تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

موٹروے واقعہ، این جی اوز اور میڈیا کا کردار

وحید مراد
1۔ پس منظر
ہمارے حکمرانوں، سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی نے ہمارا ایسا قومی مزاج بنا دیا ہے کہ ہم کسی بھی اہم مسئلے کے بارے میں پہلے سے نہ کوئی سو چ بچار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی غیر معمولی صورتحال سے نبٹنے کے لیے کوئی پیش بندی اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر مسئلے کے حل پر ساری گفتگو اس وقت ہوتی ہے جب پوری قوم ایک تشویش اور اضطراب کی کیفیت سے گذر رہی ہوتی ہے۔ نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ ہو یا انسانی جانوں اور عزت و ناموس کا مسئلہ ہو، اس حوالے سے اگر کوئی قانون سازی ہوتی بھی ہے تو وہ غیر معمولی صورتحال پیش آجانے کے بعد ایک جذباتی ابال اور رد عمل کی صورت میں ہوتی ہے۔
دنیا کی وہ طاقتیں جو ہمارے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک کیفیت پر نظر رکھتی ہیں وہ ایسے ہی مواقع کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ جب پوری قوم ایک بحران سے گزر رہی ہوتی ہے اور درپیش مسئلے کے حل پر کوئی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا تو ان بیرونی طاقتوں کے لیے یہ شاندار موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنا ایجنڈا ہمارے اوپر تھوپ سکیں۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ طاقتیں اپنے مقامی اور غیر مقامی ایجنٹوں کے ذریعے مصنوعی طور پر ایسے واقعات اور صورتحال پیدا کرواتی ہیں اور پھر اس واقعے کو میڈیا کے ذریعے بے پناہ کوریج دے کر ایسا اچھالا جاتا ہے کہ ایک بحران کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
موٹر وے ریپ واقعہ کی تحقیقات کے بعد معلوم نہیں کب پتہ چلے گا کہ اس کے اصل محرکات کیا تھے اور معلوم نہیں کہ عوام تک اصل حقائق لائے بھی جائیں گے یا نہیں۔ لیکن اس واقع کی آڑ میں پاکستان مخالف طاقتوں کے مقامی اور غیر مقامی ایجنٹوں کا غیر معمولی تحرک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔ ایسے مواقع پر وہ عموماً قوم کو متحد اور یکسو ہو کر سوچنے کا موقع نہیں دیتے اور جان بوجھ کر متضاد آراء اور خیالات کو ہوا دیتے ہیں تاکہ ایک کنفیوژن کا ماحول پیدا ہو اور انہیں اپنا کام دکھانے میں آسانی ہو۔ وہ ایک طرف جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کے ساتھ سختی سے نبٹنا چاہیے لیکن اسکے ساتھ ساتھ انکی ہمنوا سیاسی پارٹیاں یہ بیانا ت بھی دے رہی ہیں کہ وہ مجرموں کو پھانسی نہیں لگنے دیں گے۔ ان کے کچھ حلقے مجرمان کو چوک چوراہوں میں لٹکانے کی باتیں کر رہے ہیں، کچھ لوگ مجرمان کو نامرد بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ کچھ فرما رہے ہیں کہ سخت اور عبرتناک سزائیں دینے سے جرائم ختم نہیں ہوتے مجرمان کو ایسے جرائم کے بعد گرفتار کرتے ہی گھر داماد بنا لینا چاہیے اور انکی مزید فرمائشیں بھی پوری کرنی چاہییں تاکہ انکے اندر پائے جانے والے جنسی اور شہوانی جذبات کی تسکین ہو سکے جو گھٹن کے ماحول میں تسکین نہ پاکر انہیں جرائم پر آمادہ کرتے ہیں۔ لیکن اس ایجنڈے کی اصل ترجمانی کے فرائض میڈیا کے کچھ اینکر اور تجزیہ کار سر انجام دے رہے ہیں اور وہ اپنے پروگرامز کے ذریعے ایک نیا قانون لانے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں جسکے تحت شادی شدہ مردوں پر انکی منکوحات کے ذریعے انکے خلاف ریپ کے مقدمات درج کئے جائیں گے۔
قومی سطح پر ہماری کئی دیگر کمزوریوں کے ساتھ ساتھ ایک کمزوری یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ہم کبھی بھی کسی مسئلے یا واقعے کے تمام پہلوؤں پر نہ توجہ دیتے ہیں اور نہ غور و فکر کرتے ہیں۔ ہماری ساری توجہ صرف ان پہلوؤں پر ہوتی جن پر میڈیا اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے ہماری توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ قوانین ہیں کہ جنسی جرائم کے واقعات میں ملوث ملزمان کی شناخت اس وقت تک ظاہر نہیں کی جاتی جب تک تحقیقات مکمل نہ ہوجائیں اور ان پر جرم ثابت نہ ہوجائے۔ اسی طرح دنیا بھر میں یہ قوانین بھی ہیں کہ جنسی جرائم کے متاثرہ فرد یاافراد کی شناخت بھی ظاہر نہیں کی جاتی کیونکہ انکی شناخت ظاہر ہونے سے شرمندگی اور بے عزتی کی شدت انکے لیے سخت جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی اذیت کا باعث بن سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن میڈیا اور تنظیمیں اس قوانین کو کبھی خاطر میں نہیں لاتیں۔ موٹر وے واقعہ کے بعد میڈیا اور فیمنسٹ تنظیموں نے ریلیوں، جلسے جلوس، خبروں، تجزیوں اور پوسٹوں کے ذریعے اس واقعے کی جزئیات کی جس طرح تشہیر کی وہ سراسر غیر قانونی تھی لیکن کسی سیاستدان، وزیر، مشیر، ممبر پارلیمنٹ وغیرہ کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس حوالے سے میڈیا اور تشہیری عناصر کے شرمناک کردار پر کوئی بات کرے یا انکے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا، فیمنسٹ تنظیموں اور کرپٹ حکومتی ارکان و بیورو کریسی میں بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ایک اتفاق رائے اور گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے۔
2۔ مضمون میں استعمال ہونے والی اصطلاحات
جبر سے مرادطاقت کا ظالمانہ استعمال کرتے ہوئے یا جسمانی نقصان کی دھمکی دیتے ہوئے کسی فرد کو اسکی مرضی کے خلاف قائل کرنا ہے۔ یعنی اگر جسمانی دباؤ کا استعمال کیا جائے تو جبر کہلائے گا اور اگر ذہنی دباؤ کا استعمال کیا جائے تو ناجائز اثر و رسوخ (غیر جسمانی جبر) کہلائے گا۔ جبر اور ناجائز اثر و رسوخ کا استعمال بیک وقت بھی کیا جا سکتا ہے اور الگ الگ بھی۔ جبر اور ناجائز اثر و رسوخ کا استعمال کسی فرد کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور ادارے کی طرف سے بھی، اسی طرح یہ کسی ایک فرد کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے اور کسی گروہ کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ طاقت کے مختلف رشتوں میں ناجائز اثر رسوخ کو استعمال کرنے کا امکان بھی پایا جاتا ہے مثلاً آجر اور ملازم، وکیل اور موکل، استاد اور طالب علم، میڈیا اور عوام، سوشل میڈیا اور سائبر اسٹاکنگ کا خواتین اور بچوں کے خلاف جبر وغیرہ۔ ریاست اور ریاستی ادارے یا حکام میں جبر اور ناجائز اثر و رسوخ دونوں کے استعمال کے امکانات پائے جاتے ہیں۔
