تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

رودادِ احرار طبّی امدادی کیمپ ملتان …… بسلسلہ وباء ہیضہ

محمود احمد ایم اے

سپاس نامہ ،بخدمت جناب ڈاکٹر عبداللطیف صاحب، ایل۔ ایس۔ ایم۔ ایف

انچارج مرکز احرار طبّی امدادی کیمپ عثمانیہ مارکیٹ، ملتان

آخری قسط
بخدمت جناب ڈاکٹر بشیر احمد صاحب انچارج احرار طبّی امدادی کیمپ لکڑ منڈی ، ملتان شہر
زیرِ نگرانی مجلس احرار اسلام ملتان
کارکنان مجلس احرار کے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپ جیسے صاحب عزم و استقلال اور سراپا قربانی و ایثار کا شکریہ اداد کر سکیں۔ آپ نے جس تحمل و بردباری، عزم و استقلال اور ہمت و شجاعت کے ساتھ وباءِ ہیضہ کے خوفناک دنوں میں اہلِ ملتان کی جس طرح خدمت کی ہے، وہ آپ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر پوری انسانیت بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ آپ نے اپنے حسنِ کارکردگی سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ابھی کچھ لوگ شرافت و نجابت کا نمونہ ہم میں موجود ہیں۔
اس مادہ پرست دور میں جبکہ ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک دولت سمیٹنے میں مصروف ہوں، جبکہ دنیا سے اخلاقی قدریں پامال ہو چکی ہوں۔ غریب کے مُونِس و غم خوار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ رہے ہوں، دکھی انسانیت ظلم و ستم اور جور و استبداد کی چکی میں پسی جا رہی ہو، ایسے افراتفری کے عالم میں آپ جیسے فرشتہ خصلت انسانوں کا وجود پورے شہر بلکہ ملک بھر کے لیے رحمتِ خداوندی سے کم نہیں ہے۔ آپ نے اس گئے گزرے دور میں ایک ایسا کارنامہ سرانجام دے کر دنیا میں ایک ایسی مثال قائم کر دی ہے، جس پر پوری انسانیت فخر و مُباہات کے ساتھ اپنا سر بلند کر سکتی ہے۔
ہم تمام کارکنانِ مجلس احرار اسلام صدقِ دل کے ساتھ آپ کی خدماتِ جلیلہ کا اعتراف کرتے ہیں اور ہم قدرت کے اس انتخاب پر خداوندِ قدوس کی بارگاہ میں سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے ہم جیسی غریب اور مخلص جماعت کی دلی تسکین کے لیے آپ جیسے بلند پایہ احباب کے فیضانِ کرم سے مالا مال ہونے کی سعادت نصیب فرمائی۔ آپ نے غریب عوام کی جس طرح بے لوث خدمت فرمائی ہے، وہ یقینا آپ ہی کا حصہ ہے۔ آپ کی شبانہ روز مساعیٔ جمیلہ نے ہمارے دل موہ لیے ہیں۔ آپ کے حسنِ کارکردگی سے یہ امر متحقق ہو چکا ہے کہ اگر انسان بتوفیقِ الٰہی کام کرنے کا پورا ارادہ کر لے تو خدا خود امداد کے سامان فراہم کر دیتا ہے۔
اپنی ضرورت کے وقت غریب عوام کے ہمدرد بنتے ہوئے دیر نہیں لگاتے۔ لیکن جب قوم کی خدمت کا وقت آتا ہے تو اپنی کوٹھیوں، بنگلوں سے باہر نکلنا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ ملتان میں ہیضے کے یہ ایام اہلِ ملتان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں کہ وہ بلند و بانگ دعوے کرنے والے اور قوم کے غم میں سوکھ کر ہاتھی ہونے والے افراد کہا ں گئے؟ اِن میں سے تو کوئی بھی عوام کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے آگے نہ آیا، اگر کام آئے تو آپ جیسے نیک انسان یا پھر ہم جیسے غریب رضاکارانِ مجلسِ احرار اسلام!
