تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

جمعہ…… کتاب و سنت اور سیرت و تاریخ کی روشنی میں

امام اہل سنت، جانشین امیر شریعت، حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
قبل از اسلام ’’یومِ جمعہ‘‘ قیامِ جمعہ کی تاریخ:
اسلام آنے سے بہت عرصہ پہلے اور سیدنا مسیح مقدس عیسی بن مریم علیہما السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ’’فترۃ‘‘ یعنی نبی سے خالی زمانہ میں اور کئی ممالک کی طرح عرب کے اند بھی ملتِ ابراہیم کے کچھ آثار موجود تھے اور عام عبادات کے علاوہ یہود کے مذہبی دن یوم السبت (سنیچر) اور نصاریٰ کے مذہبی دن یوم الاحد (اتوار) کی طرح اہلِ عرب بھی سنیچر سے ایک روز پہلے کچھ نہ کچھ خاص عبادت کیا کرتے تھے۔ عربی علم و ادب، لغت و نحو اور تاریخ کی کتب سے اس سلسلہ میں کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ لغت اور نحو کے دو مشہور امام ’’فرّاء‘‘ اور ’’ثَعْلَب‘‘ کا قول ہے کہ دورِ قدیم میں اہلِ عرب سنیچر سے پہلے والے دن کو ’’یوم العروبہ‘‘ کہا کرتے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک جدِّ اعلیٰ کعب بن لُوَی، عرب میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے یہود و نصاریٰ کے ہفتہ اور اتوار کی طرح سنیچر سے پہلا دن ’’یوم العروبہ‘‘ عام معمولات کے علاوہ اجتماعی عبادت کے لیے مقرر کیا تھا۔ وہ اس دن لوگوں کو جمع کرتے اور حمد و ثناءِ خداوندی اور مواعظ و نصائع پر مشتمل خطبہ دیا کرتے، جس میں صلۂ رحم کی خصوصی ترغیب دیا کرتے تھے اور علی الاغلب صحف ابراہیمیہ اور تورات و انجیل کی مشہور و معروف تعلیمات و بشارات سے حاصل شدہ علم کے مطابق یہ پیش گوئی اور نصیحت کرتے تھے کہ میری اولاد میں ایک نبی ہونے والا ہے۔ اگر تم لوگ اس کا زمانہ پاؤ تو ضرور ان کی اتباع کرنا۔
علامہ زرقانی نے ’’المواہب‘‘ میں، سہیلی نے ’’الروض الاُنُف‘‘ میں اور علامہ حافظ امام ابن کثیر رحمۃ اﷲ علیہ نے البدایہ میں چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ کعب کا خطبہ نقل کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
کَعْبُ بْنُ لُؤَیٍّ رَوَیٰ اَبُوْ نُعْیْمٍ مِنْ طَرِیْقِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَبالَۃ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃ التَّیْمِیْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ : کَانَ کَعْبُ بْنِ لُؤَیٍّ یَجْمَعُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَکَانَتْ قُرَیْشٌ تُسَمّیْہِ ’’ اَلْعَرُوْبَۃَ ‘‘ فَیَخْطُبُہُمْ فَیَقُوْلُ أَمَّا بَعْدُ فَاسْمَعُوْا و تَعَلََّمُوْا وَافْہَمُوْا وَاعَلمُوْا لَیَلٌ سَاجٍ وَ نَہَارٌ ضاحٍ وَالْاَرْضُ مِہَادٌ والسَّمَاءُ بِنَآءٌ وَالْجِبَالُ اَوْتَادٌ وَالنُّجُوْمَ أَعْلَامٌ وَالْاَوَّلُوْنَ کَالْاٰخِرِیْنَ والَاُنْثیٰ وَالْذَّکَرُ والرُّوْحُ وَ مَا یَہِیْجُ اِلَی بلَی فَصِلُوْا اَرْحَامَکُمْ وَاحْفَظوْ اَصْہَارَکُمْ وَ ثَمِّرُْوا اَمْوَالَکُمْ فَہَلْ رَأَیْتُمْ مِنْ ہَالِکٍ رَجَعَ ؟ اَوْ مَیِّتٍ نُشِرَ ؟ الْدَّارُ أَمَامَکُمْ والظَّنُ غیْرُ مَا تَقُوْلُونَ، حَرَمکُمْ زَیَّنُوْہُ و عَظِّمُوْہُ و تَمَسَّکُوْ بِہٖ فَسَیأْتِیْ لَہٗ نَبَاءٌ عَظِیْمٌ وَ سَیَخْرُجْ مِنْہُ نَبِیٌ کَرِیْمٌ۔
ترجمہ: (حضور علیہ السلام کے اجداد میں سے) کعب بن لُوَی کا ذکر اب نُعیم بواسطہ محمد بن حسن بن زبالہ، محمد بن طلحہ تیمی سے، وہ محمد بن ابراہیم بن حارث سے، وہ ابو سلَمہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے بیان کیا کہ کعب بن لُوَی اپنی قوم کو بروز جمعہ اکٹھا کیا کرتے تھے۔ اور قریش نے اس دور میں جمعہ کو ’’عروبہ‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ کعب اُن کے سامنے خطبہ دیتے تو یوں کہتے: بعدِ حمد و ثنا جو کچھ کہتا ہوں اسے سنو اور خوب محفوظ کر لو، سمجھ اور جان لو، رات پُرسکون ڈھانپنے والی ہے اور دن بے ابر اور روشن ہے اور زمین گڑھوں والی ہے اور آسمان بلند و بالا عمارت ہے۔ اور پہاڑ زمین کی میخیں اور کھونٹے ہیں اور ستارے رہنما ہیں۔ پہلی اقوام بھی انجام میں پچھلوں جیسی تھیں۔ ہر نر و مادہ، ہر روح اور پیدا ہونے والے چیز گلنے سڑنے کے لیے ختم ہو رہی ہے۔ اپنی رشتہ مندیوں کو جوڑے رکھو اور اپنے سسرالی دامادی کے تعلقات کی حفاظت کرو، اپنے مال و دولت کو تجارت سے بڑھاتے رہو، کیا تم نے کسی مرنے والے کو دیکھا ہے جو لوٹ آیا ہو؟ یا کسی مردہ کو دیکھا ہے جو دوبارہ زندہ کر دیا گیا ہو؟ آخرت کا گھر تمہارے آگے ہے اور انجام کے متعلق یقین تمھاری گفتگو کے سوا ہے، یہ تمہارا حرم ہے، اس کو بناؤ سنوارو اور اس کی بڑائی کو قائم رکھو اور اسی کے ساتھ پختگی سے وابستہ رہو، عنقریب اس کے متعلق ایک بہت بڑی خبر آنے والی ہے اور اسی حرم سے ایک معزز نبی ظاہر ہونے والے ہے۔
ثم یقول : (پھر کہتے)
نَہَارٌ وَ لَیْلٌ کُلُّ یَوْمٍ بِحٰادِثٍ                     سَوَاءٌ عَلَیْنَا لَیْلُہَا و نَہَارُہَا
ہر صبح و شام کوئی نہ کوئی واقعہ ساتھ لاتے ہیں                        (چنانچہ) ہمارے لیے اُن حوادث کے صبح و شام برابر ہیں
یَؤُوْبَانِ بِالْاَحْدَاثِ حَتّٰی تَأَوَّبا                                              وَ بِالنِّعمِ الضّٰاْفِیْ عَلَیْنَا سُتُوْرُہا
¯دن رات مختلف واقعات اور خدائی انعامات کو بار بار لے کر آتے ہیں یہاں تک کہ لوٹ جاتے ہیں