جنسی زیادتی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا جنسی فعل جس سے کوئی متاثرہ شخص ناگواری، ڈر یا خوف محسوس کرے۔ جنسی زیادتی میں متاثرہ شخص کے حق کو سلب کیا جاتا ہے جو وہ اپنے جسم کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں رکھتا ہے۔ جنسی زیادتی بھی طاقت کا ناجائز استعمال ہے اور جسمانی جبر کی ایک قسم ہے جس کا مقصد جنسی استحصال ہوتا ہے۔ یہ جنسی طور پر ہراساں کرنے سے لیکراپنی انتہائی شکل یعنی زنا بالجبر تک ہو سکتی ہے۔
فریڈم آف چوائس (انتخاب کی آزادی Free Will) کسی فرد کے مواقع اور خود مختاری کو بیان کرتی ہے جو کم از کم دو دستیاب اختیارات میں سے منتخب کردہ ایک عمل انجام دینے کے لیے ہو اور کسی بیرونی فرد یا جماعت کی طرف سے اس پر کوئی قدغن نہ ہو۔ یعنی اس حق کے تحت آپ کو آزادی ہے کہ آپ کسی چیز کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں سوائے اس کے کہ آپ کا یہ عمل دوسروں کو انکی آزادی کے استعمال سے روکتا ہو۔ یا آپ کا یہ عمل خود آپ کو یا دوسروں کو کسی خطرے میں ڈال سکتا ہو یا کسی قانونی حد سے تجاوز کرتا ہو۔
ماڈرن ازم میں عورت کو یہ فریڈم آف چوائس (انتخاب کی آزادی) دیتا ہے کہ وہ حمل کے ساتھ آگے بڑھے یا اسقاط حمل کا راستہ اختیار کرے لیکن مرد کو یہ حق نہیں دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے نطفے (جنین) کو محفوظ رکھنے کے لیے عورت کو بچے کی پیدائش تک باؤنڈ کر سکے (زنا بالجبر کی صورت میں حمل کا ٹھہرنا یا گرانا ہمارے موضوع سے خارج ہے)۔ بالغ لڑکی کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی فریڈم کو استعمال کرتے ہوئے والدین کی مرضی اور اقدار کے خلاف قدم اٹھائے لیکن والدین کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ والدین ہونے کے ناطے وہ اپنے حقوق کے لیے اولاد کو باؤنڈ کر سکیں۔ اسی طرح فریڈم آف ایکسپریشن کے تحت میڈیا کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے مقدس معاملات، اقدار وغیرہ کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے مسترد کریں لیکن مذاہب اور اسکی بنیاد پر قائم اقدار اور انکے ماننے والوں کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے کوئی دعویٰ کریں۔ اسی طرح اگر کوئی ننگا ہونا چاہے تو اسے یہ حق دیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی برہنگی چھپانا چاہے یا اسکے لیے درخواست اور اپیل کرے تو اسکی درخواست اور اپیل پر توجہ نہیں دی جاتی۔ یعنی فریڈم آف چوائس ایک خاص طرز کے فکر، ماحول، سیاسی و سماجی نظام و قوانین و اقدار کے دائرے کے اندر انتخاب کی آزادی ہے اس دائرے سے اختلاف کی صورت میں انتخاب کی کوئی آزادی نہیں ہے یعنی اس دائرے سے اختلاف کرنے والوں کے لیے یہ ایک بدترین جبر اور ظلم ہے۔
3۔ میڈیا کا کردار
موٹر وے کا المناک واقعہ پیش آنے کے بعد جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو متاثرہ خاتون نے، جو کہ اپنی اور اپنے خاندان کی عزت و ناموس کے حوالے سے بہت حساس تھی، پولیس سے کئی بار چیخ چیخ کر یہ اپیل کی کہ ’’مجھے گولی مار دو لیکن میری یہ خبر عوام تک نہ پہنچائی جائے اس سلسلے میں میری مدد صرف یہ ہوسکتی ہے فوری تفتیش کرکے مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دلائی جائے‘‘ لیکن اس خاتون کی اپیل کے باوجود پولیس اور میڈیا نے اس واقعے کی خبر کو تمام جزیات کے ساتھ پبلک کیا، صحافی حضرات نے خاتون، بچوں اور انکے خاندان کے پورے کوائف جمع کیے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس مواد کو نشر کیا، اس پر تبصرے کیے، بہت سے لوگوں نے اس واقعے کی جزئیات کے خود بھی مزہ لیے اور دوسروں کے لیے بھی مزے کا سامان مہیا کیا اور اس طرح تمام قوانین کی دھجیاں اڑائیں۔
پرویز مشرف کے دور سے پاکستان میں پرائیویٹ چینلز کی شکل میں نظر آنے والا شتر بے مہار میڈیا اب اتنا منہ زور ہوچکا ہے کہ وہ حکومت، قانون اور عدالتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اسکی پشت پر این جی اوز، سول سوسائٹی، انسانی حقوق و نسوانی حقوق کی مقامی و غیر ملکی تنظیمیں ہمیشہ بیرونی ایجنڈا لیکر موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے حکومتی، سیاسی، انتظامی ادارے بھی میڈیا کے خلاف کسی قسم کا بیان دینے یا اس پر تنقید کرنے سے گھبراتے ہیں۔ بہت سے وزراء اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی اشرافیہ کے کچھ افراد بھی اپنے مفادات کے تحت اس ٹرائیکا کا حصہ بن چکے ہیں جس میں مذکورہ تنظیمیں، میڈیا اور کرپٹ حکومتی اہلکار شامل ہیں۔ اس ٹرائیکا کو جب مذہبی، روایتی، تہذیبی اقدار کے خلاف کوئی بات کرنا ہوتی ہے تو عموماً یہ شخصی آزادی، فریڈم آف چوائس اور فریڈم آف ایکسپریشن کے فلسفے بگھار رہے ہوتے ہیں لیکن اس واقعے میں جب متاثرہ خاتون نے اپنی فریڈم آف چوائس کو اپنی عزت اور ناموس کے حوالے سے پیش کیا تو انہوں نے اسکی ایک نہ سنی۔ وہ مظلوم خاتون جہاں ایک طرف جسمانی جبر اور زیادتی کا شکار ہوئی اسے دوسری طرف میڈیا اور سول سوسائٹی کے غیر جسمانی کا شکار ہونا پڑا اور اسکے حساس ذہن نے اسکو قبل از وقت ہی بھانپ لیا تھا کہ اسے جسمانی جبر کے بعد ایک ذہنی جبر کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اس لیے اس نے چیخ چیخ کر اپیلیں کیں لیکن جابر اور ظالم میڈیا نے اسکی ایک نہ سنی بلکہ الٹا یہ تاثر دیا کہ خاتون کو شاید اپنی بات اور مافی الضمیر بیان کرنے میں غلط فہمی ہوئی ہے ہم اسکے مافی الضمیر کو زیادہ بہتر طور پر بیان کر سکتے ہیں۔
ماڈرن ازم کا یہی المیہ ہے کہ ننگا ہونا اور ننگا کرنا اسکے نزدیک فریڈم آف چوائس ہے۔ لیکن برہنگی سے بچنا یا کسی ظالم کے ہاتھوں برہنہ ہوجانے پر دہائی دینا اوریہ درخواست اور اپیل کرنا کہ یہ جو میری عزت اور ناموس پر حملہ ہو ا اور میرے ساتھ جبر ہوا ہے میں اس سے بری الذمہ ہوں اور میری عزت و ناموس کے تحفظ کی خاطر اس کی تشہیر نہ کی جائے، یہ ماڈرن ازم کے نزدیک مظلوم اور متاثرہ شخص کی غلط فہمی ہے۔ اسکو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی برہنگی پر پردہ ڈال سکے یا دوسروں سے درخواست کر سکے کہ وہ اسکی برہنگی پر پردہ ڈالیں۔ یہ عجیب سوچ اور فلسفہ ہے کہ ننگا ہونے اور ننگا کرنے کی تو آزادی دیتا ہے لیکن برہنگی سے بچنے اوراسے چھپانے کی آزادی نہیں دیتا۔
