تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احرار اور سرکار کی خط و کتابت …بسلسلۂ تحریکِ کشمیر

مرتب: امام اہل سنت، مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ

آخری قسط

مکتوب وزیر اعظم بنام مفتی صاحب
وزیر اعظم آفس ، جموں
۲۵؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
محترمی جناب مفتی صاحب
آپ کے مکتوب مورخہ ۲۳؍ دسبر ۱۹۳۱ء کا شکریہ ادا کرتا ہوں، احرار لیڈرز سے جو ملاقات ہو رہی ہے، وہ پنجاب گورنمنٹ کے زیر نگرانی ہے۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ پنجاب گورنمنٹ کے ذمہ دار افسروں سے گفت و شنید کریں، اگر ضروری سمجھا گیا تو یہی افسر ہم سے خط و کتابت کر سکتے ہیں۔
اگر یہ اجتماع یہاں ہوتا تو کشمیر گورنمنٹ کے کسی ذمہ دار افسر کے لیے یہ امر درست ہو سکتا تھا کہ وہ احرار لیڈرز کے ساتھ گفت و شنید میں اس غرض سے حصہ لیتا کہ ایسے ذرائع تلاش کیے جائیں جو احرار لیڈرز کو اس تحریک کے روک دینے پر آمادہ کریں جسے ہم قطعاً نادرست خیال کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ پنجاب گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ نواب سکندر حیات خاں اور سر ہنری کریک سے تعلق پیدا کریں۔ مجھے یہ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں آپ کی اس تکلیف فرمائی کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں کہ آپ نے لاہور کا سفر اختیار کیا اور امید کرتا ہوں کہ آپ اس تحریک کو جس سے متعدد فریق مشکلات مبتلا ہیں ختم کرانے کی سعی میں کامیاب ہوں گے۔
آپ کا مخلص
ہری کشن کول
(یہ اصل خط انگریزی میں ہے)۔ یہ خط ۲۷ یا ۲۸ کو موصول ہوا تھا۔
مراسلہ مفتی صاحب بنام وزیر اعظم
لاہور
۲۹؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
جناب محترم پرائم منسٹر صاحب ریاست جموں و کشمیر
جناب کے مراسلہ مورخہ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کے لیے دلی شکریہ قبول فرمایے، جیسا کہ جناب پر روشن ہے کہ احرار لیڈرز کو ایک جیل میں جمع کرنے اور ہمارے لیے ان کے ساتھ گفتگو کا موقع بہم پہنچانے کی قرار داد ہزہائی نس مہاراجہ جموں و کشمیر اور آپ کے ساتھ ۲؍ دسمبر کو دہلی میں طے ہوئی تھی اور آپ نے فرمایا تھا کہ دورانِ گفتگو میں ریاست کا کوئی معتمد لاہور میں رہے گا یا مراسلت کا کافی انتظام کر دیا جائے گا۔
جناب کا تار موصول ہونے پر میں اسی قرار داد کے بموجب لاہور آیا اور ۲۲؍ دسمبر کو بورسٹل جیل میں احرار لیڈرز سے ملاقات کی، میں نے قاعدہ کے موافق ابتدائی مراحل طے کرنے کے لیے ۲۳؍ دسمبر کو جناب کو وہ مراسلہ لکھا، جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ معاملہ اب گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں نواب سکندر حیات خاں اور سر ہنری کریک سے ملوں۔ چونکہ اس وقت تک اس معاملے میں پنجاب گورنمنٹ سے میری کوئی خط و کتابت نہیں ہوئی اور باوجود یکہ جیل کی ملاقات کو سات دن ہو گئے۔ مجھے گورنمنٹ کی طرف سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی کہ مجھے کس افسر سے کب گفتگو کرنی چاہیے۔ اس لیے براہِ کرم مجھے بواپسی مطلع فرمائیں کہ کیا آپ نے نواب سکندر حیات خاں اور سر ہنری کریک کو بھی اپنے مراسلے کی نقل بھیج دی ہے تاکہ میں ان کی طرف سے ملاقات کی تاریخ اور وقت کی اطلاع کا انتظار کروں۔
اخیر میں مکرر آپ کے عنایت نامے کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
آپ کا مخلص
محمد کفایت اﷲ
مکتوب وزیر اعظم بنام مفتی صاحب
