تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احرار اور تحریک مسجد منزل گاہ- سکھر

تحریک آزادی کا ایک خونی اور تاریخ احرار کا ایک سنگین باب! (قسط:۱)
اثر خامہ : حضرت امام سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ

پیش لفظ
۱۔ افواہ میں سچی بات کی تعیین اور ہنگاموں میں سے صیح واقعہ کی تلاش آسان کام نہیں پھر جب معاملہ گھر دکان یا کسی ادارہ کانہ ہو بلکہ قومی تحریکات سے متعلق ہو جائے تو مسئلہ اور کٹھن ہو جاتا ہے۔
۲۔ تحریک مسجد شہید گنج ،لاہور (۱۳۵۴ھ مطابق ۱۹۳۵ء) ایک اہم اور بڑا خوف ناک سیاسی حادثہ تھا اس کی مستند تفصیل تو انشاء اﷲ تعالیٰ حسب دستور مستقل کتاب کی صورت میں مستقل فرصت کے وقت ہی پیش کی جائے گی البتہ اتنا معلوم ہونا چاہیے کہ ۱۳۵۶ھ مطابق ۱۹۳۷ء کے کل ملکی انتخابات کے موقع پر مجلس احرار اسلام اپنی ہفت سالہ بے پناہ مختصر کار کردگی خصوصا نمکین ستیہ گرہ اور کشمیرو کپور تھلہ میں عوامی حقوق کی جدوجہد کی وجہ سے ملک بھر میں عموماً اور پنجاب میں خصوصاً زبردست رسوخ اوروقار حاصل کرچکی تھی۔ اس خالص اسلامی تحریک کی انقلابی سرگرمیوں پر انگریز کی عیار انہ نگاہیں جمی ہوئی تھیں وہ اس جدوجہد کے متوقعہ نتائج کو بخوبی بھانپ چکا تھا اور اُن کے دُور بیں اثرات سے کبھی غافل نہیں رہ سکتا تھا کیوں کہ اس جماعت (احرار) کو ڈھیل دینے کاصاف مطلب یہ تھا کہ اگر مجلس احرار اسلام صوبائی انتخابات میں جیت جاتی تو نہرو رپورٹ کی ترتیب کے وقت سے مسلمان جس ضغطہ میں مبتلا تھے وہ سراسر ختم ہو جائے۔ صوبہ میں مسلمانوں کی واضح اکثر یت قانوناً تسلیم کی جائے۔ جدا گانہ انتخاب کے ذریعہ قومی حقوق کا تحفظ ہواور صوبائی سیاست کی اصلاح کے بعد جماعت اونچی سطح پر بہتر تجاویز لاکر ہمسایہ اقوام سے کسی معتدل اور قدر مشترک قسم کے منصوبہ پر مفاہمت کرے تا کہ انگریز جیسے عیار اور ازلی دشمن سے باعزت اور موثر طریقہ پر آزادی حاصل کرنے کیلئے کوئی فیصلہ کُن قدم اُٹھایا جاسکے۔ تو ظاہر ہے کہ فرنگی اور اُس کے گماشتے اس صورت حال کوکبھی بھی برداشت نہ کرسکتے تھے چنانچہ لندن کی ہدایات پر وائسرائیگل لاج شملہ میں منصوبہ بنایا گیا۔ آنجہانی سرفضل حسین انگریز کی ناک کابال اور احرار کا بد ترین دشمن تھا اُس نے سازش کو عملی جامہ پہنا نے کا ٹھیکہ لیا۔ حسب دستور مرزائیوں کی پروپیگنڈا مشیزی سے کام لیا گیا احرار کے خلاف ظفر علی خاں مرحوم کی زیر قیادت اتحاد ملت کے نام سے ایک فرضی جماعت کھڑی کردی گئی۔ پھر اس کے حق میں اور مسجد شہید گنج کو قانون شکنی کے ذریعہ سکھوں سے واپس لینے کے نام پر مسلمانوں میں ہیجان واشتعال پیدا کرنے کی خاطر سرکاری اور ٹوڈی اخبارات میں فتنہ انگیز اور ہلا کت خیز مضامین لکھے جانے لگے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں کے مختلف پریسو ں کے فرضی نام لکھ کر ہزاروں اشتہار اور پمفلٹ کادیان میں چھاپے جاتے اور انگریز کے منشا کے مطابق یہ انبار درانبارشیطانی لٹریچر ہر صبح بیک وقت تمام شہروں میں خفیہ ہاتھوں کے ذریعہ تقسیم ہوجاتا تھا۔ حُسن اتفاق سے جماعت کے پرانے سیاسی مبصر جناب ماسٹر تاج الدین انصاری ان دنوں مرکز کی طرف سے کادیان میں تحریک کی توسیع و تنظیم، مرزائی تسلط کے مناسب سدِّ باب اور کادیان کی سیاسی چیکنگ پر مامور تھے۔ انہوں نے بڑی فراست اور تدبر کے ساتھ چند ہی دنوں میں معاملات کواپنے ڈھب پر لاکر آں جہانی مرزائی یوپ موسیو بشیر الدین محمود کے پر اسرار محل اور حرم تک رسائی حاصل کی اور سارے منصوبہ کا ظاہر وباطن معلوم کرلیا۔ حتی کہ کادیان سے ،ملک بھر میں جانے والے اس لٹریچر کے بنڈلوں پارسلوں رجسٹریوں اور بلٹیوں کے تاریخ وارنمبر تک حاصل کرکے مرکز کوباخبر کردیا۔ جب مجلس کے ترجمان روز نامہ ’’مجاہد‘‘ میں مصدقہ تحریرات اور دستاویزی اعتراضات کے ذریعہ انگریز، مرزائی، سر فضل حسین اور لیگیوں ٹوڈیوں کے ناپاک گٹھ جوڑ اور احرار کے خلاف اُن کی اس تباہ کن سازش کے مکروہ چہرہ سے نقاب اُترنے لگی تو ایک معمولی مضمون کابہانہ بناکر بہ شرط عدم اداء، اجازت (ڈیکلریشن) منسوخ کرنے کا فرعونی حکم دے کراخبار سے ہزار ہا روپے کی نقد ضمانت طلب کر لی گئی۔ شرط کڑی تھی، مخلص مگر مفلس جماعت تحمل نہ کر سکی، نتیجتاً اس واحد جماعتی ترجمان کے گلے پر بھی مستقل بندش کی چُھری چلا دی گئی۔ اشاعتی محاذ پر احرار کی بے بسی سے بھر پور فائدہ اُٹھایا گیا۔ اس کی بلند فطرت، بہادر انہ کردار اور روشن کار ناموں کے برعکس بزدلی اور فرار کے الزام لگائے گئے۔ اتحاد ملت اور لیگیوں نے خود ہندووں اور سکھوں سے مسجد کاسودا کر کے حرام کا وافر مال ڈکار لیا اور احرار پر اغیار کے حق میں استعمال ہونے کاسراسر جھوٹا اور ابلیسی بہتان تراشتے رہے۔ بالآ خرسول نافرمانی کرائی گئی۔ تصادم ناگزیر تھا گولی چلی اور سینگڑوں مسلمان شہید ومجروح ہوگئے۔ ایک قومی مشکل کا یقینی حل اور اجتماعی تکلیف کے لیے نسخہ شفا سمجھ کرآزمائی گئی اس سراسر غلط تجویز وتدبیر کے باعث مسجد نہ ملنی تھی نہ ملی۔ بلکہ آج تک پاکستان کی قومی حکومت کی زیر نگرانی انڈیا سے آنے والے سکھ یا تریوں کی مذہبی زیارت گاہ کے نام سے بہ طور گوردوارہ محفوظ ہے۔ اس میں مسلمانوں کاداخلہ ممنوع ہے اور کسی بھی اقدام کو روکنے کیلئے ۱۹۳۵ء سے لے کر آج تک مسلح پولیس کا پہرہ باعث غم وحسرت اور کرب ناک دائمی ناسور بنا ہوا ہے۔ اور مسجد اپنے جھوٹے اور جعل ساز عاشقو ں کی مرثیہ خواں اور اُن کے غدار انہ اعمال پر ماتم کناں ہے۔ مسجد کے نام سے تجارت وقیادت چلانے والے اکثر خائن وغدار اور ملت فروش لیڈر اس قومی گناہ کاوبال بھگتنے کیلئے اپنے انجام کو بھی پہنچ گئے۔ کچھ روسیاہ مکافات کی بھیانک گھڑی دیکھنے والے ہیں۔ احرار کی دور اندیشی، صحیح فکر، مثبت وپر امن طرزعمل، یقینی بے گناہی و پا کدامنی پہلے فرنگی دور میں اور اب قومی حکومت کے عہد میں بھی روز روشن کی طرح ثابت وعیاں ہوچکی ہے۔ لیکن افسوس کہ فریب خور دہ قوم تینتیس برس کے طویل مشاہدہ کے باجود آج بھی اس سنگین حقیقت سے بے پروا اور اُس کے لیے کسی عملی اقدام سے غافل بلکہ اس کے احساس وشعور تک سے محروم ہے۔ اور سیاسی غنڈے ملک وملت کے ساتھ اپنے اس دردناک اور خونی مذاق کوپوری بے حیائی اور سیاہ باطنی کے ساتھ احرار کے فرضی جرائم کی فہرسست میں شامل کر کے ملکی تاریخ میں یہود یانہ تحریف وخیانت کا نا پاک ارتکاب کررہے ہیں۔ انا ﷲ وانا لیہ راجعون۔
۳۔ کا فرانہ دستور کے مطابق یہ ریت ہمارے ہاں جزو زندگی بنی ہوئی ہے کہ ہزار مخلص ومعاملہ فہم ہونے کے باوجود غریب اور مفلس کے لیے کسی بھی اجتماعی مسئلہ اور قومی وملکی معاملہ میں دخل دینا تو کجا اظہار خیال کرنا بلکہ ایک مستقل رائے کا مالک ہونا بھی عملاً جرم قرار پاچکا ہے۔ یہی قصہ احرار کاتھا اُسے غربت وخودداری، جداگانہ رائے اور مستقل عزم وعمل کی بڑی مہلک سزادی گئی۔ اس کاوجود خطرہ میں پڑگیا لیکن غیبی تائید اور مجاہد انہ ایمان واستقامت کام آگئے۔ بہرکیف خلوص نیت اور ایثار آمیز جدوجہد کسی نہ کسی طرح رنگ لاتی ہے۔ حکومت اوراس کے ٹوڈیو ں کی سرتوڑ کوشش اور خطرناک سازش کے باوجود قریبی انتخاب میں بہ طور کرامت بارہ سیٹیں اسی مجروح ومتزلزل احرار نے پھر بھی جیت لیں۔ لیکن جھرلو کی کرامات بھی ظاہر ہوئیں اور جماعت کے مرکزی رہنماؤں میں سے اس کے سیاسی دماغ یعنی مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ اپنے ہی علاقے تحصیل گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پو رمیں چندووٹوں سے ہرادیے گئے۔ مرحوم کے علاوہ فخرِقوم جناب چودہری عبدلرحمن خان مرحوم ساکن راہوں ضلع جالندھر کے بعد بقیہ ارکان بنیادی طورپر نہ توجماعت کے اراکین تھے اور نہ اس کے منشور و دستور کے سوفی صدی حامی۔ بلکہ جماعت کی پالیسی سے جزوی اختلاف کے باوجود اُس کے دینی اُصول، ملکی سیاست میں مسلمانوں کے مستقل اورجداگانہ حقوق کے تحفظ کے ضمانت دینے کے مسلک اورہمسایہ اقوام سے باعزت اشتراک ومفاہمت کے نقطہ نظر سے اُصولا متفق تھے۔ اورساتھ ہی ساتھ آئندہ ملکی دستور میں مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دلوانے کی خالص جمہوری وآئینی مگر بڑی اہم اور انقلابی مہم میں اُس کے موید تھے۔ بہت سے افراد ایسے بھی تھے جومجلس کے عوامی عروج او ر سیاسی فروغ سے ہنگامی طورپر متاثر ہوکر اُس کے ٹکٹ پرکامیاب ہوئے اور آئندہ چل کر اُن کی انفرادی اغراض جماعتی اور قومی معاملات کے رستے میں دیوار بن گئیں۔ پانی کواپنا راستہ اورسانپ کوبل نظر آہی جاتاہے حکومت توغلط قسم کے مسلمانوں کی بھی ہوتو ہزاورں ناجائز افعال کی مرتکب رہتی ہے۔ ہاتھ کنگن کوآرسی کیا؟ دورجانے کی ضرورت نہیں تمام موجود مسلم ممالک سمیت خود اپنے پاکستان میں ۱۹ برس سے بننے بگڑنے والی مختلف حکومتو ں کی غلط کاریوں قومی مظالم اور مسلسل اسلام دشمنوں کی سیاہ تاریخ پرہی ایک سرسری نگا ہ ڈال لیجیے۔ اس تلخ حقیقت کاثبوت مل جائے گا۔ اور یہاں تو قصہ ہی انگریز اوراس کے گماشتو ں کاتھا سرکارنے عوامی رابطہ کے خصوصی شعبہ کو حرکت دی۔ سلیقہ مند اور بے نام ومہذب سی آئی ڈی حسب دستور مصروف کار ہوئی۔ بے شمار لالچ دیے گئے۔ مختلف قسم کے دباؤ ڈالے گئے۔ نتیجہ عین انسانی کمزوریوں کے مطابق برآمد ہوا اور درخت سیاست کے یہ کمزور اورنیم شکستہ پتے حکومت اورٹوڈیوں کی حکمت عملی اور شیطانی پروپیگنڈے کی آندھی میں اُڑگئے۔ ایوان میں جماعت کے مخلص ووفا دار صرف چندساتھی باقی رہ گئے تھے جو ۱۳۵۸ھ مطابق ۱۹۳۹ء میں دوسری جنگ عظیم چھڑنے پرہنگامی حالات تک جماعت اور قوم کی صحیح نمائندگی کرتے رہے۔ بعدمیں تحریک آزادی کے پھیلاؤ کی قوت وشدت کے سبب سے حالات بالکل بدل گئے۔ حتی کہ پون صدی کی جدوجہدِ آزادی تقسیم ملک موجودہ غیرمتوقع اورناگزیرشکل پراختتام پذیر ہوگئی ۔
۴۔ یو ں تو ہرلادین حکومت کا بنیادی طریق کار یہی ہوتا ہے کہ وہ عقائد واخلااق اور اعمال کے سلسلہ میں اپنی اُصولی کمزوریوں اور مہلک کار روائیوں سے بالکل بے تعلق اور بے خبررکھنے کے لیے حیلہ وبہانہ سے عوام کوان کے اندرونی مگر غیر اہم معاملات میں لازماً الجھائے رکھتی ہے۔ ان کے معاشرتی اقتصادی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کونا کام بنانا، اُن کے مختلف افکاراور مذہب ومسلک میں اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعہ سراسر بے مقصد اور بلاوجہ و ضرورت دخل انداز ہونا۔ انہیں فقہی مناظرہ بازی میں مبتلا کرنا، اور بالآخر فساد وخون ریزی تک کے مادی اسباب مہیا کرکے اُن کے جذبہ تحریک واستقلال کوپا مال کرنا سرکار دربار کا دل پسند مشغلہ ہوتا ہے۔ لیکن اقوام یورپ اور کافرِ فرنگ کو اس سلسلہ میں جوماہرا نہ دسترس اور فن کارانہ کمال حاصل ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ DIVIDE AND RULE ’’پھوٹ ڈالواور حکومت چلاؤ‘‘ انگریزوں کا شیطانی ضابطۂ حکومت ہے جس کی خون آشام کرشمہ سازیوں کی تفصیل دنیا کے ہر براعظم میں بالعموم اور برصغیر ہند وپاک کے دفترِ تاریخ میں خصوصاً ہرورق پر بکھری پڑی ہے۔ چنانچہ اسی پالیسی کے مطابق شہید گنج کا ہولناک تماشا دکھانے کے بعد انگریز پھر چین سے نہیں بیٹھا۔ قریباً پونے چار سال کے معمولی وقفہ سے اس نے لاہور کے بعد سکھر (سندھ )میں بھی ایک نئی شہید گنج پیدا کردی۔ سیاسی موسم وہی اوائل ۱۹۳۷ء کے ملک گیرانتخاب کے بعد کامل آزادی کی طرف بڑھتی ہوئی جدوجہد کاموسم تھا۔ اکثر صوبوں میں کانگریس بر سرِ اقتدار آ چکی تھی۔ اور جگہوں میں تو اس کے مسلمان سرکاری ممبر جزوی طورپر حکومت کی مشینری میں پہلی بار داخل ہوئے تھے۔ البتہ سندھ میں مخصوص علاقائی حالات اور ذاتی وسیاسی رسوخ کی بنا پر مشہور مخلص وایثار پیشہ قوم پر ور رہنما، خان بہادر اﷲ بخش سو مرو شہیدمرحوم صوبائی کانگریسی وزارت کے توسط سے واحد مسلمان وزیراعظم کے طور پر برسراقتدار تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پنجاب میں احرار کے اقتدار کا خطرہ درپیش تھا تو اس کے سدِّباب کے لیے شہید گنج کاشا خسانہ کھڑاکرکے بہترین قومی سرمایہ تباہ وبرباد کرادیا گیا۔ او ر سندھ میں انگریز اور ٹوڈیوں کی بدقسمتی سے ایک آزادی خواہ قوم پرورشخص اپنے مختصر گروہ اور مخصوص اثرات کی بناپر بااقتدار تھا۔ اور نام نہاد مسلمان انگریز پرست جعلی رہنماؤں کے لیے حصول آزادی کے وقت برابر کا شریک وحریف…… اور ان کے آئندہ سیاسی منصوبے کے لیے خطرے کانشان بن رہا تھا جس سے بہر طو رگلو خلاصی انگریز اور ٹوڈیوں کامقصدِ وحید قرار پاچکی تھی۔ اس دسیسہ کاری کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلے گئے، دھن دھونس دھاندلی کا کیا مکروہ مظاہرہ ہوا، دوقومی تصادم وخوں ریزی کی راہ کیسے ہموار کی گئی اور پنجاب کی طرح سندھ میں بھی احرار کو مطعون وداغ دار اور مجروح وپا مال کرنے کی نا پاک تجویز وکوشش کیسے بروئے کارلائی گئی؟ اس کا خلاصہ یہ نکلاکہ تحریک سے کچھ مدت بعد بے چارہ وبے گناہ اﷲ بخش سومرو کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اناﷲ وانا لیہ راجعون۔ احرار کے سامنے لاہور کاتلخ تجربہ ابھی زندہ وتازہ تھا اس کے اکابر اوررفقارنے بفضلہ تعالیٰ فرنگی اور اس کے گماشتوں کا وار یہاں ناکام بنا دیا۔ اور مسجد منزل گاہ سکھر کے لیے مسجد شہید گنج جیسی تحریک کی نا کامی کا یقین رکھنے کے باوجود محض مسلم عوام کواس سیاسی فریب کے نتائج بد اور منحوس اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے میدان میں آگئے۔ ہمسایہ قوم سے امکانی حدتک تعلقات خوش گوار رکھنے کے پر خلوص جذبہ کے باوجود بادلِ نخواستہ اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور زبان وقلم سے لے کر جیل کی کو ٹھڑیوں تک قومی مطالبہ وتقاضے کا حق ادا کردیا۔ تاریخ تحریک مسجد منزل گاہ کے پیش لفظ میں مسجد شہید گنج کی داستان سرائی بہ ظاہر بے جوڑ معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً اس قصہ کیلئے چونکہ داستان شہید گنج ایک واقعاتی بنیاد، اُصولی مثال اور آئینہ حقیقت نماکی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے ایک نمونہ دکھا کر دوسرے کے لیے رہنمائی کا سامان کردیاگیا ہے۔ قیاس کن زگلستان من بہار مرا!
