تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

پیری مریدی کا مقصد…… حضرت سید احمد شہیدرحمۃاﷲ علیہ کے تین واقعات

وقائع احمدی سے انتخاب
[امیر المؤمنین مجدد الاسلام والدین سیدنا ومولانا حضرت سید احمد شہید قدس سرہ کے یوم شہادت (۶؍مئی ، ۱۸۳۱ء) کو اس برس ۱۸۹ سال گزر گئے، مگر حضرت کے انفاس کی خوشبو اور اعمال کی روشنی آج تک راہ گم کردہ مخلوق کے لیے ہادی و رہنماہے۔ امام اہلسنت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابو ذر بخاری کا مصرع ہے کہ ’’تیرے خون مطہر کی تعطیر سے آج تک چرخِ مشہد ہے عنبر فشاں‘‘ (یعنی جس جگہ پر آپ کا پاکیزہ خونِ شہادت بہا اس کی خوشبو آج تک ایسی ہے جیسے شہادت گاہ کا آسمان عنبر برسا رہا ہو)۔
جس زمانے میں اﷲ تعالی نے حضرت سید شہید نور اﷲ مرقدہٗ کو اپنے کام کے لیے منتخب فرمایا وہ زمانہ ہندستان میں جہالت کے عروج کا زمانہ تھا۔ (بقول حضرت شاہ ولی اﷲ: حجابِ سوئے معرفت چھایا ہوا تھا)۔ عوام تو خیر کالانعام کہلاتے ہیں، خواص اور مدعیان علم دین و وراثت نبوی کے حالت جیسی افسوسناک ہو چکی تھی اس کی کچھ مثالیں آپ اس اقتباس میں پڑھیں گے۔
یہ اقتباس ’’وقائع احمدی‘‘ نامی ایک بہت غیر معمولی مجموعے سے لیا گیا ہے۔ جب بالاکوٹ میں جہاد فی سبیل اﷲ کے دوران سید بادشاہ اور ان کے قدسی رکاب لشکر کے اکابر شہید ہو گئے تو ریاست ٹونک کے والی (جن کے جوانی کے جہادی کارناموں میں سید صاحب بھی شریک رہے تھے) نواب محمد وزیر خان بہادر مرحوم نے سید صاحب کے لشکر کے بقیۃ السیف حضرات کو اپنے ہاں بلا کر مہمان ٹھہرا لیا تھا۔ چونکہ انھیں سید صاحب سے قلبی وابستگی تھی اس لیے ان باقیات و پسماندگان سے مطالبہ کیا کہ وہ سید صاحب کے احوال و آثار کا مجموعہ مرتب کریں۔ جب یہ مجموعہ ایک ضخیم کتاب کی شکل میں مرتب ہو گیا تو اس کا نام ’’وقائع احمدی‘‘ ٹھہرا۔ اس کی واحد اشاعت سید صاحب کے والہ وشیدا حضرت نفیس شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی محنت و اہتمام سے ’’وقائع سید احمد شہید‘‘ کے نام سے ہوئی۔
کتاب کے تعارف میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کا بیان ہے کہ: ’’میں نے ’وقائع احمدی‘ کے اس دفتر کو جو کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے لفظ بلفظ پڑھنا شروع کیا، جو وقت اس ذخیرہ کے مطالعہ اور تلخیص میں گزرا وہ عمر کے بیش قیمت ترین لمحات میں سے تھا، قلب پر ان حالات و واقعات کا عکس پڑتا تھا، ان واقعات نے جو سادی پوربی اردو میں بیان کیے گئے تھے بار بار دل کے ساز کو چھیڑا، بار بار آنکھوں کو غسلِ صحت دیا، اہلِ یقین و مقبولین کی صحبت کے جو اثرات بیان کیے گئے ہیں ان واقعات کے مطالعہ اور ان کتابوں کی ورق گردانی کے دوران میں ان کا بارہا تجربہ ہوا، اور صاف محسوس ہوا کہ یہ وقت ایک ایمانی اور روحانی ماحول میں گزر رہا ہے۔ معلوم نہیں کہ ان اﷲ کے بندوں کے انفاس قدسیہ اور ان کی صحبت میں کیا تاثیر ہو گی جن کے واقعات کے مطالعہ اور جن کے حالات کے دفترِ پارینہ کی ورق گردانی میں یہ تاثیر ہے‘‘۔
درج ذیل تین واقعات اسی سیدھی سادھی قدیم پوربی اردو میں بیان کیے گئے ہیں اور ان کا موضوع پیر مریدی اور کارخانۂ تصوف کے اصلی مقاصد اور اہداف کا تعین ہے۔ دو واقعات حضرت کے سفرِبنارس میں پیش آئے اور ایک واقعہ خود سید صاحب کے وطن تکیہ شاہ علم اﷲ کے اطراف کا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ ادارہ]