اور ہماری زندگی پر ان شب و روز کے لمبے پردے پڑتے جاتے ہیں۔                      عَلَی غَفْلَۃٍ یَأتِی الْنَّبِیُّ مُحَمَّدٌ

فَیُخْبِرُ اَخبَاراً صَدُوْقٌ خَبِیْرُہَا                       ہماری بے خبری میں نبی محمد (ﷺ) اچانک آ جائیں گے

اور وہ غیبی خبریں سنائیں گے ، جن کا بتانے والا بہت سچا ہے         ثُمَّ یَقُوْلُ واللّٰہُ لَوْ کُنتُ فِیْہَا ذا سَمْعٍ و بَصَرٍ وَ یَدٍ وَّ رِجْلٍ لَتَنَصَّبْتُ فِیْہَا تَنَصُّبَ الجَمَلِ وَََلَأَرْقَلتُ اِرْقَالَ الْعَجَلِ
ترجمہ: پھر کہتے تھے، خدا کی قسم اگر اس نبی کے آنے کے وقت میرے کان آنکھ اور ہاتھ پاؤں باقی رہ سکتے (یعنی میں رہ سکتا) تو میں (اس کی تائید کے لیے) یوں اٹھ کھڑا ہوتا جیسے (سواری اور برداری والا) اونٹ کھڑا ہو جاتا ہے اور میں اسے ماننے کے لیے تیز سے تیز رفتار کے ساتھ چل کر جا پہنچتا۔
ثّمَ یَقُوْلُ (پھر یہ شعر پڑھتے تھے:)
یٰا لَیْتَنِیْ شٰاہِدٌ نَجْوَآءَ دَعْوَتِہٖ

حِیْنَ الْعَشِیْرۃُ تَبْغِی الْحَقَّ خِذْلاناً             اے کاش میں بھی اس نبی کے اعلانِ دعوت کے سننے کے وقت حاضر ہوتا

جبکہ میرا قبیلہ (قریش) حق کو بے یار و مدد گار چھوڑ دے گا۔               قَالَ : وَ کَانَ بَیْنَ مَوْتِ کَعبِ بْنِ لَؤَیٍ وَ مَبْعَثِ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَّلَّمَ خَمْسَ مِائَۃ عَامٍ وَّ سِتُّوْنَ سَنَۃً (البدایہ والنہایہ،ص: ۲۴۴۔ ج: ۲۔)
ترجمہ: ابو سَلَمہ کہتے ہیں کہ کعب بن لُوَی کی موت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کو نبوت و رسالت عطا کیے جانے کے درمیان پانچ سو ساٹھ برس کا عرصہ ہے۔
المواہب اور الرَّوْضُ الْاُنُف میں یہ شعر ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:
یٰا لَیْتَنِیْ شٰاہِدٌ فَحْوَآءَ دَعْوَتِہٖ

