تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مفلسی

جمشید حامد ملتانی
کیا عجیب چیز کا نام ہے یہ مفلسی لوگوں کی حقارت بھری نگاہ مفلس کیلئے کسی گولی سے کم نہیں ہوتی اور کسی غریب بچے کی معصوم سی خواہش سننے کے بعد اُس کے والدین کی حالت کسی کنویں میں پڑے بے بس انسان کی سی مانند ہے یعنی ایک ایسا کنواں جس میں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ مفلس رہنا یا انسان کو نیک بنا دیتا ہے یا باغی۔ یہ انسان کے اوپر منحصر ہے کہ اُ س کا معاشرہ کیسا ہے۔ آج کے دور میں غریب ہونا بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ لوگ آپ کو قبو ل کرنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن یہ بات ایک غریب سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس طرح باتوں کے بہکاوے دے کر اپنے نادان بچوں کی خواہشات انہیں بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اُسے مجبوری کے سمندر میں ڈوبے دل کے ساتھ یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ بھلا کون باپ چاہیے گا اُس کا بچہ خواہش کرے اور وہ اُسے پورا نہ کرے۔ مجبوری کے مارے خیالات میں ڈوبا مفلس انسان نجانے کہاں نکل جاتا ہے یہ وہ خود بھی بھو ل جاتا ہے۔ صبح سے لے کر شام تک کمانے والا غریب مزدور مشکل سے اپنے بچوں کو 2وقت کی روٹی مہیا کر پاتا ہے۔ غریبی کا بوجھ بہت بڑا ہو تا ہے اور اِس بوجھ کو اُٹھاتے مفلس بیچارے کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بار ش جاری رہتی ہے۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے
بہا بہا کے آنسو ہوتے نہیں ختم
کتنی امیر ہوتی ہیں آنکھیں غریب کی
جی ہاں غریب کے دل کے ساتھ اُ س کی آنکھیں بھی امیر ہوتی ہیں ۔ غریب کا دل بہت بڑ ا ہوتا ہے بیشک اُس پر مالی بحران ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر اُس کے گھر کوئی مہمان آ جائے تو وہ خود بھوکا رہ کر اُسے اپنے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت ضرور دے گااور ایسے ہی غریب کا د ل امیر کہلاتا ہے۔ اُس کی آنکھیں بھی امیر ہوتی ہیں جن میں سے مجبوری اور بیچارگی کی وجہ ہے آنسوؤں کی بارش جاری رہتی ہے۔ مفلس ہر وقت پریشان حال رہتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچو ں کی روٹی پوری کرے ،انہیں تعلیم دے، ا ن کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرے، انہیں کس طرح اپنے عزیز و اقارب کے بچوں کے برابر پہنائے ، کھلائے، اور زندگی کی سہولیات مہیا کرتے ہوئے وہ سب کچھ دے جو ایک نارمل فیملی کے بچے کے پاس ہوتا ہے۔ ہماری دینی روایت بالکل واضح ہے کہ جو غریبوں کا سہارا نہیں بنے گا پھر اﷲ اُس کا سہارا نہیں ہوگا اور اگر تمہارا رشتہ دار اور ہمسایہ بھوکا سو گیا اور تم نے پیٹ بھر کھا لیا تو تمہیں اﷲ کے ہاں جواب دہ ہونا ہو گا۔اﷲ تم سے اُس کا حساب لے گا ۔
نہ جانے آ ج کا مسلمان کس دھن میں مگن ہے کہ وہ غریب ہمسائے اور رشتہ دار سے تعلق ہی نہیں رکھنا چاہتا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ رشتہ دار اور ہمسائے تو دور کی بات لوگ اپنے غریب بھائی کو بھی اپنا بھائی کہتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں اس کی شان میں کسی قسم کی کمی نہ آجائے کہ اُس کا بھائی غریب ہے۔ لوگ قبر اور حشر کو بھول چکے ہیں لوگ پیسے او ردنیا کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ لیکن موت اور انصاف کا دن بر حق ہے اور دور بھی نہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم دونوں حقوق کے پابند ہو جائیں حقوق اﷲ اور حقوق العباد یہی مسلمان کی کامیابی کے راستے ہیں۔ ورنہ پھر تو بس دہکتی آگ کے لیے تیار ہو جائیں ۔ اﷲ ہم سب کو دونوں حقوق پر پورا اترنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ارد گرد کے تمام غرباء کی مدد کر سکیں اور جو غریب بے حال ہیں اﷲ ان کی مشکلات دو ر کرے اور ہر مسلمان کو اپنی رحمت کے سائے تلے لیے رہے۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.