3.1۔ نجی میڈیا، صحافت کا بدترین معیار
پاکستانی میڈیا کے مذکورہ ظالمانہ اور جابرانہ کردار کے حوالے سے کسی وزیر، مشیر، حکومتی اہلکار، سیاسی و سماجی لیڈر، فلسفی، دانشور، فیمنسٹ اسکالر، سول سوسائٹی لیڈران، صحافی و تجزیہ کار کو توفیق نہیں ہوئی کہ بیان کی حد تک ہی سہی مگر خاتون کے بنیادی حقوق کے حوالے سے کوئی بات کرتا لیکن غیر ملکی میڈیا میں بیٹھے کچھ درد مند دل رکھنے والے صحافیوں نے اس پر خیالات کا اظہار ضرور کیا۔ 11ستمبر 2020 کو بی بی سی اردو نے ’’موٹر وے خاتون ریپ: سوشل میڈیا پر متاثرہ خاتون کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی اپیل‘‘کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا کہ
’’لوگوں میں ایک تشویش یہ بھی پیدا ہو رہی ہے کہ متاثرہ خاتون اور بچوں کے نام اور دیگر نجی معلومات نہ صرف ٹی وی چینلز بلکہ سوشل میڈیا پر بھی دھڑا دھڑ شئیر کی جا رہی ہیں، قطع نظر کہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے اور تعزیرات پاکستان کے تحت یہ ایک قابل تعزیر جرم ہے۔
حسن نثار کی ویب سائٹ پر بھی بی بی سی کے مذکورہ مضمون کے حوالے سے یہی کہا گیا کہ ’’یہ کون ہے؟ کس کی بیوی اور کس کی بیٹی ہے؟ پاکستانی میڈیا نے تو حد ہی کر ڈالی، سنسنی خیزی کے چکر میں موٹر وے واقعہ کی متاثرہ خاتون کا سارا بائیو ڈیٹا ڈھونڈ نکالا۔
13؍ستمبر 2020 کو بی بی سی اردو نے ’’پاکستان میں جرائم کے واقعات کی میڈیا کوریج کیسی ہوتی ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ
’’مختلف چینلز کے نعرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں سنسنی خیز خبریں سب سے پہلے جاری کرنے کی دوڑ لگی ہے اور ہر کوئی اس میں بازی لے جانا چاہتا ہے۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے رپورٹرز پر ہر وقت دباؤ رہتا ہے اور وہ خبریں جاری کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں اور اس سلسلے میں جو کسر رہ جاتی ہے وہ رات کے ٹاک شو پوری کر دیتے ہیں۔ موٹر وے پر ایک خاتون سے ریپ کے واقعے میں ملوث ملزمان کی شناخت، ان کے شہر، محلے، گھر، رشتہ داروں تک کی تفصیلات نجی چینلز پر چلائی گئیں۔ حالانکہ قانونی طور پر جب تک کسی کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ ہوجائے اسکی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔ آئی جی پنجاب نے ان خبروں کو حقائق کے منافی قرار دیا، حکومتی ترجمان نے بھی ٹوئیٹر پر تردید کی مگر چینل انتظامیہ پھر بھی اپنی ضد پر اڑی رہی کہ خبر مصدقہ ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق نجی ٹی وی چینلز صحافت کا ماضی جیسا معیار برقرار رکھنے میں بری طرح ناکام ہیں۔
موجودہ بھارتی حکومت اگر چہ متعصبانہ ہندوانہ اور نسلی امتیاز کے فلسفے کی پیروکار ہے لیکن وہاں میڈیا کے حوالے سے قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔ ہندوستان میں 16؍ دسمبر 2012 کو نیو دہلی میں پیرا میڈیکل کی ایک اسٹوڈنٹ کے ہونے والے ریپ کے کیس میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ جس کی سربراہی جسٹس مدن بی لوکر، کر رہے تھے یہ حکم دیا تھا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے وکٹم کی شناخت کو کسی بھی انداز سے پبلک ڈومین میں ظاہر نہ کرنے کے پابند ہیں اور خلاف ورزی کی صورت میں انہیں سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن پاکستان میں میڈیا کے خلاف قانوی کارروائی تو درکنار، قانون کے رکھوالے زبان کھولنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔
3.2۔ شاہ زیب خانزادہ: فحاشی بڑھنے سے ریپ اور طلاقیں کم ہوتے ہیں
ہم نے جب یہ دعوی کیا کہ این جی اوز، سول سوسائٹی، فیمنسٹ ماہرین و لیڈران، میڈیا کے کچھ عناصر، کچھ حکومتی ارکان وزرا و مشیران، اور کچھ ممبران پارلیمنٹ ملے ہوئے ہیں تو وہ دعوی ایسے ہی نہیں کیا۔ شاہ زیب خانزادہ اپنے کئی پروگراموں میں اس با ت کے ثبوت فراہم کر چکے ہیں۔ لیکں حال میں ہی انہوں نے اپنے ایک پروگرام میں شادی شدہ جوڑوں کے لیے ریپ کا قانون لانے کا راستہ ہموار کرتے ہوئے ہمارے مذکورہ دعوے کی تصدیق کر دی۔ موٹر وے واقعے کے بعد 16 ستمبر 2020 کو شاہ زیب خانزادہ نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں وزیر اعظم پاکستان کا ایک کلپ دکھایا جس میں عمران خان نے کہا کہ
’’دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی آپ فحاشی کو فروغ دیتے ہیں اس سے ایک تو جنسی جرائم بڑھ جاتے ہیں اور دوسرا آپ کا خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ جب پچاس سال پہلے میں لندن میں مقیم تھا تو ہر 14 شادی شدہ جوڑوں میں سے ایک کی طلاق ہوتی تھی۔ اسکے بعد جیسے جیسے انکے معاشرے میں فحاشی بڑھتی رہی اسکے نتیجے میں آج 70 فیصد طلاقیں ہوتی ہیں اور خاندان ٹوٹنے کا معاشرے پر ایک بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں آپ چالیس سال پہلے کی فلمیں دیکھیں اور انکا موازنہ آج وہاں بننے والی فلموں سے کر لیں اور اسکا انکے سماج پر اثر دیکھیں کہ دہلی اب دنیا میں ریپ کا کیپٹل بن چکا ہے۔ ہمارے ملک میں خاندان کا نظام مضبوط ہے۔ مغرب ہم سے تعلیم، معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق وغیرہ میں آگے ہو سکتا ہے لیکن فحاشی کی وجہ سے انکا خاندانی نظام ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اپنا انصاف کا نظام اور دیگر ادارے ٹھیک کر سکتے ہیں لیکن اگر ہمارا بھی خاندانی نظام تباہ ہو گیا تو اسکو ہم واپس نہیں لا سکتے‘‘
عمران خان کے اس کلپ کے بعد شاہ زیب خانزادہ نے اسکے بالکل الٹ موقف اختیار کرتے ہوئے بتایا کہ