اِذا قُرَیْشٌ تَبْغی الْحَقَّ خِذْلَانًا                  کاش میں اس نبی کے مقصد مدعی کے اعلان اور دعوتِ حق کے وقت موجود ہوتاaجبکہ قریش حق کو بے یار و مدد گار چھوڑ جائیں ۔
(المواہب للزرقانی، ص: ۷۴۔ج:۱۔ الروض الاُنُفْ، للسُہیلی، ص: ۶و ص: ۲۶۹۔ ج:۱۔ بحوالہ سیرت المصطفی، لمولانا محمد ادریس الکاندھلوی، ص: ۱۹۔۲۰۔ ج: ۱۔ طبع لاہور)
کعب نے ہی سب سے پہلے یوم العَروبہ میں لوگوں کو عبادت کے لیے اکٹھا کرنے کا طریقہ جاری کیا تھا، تو لوگوں کے مسلسل جمع ہونے کی بنا پر اُس کا پہلا اور پرانا نام بدل کر موضوع و مضمون کے مطابق اس کا نیا اور دوسرا نام ’’یوم الجمعہ‘‘ (لوگوں کو جمعہ کرنے والا دن) بھی انھی نے رکھا۔ جو اسلامی دور میں بھی نقل اور منتخب ہوا۔ حتیٰ کہ جب انصارِ مدینہ نے اپنی ہفت روزہ اجتماعی عبادات کے لیے قدرتی تحریک پر از خود اسی دن کو مقرر کیا اور کعب کے رکھے ہوئے نام کی تجدید بھی کر لی، تو ان کے اس اقدام کو منشاءِ ربانی قرار دیتے ہوئے وحی الٰہی نے بھی اُس کی مستقل تائید و تصدیق اور تصویب و تحسین کر ڈالی، جس پر قرآن کریم اور دفاتر حدیث گواہ ہیں۔
قبل از ہجرت مدینہ میں نمازِ جمعہ کا الہامی اجراء:
قبل از اسلام مکہ مکرمہ میں قیام جمعہ کے متعلق مختصر روایاتی قصہ بیان ہوا۔ اب بعد از اسلام مدینہ منورہ میں قیام جمعہ کا تاریخی پس منظر ملاحظہ ہو! سنہ ۱۲ نبوت کے دوران ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ میں اسلام کی اہم ترین عبادت ’’جمعہ‘‘ کا قیام عجیب و غریب انداز سے ہوا۔ اور اس کی غیبی اور الہامی صورت ظاہر ہوئی۔ جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ ’’تورات و انجیل‘‘ کے احکام و ہدایات اور روایات کے مطابق مذہبی اجتماع اور عبادت کی غرض سے یہود کے لیے یوم السبت (ہفتہ) اور نصاریٰ کے لیے یوم الاحد (اتوار) کا دن مقرر تھا۔ اُس دن وہ اپنے معابد کے اندر جمع ہوتے تھے۔ مدینہ منورہ میں رہنے والے صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم یہ طریقہ دیکھتے اور اس کی اہمیت و اثر کو محسوس کرتے تھے۔ لیکن حضور علیہ السلام کی طرف سے اُن کو کسی خاص مقرر دن میں کسی مستقل اجتماعی عبادت کے لیے اب تک کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ اس لیے وہ خاموش تھے۔ البتہ بقیہ نمازیں حضور علیہ السلام کے معتبر و معتمد سفیر و قاصد، مدینہ میں اسلام کے معلم و مبلغ اور امام اوّل، شہزادۂ مکہ، شبیہ نبی، علم بردار و شہیدِ اُحد، حضرت مُصْعَب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کی اقتدا میں ادا کیا کرتے تھے۔
دورانِ قیامِ مکہ مکرمہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو راجح قول کے مطابق رمضان المبارک ۴۱ عام الفیل کی سترہ تاریخ دو شنبہ (پیر) کے دن چالیس برس چھے ماہ کی عمر میں نبوت و رسالت عطا ہوئی۔ تو سب سے پہلے فجر اور عصر صرف دو وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ اس دور میں بھی آپ غیر معلومہ تفصیل کے مطابق مختلف قسم کی عبادت کیا کرتے تھے۔ لیکن نماز کا کوئی مستقل سلسلہ اور مفصل طریقہ ابھی تک قائم اور مقرر نہیں ہوا تھا۔ شرح المواہب اللدنیہ للزَّرقانی، ص: ۲۰۷، ج:۱۔ فتح الباری، شرح البخاری، للحافظ ابن حجر العسقلانی، ص: ۲۶ ، ج:۱، کتاب التفسیر، ص: ۵۵۱، ج: ۸، و کتاب التعبیر، ص:۳۱۳، ج: ۱۲۔بحوالہ سیرت المصطفیٰ ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، ص: ۱۰۸، ج: ۲، البدایہ والنہایہ، امام ابن کثیر، ص: ۱۷۷، ج: ۳، جدید طبع بیروت سنہ ھ ۱۳۸۵، ۱۹۶۶ء )
پھر زیادہ مشہور قول کے مطابق سنہ ۱۱ ؍نبوی میں ماہ رجب المُرجَّبْ کی ستائیسویں شب میں آپ کو کائنات کا عظیم و عجیب ترین اور مُحیّر العقول آسمانی معجزہ ’’معراج‘‘ کی صورت میں عنایت فرمایا گیا، تو اﷲ تعالیٰ کے قربِ خالص میں حاضر ہونے پر دوسرے بے شمار انعامات کے علاوہ سب سے بڑی فرض عبادت کے طور پر ’’صلواتِ خمسہ‘‘ پچاس کا ثواب رکھنے والی پانچ نمازوں کا تحفہ عطا فرما دیا گیا۔ (المواہب للزرقانی، ص:۳۰۷، ج: ۱ بحوالہ سیرت المصطفیٰ)
حضر اور سفر کی نمازوں کی ابتدائی اور آخری مقدار:
لیکن نمازِ مغرب کے علاوہ سب نمازیں دو دو رکعت کی تھیں، ہجرت کے بعد نماز ظہر عصر اور عشاء میں اضافہ کا حکم آ گیا۔ چنانچہ عام حالات کے اندر وطن یا کسی بھی جگہ قیام کے وقت کے لیے تو اُن کی چار چار رکعات کر دی گئیں اور سفر کے دوران مقدارِ نماز میں تخفیف اور رعایت کا حکم نازل ہوا، تو اس کے لیے مغرب کو تین رکعت کی مقدار والی پہلی حالت پر رکھا گیا اور بقیہ چاروں نمازوں کو قبلِ ہجرت فرض ہونے والی اصل حالت کے مطابق دو دو رکعت کی صورت میں باقی رکھا گیا۔ اس سلسلہ میں سیدہ اہلِ بیت، حبیبۂ حبیبِ رب العالمین، اَعلم الصحابہ، واقفِ احوال و اسرارِ نبوّت، اُمّ المؤمنین ’’عائشہ صدیقہ‘‘ مطہرہ سلام اﷲ علیہا، فرضیتِ نماز کے مسئلہ کی اصل حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے تصریح و تصدیق فرماتی ہیں:
عَن․ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائشَۃَ اُمِّ المؤمِنِیْنَ (رضِیَ اللّٰہ عَنْہَا) قَالَتْ : فَرَضَ اللّٰہ الصَّلوٰۃ حِیْنَ فَرَضَہَا رَکْعَتَیْنِ ، رَکْعَتَیْنِ فِی الْحَضَرِ وَالْسَّفَرِ فأُقِرَّتْ صَلوٰۃ السَّفَرِ وَ زِیْدَ فِیْ صَلوٰۃِ الْحَضَرِ ۔
(البخاری کتاب الصلٰوۃ، باب کیف فُرضَتِ الصَّلوٰۃ فی الإسراء ، ص: ۵۱، طبع نور محمد اصح المطابع ، دہلی ،انڈیا)
حضرت سیدنا صدیق اکبر کے نواسے سیدہ اسماء بنت ابی بکر کے فرزند سیدہ صدیقہ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، وہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ سلام اﷲ علیہا سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے جس وقت (ابتداً) نماز فرض کی تو حضر اور سفر کے لیے (یکساں) دو دو رکعت کی صورت میں فرض قرار دی۔ پھر (ہجرت کے بعد نئے حکم کے ساتھ) سفر کی نمازیں تو (دو دو رکعت والی) پہلی حالت پر برقرار رکھی گئیں اور حضر کی نمازوں میں (یعنی وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت یا پندرہ روزہ قیام کی صورت میں نماز مغرب اور وتر کو چھوڑ کر دو دو رکعت کا مزید) اضافہ کر دیا گیا (اور ظہر عصر اور عشاء ، چار چار رکعت والی نمازیں بن گئیں۔)
نمازِ جمعہ کا نام رکھنے کی تجویز اور اُ س کی تصدیق:
مذکورہ صورتِ حال کے پیشِ نظر قبلِ ہجرت حضور علیہ السلام کے اوّل مدنی پیروکار و جاں نثار، معروف صحابی حضرت اَسعد بن زُرارہ نجّاری، انصاری رضی اﷲ عنہ کی توجہ بطور خاص اس مسئلہ کی طرف منعطف ہوئی اور اُن کے دل میں یہ خیال پیداہوا کہ جب مصنوعی اہلِ کتاب، کافر ہو کر اس تنظیم کے ساتھ اپنی عبادات میں مصروف ہیں تو ہم نبی و رسولِ برحق، مُصدِّق و خاتم الابنیاء حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے فرماں بردار اور عاشق ہو کر اپنے سب سے عظیم اور کامل و جامع دینِ برحق کے فرائض و واجبات کو کیوں نہ اُن سے بڑھ چڑھ کر تربیت و تنظیم کے ساتھ ادا کیا کریں؟ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے اس احساس اور خیال و عزم کو غیبی تائید و قبولیت سے نوازا۔ جس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت اَسعد رضی اﷲ عنہ نے اپنے دل و دماغ کی پوری قوت فکر و فیصلہ کے مطابق اس عبادت کو اجتماعی تشکیل کے لیے یہود کے ہفتہ اور نصاریٰ کے اتوار کے مقابلہ میں یوم ’’جمعہ‘‘ کو پسند و منتخب اور مقرر و طے کر دیا تھا، پھر دوسرے انصاری صحابہ رضی اﷲ عنہم کو مشورتاً اپنی یہ تجویز بتائی تو انصار نے فطری سعادت کے تحت اپنی قلبی خواہش اور دینی آرزو کی تکمیل کے لیے غیر متوقع خدائی تائید سمجھ کر اسے فوراً قبول کر لیا۔ اس حسنِ اتفاق کے بعد حضرت نے ایک جمعہ کے دن سب انصار ی احباب کو اکٹھا کر کے اپنے پہلے ’’اجتہاد‘‘ کے مطابق نمازِ جمعہ پڑھا دی۔ اتوار اور ہفتہ سے پہلے آنے والے اس دن کو عرب کے جاہلی رواج کے مطابق ’’یوم العروبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے دوسرا اجتہادی اقدام یہ کیا کہ یہ جاہلی نام ختم کر کے تقدیر ِ الٰہی کی خاموش رہنمائی، روحانی رشد و ہدایت اور اپنی دینی بصیرت و فراست کے تحت اسے ’’یوم الجمعہ‘‘ کے مبارک الہامی نام کے ساتھ موسوم کر دیا۔ حضرت اسعد رضی اﷲ عنہ نے اپنے ممتاز دینی فکر و شعور اور بصیرت کے مطابق جو دو مذکورہ اجتہاد کیے تھے۔ وہ درحقیقت تقدیر و منشاءِ الٰہی کے مطابق امت محمدیہ علی صاحبہا السلام کی دینی اور اجتماعی زندگی میں تا قیامت زبردست روحانی اور انقلابی اثرات رکھنے والے خالص ’’ربّانی القاء‘‘ اور ’’رحمانی الہام‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس عملِ خیر کی برکت و مقبولیت کا پہلا اظہار اور اس ’’اجتہاد‘‘ کی پہلی تصدیق یوں ہوئی کہ ہجرت سے کچھ عرصے پہلے حضور علیہ السلام نے مدینہ میں اسلام کے معلمِ اوّل اور امامِ نماز، شبیہِ نبی و شہیدِ اُحد، حضرت مُصعَب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کو یومِ جمعہ کی اہم عبادت کے متعلق ایک خصوصی مکتوبِ گرامی اور حکم نامہ لکھوا کر ارسال فرمایا۔ جس میں درج تھا کہ اس دن ’’نصف النہار‘‘ کے بعد سب اکٹھے ہو کر ایک ’’دوگانہ‘‘ ادا کر کے قربِ خداوندی حاصل کیا کرو۔
(رواہ دار قُطنی، عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما۔ الزرقانی، ص: ۱۵۱۵، ج: ۱ بحوالہ سیرت المطفیٰ، ص: ۲۴۸، ج:۱)