۱: حضرت رحمۃ اﷲ علیہ اپنے تکیہ سے قصبہ سلون میں معہ تمام رفقاء تشریف لے گئے۔ اس قصبہ میں پہلے ایک بزرگ بڑے کامل درویش گزرے، اُن کا مزار پُر انوار بھی وہیں تھا۔ اُنہی کے پوتے پڑ پوتے مزار کے خادم اور مجاور ہیں۔ اُن بزرگ مرحوم ومغفور کا حال اُن کے زمانۂ حیات میں جو کچھ تھا حقیقت اُس کی خدا کو معلوم ہے مگر حُسن ظن میرا یوں ہے کہ موافق سنت خیر الانام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہوگا۔ مگر فی زمانہ اُن کے سجادہ نشین میاں کریم عطا صاحب تھے۔ بہت سے افعال خلافِ شرعیہ کرتے تھے۔ چنانچہ موسم عرُس میں اُن کے مزار کے قریب قوال گانے بجانے میں مصروف رہتے۔ اُن کے مرید اچھل کو دکر حال لاتے ہیں اور کوزوں میں پانی بھر کر تمام مُرید جمع ہوتے اپنے سروں پر رکھ کر گانے بجاتے مزار پر جاتے ہیں۔ غرض ایسی خرافات واہیات کو اختیار کئے ہوئے تھے۔ جن روزوں حضرت امیر المومنین رحمۃ اﷲ علیہ وہاں تشریف فرما ہوئے تھے وہی موسم عُرس کا تھا۔ آپ نے اس بڑی خرافات واہیات کو کریم عطا صاحب جو وہاں کے سجادہ نشین تھے بطور وعظ ونصیحت کے فرمایا کہ تم لوگ درویش ہادی دین ہو، تمہارے اقوال وافعال کو عوام الناس دیکھتے اور اختیار کرتے ہیں۔ یہ جو کچھ ہر سال تم عرس ومیلہ میں کرتے ہو اور اس کے اندر انواع غیر شرعیہ ہوتے ہیں۔ انصاف سے کہو کہ یہ طریقہ موافق سُنت کے ہے یا مخالف؟ اگر موافق ہو پھر تو اسے سب مسلمانوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا ہم اس کا جواب پھر کسی وقت آپ سے ملاقات کریں گے، تب بتادیں گے۔ پھر دوسرے روز حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے مولانا عبدالحئی رحمۃ اﷲ علیہ کو اُن کے پاس بھیجا کہ اس امر میں آپ جا کر اُنہیں تعلیم فرمائیں۔ آپ کے فرمانے سے مولانا ممدوح اُن کے پا س گئے اور کچھ گفتگو اس امر میں کی وہ صاحب اس کا جواب دینے سے قاصر رہے۔ اُن کے ایک خاص مرید نے اُن کے کان میں جھک کر کچھ کہا۔اُنہوں نے مولانا مرحوم سے کہا اب تو کھانے کا وقت ہے، اب یہ گفتگو کسی اور وقت پر رکھیے۔ آپ نے کہا بہتر اور کسی وقت سہی۔ پھر مولانا صاحب وہاں سے چلے آئے۔ پھر بعد نماز عصر کے کریم عطا صاحب نے اپنا آدمی حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس بھیجا۔ اُس نے کہا کہ ہمارے میاں صاحب نے آپ کو سلام عرض کیا ہے کہ آج ہمارے اور مولانا عبدالحئی صاحب کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی مگر ہم آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں کہ کچھ کلام ہدایت آپ کی زبان فیض ترجمان سے سنیں اور کچھ آپ کی خدمت میں ہم بھی عرض کریں۔ حضرت نے اُن کے آدمی سے کہا کہ ہمارا بھی سلام اپنے میاں صاحب کو کہنا اور جو کچھ اُنہوں نے کہا ہے بہت خوب ہے۔ کسی وقت ہم اُنکی ملاقات کو آئیں گے۔ پھر حضرت آپ اُن کے مکان پر گئے اور جو کچھ اُنہوں نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے عرس ومیلہ وغیرہ کے امر میں گفتگو کی، آپ نے ہر بات کا ان کو ایسا جواب باصواب دیا کہ پھر اُن کو جگہ گفتگو کی باقی نہ رہی۔ لا جواب ہو کر اپنی خطا کے معترف ہوئے کہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں حق اور سچ ہے مگر ہم کیا کریں یہ عُرس میلہ کا وسیلہ ورواج ہمارے بزرگوں سے چلا آتا ہے اور اس کی آمدنی پر گویا ہماری معاش کا مدار ہوگیا ہے، یہ ہم سے موقوف نہیں ہوسکتا۔ فی الحقیقت یہ افعال واعمال بدعات وخلاف شرع ہیں، ہم لوگ نفس اور شیطان کے بیچ میں آگئے ہیں، آپ جناب الٰہی میں دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہم کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کو چھوڑ دیں۔ پھر حضرت وہاں سے اپنے مقام پر تشریف لائے، عصر کے وقت کئی مرید خاص کریم عطا صاحب کے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس آئے اور اپنے لوگوں سے چھپا کر حضرت ؒ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اور کہا کہ جب مولانا عبدالحئی صاحب سے ہمارے پیرو مرشد کریم عطا صاحب گفتگو عرس ومیلہ کے امر میں کرتے تھے اس وقت ایک شخص نے کان میں کہا کہ یہ مولانا صاحب عالم ہیں آپ ان سے تقریر میں جیت نہ پائیں گے۔ آپ کو اس باب میں جو گفتگو کرنی ہو تو خود سید صاحب سے کریں اس لیے کہ اُن کو ایسا بہت علم بھی نہیں اور اگر آپ نے ان کو لاجواب کردیا تو گویا یہ سب لاجواب ہوگئے۔ اس سبب سے انہوں نے کھانے کا بہانہ کرکے مولانا عبدالحئی صاحب سے گفتگو موقوف کی اور آپ کی ملاقات کی درخواست کی۔ پھر جب آپ کی تقریر انہو ں نے سُنی تب اُن کو کچھ جواب اس کانہ بن پڑا اور ناچار ہوکر اپنی خطا کے معترف ہوئے اور فرماتے تھے ہمارا علم کسبی اور سید صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا علم وہبی ہے۔ ہمارے علم کو اُن کے علم سے کیا نسبت؟ یہ کہہ کر اس شخص نے حضرتؒ سے کہا کہ آپ کل کے روز یہاں مقام فرمائیں اس قصبہ کے لوگ اکثر مولانا عبدالحئی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا وعظ سننے کے مشتاق ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کل ہم کو جانا ضروری ہے۔ اگر خیر سے اﷲ تعالیٰ ہم کو پھر لایاتب مولانا کو سُن لینا۔ مگر آج کی رات جس کو جوکچھ مسئلہ پوچھنا ہو مولانا صاحب سے پوچھ کر تسلی کرلے۔ اور جس کو جو مسئلہ پوچھنا منظور تھا اس نے اُسی رات کو آکر پوچھا اور مولانا صاحب نے جواب باصواب سے اُس کی دلجمعی کردی۔ اور اُسی رات کو وہاں کے اکثر لوگوں نے آکر آپ کے دست مبارک پر بیعت کی پھر صبح کو وہاں سے آپؒ نے کوچ فرمایا۔
۲: برسات کا موسم تھا بارش بھی ہو رہی تھی جب شہر بنارس کچھ دُور تھا تب حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اس شہر میں تاریکی بہت معلوم ہوتی ہے لوگوں نے کہا کس چیز کی تاریکی ہے آپ نے کہا یہاں کفاربت پرست کثرت میں ہیں اور کفاروہنود کا یہاں غلبہ ہے کفر وشرک کی تاریکی ہے لیکن چلو خدا تعالیٰ سب تاریکی دُور کرے گا۔ پھر جب شہر میں مع الخیر داخل ہوئے لوگوں نے آپس میں کہا کہ یہاں ایک شخص مولوی عبدالقادر صاحب کا بڑا ڈیرہ ہے اُن کے مکان پر اُتریں۔ پھر حضرت ؒ نے فرمایا وہ تو ہمارے بڑے دوست اور ہم وطن ہیں مگر ہمارے طریق کے مخالف ہیں اُن کے یہاں اُتر نا مناسب نہیں کوئی اور جگہ تلاش کرنی چاہئے۔ کندی گروں کے محلہ میں ایک مسجد ہے جو مسجد بادشاہی کہلاتی ہے ویران پڑی تھی، بہت کوڑا اور گوبر اُ س کے اندر پڑا تھا۔ کسی بادشاہ نے ایک بت خانہ تو ڑ کر وہ مسجد بنائی تھی۔ آپ ؒ نے اسی کو صاف کروا دیا اور خوب دھلوایا اور اس میں اترے ۔اس محلہ کے چند مسلمانوں نے آپ ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس شہر میں ایک بڑا گشائیں (ہندوپنڈت) رہتا تھا اُس کے بڑے چیلے بھی اُس کے ساتھ تھے گویا سب ہندووں کا گرو تھا۔
