تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

حضرت اُمِّ ایمن…… رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اَنّا

آخری قسط

مولانا ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی

مرض و وفاتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم:
حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ، ایک عظیم ترین سانحہ تھا اور آپ کے صحابۂ کرام نے اس کو اپنے اپنے نقطۂ نظر سے دیکھا تھا، اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیماری کا ردِ عمل اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر الگ الگ ہوا تھا، لیکن صدمہ، تکلیف اور پریشانی یکساں طور سے سب کو ہوئی تھی، دوسرے اہل بیت کی طرح حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا بھی صدمہ سے دوچار ہوئی تھیں اور شاید ان کا صدمہ اندوہناک تر تھا کہ انھوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہلے دن سے آخر تک اپنے بچے کی مانند پالا پوسا اور پروان چڑھایا تھا۔
ایک روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیماری کے زمانے میں آپ کے پاس حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا رونے لگیں تو آپ نے اُن کو تسلی دی اور صبر کی تلقین کی، حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کو گریہ نے آ لیا تو اُن کو تسلی دی گئی اور رونے سے منع کیا گیا،کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو اختیار تھا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ کے پاس کی چیز پسند فرمائی، حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے کہا: میں اس بنا پر رو رہی ہوں کہ اب ہم سے آسمان سے وحی آنی بند ہو جائے گی۔ (۱)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب آپ کی تدفین کا معاملہ درپیش تھا تو حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے رونا شروع کر دیا، ان سے پوچھا گیا:’’کیا آپ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر آہ و زاری کر رہی ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’میں اس بنا پر نہیں رو رہی کیونکہ مجھ سے زیادہ دوسرا کوئی جاننے والا نہیں ہے جو یہ شعور رکھتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا سے بہتر زندگی کی طرف تشریف لے گئے ہیں، لیکن میں تو اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ اب ہم پر آسمان کی خبروں کا دروازہ بند ہو گیاہے‘‘۔ (۲)
امام مسلم نے یہی واقعہ حضرت اُمّ ایمن کی زیارتِ شیخین کے حوالے سے بیان کیا ہے، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اُن کے ہاں گئے تو حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا رونے لگیں، شیخین کے سوال آہ و زاری پر انھوں نے یہی جواب دیا اور حضرات شیخین بھی اس پر رو پڑے۔ (۳)
عن انس قال : قال ابوبکر بعد وفاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعمر : انطلق بنا الی اُم ایمن نزرورہا کما کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یزورہا ، فلما انتہیا الیہا بکت فقالا لہا: ما یبکیک ؟ ما عند اللّٰہ خیر لرسولہ ﷺ فقالت ما ابکی ان لا اکون اعلم انما عند اللّٰہ خیر لرسول اللّٰہ ﷺ و لکن ابکی ان الوحی قد انقطع من السماء فہیجتھما علی البکاء فجعلا یبکیان معھا۔(۴)