ہزہائی نس گورنمنٹ جموں و کشمیر
پرائم منسٹر آفس
۳۱؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
مکرمی مفتی صاحب
آپ کا مراسلہ مورخہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کو ملا، مشکور ہوں۔ میں آپ کے مراسلہ اور اس جواب کی جو میں نے ۲۵ دسمبر کو آپ کی خدمت میں بھیجا تھا، نقلیں آنریبل سر ہنری کریک اور آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب کی خدمت میں بھیج چکا ہوں۔ آپ براہِ راست نواب سکندر حیات خاں صاحب سے ملاقات فرما سکتے ہیں۔ میرے ایما سے آپ کے دہلی سے یہاں تشریف لانے کے لیے میں ممنون ہوں۔ اگر بفضلہ کوئی نتیجہ نیک پیدا ہوا تو گورنمنٹ ہم لوگوں کو باقاعدہ طور سے اطلاع دے گی۔
آپ کا صادق
ہری کشن کول
مکتوب مفتی صاحب بنام آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب
لاہور۔
دفتر مجلس خدام الدین
۳۱؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
بخدمت جناب آنریبل نواب سکندر حیات خیاں صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ۔ وزیر اعظم ریاست جموں و کشمیر کی اس اطلاع پر کہ قرار داد کے موافق احرار لیڈرز کو بورسٹل جیل لاہور میں جمع کر دیا گیا، آپ ان سے ملاقات کریں۔ میں اور مولانا احمد سعید صاحب دہلی سے لاہور آئے اور ۲۲؍ دسمبر کو احرار ورکنگ کمیٹی کی معیت میں احرار لیڈرز سے جیل میں ملاقات کی اور بعض مبادیات کے تصفیہ کے لیے ہم نے وزیر اعظم کو مراسلہ لکھا۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ معاملہ پنجاب گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ انھوں نے آپ کو میری اور اپنی خط و کتابت کی اطلاع کر دی ہے اور آئندہ گفتگو کا سلسلہ جناب سے متعلق رہے گا۔ اس لیے براہِ کرم گفتگو کے وقت اور مقام سے مطلع فرما کر منت پذیر کا موقع عنایت فرمائیں۔ میرے ساتھ مولانا احمد سعید صاحب ہوں گے
اگر کل یکم جنوری تجویز فرمائیں تو ایک بجے سے قبل یا چار بجے کے بعد کا وقت مقرر فرمائیں۔
محمد کفایت اﷲ
پریذیڈنٹ جمعیت علمائے ہند
مکتوب نواب سکندر حیات خاں بنام مفتی صاحب
سلام مسنون۔ نیاز ، آپ کا عنایت نامہ محررہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۳۱ء مجھے ۲ جنوری ۱۹۳۲ء کو شام کو ملا۔ آپ نے ملاقات کے متعلق دریافت فرمایا ہے جواباً عرض ہے کہ مجھے مسرت ہو گی اگر آپ اور مولانا احمد سعید صاحب کل بروز منگل مورخہ ۵؍ جنوری ۱۹۳۲ء ، ۴ بجے شام بندہ کے مکان (۲۱ لوئر مال) پر تشریف لے آئیں۔
خاکسار خلائق
سکندر حیات عفی عنہ
۵؍ جنوری کو مفتی صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب نے آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب سے ملاقات کی، بعض معاملہ پر باقاعدہ گفتگو اس لیے نہ ہو سکی کہ نواب صاحب نے سرکاری حیثیت سے گفتگو کرنے سے احتراز کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ معاملہ حکومت کشمیر کا ہے، ان کا کوئی نمائندہ یہاں موجود ہونا چاہیے۔ میں ذاتی حیثیت سے گفتگو کر سکتا ہوں، سرکاری حیثیت سے نہیں کر سکتا۔
اسیرانِ احرار سے بورسٹل جیل میں دوسری ملاقات:
نواب سر سکندر حیات خاں کی اختیار کی ہوئی پوزیشن کی بنا پر کوئی باقاعدہ اور تصفیہ کن گفتگو نہیں ہو سکی۔ مفتی صاحب نے مناسب سمجھا کہ تمام حالات اسیرانِ احرار کو بتا دیے جائیں۔ اس لیے چودھری افضل حق صاحب نے آنریبل نواب صاحب سے ۶؍ جنوری کو اسیروں سے ملاقات کرنے کی استدعا کی۔ نواب صاحب ممدوح نے انتظام کر دیا اور ۶؍ جنوری کو حضرت مفتی صاحب و مولانا احمد سعید صاحب اور چودھری افضل حق صاحب نے اسیر رہنماؤں سے دوسری ملاقات کی۔