حضرتؒ کے وہاں اُترنے سے اُس کے ذکر وفکر اور پوجا وغیرہ میں خلل واقع ہوا اس کا مذکور اس نے اپنے چیلوں سے کیا۔ وہ تعجب سے کہنے لگے کہ یہ خلل کس سبب سے پیدا ہوا ہے؟ اُس پنڈت نے کہا اس شہر میں کئی روز سے ایک سید اُترے ہیں ان کے سبب سے ہمارا کا روباردرہم برہم ہوگیا ہے۔ چیلوں نے کہا کہ اُن کا علم کیا آپ کے علم سے بھی زبردست ہے؟ اُس نے کہا ہاں زبردست ہے۔ انہوں نے کہا اس کی کچھ تدبیر کرنی چاہئے اس نے کہا ہاں کچھ تدبیر کریں گے ۔اور حضرت امیر المومنین رحمۃ اﷲ علیہ نے پہلے ہی اپنے لوگوں کو آگاہ کردیا تھا کہ اس شہر میں ایک کافر گشائیں(پنڈت) بڑا ساحر (جادو کرنے والا ) ہے۔ اس کے شامت اعمال وافعال سے اس شہر میں بڑی ظلمت ہے۔ اور وہ کبھی شاید کچھ شیرینی وغیرہ بطور نذر کے بھیجے تو تم سے کوئی بغیر اجازت کے نہ کھائے۔ سو ویسا ہی ہوا دوتین دن کے بعد اُس پنڈت نے اپنے چیلے کے ہاتھ کچھ شیرینی کچھ الائچی دانہ اور لونگیں، پان بھیجے۔ اُس نے آکر حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے نذر کیے اور کہا کہ ہمارے فلاں گرو نے بھیجا ہے اور سلام کہا ہے اور عافیت مزاج کی پوچھی ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے گرو جی کو ہماری طرف سے پوچھو اور جو کچھ تم سے بتائیں ہم کو پہنچانا ۔ آپ نے پھر اس کو رخصت کیا اور اپنے لوگوں سے فرمایا کہ ہم اسی کے بارے میں کہتے اس شیرینی کو کوئی نہ کھائے اس پر سحر کیا گیا ہے۔ پھر اس کو آپ نے زمین میں دفن کردیا اور فرمایا عجب نہیں وہ ابھی کچھ اور بھی بھیجے یا آپ لائے۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے اس کے کاروبار کو سست اور بیکار کردیا اور کارخانہ کاروباراس شہر میں درہم برہم ہوگیا ہے۔ اس شہر پر اس کی ظلمت کو اﷲ تعالیٰ نے نور کے ساتھ بدل دیا ہے۔ پھر کئی دن کے بعد ایک اور چیلا اُن کا آیا اور کہا گرو جی نے آپ کا مزاج پوچھا ہے اور یہ عرض کیا ہے کہ اگر آپ کو تکلیف نہ ہوتو ہم کسی وقت آپ کی ملاقات کوآئیں؟ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا تمہارے گروجی کے پاس ہم آپ بھی کوئی آدمی بھیجنے والے تھے سو اس عرصہ میں تم آگئے خوب ہو ا۔گر وجی سے کہو کہ سید صاحب کہتے ہیں کہ ہم کو کسی طرح تکلیف نہ ہوگی، آپ شوق سے جب چاہیں تب آئیں۔ ہم بھی آپ سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ پھر اس کو رخصت کیا۔ پھر ایک روز آٹھ دس چیلے ساتھ اور ایک خوانچی میں بہت سے بڑے بڑے الائچی دانے اور کئی قسم کی مٹھائی کچھ پان حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس لے کر آپ حاضر ہوا اور خوانچہ آگے دھر اکہ آپ کے نذر ہے ۔کچھ دیر تک باتیں کرتا رہا پھر کہا میں آپ سے خلوت (علیحدگی) میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں آپؒ نے فرمایا بہتر۔ مسجد کے قریب ایک حجرہ تھا اُس میں اُس کو لے گئے پھر کچھ دیر کے بعد باہر آئے اور اُس پنڈت نے کہا اب تو میں چلتا ہوں پھر کسی وقت آؤں گا۔ پھر اس کے جانے کے بعد حضرتؒ نے فرمایا جب یہ پنڈت میرے پاس آکر بیٹھا تو اپنی نسبت کو میرے نسبت پر غالب کرنا چاہا ۔