اور ہجرت کے بعد حضور نبی کریم علیہ السلام نے دورانِ قیامِ قُباء، جب بحکمِ خداوندی ’’محلہ بنی سالم بن عوف‘‘ کی مسجد میں اپنی ’’پیغمبرانہ زندگی‘‘ اور اسلام کے دورِ اقتدار کا پہلا اجتماعی جمعہ ادا کیا، تو حضرت اسعد کے پہلے اجتہاد کی باضابطہ دوسری تائید ہوئی اور اس کے بعد مستقل قیامِ مدینہ اور تعیینِ مقام عبادت و تعمیرِ مسجد نبوی کے عرصہ میں اس عبادت کی فرضیہ و اہمیت بتانے کے لیے جب اﷲ تعالیٰ نے جمعہ کے نام سے ایک مستقل سورت اتاری اور مختصر احکامِ جمعہ کے طور پر اسی سورت کا دوسرا اور آخری مستقل رکوع نازل کیا تو وحی کے خطاب میں اس دن کو ’’یوم الجمعہ‘‘ اور اس کے اندر بوقتِ ظہر اس مستقل نماز کو ’’صلٰوۃ الجمعہ‘‘ کے نام سے ہی موسوم فرمایا۔ جس سے حضرت اسعد رضی اﷲ عنہ کے دوسرے اجتہاد کے لیے بھی آسمانی تصدیق حاصل ہو گئی، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الجمعہ میں ’’اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ‘‘ (جب اذان دے کر پکارا جائے جمعہ کے دن)، کے الفاظ سے فرضیتِ جمعہ کا اعلانِ عام کیا، تو ساتھ ہی یہ بھی ظاہر فرما دیا کہ اُن کو حضور علیہ السلام کے انصاری صحابہ کی طرف سے قیامِ جمعہ کی تجویز اور ’’یوم العروبہ‘‘ کو ’’یوم الجمعہ‘‘ کے نام سے موسوم کرنے کا عمل بالکل پسند اور محبوب ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے اُس دن کے لیے جاہلی دور کا نام ’’یوم العروبہ‘‘ استعمال کرنے سے گریز کیا اور صرف انصار کا مجوزہ نام ’’یوم الجمعہ‘‘ ہی استعمال کر کے اپنی پسند پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ گویا خطبہ و نمازِ جمعہ کو شریعت اسلامیہ کے ایک مستقل عباداتی ضابطہ اور قانون کی شکل عطا فرما کر، بواسطۂ حضرت اسعد جملہ انصاری صحابہ رضی اﷲ عنہم کے ’’خالص الہامی مشورہ‘‘ اور ’’مشترک اجتہاد‘‘ کی ہمیشہ کے لیے باقاعدہ تائید و تصدیق اور تصویب و تحسین کر دی گئی۔ اس مستند ترین اور وحی کے ساتھ مصدقہ واقعہ سے ہر مسلمان کے دل و دماغ میں روشنی ہو جانی چاہیے ، کہ نبی تو نبی…… کہ اُن کا مقام تو بالکل ما فوق الفطرت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک صحابۂ کرام صی اﷲ عنہ کی کتنی عظمت اور قدر و منزلت ہے کہ اُن کے خیالات و تجاویز او ر عزائم و اعمال تک کو بھی بہ منشاء و حکمِ خداوندی سیرت مطہرہ کا جزو و حصہ بنا دیا گیا ہے اور اُس کے ابدی قوانین کی حیثیت دی جا چکی ہے؟ تو یہیں سے دین میں اُن کی حیثیت اور منصب و عہدہ کی قانونی نوعیت بھی الم نشرح ہو گئی ہے کہ وہ عام مسلمانوں کی طرح محض مومن نہیں، بلکہ اُن کا وجود شریعت کی بنیاد میں شامل ہے۔ کتاب اﷲ اور سنتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اُن کا فکر و عمل بھی اُمت کے لیے شرعی حجت واجب التقلید، موجبِ رضائے خدا و رسول اور باعثِ نجات و فلاحِ دارین بھی ہے۔ اور واقعتا تاریخِ اسلام اور سیرت صحابہ کرام کے ضمن میں انصار کی یہ ایک ایسی اہم فضیلت اور بے مثال خصوصیت ہے جس میں کوئی مہاجر اور کوئی غیر مدنی، غیر مہاجر صحابی بزرگ یا گروہ اُن کا سہیم و شریک نہیں بن سکا۔ وَ ذالِکَ فَضْلُ اللُّہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ۔
ہجرت از مکہ اور وُرودِ مدینہ:
شارعِ اعظم، پیغمبرِ انقلاب، سیدنا حضرت محمد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ’’ہجرت‘‘ کے بعد عام مشہور قول کے مطابق ۱۲؍ ربیع الاوّل کو پیر کے دن زوال کے قریب کہ دوپہر تپ گئی تھی۔ مدینہ منورہ کی حدود میں داخل ہوئے۔ مدینہ کی آبادی بلند و پست دو جانب میں تقسیم تھی، بلندی کی آبادی ’’نَجْد‘‘ کی مُحاذات پر تھی اور پستی کی آبادی ’’تِہامہ‘‘ کے رخ پر۔ عام مُحارہ میں بلند حصہ کو ’’عوالی‘‘ اور پست حصہ کو ’’سَوَافِل‘‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اپنے طے شدہ نظام کے مطابق سب سے پہلے ’’نجد‘‘ کی مُحاذ پر واقع بلند آبادی عوالی کا رخ کیا اور پھر مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر نواحی بستی ’’قُبا‘‘ میں تشریف لائے۔ اس بستی میں انصار کے کچھ خاندان آباد تھے۔ جن میں سب سے زیادہ ممتاز خاندان ’’بنو عَمْرو بن عَوف‘‘ تھا۔ انصار کی اس قبائلی شاخ کے مشہور رکن اور سردار حضرت ’’کلثوم بن ہدم‘‘ انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ آپ اُن کے مکان پر رَختِ سفر اتار کر مقیم ہوئے۔ یہ بزرگ ابتدا سے ہی نہایت شریف اور صالح انسان تھے۔ مدینہ منورہ میں پہنچنے کے پانچویں دن بعد آپ کو وہاں جو پہلا جمعہ پیش آیا۔ وہ بلا اجتماع گزر گیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ، حضرت خُبیب بن اِساف کے مکان پر ٹھہرے۔ اس دوران انصار جو در جوق آپ کی خدمت میں آتے اور جوشِ عقیدت میں عاشقانہ اور والہانہ سلام کے لیے حاضر ہوتے رہتے۔ آپ اس روز عوالی سے اتر کر اندرونِ شہر کے دامن میں آباد ’’بنو سالم بن عوف‘‘ کے محلہ میں تشریف لائے اور اپنے مہاجرین و انصار، جاں نثاروں سمیت ’’مدنی دور‘‘ کا پہلا منظم و باوقار ’’جمعہ‘‘ پوری اجتماعی شان کے ساتھ ادا فرمایا۔ اس محلہ کے مسلمانوں سے ملاقات اور اُن کے ہمراہ اداءِ جمعہ کے بعد پھر قُبا کی طرف واپس چلے گئے اور آئندہ پیر تک یعنی کل چودہ روز تک وہاں قیام پذیر رہے۔ تیسرے منگل کو پندرھویں دن آپ نے اپنے ننہالی قبیلہ ’’بنو نجار‘‘ کی ایک شاخ ’’بنو تمیم‘‘ کو خصوصی طور پر طلب فرمایا، تو وہ تلواریں حمائل کیے ہوئے مسلح ہو کر حاضر ہوئے۔ آپ حضرت صدیقِ اکبر کی عطیتاً اور ہدیۃً دی ہوئی اپنی مشہور اونٹنی ’’قَصْواء‘‘ پر سوار ہوئے اور بنو نجّار مع دیگر مسلح صحابہ ’’پانچ سو جاں باز‘‘ اپنے محبوب سردار کے گرداگرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اس حالت میں آپ قبا سے اندرونِ شہر کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں واقع تمام آبادیوں اور محلوں کے ساکن اصحاب و احباب اور عُشاق آپ کا استقبال کرتے اور ہمہ قسم خدمت اور غلامی کی اور اطاعت و حفاظت کی ضمانت کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے قبیلہ اور محلہ میں قیام فرما ہونے کی استدعا اور پیش کش کرتے۔ لیکن آپ ازل سے مقدر صورتِ قیام کے لیے مشیت و حکمِ ربّانی کے تحت سب کی پیش کشِ قیام کو تشکر و برکت کی دعا کے ساتھ ٹالتے اور ہر جگہ اونٹنی کے گرد جمع ہو کر قیام کے لیے روکنے والے خدّام سے یہ فرماتے ہوئے کہ:
دَعُوْھَا فَاِنَّہَا مَأْمُوْرَۃٌ
ترجمہ: اسے چھوڑ دو۔ (یہ مستقل قیام کی جگہ پر رکنے کے لیے) حکمِ الٰہی کی پابند ہے۔ (اس لیے درمیان میں کہیں نہیں رکے گی)۔ ( البدایہ لابن کثیر، ص: ۷، ج: ۳، وعیون الاثر، ص: ۱۹۴، ج: ۱)
اپنے مشہورجاں نثار عاشق اور ضرب المثل خدمت و غلامی کے لیے خدائی انتخاب کے مظہر سیدنا حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اﷲ عنہ کے مکان کے سامنے ولی کھلی زمین تک لے گئے، جہاں پہنچتے ہی ’’قَصْواء‘‘ خود بخود رکی اور پاؤں جما کر گردن زمین پر بچھا دی۔
حَدَّثَنَا اَنَسُ بُنُ مَالِکٍ قَالَ لَمَّا قَدِم رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ’’ اَلْمَدِیْنَہَ ‘‘ نَزَلَ فِیْ عُلْوِ الْمَدِیْنَۃِ فِیْ حَیٍّ یُّقَالُ لَہُمْ بَنُوْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ فَأَقَامَ فِیْہِمْ أَرْبَعَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً ثُمَّ أَرْسَلَ اِلَی مَلَاءِ بَنِی النَّجَّارِ قَالَ فَجَاء وْا مُتَقَلِّدِیْنَ سُیُوْفَہُمْ قَالَ وَکَأَنِّیْ أَنْظُرُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ وَ اَبُوْبَکْرٍ رِدفہٗ وَ مَلَاءُ بَنِیْ الْنَّجَّارِ حَوْلَہٗ …… حَتّٰی أَلْقٰی بِبِنَاءِ أَبِیْ أَیُّوْبَ ۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں، جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں وارد ہوئے تو شہر کی بلند آبادی میں ایک چھوٹے قبیلہ کے ہاں اترے، اس قبیلہ والوں کو ’’بنو عمرو بن عوف‘‘ کہا جاتا تھا۔ سو آپ نے اُن کے ہاں ۱۴ راتیں قیام کیا۔ پھر آپ نے بنو نجّار کے شرفاء و رؤساء کو حاضر ہونے کا پیغام بھیجا تو وہ اپنی تلواریں حمائل کیے ہوئے آ گئے۔ اور میں چشمِ تصور سے اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی سواری پر تھے اور ابوبکر رضی اﷲ عنہ آپ کے پیچھے سوار تھے اور بنو نجّار کے اکابر کا بڑا مسلّح گروہ آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے چل رہا ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنا کجاوہ ابو ایوب رضی اﷲ عنہ کے گھر کے سامنے والے میدان میں لا ڈالا۔
مشہور محدث و فقیہ اور محقق حافظ زین الدین عراقی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی زبردست عملی قوت اور فنی مہارت کے ساتھ جیسے ایک ہزار اشعار میں علم ’’اصولِ حدیث‘‘ کے تمام قوانین کو ’’ ألْفِیَۃ الْحَدِیْث ‘‘ کے نام سے منضبط کیا تھا۔ ویسے ہی پوری سیرت الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی اپنی معروف کتاب ’’ ألفِیَۃ السّیَرْ ‘‘ کے اندر ایک ہزار اشعار کی صورت میں ہی جمع کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ فرماتے ہیں:
حَتّٰی أَتٰیْ اِلٰیْ أَہْلِ قُبَآءٖ                    فَنَزَلَہَا بِالسَّعْدِ وَالہَنٰآءٖ
یہاں تک کہ (ہجرت کر کے) آپ اہلِ قبا کے پاس پہنچ گئے                    اور راحت و خیر و برکت کے ساتھ وہاں اترے
فِیْ یَوْمِ الْاِثْنَیْنِ لِثنتَیْ عَشْرَہ                      مِنْ شَہْرِ مَوْلُوْدٍ فَنِعْمَ الْہِجْرَہ
آپ کی آمد پیر کے دن اپنے ماہِ ولادت (یعنی ربیع الاوّل) کی                 بارہ تاریخ کو ہوئی اور یہ کیا ہی عجیب ترکِ وطن تھا
أقامَ أَرْبَعًا لَدَ یْہِمْ وَ طَلَعَ                        فِیْ یَوْمِ جُمُعَۃٍ وَ صَلّٰی وَ جَمَعَ
آپ اہل قباء کے ہاں چار راتیں مقیم رہے اور جمعہ کے دن               شہر مدینہ کے اندر نمودار ہوئے اور نماز جمعہ ادا کی
فِیْ مَسْجِدِ الْجُمَعَۃِ وَ ہِیَ أَوَّلُ                         مَا جمَعَ النَّبِیُّ فِیْمَا نَقَلُوْا
‘یہ نماز آپ نے (بنو سالم کی) مسجدِ جمعہ میں ادا کی اور یہ پہلا جمعہ تھا

جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے باقاعدہ ادا کیا، قباء میں چار روز قیام علماءِ سیرت نے نقل کیا ہے۔                    وَ قِیْلَ بَلْ قَاْمَ أَرْبَعَ عَشْرَہ

فِیْہِمْ وَ ہُمْ یَنْتَحِلُوْنَ ذِکْرَہ
{اور بعض علماء نے کہا کہ آپ اہلِ قباء کے ہاں 14راتیں مقیم رہے

اور محققین اہلِ علم اسی قول کی طرف مائل ہیں ۔                 وَ ہُوَ الَّذِیْ أَخْرَجَہُ الْشَّیْخَانِ

لَکِنَّ مَاْ مَرَّ مِنَ الْاِتْیَانٖ
اور شیخین (امام بخاری و مسلم) نے بھی یہی روایت بیان کی ہے

لیکن قباء میں پیر کے دن آپ کی تشریف آوری اور                 بِمَسْجِدِ الْجُمعَۃ وَ یَوْمُ الْجُمعَۃ

لَا یَسْتَقِیْمُ مَعَ ہٰذِہِ الْمُدّۃُ                       (بنو سالم) کی مسجد میں بروز جمعہ آنے اور نمازِ جمعہ ادا کرنے

کے متعلق جو روایت گزری ہے۔ وہ14راتوں کے قیام کی مدت کے ساتھ مطابق نہیں بیٹھتی (کیونکہ اس صورت میں اگر پیر کو مدینہ پہنچ کر منگل سے قباء میں قیام شروع ہوا اور دوسرے جمعہ کو شہر کے لیے کوچ ہوا تو قیامِ قباء کی مدت صرف دس رات بنتی ہے، 14نہیں)۔
اِلَّا عَلَی الْقَوْلِ بِکونِِ القِدْمَہ

اِلٰیْ قُبٰا کانَتْ بِیَوْمِ الْجُمُعَہ
ہاں اُس قول کے مطابق کہ جس میں آپ کی قُباء میں آمد بروز جمعہ بیان کی گئی ہے، آپ کا 14رات کا قیام درست ہو سکتا ہے کہ آپ ایک جمعہ کے دن مدینہ پہنچ کر دوسرے جمعہ تک وہیں مقیم رہے

