تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا

مفتی عبدالغنی نظامی (چنیوٹ)
ہجرت کے چھٹے سال کے بالکل آخر اور ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا بھر کے بڑے بڑے بادشاہوں کے نام خطوط ارسال فرمائے ۔ جس میں اس بادشاہ اور اس کی قوم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی،اس میں کہا گیا کہ اسلام لے آؤ سلامتی میں رہو گے اور دہرے اجر کے مستحق قرار دیے جاؤگے ورنہ دوسری صورت میں تمہاری قوم کے اسلام قبول نہ کرنے کا گناہ تمہارے اوپر بھی ہو گا۔اس کے بعد سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 64 اس میں درج فرمائی گئی اور خط کے آخر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مہر مبارک لگائی گئی جواوپر نیچے تین سطروں پر مشتمل تھی۔ سب سے اوپر والی سطر میں لفظ اﷲ دوسری میں رسول اورتیسری سطر میں محمد لکھا ہوا تھا۔یہ خط جامعیت و اختصار کے حسین امتزاج کاعظیم شاہکار ہے ۔ تمام بادشاہوں کو بھیجے جانے والے خط کا مضمون تقریباً ایک ہی ہے ۔ان خطوط مبارک کو لے کر جانے کی ذمہ داری رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مختلف صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو سونپی۔ اسی تسلسل کی ایک کڑی تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے 7 ہجری کے ابتدائی دنوں میں ایک خط شاہ مصر و اسکندریہ کو لکھا، جس کا نام جُریج بن متی قبطی تھا اور اس کا لقب مُقَوْقَسْ تھا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے جاکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پیش کیا۔
نوٹ: مُقَوْقَسْ ………میم پر پیش اور دونوں ق پر زبر ہے ۔
شاہ مقوقس کے نام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط:
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اﷲِ وَ رَسُوْلِہِ الَی الْمُقَوْقَسْ عَظِیْمِ الْقِبْطِ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدیٰ!
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ بِدَعَایَۃِ الاِسْلَامِ، اَسْلِمْ تَسْلِمْ یَؤْتِکَ اﷲُ اَجْرَکَ مَرَّتَینِ، فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ اِثْمُ الْقِبْطِ یَا اَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ کِلَمۃٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہِ فَاِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْھَدُواْ بِاَنَّا مُسْلِمُونَ
اﷲ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب!!
اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے ۔ اما بعد:
میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے اور اﷲ تعالیٰ تمہیں دوگنا اجر عطا فرمائیں گے اگر تم روگردانی کروگے تو سارے قبطیوں کی گمراہی کا گناہ تمہارے اوپر ہوگا۔اے اہل کتاب!آؤ ایک ایسی مشترکہ بات پر جمع ہو جائیں کہ ہم اﷲ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے اور ہم اس کی ذات و صفات(خاصہ)کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اﷲ کے علاوہ کوئی کسی اور کو رب نہ مانے ۔ اگر وہ اس عہد و پیمان سے پھر گئے تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو ماننے والے ہیں۔
نوٹ:
عموماً جب خط لکھتے ہیں تو اس کی ابتداء میں” السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ“تحریر کرتے ہیں۔ جبکہ اس خط میں السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ نہیں لکھا گیا بلکہ: سلام علی من اتبع الھدیٰ لکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ایک دعا ہے جس کے مستحق صرف اہل اسلام ہیں۔ غیر مسلموں کو خط لکھتے وقت سلام علی من اتبع الھدی لکھا جاتا ہے۔ چونکہ شاہ مصر مقوقس عیسائی تھا اس لیے اسے السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ لکھنے کے بجائے سلام علی من اتبع الھدیٰ تحریر کیا۔
قاصد رسول کی مقوقس کے دربار میں تشریف آوری:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا نامہ مبارک لے کر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ شاہ مقوقس کے دربار میں پہنچے اورمتانت کے ساتھ ان کو جا کر کہا: اے شاہ مقوقس! آپ سے پہلے اس ملک میں ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اﷲ نے اسے نشان عبرت بنادیا۔ پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ لہٰذا دوسرے سے عبرت حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت حاصل کریں۔
شاہ مقوقس سے سفیر رسول حضرت حاتب رضی اﷲ عنہ کا مکالمہ:
مقوقس: مجھے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم)کے بارے میں بتائیے ، کیا وہ اﷲ کے نبی ہیں؟
حاطب بن ابی بلتعہ: وہ نبی ہی نہیں، بلکہ اﷲ کے رسول بھی ہیں۔
مقوقس: اگر وہ واقعی اﷲ کے رسول ہیں تو پھر کیا وجہ ہے جب ان کی قوم نے انہیں اپنی بستی (مکہ)سے نکالا تو انہوں نے اس کے لیے اﷲ کے عذاب کی بد دعا نہیں کی؟
حاطب بن ابی بلتعہ: کیا آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ کا رسول نہیں مانتے ؟
مقوقس: بالکل مانتے ہیں۔
حاطب بن ابی بلتعہ: تو پھر آپ بتائیے کہ جب ان کی قوم نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور انہیں سولی دینے کا ارادہ کیا اور پھر اﷲ انہیں آسمان پر اٹھا کر لے گیا تو انہوں نے اس بات کی دعا کیوں نہیں کی کہ ان کا رب بنی اسرائیل کو ہلاک کر دے ؟
شاہ مقوقس کا اعتراف:
آپ ایک حکیم (عقل مند)آدمی ہیں اور ایک حکیم (دانا )آدمی کی طرف سے آئے ہیں۔ میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم)کے لیے یہ تحفے آپ کے ساتھ بھیجتا ہوں اور یہ نگہبان (ایک ہرکارہ جس کا نام مابور تھا) جو آپ کے علاقے تک آپ کی نگہبانی کریں گے۔اس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط کا جواب لکھوایا۔
شاہ مقوقس کا خط:
لمحمد بن عبد اللّٰہ، من المقوقس عظیم القبط، سلام علیک!