مجھ کو اس بات کا کچھ خیال نہ تھا پھر یہ حال مجھ کو معلوم ہوا تب میں نے اپنی نسبت کو اُس کی طرف متوجہ کیا اُسی وقت وہ مغلوب ہوکر گھبرایا اور کہا میں آپ سے خلوت میں کچھ باتیں کروں گا۔ پھر وہاں خلوت میں جاکر کہا کہ آپ مجھ کو بھی کچھ تعلیم فرمائیں آپ کی نسبت تو بڑی قوی ہے میری نسبت کو اس نسبت سے کیا نسبت۔ آپ بڑے زبردست لوگ ہیں۔ میں نے کہا تعلیم تم کو کیا کروں مگر بہتر جو کچھ تمہاری قسمت میں ہوگا دیکھ لینا۔ پھر میں نے اس کو توجہ دیا اور پوچھا کہ جو تم کو معلوم ہوا ہو بیان کرو۔ پھر جو کچھ اُس نے دیکھا بیان کیا اور بہت راضی ہوا اور کہا کہ آپ سے کچھ اور بھی حاصل کرونگا ۔جب آپ اس شہر بنار س کی سرحد میں داخل ہوئے تھے اسی وقت میرے سحر اور کاروبار میں خلل واقع ہونے لگا میں نے جانا کہ اس شہر میں شاید کوئی پنڈت مہاپرس یعنی زبردست صاحب نسبت آیا ہے اس کی نسبت قوی سے خلل میرے کاروبا ر میں واقع ہوا۔ مجھ کو معلوم نہ تھا کہ کوئی بزرگ مسلمانوں میں سے ہے۔ پھر جب آپ کا حال مجھ کو معلوم ہوا تب میں نے واسطے خبر کے اپنے چیلے کو بھیجا۔ یہ بیان کرکے آپ نے مولانا عبدالحئی رحمہ اﷲ علیہ سے پوچھا کہ مولانا صاحب اس پنڈت کی شیر ینی کا کیا فتویٰ ہے اس پر وہ کچھ سحر کرکے لایا ہے اس کو لوگ کھائیں یانہ؟ مولانا صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اس کا فتویٰ آپ ہی کو خوب معلوم ہے میں اس امر میں کچھ نہیں جانتا۔ پھر حضرت نے اس شیر ینی کو حفاظت کے ساتھ ایک الگ جگہ پر رکھوا دیا۔ پھر دوسرے دن فجر کے بعد آپ نے مسجد میں ایک چادر بچھوائی اور اُس پر شیرینی جا بجار کھوائی۔ اسی اثناء کسی نے کہا کہ حضرت اس میں تھوڑی شیرینی برائے امتحان پہلے کسی کتے کو کھلوا ئیے جو کچھ سحر وغیرہ ہوگا معلوم ہوجائے گا۔ آپ نے فرمایا بھائی صاحب کیا کتے کو اپنی جا ن پیاری نہیں ہے جو نقصان کے امتحان کے واسطے اُ س کو کھلائیں؟ کسی بات کا اندیشہ نہ کرو ،اﷲ تعالیٰ نے اس کے سحر کو اس پر ہٹا لیا اب تم سب بے فکر ہوکر کھاؤ۔ پھر سب نے سب وہ شیرینی بخوبی کھائی اور یہ بھی حضرتؒ نے فرمایا کہ اس شہر میں ہمارے آنے کے سبب پنڈتوں کے کاروبار سحر اور استدراج معطل اور بے بیکار ہوگئے ہیں اب ان سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس کے دوسرے روز وہی پنڈت پھر آیا حضرت رحمۃ اﷲ علیہ اس کو خلوت میں لے گئے۔ بعد کچھ دیر کے وہاں سے آئے پھر جب وہ پنڈت رخصت ہوا تب حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے کہا کہ جو حال میں نے کہا تھا وہی حال آج اس پنڈت نے آکر ہم سے بیان کیا کہ جب میں آپ کے پاس سے اپنے مکان کو گیا تب اس شہر کے دوتین پنڈت مہاپرس میرے پا س آئے اور کہا کہ گرو جی کیا سبب ہے کہ کئی روز سے ہمارا سحر اور استدراج بالکل بے کار اور نکما ہوگیا ہے ؟میں نے ان سب کو جمع کیا کہ جُدا جُدا میں کس کس کو جواب دوں۔ جب سب پنڈت آچکے تب میں نے اُن کو کہا کہ تمہارا کار خانہ بند ہی ہوگیا خود میرے کاروبار کا بھی یہی حال ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ اس شہر میں کئی روز سے ایک سید صاحب آئے ہیں ان کی نسبت کے پر تو سے یہ ہمارا تمہارا کار خانہ درہم برہم ہوگیا ہے۔