اولاد و احفاد
الف: حضرت ایمن بن عبید خزرجی
حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہ کے ذکرِ خیر میں اوپر گزر چکا ہے کہ ان کے پہلے شوہر عبید خزرجی سے ایک فرزند حضرت ایمن رضی اﷲ عنہ تھے، وہ عہدِ نبوی میں جوان تھے اور ایک مشہور شہ سوار تھے، روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدینے ہی رہتے تھے کہ ان کا شمار بنو عوف بن خزرج کے انصار میں ہوتا تھا، انھوں نے بعض غزواتِ نبوی میں سرگرم حصہ لیا تھا اور بعض میں وہ شرکت سے محروم رہے تھے، غزوۂ خیبر میں اُن کی غیر حاضری پر اُن کی ماں نے اُن کی نکیر و ملامت کی تھی اور شاعرِ مدینہ کو اُن کی طرف سے عذر کرنا پڑا تھا، بالآخر وہ غزوۂ حنین میں شریک ہوئے، ثابت قدمی دکھائی، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدافعت کی اور شہادت کی دولت پائی۔ (۵) ابن قتیبہ کی ایک روایت ہے کہ حضرت ایمن رضی اﷲ عنہ کے ایک فرزند کا نام جبیر تھا: و کان لایمن ابن یقال لہ جبیر (۶)
امام بخاری اور دوسرے اصحابِ حدیث و سِیَر نے بعض احادیث و روایات ایسی بیان کی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اُمّ ایمن؍ عبید خزرجی کی نسل چلی تھی، ان کے ایک فرزند کا نام حجاج بن ایمن بن اُمّ ایمنؓ تھا، وہ انصار کے فرد تھے، وہ نماز میں ایک بار رکوع و سجود صحیح ادا نہیں کر سکے تو حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے ان کو نماز دہرانے کا حکم دیا، جب وہ دوبارہ نماز ادا کر کے جانے لگے تو حضرت ابنِ عمر نے اُن کے بارے میں دریافت کیا، ان کی نسبت و نسب معلوم ہونے پر فرمایا: ’’اگر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کو دیکھا ہوتا تو ان کو بہت پیار کرتے اور پھر انھوں نے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی اولاد سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کا ذکر بہت شد و مد سے کیا۔
فقال ابن عمر : لو رأی ہذا رسول اللّٰہ ﷺ لأحبَّہ فذکر حبَّہ و ما ولدتہ أم أیمن (۷)
ب: حضرت اسامہ بن زید کلبی رضی اﷲ عنہ:
دوسرے شوہر حضرت زید بن حارثہ کلبی رضی اﷲ عنہ سے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے دوسرے فرزند حضرت اُسامہ بن زید کلبی رضی اﷲ عنہ تھے، وہ ہجرتِ مدینہ سے دس گیارہ سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے،ان کا سن ولادت ۲نبوی/ ۶۱۱ء متعین کیا جا سکتا ہے، وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزند عزیز کے فرزند دل بند تھے اور چہیتوں کے چہیتے، ان کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پوتا بھی قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے والد ماجد حضرت زید بن حارثہ کلبی رضی اﷲ عنہ، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبنیٰ (لے پالک، گود لیے ہوئے بیٹے) تھے، مدتوں ان کو زید بن محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہا گیا اور قرآنی حکم کے بعد ان کو زید بن حارثہ کہا گیا۔ مصادر میں ان کو زید الحب، محبوب نبوی اور حضرت اسامہ کو ابن الحب، فرزندِ محبوب کہا جاتا ہے۔ ان کے فضائل و مناقب پر پورے پورے ابواب کتبِ حدیث و سیرت میں ملتے ہیں۔ بلاشبہ وہ نوجوان صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں عزیز ترین نبوی تھے۔ (۸)