اما بعد! فقد قرأ ت کتابک، وفھمت ما ذکرت فیہ، وما تدعو الیہ، وقد علمت ان نبیا بقی، وکنت اظن انہ یخرج بالشام، وقد اکرمت رسولک، وبعثت لک بجاریتین لھما مکان فی القبط عظیم، وبکسوۃ وھدیت الیک بغلۃ لترکبھا، والسلام علیک
محمد بن عبداﷲ کے حضور منجانب مقوقس عظیم القبط!
اما بعد! میں نے آپ کا گرامی نامہ پڑھا اور جو کچھ اس میں تحریر تھا اور جس کی آپ نے دعوت دی، میں نے اس سمجھ لیا۔ میں جانتا ہوں ایک نبی نے آنا تھا لیکن میرا خیال تھا اس کا ظہور ملک شام سے ہوگا۔بہرحال! میں نے آپ کے قاصد کی عزت کی ہے ، میں آپ کی طرف دو کنیزیں ماریہ اور سیرین کو بھیجتا ہوں جو کہ قبط میں عظیم المرتبت ہیں اور کچھ لباس و تحائف بھی پیش خدمت کرتا ہوں اور خچر بھی آپ کی سواری کے لیے روانہ کر رہا ہوں۔آپ پر سلامتی ہو۔
شاہ مقوقس کے تحائف:
خط کے ہمراہ چند تحائف بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجے جن میں دو کنیزیں سیدہ ماریہ قبطیہ اور سیدہ سیرین رضی اﷲ عنہما بھی تھیں۔ اس کے علاوہ ایک اونٹ، ایک سفیدرنگ کا خچر، ایک نیزہ، قیمتی لباس، قیمتی خلعت اور ہزار مثقال سونا شامل تھا۔بعض روایات میں یہ بھی ملتاہے کہ شاہ مقوقس نے ایک طبیب معالج، حکیم، ڈاکٹربھی ساتھ بھیجا جسے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ اِنَّا قَوْمٌ لَا ناکَُلُ حَتّٰی نُجُوْع، وَاِذَا اکَلْنَا لَا نَشْبَعُ۔ یعنی ہم لوگ سخت بھوک کے وقت کھانا کھاتے ہیں اور ابھی بھوک باقی ہوتی ہے ہم کھانے سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ کو شاہ مقوقس نے تحفے میں سو مثقال سونا اور پانچ قیمتی لباس دیے تھے۔
سیدہ ماریہ و سیرین کا قبول اسلام:
دوسرے دن چار افرادحضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ، سیدہ ماریہ، سیدہ سیرین اور مابور پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ اونٹ، خچر اور دیگر سامان کے ہمراہ مصر سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ نے قافلے کی تمام افراد کو اسلام کی دعوت دی۔ مابور نے انکار کیا جبکہ سیدہ ماریہ اور سیدہ سیرین نے راستے میں ہی اسلام قبول کر لیا۔
مدینہ منورہ آمد:
کئی دنوں کی طویل مسافت کے بعد یہ قافلہ مدینہ منورہ داخل ہوا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ؛ سیدہ ماریہ اور سیدہ سیرین رضی اﷲ عنہما کو لے کر سیدھے حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور اس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا اور شاہ مقوقس کا خط نکال کر پیش کیا۔
حضرت ماریہ ام ولد بنتی ہیں:
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا کو سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پڑوس میں حضرت حارثہ بن نعمان رضی اﷲ عنہ کے مکان میں ٹھہرایا گیا اگرچہ آپ کنیز تھیں لیکن اس کے باوجود آپ رضی اﷲ عنہا کو دیگر ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن کی طرح پردہ میں رہنے کا حکم دیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک 20 سال کی تھی۔کچھ عرصہ بعد سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا امید سے ہوگئیں۔آپ رضی اﷲ عنہا کی دیکھ بھال کے لیے حضرت ابو رافع رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا گاہے بگاہے تشریف لاتیں۔سیدہ ماریہ رضی اﷲ عنہا ایک بچے کی ماں بن گئیں۔ )لونڈی جب بچے کی ماں بنے تو اسے ” اُمِّ وَلَدْ“ کہتے ہیں) حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا نے اپنے خاوند کو بچے کی خوشخبری دینے کے لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، انہوں نے جا کر اطلاع دی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور” ابراہیم“نام رکھا۔
قبطیوں سے حسن سلوک کا حکم:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قبطیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو اس لئے کہ ان سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے ۔ ان کے نسب کا تعلق کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ سلام اﷲ علیہا) اور میرے بیٹے ابراہیم دونوں کی ماں اسی قوم سے ہے اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ ان سے معاہدہ ہوچکا ہے ۔
حضرت ابراہیم کی وفات:
پیدائش کے بعد 18 ماہ تک حضرت ابراہیم زندہ رہے اور پھر وفات پاگئے ۔ حضرت فضل بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرزند رسول کو غسل دیا اور ایک چھوٹے سے تختے پر اٹھا کر بقیع کی طرف چل پڑے ۔ نماز جنازہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود پڑھائی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ان کو کہاں دفن کریں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عثمان بن مظعون رضی اﷲ عنہ کے پاس۔ چنانچہ حضرت ابراہیم رضی اﷲ عنہ کی قبر وہاں کھودی گئی تو اس میں حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ اترے اور حضرت ابراہیم کو آسودہ خاک فرمایا۔
سیدہ ماریہ کی وفات:
سن 16 ہجری محرم الحرام میں سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا نے وفات پائی حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اﷲ عنہا کو جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.