’’برطانوی لا فرم کے مطابق اس وقت برطانیہ میں طلاق کی شرح 24 فیصد ہے اور انکے اخبار ڈیلی میل کے مطابق برطانیہ میں طلاق کی شرح تیزی سے نیچے آ رہی ہے اور اسکی وجہ وہ یہ بتا رہے ہیں کہ شادی کے لیے سماجی دباؤ میں کمی آنا ہے۔ اس اخبار کے اعداد و شمار کے مطابق وہ جوڑے جنہوں نے 1992 میں شادی کی تھی انکی پندرہ سال کے اندر طلاقی کی شرح 30 فیصد تھی جبکہ وہ جوڑے جنہوں نے 2002 میں شادی کی تھی ان میں پندرہ سالوں کے اندر طلاق کی شرح 18 فیصد تھی جبکہ وہ جوڑے جنہوں نے 2017 میں شادی کی تھی انکی پندرہ سالوں میں طلاق کی شرح 23 فیصد تک ہونے کے امکانات ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں طلاقوں میں ایک سال کے اندر ایک لاکھ تک کمی دیکھی گئی ہے۔ اور یہ 1971 کے بعد سے سب سے کم شرح ہے۔ عمران خان نے فحاشی کو خاندانی نظام سے جوڑا ہے لیکن کئی مسلم ممالک ایسے ہیں جہاں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے جیسے ترکی میں پچھلے پندرہ سالوں میں 10 فیصد اضافہ سامنے آیا اور وہاں طلاق کی شرح 25 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جیسے جیسے وہاں اسلامائزیشن ہوئی طلاق کی شرح اور بڑھتی گئی۔ ایران بھی جو اسلامی اقدار کا دعوی کرتا ہے وہاں بھی طلاق کی شرح 21 فیصد ہے۔ عمران خان نے دوسری بات یہ کی کہ جہاں فحاشی زیادہ ہے وہاں سیکس کرائم زیادہ ہوتے ہیں اور خواتین سے زیادتی زیادہ ہوتی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ 2019 میں وومن پیس اینڈ سیکورٹی انڈکس کی رینکنگ رپورٹ شائع ہوئی جس میں 167 ممالک کی کارکردگی دیکھی گئی ان میں بہترین ممالک سب یورپی ممالک ہیں اور بدترین ممالک سب اسلامی ممالک ہیں۔ ترکی، ایران، سعودی عرب جیسے اسلامی ممالک بھی لسٹ کے سب سے نیچے والے ممالک میں شامل تھے۔ جو ممالک اس لسٹ میں سب سے آگے ہیں وہاں ریپ کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے لیکن اسکی وجہ یہ ہے کہ وہاں جس رویے کو ریپ کہا جاتا ہے اسے ہم ریپ نہیں سمجھتے یعنی انکے ہاں خاوند کی طرف سے بیوی کے ساتھ زبردستی کو ریپ سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں سمجھا جاتا ہمارے ہاں تو اس اہم موضوع پر بات کرنا بھی ممنوع ہے‘‘
اسکے بعد شاہ زیب خانزادہ نے اپنی بات کی تصدیق کے لیے تحریک انصاف کی ایک ایم این اے شاندانہ گلزار سے کرائی جنہوں نے شاہ زیب خانزادہ کی طرف سے پیش کیے جانے والے تمام دلائل کی حرف بہ حرف تصدیق کی لیکن عمران خان کی طرف سے پیش کیے جانے والے حقائق کی تائید میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
شاہ زیب خانزادہ نے عمران خان کے دلائل کے رد میں اور فحاشی یعنی پورنوگرافی، سیکچوئیلٹی، فری سیکس کی حمایت میں جودلائل دیے اور جو نتائج اخذ کیے ان سے سول سوسائٹی اور میڈیا گٹھ جوڑ کی بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ سول سوسائٹی اور میڈیا ملکر یہ مہم چلا رہے ہیں کہ برطانیہ، یورپ و امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی فحاشی کو قانونی درجہ دیا جائے کیونکہ فحاشی سے معاشرے پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طلاقیں بھی کم واقع ہوتی ہیں۔ اور انسانی حقوق کی عالمی ریٹنگ کی لسٹ میں اگر ملک کا نام اوپر لے کر جانا ہے تو ضروری ہے کہ Marital Rapeکا قانون لایا جائے تاکہ ہم بھی دنیا کو فخر سے یہ بتا سکیں کہ ہمارے ہاں بھی نوے فیصد شادی شدہ مرد اپنی منکوحات کے ساتھ جو جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں اگر اس میں عورت سے ہر لمحہ کے دوران باقاعدہ اجازت طلب نہ کی جائے تو ہم بھی اسے ریپ جیسا جرم تصور کرتے ہیں اور ایسے مردوں کووہی سزا دیتے ہیں جو ریپسٹ کو دینی چاہیے۔
3.3۔ شاہ زیب خانزادہ کے دلائل کا رد
شاہ زیب خانزادہ نے سول سوسائٹی کے ایماء پر مغرب کے ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں انہیں صحافیانہ بددیانتی برتتے ہوئے ادھوری شکل میں پیش کیا ہے، اس ایجنڈے کے حق میں جو دلائل دیے ہیں وہ گمراہ کن ہیں اور جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ مذہب اور روایت دشمنی پر مبنی ہیں۔
جن اعداد و شمار کو انہوں نے جان بوجھ کر پیش نہیں کیا وہ یہ ہیں: انگلینڈ اور ویلز میں صرف ایک سال کے اندر یعنی 2016 سے 2017 کے دوران شادی کرنے کے رجحان میں 2.8فیصد کمی واقع ہوئی۔ 2017 برطانوی تاریخ کا وہ سال تھا جب مرد اور عورت کی شادی کی شرح اپنی کم ترین سطح پر تھی یعنی مردوں اور عورتوں کے درمیان ہونے والی شادیوں کی شرح 45 فیصد تک گر چکی تھی۔ اوسطاً ایک ہزار مردوں میں سے صرف 21 کی شادیاں ہوئیں اور ایک ہزار عورتوں میں سے صرف 19 عورتوں کی شادیاں ہوئیں۔ اور جو بھی شادیاں ہوئی ان میں سے جن کو مذہبی یا روایتی طریقے کے مطابق شادی کہا جا سکتا ہے انکی تعداد 22 فیصد سے بھی کم تھی۔ دیگر شادیاں ہم جنس پرستوں کے درمیان ہوئیں جن میں سے 56 فیصد لزبئِن عورتوں کے درمیان ہوئیں اور باقی ماندہ ہم جنس پرستوں نے اپنے تعلقات کو شادی کا روپ دیا۔ جتنے لوگوں نے بھی شادیاں رجسٹرد کروائیں ان میں سے 88 فیصد لوگ یعنی ہر دس میں سے نو افراد شادی سے قبل ہی ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے تھے۔ جن افراد نے جب اپنے جنسی تعلقات کو روایتی یا مذہبی شادی کا رنگ دیا ان میں مردوں کی عمریں 38 سال سے زائد اور عورتوں کی عمریں 35 سال سے زائد تھیں۔
عمران خان کی نمائندگی کرتے ہوئے انکی پارٹی کے کسی ممبر، حکومت کے کسی وزیر مشیر نے یا کسی ممبر پارلیمنٹ نے ابھی تک شاہ زیب خانزادہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ آپ نے یہ اعداد وشمار تو پیش کر دیے کہ برطانیہ میں طلاق کی شرح کم ہورہی ہے لیکن یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہاں تیس سال سے کم عمر میں شادی کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ وہاں تو جب جوانی کی عمر ڈھلنے لگتی ہے اور نئے جنسی تعلقات میں قبولیت کے ا مکانات معدوم ہونے لگتے ہیں تو آخری جنسی پارٹنر کے ساتھ تعلقات کو غنیمت سمجھتے ہوئے شادی کا روپ دے دیا جاتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد بھی اب بہت ہی کم ہوتی جا رہی ہے جو اس قسم کے تعلقات کو باقاعدہ مذہبی یا سماجی رسوم کے تحت شادی کا نام دیتے ہیں ورنہ اکثریت تو کورٹ میں ایک فارم جمع کرانے کو ہی کافی سمجھتی ہے۔
جس معاشرے میں شادی کا تصور ہی معدوم ہوتا جا رہا ہو وہاں زیادہ طلاقیں کیسے ہونگی؟ طلاق تو شادی کے بعد ہوتی ہے، جب شادی ہی نہیں ہوگی تو طلاق کہاں سے ہوگی؟ جب تک برطانیہ میں شادیاں ہو رہی تھیں تو طلاق کی شرح مسلسل بڑھ رہی تھی لیکن جب سے شادیوں کے سلسلے میں بہت واضح کمی واقعی ہوئی ہے طلاقیں بھی کم ہو گئی ہیں۔ وہاں تیس، پینتیس سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی اکثریت عارضی طور پر ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم کرتی ہے اور جب ایک سے دل بھر جاتا ہے تو کسی دوسرے فرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔ نہ یہ تعلقات شادی ہوتے ہیں اور نہ اس قسم کی علیحدگی طلاق ہوتی ہے۔