اسامۃ بن زید حب رسول اللّٰہ ﷺ عن اسامۃ : انہ یأخذہ والحسن فیقول : اﷲم أحبُّہما…… (۹)
حضرت ایمن بن عبید خزرجی کے وہ ماں جائے بھائی تھے یعنی ماں کی طرف سے بھائی : اخا اسامۃ بن زید لامہ ……، حضرت اسامہ بن زید کی کنیت ابو محمد تھی، لڑکپن سے ہی وہ ایک ممتاز تیر انداز تھے، رسول اﷲ صلی الہ علیہ وسلم ان کا لاڈ پیار کرتے تھے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہونے کے سبب وہ اہلِ بیتِ نبوی میں شمار ہوتے ہیں، غزواتِ نبوی میں انھوں نے غزوۂ خندق سے شریک ہونا شروع کیا، وہ بعض سرایا میں بھی گئے اور حیاتِ نبوی کے آخری سریہ میں وہ امیرِ لشکر بنا کر فلسطین بھیجے گئے جب کہ ان کی عمر محض اکیس برس تھی، مرض ووفات نبوی کے زمانے میں انھوں نے ایک فردِ خاندان کی طرح خدمات انجام دیں۔ اسلامی خلافت کے دوران ان کی خدمات قابلِ قدر تھیں، حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے دوران ان کی وفات ہوئی اور مدینے میں دفن کیے گئے، ان کی ذاتِ والا صفات ایک الگ مطالعے کی مستحق ہے، ان کی نسل مدتوں چلی، ان کے فرزند محمد بن اسامہ کا ذکر امام بخاری کی احادیث میں ملتا ہے، ابنِ حزم نے ان کے دو اور فرزندوں احسن اور زید کا ذکر کیا ہے، محمد بن اسامہ کے دو فرزندوں اسامہ اور عبد کے دونوں محمد نامی فرزند محمد تھے اور دوسرے اخلاف بھی۔ (۱۰)
وفات:
حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی وفات کے ضمن میں دو طرح کی روایات ملتی ہیں، ایک کے مطابق رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے صرف پانچ ماہ بعد ان کا انتقال ہو گیا، یہ روایت ابن السکن نے سندِ صحیح کے ساتھ امام زہری سے نقل کی ہے، بقول حافظ ابن حجر یہ روایت مرسل ہے، یہی روایت ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کی ہے اور دوسرے صاحبانِ علم نے بھی، ابن حجر کی ایک روایت کے الفاظ ہیں: و عاشت ام ایمن بعد النبی ﷺ قلیلا (۱۱)
ابن اثیر کے الفاظ یہ ہیں: ثم توفیت بعد ما توفی رسول اللّٰہ ﷺ بخمسۃ اشہر و قیل بستۃ اشھر (۱۲)
دوسری روایت پہلی روایت کے معارض ہے اور وہ حدیثِ طارق ہے جس کے مطابق ان کی وفات شہادتِ فاروقی کے بعد ہوئی، ابنِ حجر نے اس کو موصول روایت قرار دیا ہے، اس بنا پر یہ زیادہ قوی اور معتمد ہے کہ حافظ ابن مندہ وغیرہ نے اسی کو قبول کیا ہے، ابن مندہ کا اضافہ ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بیس دن بعد ان کا انتقال ہوا، اسی بنا پر واقدی کی روایت صحیح معلوم ہے جس کے مطابق اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی وفات خلافتِ عثمان رضی اﷲ عنہ میں ہوئی تھی:
قال القواقدی: ماتت اُم ایمن فی خلافۃ عثمان (۱۳)
ابنِ سعد نے یہی روایت اپنے الفاظ میں یوں بیان کی ہے:
قال محمد بن عمر : توفیت ام ایمن فی اوّل خلافۃ عثمان (۱۴)
بعض روایات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی شہادت تک وہ زندہ تھیں اور ان کی شہادت کے حادثے پر انھوں نے گریہ و زاری کی اور تبصرہ بھی کہ آج اسلام کی کمزوری کا دن ہے۔
لما قتل عمر بکت ام ایمن قالت الیوم وھی الاسلام (۱۵)
