تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

حامد سراج کی ’’میّا‘‘

حبیب الرحمن بٹالوی
ماں کا موضوع وہ قوسِ قزح ہے کہ جس صاحب قلم نے بھی اس پر لکھا، انس و الفت اور دل بستگی و وارفتگی کے سارے رنگ یک جا کر دیےے۔ رنگوں کی یہ دنیا کس قدر حسین، کس قدر بھلی اور کس قدر اعلیٰ و ارفع ہے اور اس دنیا میں سرور و مستی کا ایک ایسا جہان آباد ہے، جو اپنا انوکھا مزاج اور رویہ رکھتا ہے۔ اس محبت بھرے اور شفقت سے لبریز موضوع پر لکھنے والوں میں ایک نام جناب حامد سراج کا بھی ہے، جنھوں نے اپنی ماں سے محبت کو ’’میّا‘‘ کا نام دیا ہے۔
حامد سراج نے اپنی اس کاوش میں روایتی جملوں اور گھسے پٹے لفظوں کے بجائے مکالماتی اسلوب اور نگارش اختیار کر کے اس کتاب کو حیات جاوداں عطا کر دی ہے۔ انس و الفت میں گندھے ہوئے الفاظ کو ایسی خوبصورت لڑی میں پرو دیا ہے کہ جس سے نہ صرف دل گداز ہوتے ہیں بلکہ یادوں کے کئی در بھی وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
حامد سراج، میانوالی کے معروف قصبہ ’’کندیاں‘‘ سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں واقع ایک جیتی جاگتی بستی ’’خانقاہ سراجیہ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’’میّا‘‘ کے علاوہ ان کے افسانوں کے دو مجموعے (وقت کی فصیل اور برائے فروخت) بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ’’میّا‘‘ دبیز کاغذ پر بہت ہی خوبصورت انداز میں چہار رنگے گرد پوش کے ساتھ شائع کی گئی ہے جس کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے کہا ہے:
’’افسانوی ادب پر اپنے قلم کے گہرے نقوش مرتسم کرنے کے بعد ماں جیسے آفاق گیر موضوع پر، لائن اور لینتھ برقرار رکھتے ہوئے، طویل مکالماتی خاکہ لکھ کر محمد حامد سراج نے دنیائے ادب میں اپنے مقام محفوظ کر لیا ہے۔ ’’میّا‘‘ میں کہانی کا سحر بھی ہے، رپورتاژ کا گہرا تاثر بھی، مرقع کشی کی نظر نوازی بھی ہے اور ڈرامے کی بیانیہ منظر نگاری بھی۔ فقروں کی موزوں خشت کاری نے اسے ایک تخلیقی نثر پارہ بنا دیا ہے‘‘۔
سرحد پار سے جناب مشرف عالم ذوقی نے اپنی تقریظ میں لکھا:
’’ماں کا دکھ کس نے دیکھا ہے، ماں کا سکھ کس نے جانا ہے۔ ’’میّا‘‘ کے مطالعے سے گزرنے کے بعد، میں ہفتوں سو نہیں پایا۔ مومن کا زمانہ ہوتا تو وہ کہتا کاش! میرا سارا دیوان لے جاؤ مجھے ’’میّا‘‘ دے دو۔ ’’جن کے پاس میا ہوتی ہے وہی جانتے ہیں کہ ان کے پاس دنیا کی کتنی بڑی طاقت ہے‘‘۔ ایک بھائی اپنی دولت کی چمک، دوسرے بھائی کے سامنے گنواتے ہوئے پوچھتا ہے…… ’’میرے پاس بنگلہ بنگلہ ہے، گاڑی ہے، دولت ہے، تمھارے پاس کیا ہے؟ دوسرا بھائی جواب دیتا ہے ’’میرے پاس ماں ہے‘‘۔