کسی بھی اسلامی معاشرے میں قانونی نکاح کے علاوہ جائز جنسی تعلقات کا کوئی تصور موجود نہیں لہذا جب سو فیصد لوگوں کی قانوی شادیاں ہونگیں تو لازمی بات ہے طلاقیں بھی ہونگی۔ اسلامی معاشروں کی شادیوں اور طلاقوں پر مغربی معاشروں کی شادیوں اور طلاقوں کو قیاس کرنا پرلے درجے کی علمی و صحافیانہ بددیانتی ہے۔
4۔ این جی اوز اور سول سوسائٹی کا کردار
موٹر وے کا المناک واقعہ پیش آنے کے بعد جس طرح میڈیا نے غیر ذمہ دارانہ کردار کیا اسی طرح این جی اوز اور سول سوسائٹی نے اس واقعہ کی آڑ میں ملک بھر میں ریلیاں نکال کر کے اپنی سیاست چمکائی اور عوام کو یہ جھوٹا تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان ریلیوں سے حکومت پر پریشر ڈالنا مقصود ہے تاکہ حکومت ایسی قانون سازی کرے جس سے مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دی جا سکیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ریلیوں کا مقصد پاکستان میں ایسی قانون سازی کرنے کیلئے حکومت پر پریشر ڈالنا مقصود ہے جس سے جنسی جرائم کے اعداد و شمار کا گراف اوپر جاتا ہوا دکھائی دے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ ریلیاں جنسی جرائم میں کمی کی بجائے بالواسطہ طور پر اضافے کے لیے نکالی جا تی ہیں۔ این جی اوز اور سول سوسائٹی کی ریلیوں کے پس پردہ حقائق جاننے کے لیے انکے کردار کا مطالعہ ضروری ہے۔
4.1۔ پہلا ٹسٹ
این جی اوز اور سول سوسائٹی کے لیڈران سے سوال کیا جائے کہ جسمانی جبر اور زیادتی کو آپ اس لیے برا سمجھتے ہیں کہ یہ فریڈم آف چوائس کے خلاف ہے لیکن غیر جسمانی جبر کو فریڈم آف چوائس کے خلاف کیوں نہیں سمجھتے؟ آپ ایک طرف جسمانی جبر اور زیادتی کے خلاف ریلیاں نکال رہے لیکن دوسری طرف میڈیا نے خاتون کی اپیل پر کوئی توجہ دینے کی بجائے اسکے معاملے کی تمام جزئیات کو دنیا بھر میں پروپیگیٹ کرکے اسکے فریڈم آف چوائس کے حق کو شدید زک پہنچائی اور اسے دنیا بھر میں بے عزت کیا اور اسکے لیے باقی زندگی کو جہنم بنا دیا۔ لیکن آپ نے میڈیا کے اس غیرجسمانی جبر اور زیادتی کے خلاف کوئی ایک بیان تک نہیں دیا۔ آپ یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ جسمانی جبر اور غیر جسمانی جبر کرنے والوں پر ایک ہی قسم کا قانون لاگو کیا جائے۔ دنیابھر میں جنسی جرائم کے متاثرہ افراد کی شناخت کو چھپایا جاتا ہے اور ایسے نہ کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں لیکن آپ نے پاکستانی میڈیا کے اس غیر قانونی عمل کے خلاف سخت قانون بنانے یا انہیں سزا دینے کی کوئی بات کیوں نہیں کی؟
آپ ان ریلیوں میں شرکت کرنے والے سیدھے سادے لوگوں کو بیوقوف کیوں بناتے ہیں؟ وہ یہ سمجھ کر ریلیوں میں شرکت کرتے ہیں کہ یہ مجرموں کے خلاف ہیں اور انکا مقصد مجرموں کو سخت سزائیں دلانا ہے جبکہ ان ریلیوں کا اصل مقصد تو مغرب کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرکے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنا ہے تاکہ فنڈنگ کا سلسلہ معمول کے مطابق جاری رہے۔ اگر آپ کے نیک مقاصد ہوتے تو آپ کا موقف واضح ہوتا لیکن آپ کی دو رخی پالیسی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے مقاصد ذاتی مفادات پر مبنی ہیں۔
4.2۔ دوسرا ٹسٹ
این جی اوز، سول سوسائٹی اور فیمنسٹ ماہرین کے قول و فعل میں تضاد کو ٹسٹ کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ ان سے یہ دریافت کریں کہ پچھلے دس بارہ سالوں میں آپ نے امریکہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پاکستانی حکومتوں پر پریشر ڈلوا کر جنسی جرائم کے حوالے سے جو قوانین منظور کرائے ہیں ان قوانین کے مسودے آپ نے، آپکی تنظیموں کے ماہرین اور آپ کے کولیگز یعنی وزراء اور بیوروکریسی وغیرہ نے تیار کرائے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کو ایک کے بعد ایک قانون منظور کرنا پڑا لیکن آپ ہی کے بقول کسی قانون سے بھی یہ جرائم کنٹرول نہیں ہو پائے۔
آپ نے وومن پروٹیکشن بل پاس کروایا، پھر کام کی جگہوں پر خواتین کے خلاف ہراسمنٹ کی پروٹیکشن کا ایکٹ پاس کروایا، پھر ایسڈ اینڈ برن کرائم بل پاس کروایا، پھر پروٹیکشن آف انٹی وومن پریکٹس ایکٹ پاس کروایا، پھر ڈومیسٹک وائلنس (پریونشن اینڈ پروٹیکشن) ایکٹ پاس کروایا، پھر کرائم لاء امینڈمنٹ (عزت اور غیر ت کے نام پر ہونے والے جرائم) ایکٹ منظور کروایا۔ لیکن جیسے آپ تھوک کے حساب سے قوانین منظور کرواتے جا رہے ہیں ویسے ویسے آپ ہی کے بقول جرائم کا گراف اوپر سے اوپر جارہا ہے۔ اب آپ اس واقعے کی آڑ میں کونسا قانون منظور کروانا چاہتے ہیں صاف صاف بتا دیں؟؟ ہمیں تو صاف نظر آ رہا ہے کہ آپ لوگ حکومت پر پریشر ڈلوا کر شادی شدہ جوڑوں کے جنسی تعلقات کو ریپ کا روپ دینے والا Marital Rape قانون منظور کروانا چاہتے ہیں۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی ریلیوں کا مقصد جنسی جرائم کے گراف میں اضافہ کروانا ہے کیونکہ یہ قانون منظور ہونے کے بعدسول سوسائٹی کی مہمات کے ذریعے شادی شدہ مردوں پر اپنی منکوحات کے خلاف ریپ کے مقدمات درج کروائے جائینگے اور لازمی بات ہے اس سے پاکستان میں ریپ کے اعداد و شمار بڑھا کر یورپ اور امریکہ کے قریب تر دکھائے جا سکتے ہیں۔ یہی این جی اوز اور سول سوسائٹی کا بنیادی مقصد ہے جو پورا ہو جائے گا اور یہ ریلیاں اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ مزید یہ کہ جب شادی شدہ مردوں پر اپنی منکوحات کے خلاف ریپ کے مقدمات درج ہونگے تو وہ شادیاں کیوں کریں گے؟ وہ ان مقدمات سے بچنے کے لیے وہی کچھ کریں گے جو مغرب میں ہو رہا ہے اور اس سے فحاشی عام ہوگی یعنی ان ریلیوں کا بالواسطہ طور پر ایک یہ مقصد بھی ہے کہ پاکستان میں فحاشی عام ہو۔
علاوہ ازیں آپ اور آپ کے دیگر ایکسپرٹ بھائی اتنے نااہل کیوں ہیں کہ آپ سے ڈھنگ کا کوئی قانون بنتاہی نہیں۔ آپ ایک قانون پر اتفاق کرتے ہیں وہ منظور ہوتا ہے آپ پھر احتجاج کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر ایک قانون آپ تجویز کرتے ہیں ا س پر سب کا اتفاق ہوتا ہے وہ منظور ہوتا ہے اور آپ اس میں سے خود ہی کیڑے نکالنے شروع کر دیتے ہیں اور ہمیں پھر نیا لولی پاپ دینے لگتے ہیں کہ ایک اور نیا قانون چاہیے۔ آپ کا قانون، قانون کھیلنے کا یہ سلسلہ کب اور کہاں رکے گا؟