روایات کے تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اُمّ ایمن نے خلافتِ شیخین کا پورا زمانہ پایا اور وہ ۲ھ ؍۶۴۴ء میں واصل بحق ہوئیں یعنی رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لگ بھگ تیرہ سال بعد، ان کی عمر کا حوالہ اب تک کہیں نہ مل سکا، قیاس سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اَسّی سال سے اوپر ہی تھیں، کیونکہ ان کے رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر شریف تریسٹھ برس کی ہوئی تھی۔
خاتمۂ بحث:
بہت کم ایسی شخصیات تھیں جن کو رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو شروع سے آخر تک دیکھنے، پرکھنے، برتنے اور آنکھنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی، جتنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب اَنّا حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کو ملی تھی، بلاشبہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعض اعزہ و اقربا جیسے حضرت عباس بن عبدالمطلب ہاشمی کو ولادتِ مبارکہ کے قبل سے وفاتِ نبوی کے بعد تک انوارِ محمدی کا دیدار نصیب ہوا تھا مگر ان کا جلوہ و دیدار ذرا دور کا جلوہ تھا، حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا ان سب عزیزوں، قریبوں، رشتہ داروں اور جاں نثاروں سے بھی زیادہ قریب و عزیز تھیں۔
والد گرامی قدر جناب عبداﷲ بن عبدالمطلب ہاشمی کی باندی ہونے کی وجہ سے حضرت اُمّ ایمن ؍برکہ نے پہلے الدین ماجدین کو قریب سے دیکھا اور جانا تھا اور ان کے اکلوتے فرزند اکبر کو ان کی ولادت کے قبل سے پہچانا تھا، ولادت کے بعد سے تریسٹھ سال کی پختہ عمر تک رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پوری زندگی ان کی نظروں کے سامنے رہی تھی اور ہر وقت اور ہر آن اُن کی نگاہوں میں حیاتِ نبوی کی کتابِ زرّیں کا ورق ورق الٹتا اور جھلملاتا رہا تھا، کیونکہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اَنّا، دایہ، کھلائی، ماما، خدمت گزار، خادمہ، گود کھلانے والی (حاضنۃ) تھیں، ہر وقت دیکھ بھال، پرورش و پرداخت، نگرانی و خدمت گزاری کا محبت بھرا فریضہ انجام دیتی تھیں، انھوں نے رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی، ادھیڑ عمری اور پیری کے تمام ادوار دیکھے تھے، مکہ مکرمہ کے تریپن سال ان کی محبت بھری نگاہوں کے سامنے گزرے تھے، ان میں چالیس سال کا عرصہ بعثت سے پہلے کا بھی شامل تھے اور تیرہ سال کا نبوت سے سرفرازی کے بعد کا، اس میں ناکتخدائی کا زمانہ بھی تھا اور ازدواجی دور کا بھی، مکہ مکرمہ کے بعد بقیہ دس سالہ زمانۂ نبوی بھی ان کے سامنے گزرا تھا اور حیاتِ مدنی کے ایک ایک باب سے وہ واقف تھیں، بندگی و باندگی اور غلامی کے بندھن سے اگرچہ وہ نجات پا گئی تھیں، تاہم وہ ولائے نبوی اور تعلق محمدی کے رشتے سے کبھی آزاد نہ ہو سکیں، شادی کے بعد ان کا اپنا گھر بار اور اپنی آل و اولاد تھی، تاہم درِ نبوی اور بیتِ محمدی سے وہ کبھی الگ نہیں رہ سکیں، انھوں نے اپنے محبوب فرزند و رسول کو ہر آن و ہر رنگ میں بہت قریب سے اور انتہائی محبت و عقیدت سے دیکھاپرکھا تھا۔