اسیر رہنماؤں کو جب یہ حالات معلوم ہوئے تو انھوں نے متفق اللفظ ہو کر کہا کہ جب تک بنیادی امور کی تکمیل نہ ہو جائے اس وقت تک یہ سلسلہ نہیں بڑھایا جا سکتا۔ چنانچہ مفتی صاحب نے یہ تمام کیفیت پرائم منسٹر کو حسب ذیل مراسلہ میں لکھ کر بھیج دی۔
مراسلہ مفتی صاحب بنام وزیر اعظم
لاہور
۶؍ جنوری ۱۹۳۲ء
مکرمی جناب راجہ ہری کشن کول صاحب، پرائم منسٹر ریاست جموں و کشمیر
تسلیم! جناب کی اس اطلاع پر کہ معاملہ اب پنجاب گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور آپ نے میری اپنی مراسلت کی نقلیں آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب ریونیور ممبر پنجاب گورنمنٹ کو بھیج دی ہیں اور مجھے ان سے گفتگو کرنی چاہیے۔ کل میں نے بمعیت مولانا احمد سعید صاحب آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب سے ملاقات کی۔ نواب صاحب ممدوح یوں تو مکارم اخلاق سے پیش آئے لیکن میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب انھوں نے یہ فرمایا کہ میں نے ذاتی حیثیت سے آپ کی ملاقات کی مسرت حاصل کی ہے۔ سرکاری حیثیت سے میں اس معاملہ پر گفتگو نہیں کر سکتا۔
جب میں نے ان سے یہ کہا کہ پرائم منسٹر صاحب نے مجھے اطلاع دی ہے کہ اب معاملہ پنجاب گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور اس معاملہ میں آپ یا سر ہنری کریک گفتگو کریں تو انھوں نے فرمایا کہ پنجاب گورنمنٹ کا اس گفتگو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پنجاب گورنمنٹ کا کام صرف اس قدر تھا کہ اس نے احرار ورکنگ کمیٹی کے ممبروں کو ایک جیل میں جمع کر دیا اور آپ کے لیے ان سے ملنے اور گفتگو کرنے کی سہولت بہم پہنچا دی۔ میں جس طرح اس امر کا یقین کرنے سے قاصر ہوں کہ آپ نے پنجاب گورنمنٹ سے یہ طے کیے بغیر کہ وہ معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر تصفیہ کرا دے یہ فقرہ (اب معاملہ پنجاب گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے) مجھے لکھ کر سر ہنری کریک یا نواب سکندر حیات سے ملنے کے لیے تحریر فرما دیا ہو گا۔
اسی طرح میں اس بات کا یقین کرنے کی بھی وجہ نہیں پاتا کہ پنجاب گورنمنٹ کا ایک ذمہ دار افسر اس کے بعد کہ معاملہ پنجاب گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہو، اس طرح صاف انکار کر دے۔
جناب کو معلوم ہے کہ میں نے ہزہائی نس مہاراجہ بہادر کی دعوت پر ۲؍ دسمبر کو دہلی میں ہزہائی نس سے ملاقات کی تھی۔ ہزہائی نس کی گفتگو اور اس خط و کتابت کی بنا پر جو میرے اور دربار کشمیر کے درمیان ہوتی رہی ہے، میرا خیال تھا کہ ہزہائی نس اس کشمکش کو انصاف اور رعیت پروری و الطاف شاہانہ کی بنا پر ختم کرنے کا تہیہ فرما چکے ہیں۔ اور اسی خیال پر اس گتھی کو سلجھانے کے لیے میں نے ہز ہائی نس کے ارشاد پر اپنی خدمات پیش کرنے سے عذر نہیں کیا اور ۲۰؍ دسمبر کو دربار کے تار پر لاہور آیا اور ۵؍ جنوری تک اسی خیال و یقین کی بنا پر مقیم رہا کہ دربار کشمیر نے گفتگوئے مفاہمت کے لیے کافی انتظام کر دیا ہو گا اور مفاہمت کو کامیاب کرنے کے لیے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ۲؍ دسمبر سے ۵؍ جنوری تک کا طویل زمانہ گزارنے اور ۲۲؍ دسمبر سے ۵؍ جنوری تک لاہور میں قیام کرنے کے باوجود مفاہمت کے لیے کوئی صحیح اور مفید طریقہ بہم نہیں پہنچایا گیا، چونکہ لاہور میں طویل قیام کے باعث میرے دوسرے ضروری مشاغل کا بہت حرج ہوا ہے۔ اس لیے میں اب دہلی جا رہا ہوں اور ہز ہائی نس کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ راعی کا رعایا کے ساتھ ایسا تعلق ہے اور ہونا چاہیے جیساکہ باپ کا اولاد سے ہوتا ہے۔ ہز ہائی نس اگر تھوڑی سی توجہ سے کام لیں تو یہ گتھی جو امتداد مدت کی وجہ سے زیادہ الجھتی جا رہی ہے، آسانی سے سلجھ سکتی ہے۔ اخیر میں یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ مجلس احرار اور اس کے ذمہ دار کارکن اس تحریک کے اصلی چلانے والے ہیں۔ اس لیے آئندہ سلسلۂ گفتگو براہِ راست ان کے ساتھ ہی قائم کیا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہو کوئی ذمہ دار آفیسر گفتگوئے مفاہمت کے لیے مقرر کر کے مطلع فرمایا جائے۔ میں ممنون ہوں گا اگر جناب والا دہلی کے پتہ سے جواب عنایت فرمائیں گے، میں خط و کتابت کی اشاعت سے پہلے جناب کے جواب کا انتظار کروں گا۔
آپ کا مخلص
محمد کفایت اﷲ
خط وزیر اعظم بنا م مفتی صاحب
ہزہائی نس گورنمنٹ جموں و کشمیر
پرائم منسٹر آفس، جموں
۹؍ جنوری ۱۹۳۲ء
کرم فرمائے من مفتی صاحب
تسلیم! آپ کا عنایت نامہ مورخہ ۶؍ جنوری کو پہنچا، مشکور کیا۔ اثنائے گفتگو دہلی میں آپ کے یہ امید دلانے پر کہ اگر احرار لیڈران مقید جیل کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا جائے، جن سے آپ کو اور آزاد لیڈرانِ احرار کو تبادلہ خیال کرنے کا موقع دیا جا سکے تو کوئی ایسی صورت نکل سکتی ہے کہ جس سے تحریک احرار ختم ہو جائے (مفتی صاحب کے الفاظ یہ تھے: ’’تو ہمیں امید ہے کہ ایک باعزت مفاہمت کرا دینے میں ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ دیکھو ۲ دسمبر کی ملاقات کی روداد اور مفتی صاحب کا مراسلہ نمبر ۸ ۱، بنام وزیر اعظم)۔ میں نے افسران پنجاب گورنمنٹ سے تذکرہ کیا۔ چنانچہ میرے ایماء سے پنجاب گورنمنٹ نے لیڈران مذکو کو بورسٹل جیل میں یک جا کرنے کا انتظام کر دیا اور یہاں سے مولانا مظہر علی اظہر کو بھی لاہور بھیجوا دیا گیا اور اطلاع آپ صاحب کو دی گئی۔ لیکن چونکہ گفت و شنید پنجاب کے ایک جیل میں ہوئی تھی اور قیدیانِ مذکور بھی زیر اہتمام پنجاب گورنمنٹ تھے، اس لیے گورنمنٹ کشمیر کا کوئی دخل گفت و شنید میں نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے سابقہ خط میں آپ کو یہ تحریر کیا کہ آپ نتیجہ تبادلہ خیالات کے متعلق گفت و شنید افسران ذمہ دار پنجاب گورنمنٹ کے ساتھ کریں۔ اور آنریبل سر ہنری کریک اور آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب کی خدمت میں بھی ایسا ہی تحریر کیا۔ خیال یہ تھا کہ اگر کوئی نتیجہ ایسا برآمد ہو سکے گا جس پر گورنمنٹ کشمیر کے لیے عمل کرنا ناممکن نہیں اور تحریک بند ہو جائے تو پنجاب گورنمنٹ اس نتیجہ کی اطلاع گورنمنٹ کشمیر کو دینے میں سہولت پیدا کرے۔ ممکن ہے کہ آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب کو کوئی ایسی صورت نظر نہ آئی ہو، اس وجہ سے انھوں نے سرکاری طور پر گفتگو کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔
ؔ گو صاحب موصوف کی جانب سے کوئی اطلاع اب تک مجھے آپ کی اور ان کی ۴؍ جنوری کی گفتگو کے متعلق موصول نہیں ہوئی۔(وزیر اعظم نے سہواً ۴؍ جنوری لکھ دی ہے، ورنہ ملاقات اور گفتگو کی تاریخ ۵؍ جنوری ہے۔ دیکھو مراسلہ مفتی صاحب ، نمبری ۲۶۔ بنا وزیر اعظم)
بہرحال میں آپ کا اور مولانا احمد سعید صاحب کا لاہور تشریف لانے اور قیام رکھنے و نیز لیڈرانِ احرار کے ساتھ گفتگو کر کے معاملات سلجھانے کی کوشش کرنے کے لیے نہایت مشکور ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ جو دل چسپی آپ نے اس معاملہ میں لی ہے، اس کو آپ بغرض حصول نتیجۂ نیک جاری رکھیں گے۔