آپ کے بنوائے گئے سب قوانین امریکی قوانین کے چربے ہیں لیکن پھر بھی امریکہ اور بین الاقوامی ادارے آپ لوگوں سے خوش کیوں نہیں وہ ہر چند ماہ کے بعد آپ سے ’’ڈو مور‘‘ کے تقاضے کیوں کرتے ہیں؟ آپ ان سے پاکستان میں جنسی جرائم کا گراف بلند کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے پیسے پکڑ لیتے ہیں پھر سب بھائی (این جی اوز، سول سوسائٹی، فیمنسٹ ماہرین، وزراء، ممبران پارلیمنٹ، بیوروکریسی، میڈیا) وہ پیسہ آپس میں بانٹ لیتے ہیں اور جب امریکہ اور دیگر ڈونرز آپ سے پوچھتے ہیں کہ اچھا قوانین تو بنا لیے لیکن ان قوانین کے تحت گرفتار کیے گئے مجرمان کہاں ہیں تو پھر آپ ان ڈونرز کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کبھی جرائم کی ایک کیٹیگری کو دوسری کیٹیگری میں ڈالتے ہیں اور کبھی دوسری کیٹیگری کو تیسری کیٹیگری میں ڈالتے ہیں اور یوں ہیر پھیر کرکے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہاں پاکستان میں بھی جنسی جرائم کا گراف بڑھ رہا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے 2018 اور 2019 میں جنسی جرائم کے اندراج کی مہم چلائی۔ جب جرم ہوتا ہے کسی کے حقوق پامال ہوتے ہیں تو وہ داد رسی کے لیے فریاد بھی کرتا ہے تو اسکی رپورٹنگ بھی ہو جاتی ہے۔ جیسے کسی کو بھوک اور پیاس لگتی ہے تو وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے خوراک اور پانی تلاش کرتا ہے، جب کسی کو پتہ چلے کہ کوئی چیز مفت بانٹی جا رہی ہے تو وہاں فوراً رش لگ جاتا ہے اسی طرح جب کسی کے لیے جان، عزت، آبرو کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ شور مچاتا ہے، تحفظ ڈھونڈتا ہے، مدد کے لیے پکارتا ہے، تھانہ، کورٹ کچہریوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور یہ سب فطری باتیں ہیں۔ آخر آپ کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ آپ گھر گھر جا کر خواتین کو کنونس کر رہے تھے کہ وہ تھانے جاکر رپورٹ درج کرائیں کہ انکا خاوند انکے ساتھ زبردستی کرتا ہے۔ ظاہر ہے یہ آپ کی جاب ہے اور آپ کو اس کام پر لگایا گیا ہے کہ آپ پاکستان میں جنسی جرائم کا گراف بلند کرکے دکھائیں اور اسکے لیے آپ کو ایڈوانس معاوضہ دیا جاچکا ہے۔
یہ معاوضہ اور تنخواہ لینے کی بات کوئی ہمارے ذہن کی اختراع نہیں ہے یہ این جی اوز اور فیمنسٹ لیڈران خود امریکہ اور عالمی اداروں کے سامنے ایک دوسرے کے پول کھولتے رہتے ہیں۔ اسکے ثبوت کے لیے زیادہ تگ و دو کرنے کی بھی ضرورت نہیں صرف فیمنسٹ اسکالر ڈاکٹر روبینہ سہگل کا ریسرچ پیپر Feminism and the Women Movement in Pakistan دیکھ لیں۔ اس تحقیق کے لیے بھی عالمی اداروں نے فنڈنگ کی اور اسکا مقصد پاکستانی سول سوسائٹی کے اندر کی باتیں جاننا تھا۔ اس پیپر میں مختلف اسکالرز مثلاً فوزیہ گردیزی، عائشہ جلال، امینہ جمال، طاہرہ عبداﷲ، صبا خٹک، لالہ رخ وغیرہ نے جو فیمنزم کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں پاکستان میں سول سوسائٹی اور فیمنزم کو یو ایس ایڈ کے ملازمین، فارن فنڈنگ میں خرد برد کرنے والے اور Paid Activists قرار دیا۔ جب آپ کے اندر کے لوگ آپ کو کرائے کا گوریلا کہہ رہے ہیں تو لازمی بات ہے عوام بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ آپکی ریلیوں کا مقصد جنسی جرائم میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہے کیونکہ آپ کو اسی کام کی تکمیل کا معاوضہ دیا گیاہے۔
مزید یہ کہ آپ کو مشرقی و مذہبی تہذیبوں کے روایتی قوانین، جنسی جرائم کو کنٹرول کرنے کے طریقہ کار اور سزائیں وغیرہ پسند نہیں اور آپ ان طریقوں کو فرسودہ اور قوانین کو ظالمانہ قرار دیتے ہیں لیکن مغرب سے آئے ہوئے ہر طریقہ کار اور قانون کو چوم کر گلے لگاتے ہیں۔ آپ کو ہاتھ کاٹنے اور موت کی سزا غیر ظالمانہ لگتی ہے لیکن عضو تناسل کاٹنے والی سزا (مجوزہ) اور ابوغریب جیل میں دی جانے والی وحشیانہ سزائیں انسانیت کے تقاضوں کے عین مطابق نظر آتی ہیں۔ اسی طرح کوڑوں کی سزا آپ کے نزدیک غیر انسانی ہے لیکن اگر عمر قید کی صورت میں کوئی قیدی بنیادی انسانی ضروریات کی عدم فراہمی کی صورت میں ذہنی اور نفسیاتی مریض بن جائے اور سسک سسک کر مر جائے تو وہ غیر انسانی عمل نہیں ہے۔ کسی مجرم نے فساد فی الارض اور دہشت گردی کی صورت میں معاشرے کے خلاف جو ظلم کیا ہوتا ہے اس پر آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی لیکن اگر معاشرہ اسکو سر عام پھانسی دینا چاہے تو وہ آپکو غیر انسانی فعل نظر آتا ہے۔ پہلے آپ طے تو کریں کہ آپ مجرموں کے ساتھ ہیں یا معاشرے کے ساتھ ہیں؟ آپ نے کبھی یہ سوچا کہ اگر جیلوں اور مجرموں پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کے بجٹ کو انسانیت کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو معاشرے میں کتنی بڑی تبدیلی آسکتی ہے؟ ایسا عمل صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہے جب فوری انصاف ہو اور سادہ و روایتی سزائیں دے کر معاملات کو فوری طور پر نبٹایا جائے۔
4.3۔ تیسرا ٹسٹ
اس گفتگو کو سمجھنے کے لیے ایک مثال کو سامنے رکھیے۔ ایسی مثالیں ہر گلی، محلے اور آبادی میں مل جاتی ہیں کہ کچھ لوگ اپنی اولاد کی مناسب تعلیم و تربیت نہیں کر پاتے اور ان کی اولاد میں سے کچھ بچے آوارہ گردی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں یا چھوٹے موٹے جرائم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے اگر انکی اولاد کے بارے میں پوچھا جائے تو عام طور پر وہ انکی برائیوں پر پردہ ڈالتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پردہ پوشی کیے بغیر بتا دیتے ہیں کہ ان کے کچھ بچے اچھے ہیں لیکن کچھ تعلیم و تربیت میں کمی، ماحول یا کسی بھی وجہ سے خرابیوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگ کسی ایک، دو لڑکوں کو عاق بھی کر دیتے ہیں یا مرضی کے خلاف قدم اٹھانے والی لڑکی سے قطع تعلق بھی کر لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن آج تک آپ نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا ہوگا کہ جو پڑھا لکھا ہو، بقائم ہوش و حواس ہو، اسکے رشتہ داروں اور محلے والوں کی اسکے خاندان کے بارے میں اچھی یا کم ازکم مناسب رائے ہو لیکن پھر بھی اس نے اپنے گھر کے باہر کوئی بینر، بورڈ یا پلے کارڈ آویزاں کیا ہو یا ہر روز اخباروں میں اشہار دے رہا ہو یا پولیس، کورٹ، کچہری، ملکی و غیر ملکی اداروں کو دعوت دے رہا ہو کہ آؤ میرے گھر والوں کو چیک کرو، انکی اچھی طرح جانچ کرو، تمہیں انکے بارے میں غلط فہمی ہے کہ یہ اچھے لوگ ہیں یہ تو دراصل جرائم پیشہ لوگ ہیں۔