یہ راویوں، سیرت نگاروں، اخباریوں کی بدنصیبی اور کوتاہی ہے کہ ایسی ہمہ گیر وہمہ جہت و ہمہ داں شخصیت سے رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے پل پل کی روایات حاصل نہیں کیں، بلکہ سرے سے استفادہ نہ کیا، کسی نے توفیق پالی ہوتی تو آج سیرت نبوی کے دفاتر کے دفاتر بشکل روزنامچے جمع ہو گئے ہوتے اور ان کی بنیاد پر سیرت پوری کی پوری بلا کسی خلا و کوتاہی کے ہر دن اور ہر پل کی مرتب و مدون ہو کر عظیم ادب کا باعث بن جاتی، مگر تاریخ میں اگر مگر اور لیکن کی گنجائش نہیں، یہاں قضا و قدر کی طرح موجود و مبرم ہی حقیقت و واقعہ ہے، باقی گمان۔ بہرکیف ایک اور تاریخی واقعہ یہ بھی ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی اپنی سوانح پر بھی راویوں اور اہلِ سِیَر نے قرار واقعی توجہ نہیں دی، اوپر جو کچھ جمع کر کے پیش کیا گیا ہے، وہ تنکا تنکا کٹھا کر کے آشیاں بنانے کے برابر ہے۔
ایک اور تاریخی حقیقت پوری بحث سے یہ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ خلافتِ راشدہ کے اوّلین برسوں سے متعلق ان کی سوانح حیات کا ایک سانحہ، ایک واقعہ اور ایک جزئیہ بھی ابھی تک کتب تذکرہ میں نہیں مل سکا، حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، خلیفۂ سوم کے اوّلین دنوں تک زندہ رہیں اور ان کی خلافت راشدہ کے بیسویں دن ہی وہ اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سدھاریں۔ اس پورے تیرہ سالہ عرصۂ کارگزاری میں ان کا صرف ایک تبصرہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی شہادت سے متعلق منقول ملا ہے، یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ خلافتِ صدیقی اور خلافت فاروقی کے بالترتیب ڈھائی سال اور ساڑھے دس سال کے عرصے کے دوران انھوں نے نہ کچھ دیکھا سنا ہو اور نہ کچھ کیا دھرا ہو، وہ ایک کار گزار خاتونِ عظمت و جاہ تھیں اور سب سے بڑھ کر وہ اہلِ بیت نبی کا بقیہ نقیہ تھیں اور اس حیثیت سے ان کا ایک منفرد مقام و مرتبہ عالی تھا، پھر حضرات شیخین، ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اﷲ عنہما اُن کے مقام قرب نبوی اور جاہِ عالی سے بخوبی واقف تھے اور اسی بنا پر اُن کی زیارت بلکہ زیارات کے لیے تا عمر آتے رہے تھے، اس لیے ان کا سوانحی خاکہ خاصا مالا مال تھا اور اسلامی تاریخ کے اس دور میں ان کا عطیہ بھی گراں قدر رہا تھا، لہٰذا یہ عرصۂ سوانحِ حیات ایک اور تحقیقی مقالے کا متقاضی ہے۔
سیرتِ نبوی پر راویوں و اخباریوں کی کوتاہ توجہی کے باوجود حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی سوانح کا ایک حصہ بہرحال محفوظ ہو گیا اور خالصتاً سیرت نبوی ہی کا عطیہ و فیضان ہے۔ ان کی زندگی کا رشتہ اگر حیات نبوی سے اتنا مضبوطی اور گہرائی سے جڑا نہ ہوتا تو دستیاب معلومات کا حصہ بھی تدوین کی کوتاہی کا شکار بن جاتا، جیسا کہ خلافتِ راشدہ سے وابستہ زمانۂ حیات کے سوانح و واقعات کا حشر المناک ہوا، بہرکیف جتنی سیرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا مل سکی ہے، وہ ان کی شخصیت و صفات کو نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے، کم از کم عہدِ نبوی تک۔