جب تک وہ اس شہر میں رہیں گے یہی حال رہے گا بعد جانے ان کے پھر بھی یہ دیکھنا پڑے گا یہ کاروبار ہمارا تمہارا جاری ہوتا ہے یا نہیں ۔اگر پھر جاری ہوگا تو اُنہی کی توجہ اور مہر بانی سے ہوگا۔ اب ہم پھر اُن کے پاس جائیں گے جیسا کچھ ہوگا تم سے کہیں گے۔ بعد اُس کے وہ دوسرے دن پھر آیا اور پھر حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے خلوت میں لے جاکر اس کو توجہ دیا اور اس نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے کچھ باتیں کہیں پھر وہاں سے رخصت ہوا۔ حضر ت رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ آج یہ پنڈت اس کا شکوہ کرتا تھا کہ اس شہر میں جب تک ہمارا کاروبار جاری تھا ہم کو بھی فائدہ تھا اور لوگوں کو بھی اور لوگ ہمارے معتقد تھے اور اب کچھ کام چلتا نظر نہیں آتا۔ اس سبب سے اب ہمارا یہاں رہنا بھی معلوم نہیں ہوتا ۔اگر آپ مہربانی کریں تو بہتر نہیں تو ہم لوگ یہاں سے اور کہیں چلے جائیں گے۔ میں نے کہا پنڈت جی اس امر میں میرا کیا اختیار کہ تمہارا کاروبار ہوگا یا نہ ہوگا۔ تمہارا کار خانہ جدا ہمارا کارخانہ جُدا۔ مگر ہمارا کاروبار جو تم سیکھو تو البتہ اس کو شکوہ کرنا لائق ہے۔ اس نے جانا کہ میں ان کا طریق اختیار نہیں کرسکتا پھر یہ معاملہ کیونکر دُرست ہو۔ آخر کار آج نا امید ہوکر وہ چلا گیا۔ بعد اس کے دوسرے تیسرے روز اس نے اپنے ایک چیلے کو بھیجا۔ اس نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے آکر کہا کہ ہمارے گروجی نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ اب ہماری یہاں سے جانے کی تیاری ہے۔ پھر یہ حال نہیں معلوم کہ وہ وہاں سے چلا گیا یار ہا، مگر حج کو جاتے ہوئے جب حضرت ؒ بنارس میں تشریف لے گئے اور وہاں لوگوں سے اُس کاحال دریافت کیا کچھ پتہ نہ ملا۔ واﷲ اعلم بالصواب
۳: مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃاﷲ علیہ نے کئی روز اُس مسجد میں وعظ فرمایا جس کا مذکور پیچھے ہوچکا۔ بہت لوگ مسلمان شہر کے خصوصا اس محلہ کے مسلمان کُندی گر اور دھوبی وعظ سننے کو آئے۔ ا س عرصہ میں جو اُن مسلمانوں کے وہاں ایک پیر تھے انہوں نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے آنے اور لوگوں کے رجوع ہونے کا حال سُنا تو ایک رنگین رومال اور کچھ مٹھائی کے الائچی دانہ اپنے خادم کے ہاتھ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کو بھیجے۔ اُس خادم نے حضرت سے آکر کہا ہمارے فلانے پیر ومرشد نے یہ تبرک آپ کو بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جو آپ لوگوں کو عظ ونصیحت کرتے ہیں مفید نہ ہوگا۔ یہ تمام لوگ ہمارے مُرید ہیں اور یہاں کارویہ آپ کو معلو م نہیں۔ اگر آپ کچھ فتوحات حاصل کرنے کو آئے ہیں تو ہم سے آکر ملاقات کریں پھر جو ہم اس کی تدبیر بتائیں وہ آپ عمل میں لائیں تب البتہ کچھ حاصل ہوگا، ورنہ آپ مختار ہیں۔ یہ خرافات واہیات اس خادم کی زبانی سُن کر ہمارے لوگ آپس میں ہنسنے لگے۔ جب وہ خادم تبرک دے کر رخصت ہوا تب کئی صاحبوں نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے کہا اگر اجازت ہوتو ہم دوچار شخص جاکر ان پیر زادے صاحب سے ملاقات کریں اور ان کا کیا طور طریق ہے دیکھیں؟ آپؒ نے فرمایا کیا مضائقہ ہے جاؤ۔ پھر مولوی وحید الدین سادہ غریبوں کا لباس پہن کر اور کئی آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر ان کے مکان پر گئے اور ان سے ملاقات کی۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ ہی اس شہر میں تشریف لائے ہیں اور لوگوں سے بیعت لیتے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا وہ ہمارے پیرومرشد ہیں ہم تو ان کے ادنیٰ مُریدوں میں سے ہیں۔ لوگوں سے آپ کے اخلاق حمیدہ اور اوصاف پسند یدہ سُن کر آپ کی ملاقات کو آئے ہیں کہ آپ ہم کو کچھ تعلیم فرمائیں۔ انھوں نے کہا بہت خوب جو کچھ دعا، تعویز حاضرات وغیرہ ہم کو معلوم ہے بتائیں گے۔ مولوی صاحب نے کہا آپ کو توجہ دینا بھی آتا ہے کہاہاں کیوں نہیں آتا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ مجھ کو اپنے سامنے بیٹھا کر آپ کو توجہ دیں پھر توجہ دینے کو انہوں نے مولوی صاحب کو بٹھایا اور توجہ دینے لگے اسی حال میں مولوی صاحب نے اپنی نسبت کا پر نو اُن پر ڈالا وہ بے ہوش ہوکر ہوحق مچانے لگے اور اُچھلنے لگے۔ پھر مولوی صاحب نے ان پر اپنا ہاتھ رکھا وہ ہوش میں آئے اور بہت گھبرائے اور شرمندہ ہوکر کہنے لگے کہ تم نے ہم پر کچھ عمل سفلی کردیا اس سے ہم بے ہوش ہوگئے سو ہم تو ایسے شعبدوں کے معتقد نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ واﷲ ہم نے تو سفلی عملی آپ پر کچھ نہیں کیا اور ہم تو آپ سے فائدہ اٹھانے کو آئے تھے۔ آپ یوں فرماتے ہیں اور کسی وقت آپ ہمارے پیرو مرشد کی ملاقات کو تشریف لے چلیں تو وہاں بھی ہم آپ سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ اسی طرح کی شیریں گفتگو سے اُن کو راضی کیا۔ پھر رخصت ہو کر اپنے مقام پر آئے اور یہ تمام حال حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے بیان کیا۔ پھر دوسرے روز بعد نماز فجر کے کچھ دن چڑھے وہ پیر زادے صاحب حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کی ملاقات کو آئے۔ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے ان کو بہت عزت اور احترام سے بٹھایا اور عافیت مزاج کی پوچھی۔ انہو ں نے جو حضرت کو اور ان کے آدمیوں کو دیکھا اور ان کی گفتگو سُنی اُن کے ہوش جاتے رہے کہ یہ لوگ تو اور ہی طرح کے ہیں۔ اور انہی کے دو چار مرید جنہوں نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، اس وقت حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے لوگ ان کو توجہ دے رہے تھے مگر ان کو انہوں نے نہیں پہچانا کہ یہ ہمارے مُرید ہیں۔ یہ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے باتیں کرنے لگے اور اپنا حال بیان کرنے لگے کہ حضرتؒ سلامت ہماری تو وجہ معاش یہ ہے کہ تمام مریدوں کے یہاں چھ ماہی مقرر ہے کوئی ایک روپیہ کوئی دو روپیہ کوئی کم روپیہ دیتا ہے۔ یہ لوگ پیشہ ور ہیں ان سے پنچ وقتی نماز کہاں ہوسکتی ہے؟ اسی کی معافی میں یہ ہم کو چھٹے مہینہ موافق مقدور کے کچھ زرنقد نذر کرتے ہیں۔ مگر رمضان کے روزوں کی ہم ان کو بہت تاکید کرتے ہیں۔ اس میں جو کوئی عذر کرتا ہے ہم حقہ پیتے ہیں یا کوئی نشہ کھاتے ہیں ہم سے روزہ نہیں رکھا جاتا ،تو ہم ان سے چھ ماہی کے سوا کچھ اور نقدی یا دوچار دعوتیں وغیرہ ٹھہرا کر کے اُن کو معاف کردیتے ہیں۔ یہ ہم لوگوں کی گزران کی صورت ہے اگر آپ کو کچھ فتوحات منظور ہوں تو اُس کی یہ راہ ہے جو ہم نے بیان کی اور آگے آپ کو اختیار ہے۔ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ تمام داستان سُن کر فرمایا کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں فی الحقیقت اس وقت کے پیروں کا یہی دستور ہے اور اسی آمدنی پر اُن کی گزران ہے۔ مگر یہ طور قرآن وحدیث شریف کے مخالف ہے آپ بھی بغور اس کو دریافت کریں اور ہم مسلمانوں کا طریق تو موافق فرمانے خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے چاہیے۔ جو موافق قرآن و حدیث کے ہو اس کو ہم بھی عمل میں لائیں اور آپ بھی اور جو کچھ خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریق آپ کو معلوم ہو وہ آپ ہم کو تعلیم فرمائیں ہم سیکھیں اور جو ہم کو آتا ہے وہ ہم آپ کو بتائیں وہ آپ مانیں…… ہمارا تو صرف یہ مقصد ہے۔ اور روزی ورزق خدا کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا بیشک یہی حق ہے جو آپ نے فرمایا، اس عرصہ میں وہ دوچار شخص جن کو تو جہ دے رہے تھے وہ آئے اور جو کچھ جس نے اپنے مراقبہ میں دیکھا تھا سب حضرت رحمہ اﷲ علیہ کے رُوبرو بیان کیا۔ یہ سُن کر وہ پیر زادے صاحب بھی سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہنے لگے۔ پھر کئی شخص جنہوں نے اُسی وقت تازہ بیعت حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاتھ پر کی تھی حضرت رحمہ اﷲ علیہ اُن پیر صاحب کے مُریدوں کو جوتازہ توجہ لے کر آئے تھے تو جہ دینے کوکہا۔ پھر انہو ں نے اُن کو توجہ دی اور حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے سامنے بیا ن کرنے لگے کہ ہم نے ایسا ایسا معاملہ دیکھا۔ یہ حال سن کر وہ پیر صاحب بہت حیرت میں ہوئے کہ یہ کیا معاملہ یہ تو مُرید ان کے گویا ہر ایک صاحب کمال ہیں، پھر اُنہو ں نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے اجازت چاہی کہ پھر میں کسی وقت آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوں گا یہ کہہ کر وہ اپنے مکان کو گئے اور رات ہی کو اُس شہر سے مع اہل وعیال کسی طرف بھاگ گئے اور حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کو منہ نہ دکھایا۔ اور نہ کسی مرید اپنے سے مل کر گئے۔ دوسرے روز کئی مُرید ان کے جنہو ں نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت نہیں کی تھی ان کو تلاش کرنے لگے کہ ہمارے پیر صاحب کہاں گئے؟ تب دو چار اُن مُریدوں نے جنہوں نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت کی تھی اُ ن سے کہا کہ وہ میاں صاحب سید صاحب کی ملاقات کو آئے تھے اور یہاں کا حال اُنہو ں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سید صاحب سے گفتگو بھی کی تھی شاید کہ اسی ندامت اور پشیمانی سے بھاگ گئے۔ یہ حال سُن کر انہو ں نے تمام شہر کے مُریدوں کو خبر کی ہمارے پیر صاحب اسی سبب سے بھاگ گئے۔ وہ سب کے سب اُن سے بے اعتقاد اور طرف حضرتؒ کے رجوع لائے اور سب نے بیعت کی۔ اور کہا کہ ہم تو آج تک اسی کو دین اور اسلام اور خدا کی راہ جانتے تھے جس طریق پر وہ ہم کو چلاتے تھے سواب ہم کو معلوم ہو ا کہ ہم لوگ غلطی پر تھے۔ دین حق اور طریق خدا کا یہ ہے جو آپ تعلیم فرماتے ہیں۔ اب ہم نے اُن سب اگلی باتوں سے توبہ کی، پھر حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے دو چار روز کے بعد وہاں سے کوچ فرمایا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.