مگر وہ جمعہ باقاعدہ ادا نہیں کیا۔ پھر تیسرے جمعہ کو مدینہ شہر کے لیے روانہ ہوئے تو راستہ میں بنو سالم کی مسجد جو آپ کے اداءِ جمعہ کے باعث ’’مسجد جمعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ اُس میں تشریف لا کر پہلے نمازِ جمعہ ادا کی کی اور پھر انصار کے مختلف چھوٹے خاندانی محلوں سے گزرتے ہوئے دارِ ابو ایوب انصاریؓ تک پہنچے۔
اختلافِ روایات اور توجیہ و تطبیق:
قَالَ الْبُخَارِیْ حَدَّثَنَا مَطرُ بْنُ الْفَضْلِ ثنا رَوْحٌ ثَنا ہِشَامٌ ثَنا عِکْرِمَۃُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رضی اللّٰہ عنہما) قَالَ بُعِثَ النَّبِیُّ ( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ) لِأَرْبْعِیْنَ سَنَۃً فَمَکَثَ فِیْہَا ثَلٰثَ عَشَرَۃَ یُوْحٰی اِلَیْہِ ثُمَّ أُمِرَ بِالْہِجْرَۃِ فَہَاجْرَ عَشْرَ سِنِیْنَ وَ مَاتَ وَ ہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَّ سِتِّیْنَ سَنَۃً وَ قَدْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ شَہْرِ رَبِیْعِ الْأَوَّلِ سَنَۃَ ثَلاثَ عَشْرَۃ فِیْ بِعْثَتِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ ذَالِکَ فِی یَوْمِ الْأِثْنَیْنِ کَمَا رَوَاہُ الامام احمد عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ( رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُما) اَنَّہٗ قَالَ وُلِدَ نَبِیُّکُمْ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ ، وَ خَرَجَ مِنْ مَّکَّۃَ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَدَخَلَ الْمَدِیْنۃَ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَ تُوَفِّیَ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ۔( البدایہ ، ص: ۱۷۷۔ طبع جدید بیروت)
(البدایہ والنہایہ لابن کثیر ص: ۱۹۶،۱۹۷، ج: ۳، جدید طبع بیروت سنہ ۱۳۵۸ـ سنہ ۱۹۶۶ء)
ترجمہ: امام، مفسر و محدثِ اعظم، علامہ ابو الفداء ابنِ کثیر، دِمَشْقی رحمۃ اﷲ علیہ، نبی علیہ السلام کی ہجرت اور وُرودِ مدینہ کے متعلق لکھتے ہیں:
امام بخاری کہتے ہیں، مطر بن فضل نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا ہمیں رَوْح نے، انھوں نے کہا ہمیں ہِشام نے، انھوں نے کہا ہمیں عکرمہ نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت بیان کی ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم چالیس برس کی عمر کے قریب مبعوث ہوئے، پھر اس حالت میں 13برس رہے کہ آپ پر وحی نازل ہوتی رہتی تھی۔ پھر آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو آپ نے (مدینہ میں) مہاجر بن کر دس برس گزارے اور آپ فوت ہوئے تو تریسٹھ برس کے تھے اور تحقیقاً نبی علیہ السلام کی ہجرت و نبوت کا معاملہ پیر کے دن میں ہوا۔ جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے (حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: تمھارے نبی (صلی اﷲ علیہ وسلم) پیر کے دن پیدا ہوئے اور مکہ سے پیر کے دن نکلے اور پیر کے دن نبی بنائے گئے۔ اور مدینہ میں پیر کے دن داخل ہوئے اور پیر کے دن آپ کی وفات ہوئی ۔
امام احمد بن حنبل کہتے ہیں مجھ سے ہاشم نے حدیث بیان کی، اُن سے سلیمان نے اور اُن سے ثابت نے، وہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں (اپنے ہم عمر چھوٹے) بچوں کے ساتھ (حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے) دوڑا جا رہا تھا، کیونکہ مدینہ کے لوگ کہہ رہے تھے کہ ’’محمد (ﷺ) آ گئے‘‘ تو میں بھی دوڑتا تھا لیکن مجھے سامنے کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ اسی طرح پھر (سنا کہ) لوگ کہہ رہے تھے کہ ’’محمد(ﷺ) آ گئے اور مجھے (پھر بھی) کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی تھی، یہاں تک کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی ابوبکر رضی اﷲ عنہ تشریف لے آئے اور دونوں شہر سے باہر ایک بے آباد جگہ میں اوٹ کے اندر ٹھہر گئے، پھر انھوں نے ایک بدوی شخص کو انصارِ مدینہ تک اپنی اطلاع پہنچانے کے لیے بھیجا، چنانچہ (کچھ دیر بعد) پانچ سو کے قریب انصاری صحابہ (رضی اﷲ عنہم) آپ کے استقبال کے لیے چلے، یہاں تک کہ حضور(ﷺ) اور ابوبکر (رضی اﷲ عنہ) کے پاس پہنچ گئے، تو انصار نے عرض کیا کہ آپ دونوں امن و عافیت کے ساتھ ہمارے آقا اور حاکم بن کر تشریف لے چلئے۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور آپ کے دوست (ابوبکر رضی اﷲ عنہ) نے انصار کے حلقہ میں شہر کا رخ کیا تو تمام اہلِ مدینہ (استقبال اور دیدار کے لیے) گھروں سے باہر نکل آئے۔ یہاں تک کہ کنواری دو شیزہ لڑکیاں بھی مکانات کی چھتوں پر آپ کو دیکھنے کے لیے موجود تھیں اور ایک دوسرے کو کہتی تھیں کہ ’’ان میں وہ نبی کون سا شخص ہے‘‘؟ ان میں وہ نبی کون ہے‘‘؟ سو ہم نے اُس جیسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے یقینا ایک تو اُس دن آپ کو دیکھا، جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے اور دوسرے اس روز جب آپ کی وفات ہوئی سو میں نے اُن دو دنوں جیسا کوئی اور دن نہیں دیکھا۔
جلوسِ نَبَوی میں نعرہ لگا اور وہ بھی صرف نعرۂ تکبیر:
اور امام بیہقی نے بھی حاکم سے، انھوں نے اصم سے، انھوں نے محمد بن اسحاق صنعانی سے، انھوں نے ابوالنصر ہاشم بن قاسم سے، انھوں نے سلیمان بن مغیرہ سے انھوں نے ثابت سے، انھوں نے حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے یہی روایت بیان کی ہے اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بطریقِ اسرائیل روایت ہے، وہ ابو اسحاق سے وہ حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے اور وہ (حضرت) ابوبکر صدیق (رضی اﷲ عنہ) سے حدیثِ ہجرت کے ضمن میں روایت کرتے ہیں، صدیق اکبر (رضی اﷲ عنہ) نے فرمایا: کہ جب (رسول اﷲ اور میں) ہم دونوں مدینہ میں آئے تو لوگ گھروں سے بازاروں اور راستوں میں باہر نکل آئے، مکانات کی چھتوں پر چڑھ گئے اور چھوٹے بچے اورنوکر بھی اُن کے ساتھ تھے اور وہ یوں کہتے جاتے تھے (نعرہ لگاتے تھے کہ) ’’اﷲ اکبر! اﷲ کے رسول آگئے‘‘۔ ’’اﷲ اکبر! محمد (ﷺ) آ گئے، اﷲ اکبر! محمد (ﷺ) آ گئے، اﷲ اکبر۔ اﷲ کے رسول آ گئے۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ چلے اور جس جگہ کے لیے آپ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جا چکا ہے۔ (یعنی دارِ ابو ایوب انصاری) وہاں تشریف لے گئے۔ (البدایہ، ص:۱۹۷، ج:۳، جدید طبع بیروت)
(ماخوذ: پندرہ روز ’’الاحرار‘‘ لاہور، جلد: ۱۱، شمارہ:۲۳۔۲۴۔ جلد: ۱۲، شمارہ: ۱،۲۔ مارچ، اپریل ۱۹۸۳ء)

جمعہ…… کتاب و سنت اور سیرت و تاریخ کی روشنی میں پر خیالات

  1. فیصل رشید says:

    بہت عمدہ تحقیق کی آپ نے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.