برکہ حبشیہ رضی اﷲ عنہا ان حبشی نژاد غلاموں اور باندیوں میں سے ایک تھیں جن کو بردہ فروشی ان کے وطن سے اکھاڑ کر مکہ مکرمہ لے آئی، جہاں حبشی غلاموں کی خاصی بڑی تعداد اکابرِ قریش کے گھروں میں چاکری کرتی تھی، ان کی خوش قسمتی کہ وہ جناب عبداﷲ بن عبدالمطلب ہاشمی کی باندی بنیں اور وہیں ان کو نبوی اَنّا بننے کی سعادت ملی، ابنِ عبدالبر اور ان کی پیروی میں ابن حجر عسقلانی نے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کا جو نسب نامہ بیان کیا، وہ ان کے مدنی و خزرجی ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حبشہ میں ایسے نام ہوتے تھے اور نہ ایسے نسب نامے، بالخصوص عہد جاہلی کے ایام میں، ایک امکان یہ ہے کہ وہ بعض دوسرے عرب نژاد بچوں، بچیوں کی مانند بردہ فروشوں کے ہاتھ لگ گئی ہوں اور یثرب سے حبشہ میں لے جا کر فروخت کی گئی ہوں اور پھر وہاں سے مکہ مکرمہ ’’حبشیہ‘‘ بن کر واپس ہوئی ہوں اور وہ اسی طرح کی حبشیہ ہوں جس نوع کے حضرت صہیب نمری قاسطی صہیب رومی بن گئے تھے، لیکن یہ صرف قیاس ہے اور ان کی بنیاد کا مذکورہ بالا نسب نامہ ہے اور حضرت صہیب رومی جیسے عرب بچوں کی غلامی کی بنا پر جلا وطنی۔
جناب عبداﷲ ہاشمی اور بی بی آمنہ کے گھر مں بسر ہونے والی زندگی کی روداد نہیں ملتی، البتہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرورش و پرداخت اور حضانت کے حوالے سے بعض واقعات کا ذکر ملتا ہے اور ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ والدہ ماجدہ کی زندگی میں اوّل روز سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کرتی رہی تھیں اور تمام تر محبت و الفت اور دلی جذبے کے ساتھ کرتی تھیں اور شفیق و کریم دادا جناب عبدالمطلب کی ہدایت کے بعد وہ جی جان سے اپنے فرائض انجام دینے لگی تھیں اور ماں کی وفات کے بعد انھوں نے تو ایک طرح سے ماں بن کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پالا تھا اور یہ سلسلہ حضانت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچپن و لڑکپن کے زمانے کے علاوہ جوانی کی عمر تک چلا تھا، اسی بنا پر رسولِ اکرم ان کو اپنی ماں سمجھتے تھے اور زندگی بھر سمجھتے رہے اور اپنے خاندان کا فرد بھی سمجھا۔
روایات میں ذکر تو نہیں آتا لیکن یقینی ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں ان کی ماں کی حیثیت سے پچیس سال کی عمر شریف تک رہیں اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے شادی کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا، تاہم وہ عرب روایات کے مطابق مولیٰ (ولا) کے رشتے سے آپ کے خاندان سے ہمیشہ وابستہ رہیں اور اپنی شادی تک بیتِ نبوی میں بھی رہیں، عبید بن عمرو خزرجی سے شادی کے بعدبھی وہ ایک فرد اہلِ بیت تھیں، قیام مکہ کے دوران ان کا رابطہ برابر قائم رہا اور مدینے کے مختصر قیام کے دوران بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے تعلق ٹوٹا نہیں تھا کہ آپ صلہ رحمی کے اعلیٰ ترین تعلق پر عامل تھے اور عرب روایت بھی یہی تھی، عبید خزرجی کی وفات کے بعد حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کو اپنے گھر یعنی بیت نبوی واپس آنا پڑا اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سائے میں ان کی دوبارہ زندگی شروع ہوئی، یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد ان کی دوسری شادی حضرت زید بن حارثہ کلبی سے بنفس نفیس فرمائی، یہ دونوں موالیِ نبوی اور افراد اہل بیت کی زندگی کی بھی وابستگی ثابت ہوئی۔
