھی۔ تم اُلٹا کمزور کن مشورہ دینے آگئے ہو؟جب تک تم مسلمان نہیں ہوئے تھے تو بہت سخت تھے۔اب نرم کیوں ہوگئے ہو؟ خدا کی قسم جب تک تلوار کو میرا ہاتھ اٹھا سکے گا اس وقت تک میں ان مرتدین کے ساتھ جہاد کروں گا اور اگر مد زکوٰۃ میں اُونٹ کی نکیل کی رسی تک ان سے واجب الوصول ہوئی تو ان سے وہ بھی وصول کرکے چھوڑوں گا۔حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھے حضرت ابوبکر صدیق کی پختگی اور مضبور معلوم ہوئی۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا وہ کرکے چھوڑا (۶)
صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کے نمائندے عُروہ بن مسعود ثقفی نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر رعب ڈالنے کے لیے کہا: یہ چند اوباش جو ادھر اُدھر سے آپ کے ساتھ اکٹھے ہوگئے ہیں، مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کل ہی آپ کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ عُروہ کا یہ کلام گو سب صحابہ نے سُنا تھا۔ مگر فرطِ غضب سے حضرت صدیق اکبر بے تاب ہوگئے اور عروہ کو غصے سے فرمایا جا اور جاکر اپنی معبودہ ’’لات‘‘ کی پیشاب گاہ چوس! کیا ہم حضور کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟‘‘ (۷)
کفار عرب میں یہ گالی انتہائی سخت سمجھی جاتی تھی کہ قریش کی معبودہ ’’لات‘‘ کو گالی دی گئی۔ یہ تھی حضرت صدیق اکبر کی شجاعت اور دلیری کہ خاص دشمن کا ملک اور مکہ کا دامن۔ اپنی جماعت قلیل مقابل میں قریش کا چوٹی کا نمائندہ ادھر قریش خون کے پیاسے اور جنگ چھیڑ نے کے لیے بہانہ کے متلاشی۔ مگر آفرین کہ دینی غیرت کے مقابلہ میں کسی بات کی پر واہ تک نہیں۔
اصابت رائے
اصابت رائے کا یہ حال تھا کہ اسی موقع پر جب حدیبیہ میں صلح ہوگئی تو صلح کی شرائط چونکہ بظاہر مسلمانوں کے حق میں کمزور تھیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو کچھ پسند نہ آئیں۔ اور حضور علیہ السلام کی خدمت میں جاکر عرض کیا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا!میں نے جو کچھ کیا اﷲ تعالی کے حکم سے کیا اور اﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو ضائع نہ کرے گا۔ حضرت عمر کی غیور طبیعت پر بوجھ اور صدمہ تھا۔ اس لیے وہ وہاں سے حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں پہنچے اور اپنا صدمہ ظاہر کیا۔ حضرت صدیق اکبر کو معلوم نہ تھا۔ کہ حضور علیہ السلام نے کیا جواب فرمایا ہے۔ مگر انہوں نے بھی بعینہ وہی جواب دیا جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
حجۃ الوداع کے موقع پر جب آیت الیوم اکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا نازل ہوئی تو سب صحابہ کرام بہت خوش ہوئے کہ الحمدﷲ کہ ہمارا دین کامل ہوگیا۔ اور اﷲ نے اپنی نعمت ہم پر تمام کردی ۔ مگر حضرت صدیق اکبر رونے لگے اور فرمایا کہ اس آیت سے حضور علیہ السلام کی وفات کی اطلاع دی گئی ہے۔ مرض وفات میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا یا اﷲ تعالیٰ کو پسند کرنے کا اختیار دیا، تو اس بندے نے دنیا کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کو اختیار کرلیا۔ یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ بے ساختہ رونے لگے اور فرمایاکہ یا رسول اﷲ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ بعد کو صحابہ کرام نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ بندہ سے مراو خود حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات مقدس ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی وفات حسرت آیات کا وقت قریب آگیا ہے۔ (۸)
(حواشی )
(۱) حق الیقبن ملا مجلسی: ص ۲۳۱، از رسالہ باغ فدک ۵۳ (۲) عجاج السالکین ازآفتاب ہدایت: ص ۲۴۳ (۳)صواعق:ص ۳۲، تاریخ ابن کثیر، ج۵ ص ۲۸۸ (۴) صواعق: ص ۲۱ (۵) صواعق:ص ۳۵ (۶) صواعق: ص ۲۵ (۷)صواعق: ص۲۶ (۸) متفق علیہ وصواعق: ص۱۷
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.