حامد سراج کی یہ کہانی ماں سے شروع ہو کر ماں پر ختم ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اردو فکشن کی تاریخ میں ’’میّا‘‘ لکھ کر ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے، جو اس سے قبل کسی بھی قلم کار کے حصے میں نہیں آیا۔ ’’میا‘‘ میں ماں کی عظمت کے تابندہ اور درخشندہ نقوش بھی ہیں اور ماں سے محبت کی ان مٹ یادیں بھی۔ ان نقوش اور یادوں سے پھوٹتی اور پھیلتی ہوئی روشنی سے ’’میا‘‘ کو ایک شاہکار تصنیف کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔
’’میا‘‘ میں مکالماتی رنگ تو ہے لیکن ان مکالموں میں بھی نثری نظم کا گمان ہوتا ہے۔ ماں ایسے موضوع پر ایسی استعاراتی نثر پڑھنے کو بہت کم ملتی ہے۔ محاوروں اور استعاروں کے برمحل استعمال سے افسانے کی دلکشی میں اضافہ ہو گیا ہے:
’’ماں بستر کو گھر کرتی جا رہی تھی اور گھر خالی ہوتا جا رہا تھا ……ماں کی آنکھ کے دریچوں میں، صرف دو بار آنسوؤں کے پرندے اترے‘‘۔
ماں کے جانے سے افسانہ نگار کو نبض کائنات ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ وقت کے رکنے کے مناسبات اکٹھے کرتا ہے، جو وال کلاک سے کیلنڈر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آنکھوں کے سامنے ماں کے بچھڑنے کا عمل اس قدر درد ناک ہے کہ دل غم سے بھر جاتا ہے۔ ماں جیسی عظیم ہستی سے بچھڑنے کے اس اذیت ناک عمل کو حامد سراج نے کس طرح بیان کیا ہے:
’’میں نے گھر میں دیکھا سارے وال کلاک تھم گئے تھے، وقت رک گیا تھا، ائیر کنڈیشنر دن رات چلتا رہا، ماں کے اندر کینسر کی گرمی سوا نیزے پر پہنچ گئی، دو آنسو گرے اور ماں نے چپ سادھ لی۔ ماں! کسی نے بین نہیں کیا، کوئی نوحہ نہیں ہوا۔ پورے وقار کے ساتھ تیرا جنازہ اٹھایا گیا اور تونے زمین اوڑھ کر آخرت کو گھر کر لیا۔ آج کیلنڈر تمام ہوئے‘‘۔
’’میا‘‘ میں افسانہ نگار کہیں کہیں اﷲ تعالیٰ سے فریاد کناں بھی ہے کہ ماں جیسی عظیم ہستی کو بھیج کر پھر اسے واپس کیوں بلاتا ہے۔ دنیا میں تنہا رہنا اور سائبان کے بغیر زندگی گزارنا ایک ایسا درد، ایسی بے بسی اور ایسی بے چارگی ہے کہ اسے وہی جان سکتا ہے جو اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہو گیا ہو اور جس سے یہ نعمت غیر مترقبہ چھن گئی ہو۔
’’اے رب کریم! تو ماؤں کو کیوں بلاتا ہے، ساری عمر کے لیے دھوپ کا سائباں کیوں تان دیتا ہے، یوں لگتا ہے دل کے توے پر لفظ جل گئے ہیں‘‘۔
ایسی خوبصورت تشبیہات اور ’’یادوں کی زنبیل‘‘ جیسے داستانوی علائم سے افسانے کی اہمیت و وقعت میں گرانقدر اضافہ کر دیا ہے۔
’’جلے ہوئے لفظوں کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے ان گنت قرن گزر گئے۔ میں دشت تنہائی میں آبلہ پا، بے سائباں، کاندھے پر یادوں کی زنبیل اٹھائے، سایۂ شجر کا متلاشی سوچ رہا ہوں کہ ماں کے بعد بھی کہیں کوئی سایہ ہوتا ہے؟‘‘
حامد سراج نے علامت نگاری کی ایسی دنیا آباد کی ہے، جس میں حسن بھی ہے اور ددلکشی بھی:
’’میں نے اپنے دوست پروفیسر عبدالباسط کو خط لکھا، میں نے آنسو اس کو پارسل کر دیے۔بھائی آیا مگر اس وقت میری آنکھ کی منڈیر پر آنسوؤں کا ایک پرندہ بھی نہیں تھا‘‘۔
ماں کے چلے جانے کے بعدگھر، گرہستی اور گرد و پیش کی حالت کیسی ہو جاتی ہے اور اداسیاں اور پریشانیاں اس طرح عود کر آتی ہیں کہ ماں کی جدائی کا دکھ شدید تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ دنیا کی ساری رنگینیاں، ساری خوشیاں اور ساری آسائشیں بے مزہ، پھیکی پھیکی معلوم ہوتی ہیں۔ جب ماں رخصت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ سایہ، ٹھنڈک، میٹھی چھاؤں، رونقیں، مسکراہٹیں بھی رخصت ہو جاتی ہیں۔ بہار، خزاں جیسی معلوم ہوتی ہے اور زندگی کے درخت بے برگ و بار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ منظر اور کیفیت حامد سراج نے کس خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے، ملاحظہ کریں:
’’ماں تمھارے جانے کے بعد کائنات بے روح ہو گئی ہے، چہرے ساکت ، آسمان چپ، ستارے بے نور، سورج زرد، شجر خزاں رسیدہ اور ہوائیں کرلاتی رہتی ہیں، موسم سرکتے رہتے ہیں، آنکھیں تمھیں تلاش کرتی رہتی ہیں، دل کی نم زمین پر یادیں ننگے پاؤں ٹہلتی رہتی ہیں، موسم کے آنچل میں جتنے پھول تھے، رونقیں مسکراہٹیں، سایہ اور ٹھنڈک، میٹھی چھاؤں، سب کے سب تمھارے ساتھ رخصت ہوئے، اب تو صرف دھوپ کا آنچل ہے۔
حامد سراج نے ’’میا‘‘ میں بظاہر ایک سادہ سی کہانی بیان کی ہے مگر اس کے لفظوں میں رنگوں کی رم جھم اور جذبوں کے زیر و بم کو نو بہ نو دنیائیں آباد ہیں۔ ماں ہم سے رخصت ہوتی ہے تو یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ یادیں دلوں کو کچوکے لگاتی رہتی ہیں۔ احساس کی قوت غم سے نڈھال ہو جاتی ہے اور طبیعت میں بے قراری و بے چینی در آتی ہے۔ اولاد کے لیے قیامت تو اسی روز آ جاتی ہے جب اُس سے ماں جیسی عظیم ہستی رخصت ہو جائے۔
’’مگر اب کے ستم بر نے…… درخت منتہی پر ہاتھ کیوں رکھا
ستم بر کیسے بولے گا…… ستم بر سے کوئی پوچھو کہ
بریدہ شاخ بے جاں کی اذیت جاننے والے
کوئی زندہ درختوں پر بھی ایسے وار کرتا ہے
ماں! تو اپنی یاد کے خیمے ساتھ لے جاتیں تو اچھا تھا
ان خیموں میں مکیں یادیں اداس رہتی ہیں
یہ یادیں دکھ کے چولہے پر آنسو ابالتی رہتی ہیں
درد میرے اندر کرلاتے رہتے ہیں
ماں! حوصلہ کس بازار میں بکتا ہے
کوئی تو چٹکی بھر…… ہم کو بھی خرید کر لا دے
ماں! تو کہتی تھی
خدایا! میرے بچوں کو قیامت تک…… سلامت رکھنا
تو پھر جاتے ہوئے، گھر میں
قیامت کیوں نہیں دیکھی!‘‘
اس افسانے کی سب سے بڑی خوبی ’’حل‘‘ یعنی نثری تضمین ہے۔ وہ اساتذہ کے شعروں کے مضامین کو اس طرح نثری جملوں میں کھپاتے ہیں گویا انھی فنی اصطلاح ’’حل‘‘ پر عبور حاصل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.