دوسرے افراد اہل بیت کی مانند حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے شروع ہی میں اسلام قبول کیا اور انھیں کی طرح مکہ مکرمہ میں تمام مصائب برداشت کیے اور انھیں کی طرح مدینہ منورہ ہجرت کی، ان کی ہجرت حبشہ کی روایت اس نئی گواہی کی بنا پر بھی غلط ہے، مدینہ منورہ میں وہ اہلِ بیت کی طرح رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہمیشہ وابستہ رہیں، اگرچہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں اپنی اولاد کے ساتھ رہتی تھیں۔ انھوں نے غزوات میں حصہ لیا، اگرچہ واضح ذکر تو صرف اُحد اور خیبر کا ملتا ہے مگر قرائن کہتے ہیں کہ وہ سب غزوات میں نہ سہی تو بیشتر میں ضرور شریک رہی تھیں اور ان میں دوسری خواتینِ اہلِ بیت یعنی ازواجِ مطہرات کی مانند گراں قدر خدمات انجام دی تھیں۔ اس سے زیادہ ان کی خدمات رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والوں کے لیے وقف تھیں۔ ذکر تو صرف چند کا ملتا ہے مگر اصل حقیقت یہ تھی کہ وہ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ بابرکات اور اہلِ بیت کے تمام معاملات و امور میں ایک بزرگ خاندان کی طرح شریک و دخیل تھیں، شاید ان کی محبت و الفت کا سبب اُن کے شوہر حضرت زید اور ان کے فرزند حضرت اسامہ اور دوسرے فرزند حضرت ایمن محبوبانِ نبوی میں سرِ فہرست تھے، حقیق ماں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھے سال کی عمر میں داغ دے گئیں مگر پرورش کرنے والی ماں نے زندگی بھر رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سرِ اقدس پر اپنا محبت بھرا دوپٹا رحمتِ الٰہی کی مانند سایہ فگن رکھا تھا۔
﴿ حواشی ﴾
(۱) بلاذری: ج۱، ص: ۵۵۔ (۲) بلاذری: ج۱، ص: ۵۶۷۔ ابن حجر۔ الاصابہ نمبر ۱۱۴۵ بروایت مختلفہ۔ (۳) صحیح مسلم: کتاب الجہاد، باب فضائل اُمّ ایمن۔ مسعود احمد: ص ۸۵۸۔ (۴) ابن حجر۔ الاصابہ: ج۴، ص: ۴۱۶۔ (۵) ابنِ ہشام: ج۴، ص: ۷۲، ۹۲: فہرست شہدائے حنین میں حضرت ایمن رضی اﷲ عنہا کو قریش اور بنو ہاشم کا شہید قرار دیا گیا ہے۔ واقدی: ج۳، ص۹۰۰۔ صابرین کی فہرست میں ذکر حضرت ایمن: ج۳، ص ۹۲۲: شہدائے فہرست میں ذکر ایمن ابن عبید /ابن ام ایمن: ج۳، ص۹۰۲۔ دفاع نبوی میں، کتاب المعارف: ص: ۱۴۴۔ (۶) صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، باب ذکر اسامہ بن زید۔ فتح الباری: ج۷، ص: ۱۱۲، ۱۱۴۔ ابن سعد: ج۸، ص۲۲۵۔ (۷) بخاریح، صحیح، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، باب مناقب زید بن حارثہ مولیٰ النبی و قال البراء عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم انت اخونا و مولانا ،مسلم صحیح، کتاب الفضائل، فضائل زید بن حارثہ اور مختلف ابواب بخاری و مسلم جیسے کتاب الحج وغیرہ، باب ذکر اسامہ بن زید۔ (۸) مسلم، صحیح، کتاب الفضائل، فضائل زید بن حارثہ اور مختلف ابواب جیسے کتاب الایمان، کتاب الحج۔ بلاذری: ج۱، ص۴۶۷۔ زید الحب: ج۱، ص:۴۷۳،۴۷۶۔ اسامہ بن زید۔ استیعاب، الاصابہ، اسد الغابہ میں ان کے تراجم۔ (۹) ابنِ حزم اندلسی۔ جمہرۃ انساب العرب۔ قاہرہ ۱۹۴۸ء: ص۴۲۸،۴۲۹۔ حضرت اسامہ کو حب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کہا گیا ہے۔ بخاری، صحیح، کتاب المغازی، باب بعث النبی صلی اﷲ علیہ وسلم اسامۃ بن زید الخ: و ان کان لمن احب الناس اِلیَّ و ان ہذا لمن احب الناس الی بعدہ ۔ (۱۰) ج۷ ، ص۱۱۳۔ (۱۱) اسد الغابہ: ج۵، ص:۵۶۸۔ (۱۲) الاصابہ: ج۴، ص۴۱۶، ۴۱۷۔ (۱۳) ج۸، ص۲۲۶۔ (۱۴) ج۸، ص۲۲۶۔ (۱۵) الاصابہ: ج۴، ص۴۱۶۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.