تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا درگزر

مولانا الطاف حسین گوندل

غزوۂ احد میں کفار کی یلغار کے نتیجے میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اگلے چار دانت شہید ہوگئے۔ سرمبارک اور چہرہ انور بھی زخمی ہوگیا۔ یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے رنج واضطراب کی حالت میں گزارش کی یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کاش آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان دشمنان دین پر بد دعا کرتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں لعنت اور بد دعا کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ بلکہ لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘
حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکے میں سخت قحط پڑا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ قریش چمڑا اور مردار کھانے لگے۔ ابو سفیان کو یہ بات معلوم تھی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوتی ہے، وہ مدینہ پہنچے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملتجی ہوئے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوم قحط سے ہلاک ہو رہی ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے لیے دعا کیجئے۔ اس کے جواب میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ میں ان لوگوں کے حق میں کیوں دعاکروں جنہوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو تکلیفیں پہنچائیں اور ہمیں اپنے گھروں سے نکالا؟ بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فی الفور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے میں اس کو قدرت کے انتقام کے باوجود معاف کردوں۔ جو مجھ سے قطع کرے، میں اس کو ملاؤں ، جو مجھے محروم رکھے میں اس کو عطا کروں، غضب اور خوشنودی دونوں حالت میں حق گوئی کو شیوہ بناؤں۔‘‘
اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہت ایذائیں جھیلیں، لیکن سخت ترین دن وہ تھا جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تبلیغ اسلام کے لیے طائف گئے۔ وہاں دعوت اسلام کے جواب میں لوگ سخت بداخلاقی سے پیش آئے اور بازاری لفنگوں اوباشوں کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیچھے لگایا، یہ بدمعاش آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے اور ذات اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم پر بے پناہ سنگ باری شروع کردی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جدھر کارخ کرتے یہ غول آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیچھا کرتا، جب چاروں طرف سے پتھر برس رہے ہوں تو کہاں تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم محفوظ رہ سکتے تھے؟ اتنی سنگ باری ہوئی کہ جسم مبارک لہو لہان ہوگیا اور نعلین مبارک خون آلود ہوگئے۔ آخر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بڑی مشکل سے ایک باغ میں انگور کی بیلوں میں پناہ لی اور اوباشوں سے پیچھا چھڑایا۔ حضرت زید رضی اﷲ عنہ نے روایت کی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے لیے سخت ترین دن تھا۔ میں باغ سے نکل کر غم زدہ آرہا تھا کہ اچانک بادل کے ایک ٹکڑے نے میرے اوپر سایہ کردیا، میں نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو جبرئیل علیہ السلام تھے، جبرئیل نے کہا جو کچھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا ہے اﷲ تعالیٰ نے اسے دیکھا اور اگر آپ کی مرضی ہو تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو ملاکر یہاں کی جملہ آبادی کو تہس نہس کر دیا جائے، میں نے کہا نہیں میں ان کی ہلاکت وبربادی نہیں چاہتا، بلکہ مجھے خدا کے فضل سے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان میں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔
عفوو درگزر کا یہی نتیجہ نکلا کہ گیارہ سال بعد یہی طائف والے تھے جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عداوت سے دست بردار ہوکر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں گر پڑے۔ شہر مکہ میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی تھی، اناج یمامہ سے آتا تھا، یمامہ کے حاکم حضرت ثمامہ مسلمان ہوگئے اور انہوں نے مکہ معظمہ کی طرف غلے کی آمد بند کردی۔ اس بندش سے قریش میں کہرام مچ گیا، انہوں نے سخت اضطراب اور بد حواسی کے عالم میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے مدینہ میں رجوع کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ثمامہ کے نام بھیجا کہ اناج کی بندش اٹھالو۔ چنانچہ اناج مکہ پہنچنے لگا، حالانکہ یہ اہل مکہ وہی تھے جنہوں نے مسلسل تین سال تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان والوں کا ایسا مقاطعہ کیا تھا کہ غلے کا ایک دانہ تک نہیں پہنچے دیتے تھے۔ ہاشمی بچے بھوک سے تڑپتے اور بلبلا اٹھتے تھے۔ لیکن ان ظالموں کے پتھر دل کسی طرح نہ پسیجتے تھے، بلکہ یہ گریہ وبکاسن کر رحم کرنے کے بجائے ہنستے اور خوش ہوتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی یہ سب باتیں بھلا کر ان کے لیے اناج کی بندش ختم کردی۔
حضور کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ جذبہ میدان جنگ میں بھی برقرار رہتا تھا۔ بدر کے میدان جنگ میں لڑائی شروع ہونے سے پہلے مشرکین کی فوج کے آدمی اس حوض پر پانی پینے آتے، جو اسلامی لشکر کے قبضے میں تھا، مسلمانوں کی فوج نے یہ حوض اپنی ضرورت کے لیے تیار کیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے مشرکین کو پانی پینے سے روکنا چاہا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانی پینے سے منع نہ کرو، پینے دو‘‘۔
ان چند واقعات سے ہمیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عفو ودرگزر اور دین کے دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کا پتہ چلتا ہے۔ آج بھی اگر ہم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان اصولوں کو اپنا نے کی کوشش کریں تو اس دنیا میں بھی کام یاب ہوں گے اور آخرت میں بھی رب ذوالجلال کے ہاں سرخرو ہوں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.