آپ کو ایسی کوئی مثال اس لیے نظر نہیں آئے گی کہ تمام لوگ اپنے گھر، اور اپنے گھر والوں سے پیار کرتے ہیں، کبھی گھر کے اندر کوئی مسئلہ ہو جائے تو ثالثی کے لیے دوسروں کو بھی شامل کر لیتے ہیں، جھگڑے ہوجائیں تو کورٹ کچہری تک بھی جاتے ہیں لیکن اپنے گھر یا اپنے گھر والوں کے خلاف پروپیگنڈا کوئی نہیں کرتا کیونکہ سب کو اپنے گھر اور گھر والوں سے پیا ر ہوتا ہے۔
اب آپ ذرا این جی اوز، سول سوسائٹی، فیمنسٹ لیڈران، ایکسپرٹس اوران کے زیر اثر چلنے والے مختلف اداروں، میڈیا اور میڈیا کے کچھ اینکرز اور صحافیوں کا جائزہ لیجئے کہ یہ لوگ پاکستان (جو کہ ہمارا اور انکا گھر ہے) کے بارے میں کس طرح کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ہم انکی طرف سے پاکستان کے خلاف لکھی گئی کتابوں، ریسرچ پیپرز، آرٹیکلز، انٹرویوز، ڈاکومینٹریز کی بات نہیں کررہے۔ اس پر بات کرنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے ہم صرف ان اعداد و شمار کی بات کر رہے ہیں جو یہ لوگ ہیر پھیر کرکے پیش کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں جنسی جرائم کا گراف بھارت، یورپ، کنیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ کے برابر نظر آئے۔
فزیکل وائلنس اور جنسی وائلنس دو الگ جرائم ہیں لیکن سول سوسائٹی کے زیر اثر اخبارات اور ادارے، جب عورت کے خلاف وائلنس کی بات کرتے ہیں تو فزیکل وائلنس اور جنسی وائلنس کو ملا کر پیش کرتے ہیں تاکہ کل اعداد شمار بڑے نظر آئیں کیونکہ جنسی وائلنس کا اصل ڈیٹا بہت کم اعداد و شمار دکھاتا ہے۔ مثلاً ایکسپریس ٹرائیبون نے ایک آرٹیکل کو عنوان دیا کہ ’’93 فیصد پاکستانی خواتین زندگی میں ایک بار جنسی وائلنس کا سامنا ضرور کرتی ہیں‘‘ لیکن اسکے اندر اگر مضمون کا مطالعہ کریں تو اسکی پہلی سطر میں لکھا ہے کہ 70 فیصد پاکستانی خواتین اور لڑکیاں اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار فزیکل یا جنسی وائلنس کا شکار ضرور ہوتی ہیں اور اس بات کے ثبوت کے طور پر ’’مددگار نیشنل ہیلپ لائن‘‘ کے ضیاء احمد اعوان کی ایک پریس کانفرنس کوپیش کیا گیا جس کے مطابق ہیلپ لائن کے ذریعے 2016 کے سال کے اندر 7561 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 118 بچپن کی شادی، 162 سائبر کرائم، 14 بچوں کے ساتھ زیادتی، 2094 گھریلو تنازعات، 14 جبری شادی، 562 فزیکل ہراسمنٹ، 12 کاروباری، 2251 بچوں کی گمشدگی، 213 عورتوں کی گمشدگی، 5 زنا، 6 لواطت، 7 جنسی ابیوز، 5 عورتوں کا اغوا، 10 جنسی ہراسمنٹ کے کیسز سامنے آئے۔ یعنی جنسی ہراسمنٹ کے 10 کیسز کو اخبار نے 93 فیصد کی سرخی لگا کر پاکستان کی 22 کروڑ عوام کو گمراہ کیا۔
پاکستانی میڈیا کے مقابلے غیر ملکی میڈیا پھر بھی بہتر ہے جیسے بی بی سی اردو کے ایک آرٹیکل نے سرکاری محتسب کا حوالہ دیتے ہوئے اعداد و شمار کا ہیر پھیر کیے بغیر جو اعداد و شمار پیش کیے اسکے مطابق پاکستان میں 2011 سے 2014 تک جنسی ہراسمنٹ کے سلسلے میں 173 کیسز درج ہوئے جن میں اکثریت کا تعلق سرکاری دفاتر سے تھا۔ 2016 میں 77 کیسز رپورٹ ہوئے، 2017 میں 88 کیس رپورٹ ہوئے۔
خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اور فیمنسٹ تحریک مذکورہ اعداد و شمار پر یہ واویلا مچاتے ہیں کہ درحقیقت پاکستان میں ایسے کیسز تو زیادہ ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہوتے اس لیے انکے پریشر کی وجہ سے 2018 میں جنسی ہراسمنٹ کے کیسز رپورٹ کرنے کے حوالے سے خصوصی مہم چلائی گئی اور 22 کروڑ کی آبادی میں سال بھر میں 272 کیس رپورٹ ہوئے اور سال 2019 میں 366 کیس رپورٹ ہوئے۔ تمام باخبر لوگ جانتے ہیں کہ اس سے زیادہ کیس تو امریکہ کی ایک اسٹیٹ کی ایک کاؤنٹی میں مہینے بھر میں رپورٹ ہو جاتے ہیں۔
فزیکل ڈومسٹک وائلنس (گھریلو جھگڑے) ایک بالکل ہی الگ طرح کا ناخوشگوار روایتی طرز عمل ہے جسکا جنسی ہراسمنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس طرز عمل کی ہلکی شکل صرف تُو تَکار یا لفظی جنگ (منہ ماری) تک محدود ہوتی ہے اور پاکستان کی اکثریت جو جدید تمدن کے باسیوں کے لیے دن رات خون پسینہ ایک کرتی ہے اور اسکے بدلے انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں انکے گھروں میں یہ لفظی جنگ ہر روز کا معمول ہے۔ ہمارے ہاں غریب لوگوں کی بستیوں میں یہ کوئی جرم نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پولیس اسٹیشن پر اگر کوئی ایسی درخواست آتی بھی ہے تو وہ اسکو لائق توجہ نہیں سمجھتے۔ لیکن مغرب میں چونکہ وربل ابیوز بھی ایک جرم ہے اس لیے غیر ملکی ادارے جب پاکستان میں سروے کراتے ہیں تو وہ توتکار اور منہ ماری کو بھی جرم کے زمرے میں شمار کرتے ہیں حالانکہ یہ ہمارے ہاں کوئی جرم نہیں۔ نیز انکے لیے یہ تو ممکن نہیں کہ بائیس کروڑ آبادی کا مکمل سروے کریں لہذا وہ دو، چار سو افراد کا ایک سمپل لیکر اس سے اندازے اور تخمینے لگا کر اپنے اعداد و شمار جاری کر دیتے ہیں اور ہمارے اخبارات اور میڈیا کے عجلت پسند اور غیر محتاط صحافی و تجزیہ کار ان تخمینوں کی حقیقت سمجھے بغیر اس پر سرخیاں جمادیتے ہیں۔ مثلاً 13-2012 میں پاکستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے ہوا جس میں انہوں نے ایک چھوٹا سا سمپل ڈیٹا لے کر کچھ خواتین کے انٹرویو کیے جس میں خواتین کی اکثریت نے اس بات کا اقرار کیا کہ انکے گھر میں ہر روز میاں کے ساتھ چھوٹی موٹی باتوں پر بحث مباحثہ ہوتا ہے لیکن ان نتائج کو اس سروے نے جرنلائز شکل میں اس طرح پیش کیا کہ پاکستان میں 47 فیصد خواتین کے ساتھ فزیکل ڈومیسٹک وائلنس ہوتا ہے۔ اس سے قبل 2009 میں ہیومن رائٹس واچ نے ایسے ہی ایک سروے میں کہا کہ پاکستان میں 70 سے 90 فیصد خواتین ڈومیسٹک وائلنس کا شکار ہیں۔