آپ نواب سکندر حیات خاں صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد اگر مجھے اطلاع دیتے کہ آپ کا ارادہ گفتگو بند کر کے دہلی جانے کا ہے تو میں فوراً آپ کو صلاح دیتا کہ آپ مجھ سے آ کر مل جائیے۔
کل ہی ایک دو صاحب نے ایک ذریعہ سے متعلقِ احرار مجھ سے گفتگو کی ہے، اگر اس میں کوئی صورت سہولت پیدا ہونے کی نظر آئی تو بشرطِ ضرورت آپ صاحبان کو پھر تکلیف دوں گا۔
آپ کا صادق
ہری کشن کول
مکتوب مفتی صاحب بنام وزیر اعظم
دہلی
۲۰ جنوری ۱۹۳۲ء
جناب مکرم! راجہ ہری کشن کول صاحب وزیر اعظم ریاست جموں و کشمیر
۹؍ جنوری اور ۱۴؍ جنوری ۱۹۳۲ء کے عنایت ناموں کا شکریہ قبول فرمایے۔ جواب کی تاخیر معاف فرمائیں۔ ۵؍ جنوری کو آنریبل نواب سکندر حیات خاں صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد ۶؍ جنوری کو اسیرانِ احرار سے ملاقات اس غرض سے کی گئی تھی کہ ان کو اس کارروائی کی اطلاع دے دی جائے جو ۲۲؍ دسمبر ۳۱ء (جبکہ پہلی ملاقات ہو ئی تھی) اور ۵؍ جنوری ۳۲ء کے درمیان حکومت کشمیر اور حکومت پنجاب کی طرف سے ہوئی۔ ۲۲؍ دسمبر ۳۱ء کی ملاقات کے بعد میں نے اپنے مراسلہ مورخہ ۲۳؍ دسمبر میں احرارلیڈرز کی طرف سے باعزت مفاہمت کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے گفتگو کی ابتدا کرنے کے لیے تین باتیں تحریر کیں تھیں۔ پہلی بات یہ تھی کہ اسیر رہنماؤں کو جیل میں باہم لنے اور تبادلہ خیالات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ شکایت ۵؍ جنوری تک بحالہ قائم تھی۔
دوسری بات یہ تھی کہ مصالحت کی بنیاد اس امر پر ہو گی کہ کشمیر میں ذمہ دار حکومت کے قیام پر غور کیا جائے، اس کے متعلق حکومت کشمیر نے کوئی تصریح نہیں کی بلکہ معاملہ کو پنجاب گورنمنٹ کی طرف محول کر دیا۔ حالانکہ یہ امر ظاہر ہے کہ یہ معاملہ ہز ہائی نس مہاراجہ کشمیر کے طے کرنے کا ہے۔ نہ حکومتِ پنجاب کا۔
تیسری بات یہ تھی کہ مفاہمت کی گفتگو کے لیے کوئی ذمہ دار آفیسر کشمیر گورنمنٹ کی طرف سے مقرر کیا جائے، اس کا نتیجہ اس وقت تک یہی تھا کہ کشمیر گورنمنٹ نے کوئی ذمہ دار آفیسر مقرر نہیں کیا۔ بلکہ پنجاب گورنمنٹ محول کیا تھا اور پنجاب گورنمنٹ کے ریونیو ممبر کے، جن سے ملاقات کرنے کی آپ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍ دسمبر ہدایت کی تھی، سرکاری حیثیت سے گفتگو کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں فرمائی تھی۔
میں نے ۶؍ جنوری کو احرار لیڈرز سے ملاقات کر کے یہ تمام پوزیشن اُن پر واضح کر دی اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ گفتگوئے مفاہمت کو آگے بڑھانے سے پہلے مذکورہ بالا بنیادی امور کی تکمیل کا انتظار کرنے میں حق بجانب ہیں۔
چونکہ ۹؍ جنوری کے خط میں جناب نے تحریر فرمایا تھا کہ دو شخصوں نے احرار کے متعلق آپ سے گفتگو شروع کی ہے، اس لیے میں بھی دعا کر رہا ہوں کہ حق تعالیٰ، اس کی نیک نتیجہ پر منتج فرمائے اور جلد از جلد باعزت سمجھوتہ ہو جائے۔
ایک مرتبہ پھر ہز ہائی نس کو پرزور توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مفاہمت میں تاخیر ہونے کے باعث پیش والی پیچیدگیوں اور مشکلات کو نظر انداز نہ فرمائیں اور جس قدر جلد اپنی رعایا کو مطمئن فرما دیں گے، اس قدر راعی اور رعایا اور ملک کے لیے بہتر ہو گا۔
آپ کا مخلص
محمد کفایت اﷲ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.