محترم جناب ڈاکٹر صاحبان…… ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم نے کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا کہ چند خود غرض لوگ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں، بلکہ ہم نے جس بات کو حق سمجھا اس کا برملا اظہار کیا اور جس کو غلط جانا، اس سے مخلصانہ اختلاف کیا۔ تاریخِ احرار میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وہ اس طرح قوم کی خدمت کے لیے آگے بڑھی ہو اور اپنے کم وسائل کے باوجود قوم کی خدمت کا فریضہ ادا کیا ہو۔ بلکہ اس سے پیشتر بھی ایسے مواقع آئے ہیں کہ دکھی انسانیت نے احرار اسلام کو پکارا اور رضاکارانِ احرار اسلام سر پر کفن باندھ کر میدان میں اُتر آئے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ آتش نمرود میں بے خطر کود پڑنے والے مجاہدین، خدمتِ خلق کے میدان میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے، قحطِ بنگال ہو یا فساداتِ بہار و نواکھلی، کوئٹہ کا زلزلہ ہو یا کوئی اور حادثۂ جاں گُسَل۔ ہماری جماعت نے تائیدِ ایزدی سے ہر بار قوم کی آواز پر لبیک کہی ہے۔ چنانچہ اس بار بھی ہم نے اپنی شان دار روایات کو خدا کے لطف و کرم سے برقرار رکھا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں ہمارا اپنا کوئی کمال نہیں بلکہ کمال ہمارے اُن راہنماؤں کا ہے جو اپنے بلند کردار اور عظیم عزائم سے ہماری عاقبت سنوار گئے ہیں۔ انھی بزرگوں کی بدولت ہمارے اندر قوم کی ہمدردی اور ملک و ملّت کی خدمت کا جذبہ موجود ہے۔ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، مفکرِ احرار چودھری افضل حق، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور ضیغمِ احرار شیخ حسام الدین رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین جیسی عظیم شخصیتوں سے کون متعارف نہیں۔ یہ سب لوگ فقر و استغنا، ہمت و شجاعت، جرأت و بے باکی اور خدمتِ خلق کا مجسم پیکر تھے۔ انھی بزرگوں کے فیضانِ کرم کے صدقے ہم میں وہ جذبہ پیدا ہوا جو ایک مسلمان کا سرمایۂ حیات ہونا چاہیے۔ خداوند تعالیٰ سے ہم دست بدعا ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں سے درگزر فرماتے ہوئے ہماری کسی بھی نیکی کو ہماری بخشش کا ذریعہ بنا دے، آمین۔ یہی ہمارے لیے کافی ہے۔
آحر میں ہم بڑے مسرت و انبساط کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ آج سے چالیس روز پیشتر جماعتِ مجلس احرار اسلام نے جس کام کا بِیڑا اٹھایا تھا، اس میں وہ محض آپ کے مخلصانہ تعاون اور خداوند کریم کی مہربانی سے کامیاب و کامران ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہمیں آپ سے اس بات کی پوری توقع ہے کہ جب بھی جماعت کی طرف سے خدمت ِ خلق کا کوئی پروگرام پیش ہوا، آپ اس میں شامل ہو کر اسی طرح قوم کی خدمت کا موقع مہیا کرتے رہیں گے۔ اگر ان ایام میں ہماری کسی بھی فروگزاشت سے آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہو تو ہم آپ سے اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اسے ہماری غفلت یا کمزوری سمجھتے ہوئے درگزر فرمایا جائے اور اگر ہماری کسی بھی بات سے آپ کو راحت ہوئی تو ہماری جماعت کے حق میں دعا فرمائیں۔ آپ کے منہ سے نکلے ہوئے چند دعائیہ کلمات ہمارے لیے دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ قیمتی ہوں گے۔ کیونکہ اگر ہمارا یقین ہے کہ آپ جیسے نیک انسانوں کے منہ سے نکلا ہوا کوئی دعائیہ فقرہ شرفِ قبولیت حاصل کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خدا آپ کا حامی و ناصرہو، آپ کی عمر میں برکت دے اور آپ کو دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کر دے۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
ہم ہیں آپ کے مخلص و خیر اندیش اور دعا گو!