اسی طرح مشرقی تہذیبوں میں قانونی شادی اور نکاح کے بغیر ہر طرح کے جنسی تعلق کو جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن قانونی شادی کے بعد اگر فریقین واضح طور پر ایک دوسرے کی مرضی اور خواہش جانے بغیر جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو وہ نہ گناہ ہے اور نہ ہی جرم۔ لیکن مغربی تہذیب میں خواہش ، شوق اور مرضی کے مطابق کیا گیا ہر جنسی عمل جائز اور بغیر خواہش، رضا مندی اور شوق کے کیا گیا ہر جنسی عمل جرم ہے۔ اس لیے انکے ہاں قانونی طور پر جائز میاں بیوی کے درمیان بھی اگر جنسی عمل میں رضا مندی شامل نہ ہو تو وہ اسے ریپ کہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اسے ریپ نہیں کہا جاتا۔ اس لیے انکے ادارے جب یہاں سروے کرتے ہیں تو چار پانچ سو خواتین پر مشتمل چھوٹا سا سیمپل عموماً ایسا ہوتا ہے جو سول سوسائٹی کی طرف سے ہی مہیا کیا جاتا ہے اور اس sample سے جب سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کا میاں آپ کی رضامندی جانے بغیر آپ کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو اس کا جواب ہر ایک کی طرف سے ہاں میں ہی دیا جاتا ہے۔ ان خواتین کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کے اس جواب سے کس قسم کے سنگین نتائج اخذ کئے جائیں گے۔ یونائیٹڈ نیشنز کی ایک ایسی ہی اسٹڈی نے اسی طرح کے سروے سے یہ نتائج اخذ کئے کہ پاکستان میں 50 فیصد شادی شدہ خواتین کے ساتھ ڈومسٹک وائلنس ہوتا ہے اور 90 فیصد خواتین کا نفسیاتی طور پر استحصال ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار اور تخمینے اگرچہ گمراہ کن ہیں لیکن پھر بھی انکا جنسی ہراسمنٹ کے جرم سے کوئی تعلق نہیں لیکن سول سوسائٹی اور فیمنزم کے زیر اثر چلنے والا پاکستانی میڈیا اور پریس جنسی ہراسمنٹ کی سرخی جما کر اسکے نیچے دیگر جرائم کے اعداد و شمار درج کرتے ہیں۔
مغرب میں تو خاندان کا ادارہ ختم ہو چکا ہے۔ وہاں کونسا معاہدہ اور ساتھ زندگی گزارنے کا کونسا وعدہ؟ وہ تو ہر رات ایک نئی جگہ گزارتے ہیں۔ اب ظاہر ہیں اگر ٹرین یا ہوائی جہاز میں دو مسافروں کی سیٹیں ساتھ ساتھ ہوں تو انہوں نے ہمیشہ ساتھ رہنے کا کوئی معاہدہ تو نہیں کیا ہوتا انہیں معمولی بات پر بھی ایک دوسرے سے مسئلہ ہوسکتا ہے اور اگر وہ معمولی بات پر انتظامیہ، پولیس، کورٹ، کچہری کو بلالیں گے تو بلا سکتے ہیں انکے درمیان کونسا معاہدہ ہے جس کے ٹوٹنے کا کوئی غم ہے یا افسوس لیکن اسلامی معاشروں میں یہ صورتحال نہیں ہے۔
این جی اوز، سول سوسائٹی اور فیمنسٹ لیڈران و ماہرین اور میڈیا کے اس شرمناک کردار پر ان سے سوال کرنا چاہیے کہ انکا وہ کونسا جذبہ محرکہ ہے جس کے تحت وہ پاکستان میں جنسی جرائم کا گراف بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے ان کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں سیدھی سی بات ہے وہ نوکری کر رہے ہیں اور انکو جس کام کا معاوضہ دیا جاتا ہے انہوں نے وہی کام سرانجام دینا ہے۔
5۔ حرف آخر
اس مضمون کی اشاعت سیقبل اسکے تمام مباحث کو فیس بک پوسٹوں کے ذریعے نشر کیا گیا تھا۔ اس دوران ایک صاحب نے یہ نکتہ اٹھایا کہ‘‘جنسی زیادتی انسانی معلوم تاریخ کا سب سے موثر ہتھیار رہا ہے۔ ہمیشہ حملہ آور فوج یہی کام کرتی تھیں۔ قیام پاکستان کے وقت اور سقوط ڈھا کہ کے وقت بھی فوج پر اسی قسم کے الزامات لگائے گئے۔ اس وقت تو فیمنسٹ تحریک موجود نہیں تھا کہ اسے الزام دیا جاتا ہے کہ وہ جنسی جرائم کا گراف بڑھانا چاہتی ہے؟’’
اس کے جواب میں ہم نے لکھا کہ‘‘جنگی صورتحال ایک استثنیٰ کی صورتحال ہوتی ہے اور آپ کا یہ سوال اسی استثنیٰ کی صورتحال سے تعلق رکھتا ہے۔ اور کسی بھی استثنائی صورتحال کا کسی سماج، ملک، ریاست کے مروجہ قانون، قاعدے اور اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لئے استثنیٰ کی صورتحال پر کوئی آرگومنٹ نہیں بنتا۔ باقی جہاں تک بات ہے فیمنسٹ تحریک کے ہونے کی تو حال ہی میں ابو غریب جیل میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے اس پر فیمنسٹ تحریک نے کونسا احتجاج کیا؟ یا اس وقت امریکہ کی فوج کے اندر، پولیس کے اندر، اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے اندر جو جنسی جرائم ہو رہے ہیں انکو ختم کرنے کے حوالے سے فیمنسٹ تحریک نے کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قیام پاکستان کے وقت اور بنگلہ دیش کے قیام کے وقت تو فیمنزم کی تحریک پاکستان میں وجود ہی نہیں رکھتی تھی؟ آپ نے شاید فیمنسٹ ماہرین کی طرف سے پاکستان میں فیمنزم کی تاریخ کے حوالے سے کئے گئے دعوں کا مطالعہ نہیں کیا انکا دعوی ہے کہ اس خطے میں فیمنزم کی تحریک کی بنیاد 1870 میں پڑی۔ اور انکا یہ بھی دعوی ہے کہ قیام پاکستان سے قبل یعنی 1937 میں یہ تحریک اپنے پورے عروج پر تھی، قیام پاکستان سے قبل انکا اپنا ایک خفیہ ریڈیو اسٹیشن تک قائم تھا جسے انگریز سامرج نہ تلاش کر سکا نہ بند کر سکا۔ اسکی تفصیلات ڈاکٹر روبینہ سہگل، فیمنسٹ اسکالر کی کتاب میں درج ہیں۔ پاکستان میں بینظیر صاحبہ کے قتل کے موقع پر جو لاکھوں کی تعداد میں ریپ ہوئے اس وقت جنگی صورتحال نہیں تھی اور انکا الزام آپ فوج پر نہیں لگا سکتے؟ وہ تو انسانی حقوق کی علمبردار جماعت کے کارکنوں نے کئے تھے۔ اور انکے خلاف کسی فیمنسٹ لیڈر نے کوئی بیان تک کیوں نہیں دیا۔
مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پیہوں کی مانند ہیں اور کسی ایک کے بغیر زندگی کی یہ گاڑی نہیں چل سکتی۔ دونوں کے کچھ وظائف تو الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن زندگی کی گاڑی میں دونوں کا اپنا اپنا کردار ناگزیر ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان عمدہ تعلقات نہ صرف زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے ضروری ہیں بلکہ ان عمدہ تعلقات کے بغیر کوئی تہذیب قائم ہی نہیں رہ سکتی۔ ہر دو اصناف یعنی مرد اور عورت کے مسائل انسانیت کے ہی مسائل ہیں اور ضروری ہے کہ مرد و زن مل کر ان مسائل کو حل کریں نہ کہ اس سلسلے میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ جن لوگوں نے مردوزن کے مسائل کو سیاسی رنگ دے کر اس بنیاد پر تنظیمیں اور تحریکیں بنا لی ہیں وہ ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اپنے مفادات اور سیاست چمکانے کے لیے مرد و زن کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا ہے۔ ہمیں ان مسائل پر جذباتی اورسیاسی رد عمل دینے کی بجائے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرتے ہوئے اور دونوں اصناف کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سوچنا چاہیے اور مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.