۵۔ ربع (۱/۴) صدی بعد جبکہ قسمت سے یہ وقت آیا ہے کہ ماضی کے حقائق کو تعمیر مستقبل کے لیے مشعل راہ بنانے کے لیے تحریک آزادی کے ابواب کے ایک ایک ورق اورایک ایک سطر کو محفوظ کرلیا جائے۔ کیونکہ تقسیم ملک کے بعد مقتدر مخالفین نے دور فرنگی سے بھی بڑھ چڑھ کر مسلسل علمی، تحریری اور اشاعتی خیانت کا وطیرہ قومی مزاج کے طورپر اپنا رکھا ہے۔ پونے دو سو سال کے عرصہ میں جان لڑانے والے علماء حق اور مجاہدین حریت کے سوانح حیات کو ملکی تاریخ سے یکسر محو کرنے کی نا پاک سعی عروج پر ہے۔ تاریخِ آزادی میں مکمل تحریف کر کے خوشامدیوں، رجعت پسندوں، معاونین فرنگ، منافقین، غداران اسلام اور اعدائے وطن کو ہر اعزاز کا مستحق گر دانا جارہا ہے۔ اور قومی جہاد کا پورا مال غنیمت او ر شیریں ثمر انہی کے دامن کار کردگی میں سجانے کی کمینگی کا پوری بے حیائی اور دیدہ دلیری سے ارتکاب کیا جارہا ہے تو اس اندوہ ناک اور تشویش انگیز صورت حال کے تحت فرض ہوگیا ہے کہ ایسی ہر سیاسی غنڈ اگردی اور علمی قزاقی کا حساب ٹھیک ٹھیک چکایا جائے۔ ظالم ومظلوم دونوں کی سیرت کے اوراق پوری احتیاط وثقاہت، دیانت واعتدال او رجامعیت و وضاحت کے ساتھ نمایاں کر کے برسوں کی بھولی بھٹکی اور فریب خوردہ قوم کو بالعموم اور بے خبر نئی نسل کو خصوصاً ایک مرتبہ پھر صدق وافتر اور اخلاص ودغا بازی کا فرق سمجھا دیا جائے ۔اور تحریف وخیانت کی یلغار میں بھی حق وباطل کے امتیاز کی میزان ہاتھ میں دے دی جائے۔ سو الحمداﷲ کہ زیر نظر کتا بچہ جوسندھ کی شہید گنج یعنی مسجد منزل گاہ سکھر کی تاریخ اور اس کیلئے چلائی گئی تحریک کے متعلق اُس وقت کی مجلس احرار اسلام سکھر (سندھ) کے صدر ناظم اعلیٰ کے برسرگز شتہ اور چشم دیدہ حالات وکوائف پر مشتمل ہے۔ محض روایات وحکایات کا کوئی افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ ایک مختصر مگر جامع ومثبت مبنی بر حقائق بصیرت افروز و پر ازانکشافات تاریخی وثیقہ اور دستاویزی معلومات کے ذخیرہ کے طور پر حاضر خدمت کیا جارہا ہے۔ راقم کو تحریری موادبہم پہنچانے والے راوی اس تحریک میں جماعتی روح ورواں او رذمہ دار نہ حیثیت کے مالک شخص بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں۔ اس روایت سمیت اور بہت سی سیاسی داستانوں کے امین ہیں اور اس نایاب مضمون کی تیاری میں بھر پور مدد دینے پر ہمارے دلی تشکر اور دعاء خیر کے مستحق ہیں۔ گویا اُن کا وجود ہر مخالف و منکر اور خائن ومحرف کیلئے ایک جاگتا جاگتا جواب اور مستقل تحدی و چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوال و جواب، ترمیم واضافہ اور تنقید وتر دید کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اگر کوئی بھی غلط بات اُٹھائی گئی تو انشاء اﷲ بازاری واخباری مضامین کے علی الرغم پوری دیانت، قوت ستدلال واقعاتی شہاوت وتطبیق اور قانونی کارروائیوں کے دفتر و دستادیز ثبوت کی مکمل تائید کے ساتھ برمحل اور دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ احباب ورفقا دل لگا کے مطالعہ واستفادہ کریں۔ تربیتی نصاب کے طور پر عام کار کنوں کو پڑھائیں سمجھائیں، تمام نو وارد و معانین اور جماعت سے کسی بھی درجہ میں دلچسپی رکھنے والوں کو بڑی احتیاط اور تحمل کے ساتھ اصل حقائق ذہن نشین کرائیں۔ اختلاف رکھنے والے اصحاب سے مخلصانہ التماس ہے کہ وہ بھی ذرا غیر جانب داری، یک سُوئی اور اطمینان کے ساتھ بغور مطالعہ کریں۔ نفع سے تو مٹی بھی خالی نہیں انشاء اﷲ تعالیٰ وہ تحقیق و وجدانِ حق کی دولت سے دیر سویر ضرور مالامال ہوں گے۔ اور کوئی مغا لطہ پیش آنے پر ہر قسم کی تاریخ رہنمائی یا تعاقب کیلئے ہمیں مستعد پائیں گے۔
ہادی مطلق سے التجا ہے کہ وہ ہم سب کو ضد، تعصب، عناد، حمیت جاہلیہ، دل ودماغ کی کجی، عدم توازن، تحریف وخیانت و حق تلفی جیسے تمام مہلک امراض سے شفاء ونجات بخشیں۔ نیک وبد میں امتیاز اور راہ حق وصواب اختیار کرنے کی توفیق ارزانی رکھیں اور استقامت وحسن خاتمہ کی نعمت سے سرفراز فرمائیں۔ آمین ثم آمین!
میں نہیں چاہتا کہ اس المیہ کی تفصیل اور آپ کے درمیان مزید حائل رہوں۔ ایک تحریک کانقشہ دکھا کر میں نے دوسری تحریک کے ساتھ واقعات ونتائج میں دونوں کی باہمی مشا بہت اور مماثلت کی خاکہ کشی کافرض ادا کیا ہے اور تاریخ آزادی کا ایک اہم اور خطرناک باب سمجھنے کیلئے فہم صحیح اور عاد لانہ فیصلہ کی راہ کافی حد تک ہموار کردی ہے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ میں مقدمہ میں ہی اس تحریک پر مزید گفتگو کر کے اُس کے مطالعہ کے مفادو مقصد کو بے وزن بناؤں۔ قارئین اور اس داستان کے درمیان سے ہٹ رہاہوں لیجیے یہ کتاب اور آپ ہیں (ہمیں میداں ،ہمیں چوگاں ، ہمیں گو۔)
قائد احرار حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابو ذربخاری(رحمۃ اﷲ علیہ)
(تحریر:۱۹۶۷ء)
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.