کارکنانِ مجلس احرار اسلام ملتان شہر۔
(یہ سپاس نامہ ۲۹؍ مئی ۱۹۶۸ء کو کیمپ کی اختتامی تقریب کے موقع پر پڑھا گیا اور ڈاکٹر صاحبان کی خدمت میں پیش کیا گیا)۔
تاثرات از جناب ڈاکٹر عبداللطیف صاحب، نگران معالج احرار مرکزی طبّی امدادی کیمپ
عثمانیہ مارکیٹ، حسین آگاہی۔ ملتان
(کیمپ کے انتظامی معاملات، رضاکارانِ احرار اور دیگر کارکردگی کے متعلق جناب ڈاکٹر عبداللطیف صاحب ایل۔ ایس۔ ایم۔ ایف۔ انچارج احرار طبّی امدادی کیمپ عثمانیہ مارکیٹ کے تاثرات جو انھوں نے اپنے قلم سے لکھ کر کارکنانِ جماعت کے سپرد کیے۔ ہمارے لیے اُن کے یہ سادہ فقرات ایک قیمتی اثاثہ سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔)
_____________________________
بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ و نُصلی علی رسولہ الکریم
ملتان……۱۰۔۶۔۱۹۶۸ء
برادرانِ اسلام!
السلام علیکم
سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو مالک ہے زمین و آسمان کا۔ ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۸ء کو جب میں نے اپنے مطب کا دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے میدان میں شامیانے نصب کیے جا رہے ہیں، میں نے سمجھا کہ شاید کسی جلسے کا اہتمام کیا جا رہا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مجلس احرار کی طرف سے ایک طبّی مرکز قائم ہو رہا ہے، باقی سب انتظامات مکمل ہو چکے ہیں مگر ابھی تک ان لوگوں کو کسی ڈاکٹر کی خدمات حاصل نہیں ہو سکیں۔ میں نے فوراً کہا کہ آپ لوگ دوسرا کام مکمل کر لیں، یہ بھی ہو جائے گا۔ اس کام کے لیے میں بغیر کسی معاوضے کے حاضر ہوں، آپ نے میرے دروازے پر کیمپ لگایاہے، اس لحاظ سے آپ لوگ میرے مہمان ہیں۔ میں حتی المقدر مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں نے اُنھیں اپنے مکان کی دیوار سے ذرا ہٹ کر کیمپ لگانے کی ہدایت کی تاکہ میرے مکان اور کیمپ کے درمیان ایک چھوٹا سا راستہ باقی رہے اور تاکہ مکان اور کیمپ کا رابطہ قائم رہے۔
غیبی طاقت:
میں نے یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا، میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ سب کچھ کسی غیبی طاقت کے اشارے سے کیا، ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا؟ من آنم کہ من دانم…… میں تو ایک خاموش طبع، تنہائی پسند، کم گو اور ایک ناچیز انسان ہوں، مجھے صحت دولت کسی چیز کی تمنا نہیں، میں ایک آزاد منش انسان ہوں۔ میں کسی جماعت میں شامل ہونے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا، میں صرف لوگوں کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہوں، جو جماعت لوگوں کی خدمت کرتی ہے، میں اُس کا خادم ہوں۔ میں نے یہ کام صرف تسکینِ قلب کی خاطر کیا ہے۔ میں پندرہ سال سے بیمار ہو، میرے ڈاکٹر بھائی اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں، جو میری ہر طرح مدد کرتے ہیں اور مجھے مکمل آرام کا مشورہ دیتے ہیں۔
۱۸؍ اپریل:
۱۸؍ اپریل کو طبّی مرکز قائم ہو گیا۔ چودھری نواب علی نائب صدر جماعت احرار کو ضروری ادویات کی فہرست دے کر ادویات منگا لی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی کام شروع ہو گیا، مریض آنے شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ چالیس روز تک متواتر جاری رہا۔ یہ سب کچھ ہنگامی طور پر کیا گیا اور سارا کام جنگی سطح پر ہوا، کیونکہ ہیضے جیسے موذی دشمن سے مقابلہ تھا، کوئی آرہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ رضاکار چاق و چوبند، ادویات کی تلاش میں سرگرداں۔ اُنھیں دوا جہاں سے ملی وہ لے آئے۔ سب لوگ مشین کی طرح کام کرتے رہے، رضاکاروں نے دن رات ایک کر دیا، لیکن یہ امر تعجب کا باعث ہے کہ بیماری جیسے جیسے شدید ہوتی گئی رضاکارانِ احرار کا جذبۂ کار بھی شدید ہوتا گیا اور پھر بعد میں جیسے ہی بیماری کا زور ٹوٹ گیا، رضاکاروں کا جذبہ بھی سرد ہوتا گیا۔
شروع شروع میں مریضوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی، کبھی کبی تو مریضوں کی تعداد پانچ سو سے بھی زیادہ ہو جاتی تھی، لیکن پھر آہستہ آہستہ اس رفتار میں کمی آتی رہی۔ مریضوں میں امیر و غریب سبھی شامل تھے۔ عورتوں کے لیے الگ پردے کا اہتمام تھا۔ ہرمریض کا نام اور بیماری کی نوعیت ضبط تحریر میں لا کر علاج شروع کیا جاتا تھا۔ میرے معاون ڈاکٹر محمد بشیر، محمد عمر کمپاؤنڈر اور رضاکارانِ احرار تن دہی سے میرا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ میرے ڈاکٹر بھائی بھی وقتاً فوقتاً آ کر میری امداد فرماتے تھے۔ ہمارا مرکز دن رات چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ چوبیس گھنٹے کے اس کام میں مریضوں کی دیکھ بھال کا پورا اہتمام کیا جاتا تھا۔ مریضوں کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ ۳۰؍ اپریل کو یہ تعداد چار صد سے بھی تجاوز کر گئی، لیکن ماہ مئی میں تعداد میں بتدریج کمی ہوتی گئی۔ کیونکہ اُس وقت تک مرض کا زور ٹوٹ چکا تھا۔
شہر سے باہر نشتر میڈیکل کالج اور متعدی امراض کے ہسپتال میں بھی دو سرکاری کیمپ قائم تھے، جہاں پر مخدوش مریض کو منتقل کر دیا جاتا تھا۔ کارکنان مجلس احرار انہیں وہاں پہنچانے میں مدد دیتے تھے۔ ایک ایسا ہی کیمپ چوک بازار میں حکیم انور علی کی قیادت میں بھی کام کر رہا تھا، لیکن مریضوں کا رش ہمارے ہاں سب سے زیادہ تھا۔
۲۸؍ مئی کو کیمپ بند کر دگیا۔ اس دن ایک اختتامی تقریب منعقد ہوئی، جس میں مولانا عبید اﷲ احرار، صدر مرکزیہ نے خاص طور پر شرکت کر کے میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ مجھے قرآن پاک اور احرار لٹریچر پیش کیا گیا، جس کے لیے میں جماعتِ احرار کا مشکور ہوں۔ اس طرح سے یہ چالیس روز تک کی جنگ ختم ہو گئی۔ اس کارِ خیر میں سب نے حصہ لیا، خاص طور پر رضاکارانِ احرار کا جذبہ قابلِ صد ستائش و صد آفرین ہے۔
جماعتِ احرار کے رضاکار:
مجلس کے اراکین نہایت خلوص، ایثار، یک جہتی اور محنت سے کام کرتے رہے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ ان میں عوامی خدمت کا جذبہ بکمال موجود ہے۔ انھوں نے یہ تمام کام محض خدا کی خوشنودی کے لیے کیا، خدا اُنھیں جزائے خیر دے (آمین)۔
مرکزی ناظم احرار جناب سید ابو معاویہ ابوذر بخاری اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت فرصت نکال کر کیمپ میں ضرور تشریف لاتے اور کارکنان کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔
شیخ محمد یعقوب صاحب جالندھری صدر ضلع مجلس احرار اسلام نے فراخ دلی کے ساتھ اس کارِ خیر میں حصہ لیا اور میرے خیال میں انھوں نے سب سے زیادہ ابتدائی مالی امداد بہم پہنچائی، جس کی وجہ سے کام میں کوئی رکاوٹ نہ ہوئی اور کام نہایت خوش اسلوبی سے جاری رہا۔
حاجی قمر الدین صاحب لدھیانوی اپنی عمر کے باوجود بہت محنتی اور مخلص کارکن ہیں، انھوں نے دن رات کیمپ میں کام کیا۔ جب کام زیادہ تھا تو چوبیس گھنٹے کام کرتے تھے، عوام کی خدمت کا جذبہ اُن کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جب وہ مریضوں کو صحت یاب ہوتا دیکھتے تو خدا کا شکر بجا لاتے کہ اُس نے احرار کو توفیق بخشی کہ وہ عوام کی خدمت کے قابل ہوئے۔ خدا اُنھیں جزائے خیر دے، ایسے بوڑھے، نوجوانوں کے لیے مشعلِ ہدایت کا درجہ رکھتے ہیں۔
چودھری نواب علی نائب صدر احرار، بہت معمر بزرگ ہیں۔ لیکن اس عمر میں بھی چاق و چوبند ہیں۔ اپنا سب کاروبار بند کر کے کیمپ کو کامیاب بنانے میں مصروف ہو گئے اور پھر آخر دم تک اپنے فرض کو نبھایا۔ نہایت مخلص اور درد مند شخصیت ہیں، کام سے نہیں گھبراتے، اخراجات سے نہیں گھبراتے اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتے۔ بڑے باہمت بزرگ ہیں، انہی ایّام میں اُن کے بھائی کا انتقال ہو گیا، لیکن اس صدمۂ جانکاہ کے باوجود اپنے ملّی کام سے غفلت نہیں برتی اور باقاعدہ کیمپ میں حاضری دیتے رہے۔
شیخ تاج محمد صدر مجلس احرار نہایت مخلص کارکن ہیں، ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے رہے۔ کسی کام میں عار محسوس نہیں کرتے، میرے ساتھ مل کر متواتر کئی گھنٹوں تک کام کرتے، جب کسی دوا کی ضرورت محسوس ہوئی، اُنہیں بتا دیا گیا، وہ سائیکل لے کر پورے شہر سے اُس دوا کو تلاش کر کے لائے تاکہ غریب مریض کی جان بچائی جا سکے۔ رب ذوالجلال اُنھیں اور زیادہ قوم کی خدمت کی توفیق دے۔
شیخ محمد یعقوب صاحب ہوشیار پوری سیکرٹری جمعیت العلمائے اسلام، ایک ہمدرد، مخلص اور باہمت نوجوان ہیں۔ اُن کا اپنا خورد سال بچہ اس موذی مرض کا شکا ر ہو گیا۔ انھوں نے اس صدمے کو بڑی ہمت سے برداشت کر کے اپنے کام کو جاری رکھا۔ خدا اس معصوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
صوفی نذیر احمد صاحب جو مقامی جماعتِ احرار کے خازن ہیں، خاموش طبع بزرگ ہیں۔ وہ ہمیشہ دکان بند کر کے کیمپ میں حاضری دیتے رہے اور اپنے قیمتی مشوروں سے ہمیں مستفیض فرماتے رہے۔ عوامی کام میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں۔
مولانا رحمت اﷲ مہاجر احرار کے مخلص اور پرانے کارکنوں میں سے، تقریباً روزانہ کیمپ میں تشریف لا کر میری حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔
خواجہ عبدالرشید صاحب اہلحدیث، مجسم ایثار و خلوص ہیں۔ عوامی کاموں میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے بھی وقتاً فوقتاً کیمپ میں آ کر میرا ہاتھ بٹایا۔ میں اُن کا بھی شکر گزار ہوں۔
نوجوان طبقے میں سب سے زیادہ کام احرار کے رضا کار نثار احمد صاحب (مہاجر جیند) نے کیا، جنھوں نے دن رات کیمپ میں حاضری دے کر اسے کامیاب بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی، ان کے علاوہ صوفی نذیر و رفیق نور محلی کی خدمات بھی قابلِ صد ستائش ہیں۔
غیر جماعتی احباب کا شکریہ:
غرضیکہ مجلس احرارِ اسلام کے جملہ اراکین نہایت خلوص، ایثار، یکجہتی اور محنت سے کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، ان میں عوامی خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ جماعتی کارکنوں کے علاوہ میں اپنے معاون ڈاکٹر بشیر احمد و محمد عمر کمپاؤنڈر کا بھی ممنون ہوں۔ جو شروع سے آخر تک میرے ساتھ ہی مصروف رہے، میں اپنے اہل محلہ کا بھی شکر گزار ہوں، جنھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے میری ہر طرح سے امداد و اعانت کی اس مشکل وقت میں میرے برابر کے شریک رہے۔ مالی امداد کے علاوہ انھوں نے کرسیاں، چارپائیاں، برتن، لکھنے کے لیے کاغذ اور بجلی تک مہیا کر کے میری حوصلہ افزائی کی۔ میں ڈاکٹر امیر احمد خان اور ڈاکٹر خان کا بھی شکر گزار ہوں کہ دونوں گاہے بگاہے میرا ہاتھ بٹاتے رہے۔
مجھے مسٹر عبدالحمید صاحب قریشی کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے کہ وہ میری حوصلہ افزائی فرماتے رہے اور رضاکارانہ طور پر میری مدد کرتے رہے، خدا اُنھیں جزائے خیر دے۔
مریضوں کا شکریہ:
میں اپنے مریضوں کا بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میرے ساتھ تعاون کیا۔ میری ہدایات پر عمل کیا، جس سے میرے تجربات میں اضافہ ہوا، اگر اس دوران اُن میں سے کسی کے ساتھ میرے طرف سے زیادتی ہو گئی ہو، یا کسی کو میں مطمئن نہ کر سکا تو اس کے لیے میں معافی کا خواستگار ہوں۔ میں اُن کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کوتاہی، تساہل یا تغافل کی وجہ سے نہیں ہوئی، محض کام کی زیادتی کی وجہ سے اُن کو زیادہ وقت نہ دے سکا اور انھیں مطمئن نہ کر سکا۔ میں اُنھیں دوا دیتا تھا تو وہ مجھے جواب میں دعا دیتے تھے۔ کاش! اُن میں سے کسی کی دعا قبول ہو جائے اور میری نجات کا باعث بن جائے۔
تعارف:
بہتر ہے کہ میں یہاں پر قارئین سے اپنا تعارف بھی کراتا جاؤں۔ ہم امرتسر کے مہاجر ہیں، میرے تین بہن بھائی ہیں، جو لاہور میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے ہمشیرہ میرے ساتھ ملتان ہی میں رہائش پذیر ہے، میرے والدین دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُنھیں جنت الفردوس میں جگہ دے، ماں باپ ۱۹۵۱ء میں حج بیت اﷲ کے لیے تشریف لے گئے۔ والدہ محترمہ کا وہیں پر انتقال ہو گیا اور حرم شریف میں دفن ہونے کی سعادت اُن کے حصہ میں آئی۔ والد صاحب قبلہ ۴؍ اگست ۱۹۶۶ء کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے، حق مغفرت کرے۔
میں خود عمر کے ساٹھویں سال سے گزر رہا ہوں، جن میں سے بیس برس تک امرتسر میں، بیس برس لاہور اور بیس برس ملتان میں گزرے۔ پہلے بیس سال تعلیم میں گزرے، دوسرے بیس برس ملازمت میں اور تیسرے بیس سال خدمت میں۔ اب چوتھی بیسویں اس خدمت سے شروع ہوئی ہے۔ خدا جانے یہ کہاں اور کیسے ختم ہو ؂
انجام کی کیا کہیے آغاز نہیں معلوم              ہستی کے معمے کا کچھ راز نہیں معلوم                 کب ٹوٹ کے رہ جائے یہ ساز نہیں معلوم                              کب غیب سے آ جائے آواز نہیں معلوم                                                                                                                                                                                              دعا کریں خاتمہ بالخیر ہو، والسلام
(ڈاکٹر) عبداللطیف۔ ملتان

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.