رپورٹ: حافظ محمد سلیم شاہ
مجلس احراراسلام چیچہ وطنی کے دفتر کے کارکن اور میڈیا کے ذمہ دار ہونے کے ناطے مجھے مجلس احراراسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ کے ساتھ اکثر سفر کرنے کے مواقع ملتے رہتے ہیں جو میرے لئے ایک اعزاز کی بات ہے اس دوران مجھے بہت کچھ سیکھنے کے لیے ملتاہے 16؍مارچ بروز ہفتہ کو قائد آباد(خوشاب) کے قریب چک نمبر 2-TDA(مٹھہ ٹوانہ)کی جامع مسجد یمامہ ،، جو تقریبا 42سال سے قادیانیوں کے جبری تسلط میں رہی کی واگزاری کو تین سال مکمل ہونے پر وہاں ختم نبوت کانفرنس جس کا اعلان 3؍ مارچ کو انتقال کر جانے والے بابا سید اطہر حسین شاہ گولڑوی رحمتہ اﷲ علیہ خود کرگئے تھے،ان کے صاحبزادے سید علی اطہر شاہ بخاری کی میزبانی میں منعقد ہوئی۔
جناب رانا قمر الاسلام اور راقم الحروف چیمہ صاحب کی معیت میں دوپہر سے قبل پروگرام کے مطابق جامعہ سعدیہ جوہرآباد پہنچ گئے جہاں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماء مفتی زاہد محمود سراپاانتظار تھے، خطیب احرار مولانا تنویر الحسن، اور خوشاب سے مولانا عدنان حذیفہ بھی ہمارے قافلہ میں شامل ہوگئے، اور ہم کھانا کھانے کے بعد جامعہ ابوہریرہ ھڈالی پہنچے جہاں جے یو آئی خوشاب کے سابق امیر قاری محمد سلیم کے ہاں چائے پینے کے بعد قبل از ظہر مسجد یمامہ پہنچ گئے، گہما گہمی دیکھ کر مجاہدِ ختم نبوت مرحوم سید اطہر حسین شاہ کی یادیں تازہ ہونے لگیں، سب حضرات نے سید علی اطہر شاہ بخاری ، ابوالحسن اطہر شاہ بخاری ، اور دیگر احباب سے مجاہد ختم نبوت سید اطہر حسین شاہ کی تعزیت و دعائے مغفرت کے بعد ضروری مشورہ بھی کیا کہ ان کے انتقال کے بعد قادیانیت کے اثرورسوخ والے اس علاقے میں کام کیسے کرنا ہے۔
کانفرنس شروع ہوئی تو مفتی زاہد محمود نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں قادیانی سازشیں بے نقاب کرنے پر سید اطہر حسین شاہ مرحوم کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ مرد مجاہد ڈٹا رہا، مولانا تنویر الحسن احرار نے کہا کہ عقیدہ ٔختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے استیصال کے لیئے تمام مکاتب فکر ایک پیج پر ہیں اور گولڑوی صاحب مرحوم کے جرأت مندانہ کردار کو ان شاء اﷲ تعالیٰ جاری و ساری رکھا جائے گا، جناب عبداللطیف خالد چیمہ نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ملکی سلامتی کے خلاف قادیانی نیٹ ورک کا فوری سدباب کیا جائے انہوں نے کہا کہ 3سال قبل ایک طویل قانونی وعدالتی جنگ لڑکے تحریک ختم نبوت کے بزرگ رہنما باباسید اطہر حسین شاہ گولڑوی نے مسجد کو قادیانیوں کے قبضہ سے واگزار کرایا اورتحریک ختم نبوت آج اس فیصلے کا تیسراجشن منارہی ہے۔انہوں نے کہاکہ قادیانی ترجمان سلیم الدین نے کہاہے کہ ’’1974ء کی قرارداد اقلیت کو بائی فورس منظور کرایا گیاتھا‘‘۔ سلیم الدین کی یہ بات سراسر خلاف واقعہ اورآئین اورریاست سے بغاوت کے مترادف ہے۔انہوں نے کہاکہ وفاقی وزیر پیر نورالحق قادری نے کہاہے کہ ’’آئین
میں قادیانی غیرمسلم اقلیت ہیں اور ان کو اقلیت ہی تصور کیاجاتاہے ‘‘۔ عبداللطیف خالد چیمہ نے اس پرکہاکہ وزیر مذہبی اموریہ بھی بتائیں کہ جن کو آپ اقلیت کہہ رہے ہیں کیاوہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ سید اطہرحسین شاہ گولڑوی نے زندگی بھر قادیانیوں کامردانہ وار مقابلہ کیااور عدالتی وقانونی چارہ جوئی کے ذریعے قادیانیوں کو ہمیشہ شکست دیتے رہے ،مولاناضیاء اﷲ سیالوی (کراچی ) ،قاری محمد ریاض (لاہور)، عرفان محمودبرق(لاہور)، چیئرمین قائدآباد حاجی احمد ،ملک عمر دراز جوئیہ ، رانااکبر محمود ، رانا محمد سلیم ، پیر شمس العارفین شاہ ہمدانی، قاری محمد باسط ، حافظ محمدعثمان سیالوی ، قاری محمد سلیم ، مولاناعدنان حذیفہ اور دیگر حضرات نے شرکت وخطاب کیا۔
مقررین نے کہاکہ قادیانی اپنے کفر کو اسلام کا نام دے کر پھیلاتے ہیں جو ارتداد اور زندقہ کی ذیل میں آتاہے ،مقررین نے کہاکہ حکومت عاشقان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ستارہی ہے اورگستاخانِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بچارہی ہے۔کانفرنس کی قراردادوں میں مطالبہ کیاگیا کہ ارتداد کی شرعی سزا نافذکی جائے ،مساجد سے مشابہت رکھنے والی قادیانی عبادت گاہوں کی ہیئت تبدیل کی جائے ،امتناع قادیانیت ایکٹ پر مو ثر عمل درآمد کرایا جائے ،قادیانی جماعت کو خلاف قانون قرار دے کران کے دفاترسیل اور فنڈز ضبط کیے جائیں ،سودی معیشت کا خاتمہ کرکے اسلامی معیشت کو رائج کیاجائے ،ربوہ کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دیئے جائیں اور 295-Cمیں کسی قسم کی ترمیم نہ کی جائے ۔مقررین نے سیداطہر شاہ بخاری کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ یہ مسجد ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔ اﷲ پاک ان کے ورثاء کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ختم نبوت کے محاذ پر قادیانیوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑے رہنے کی ہمت عطاء فرمائے۔
مجاہد ختم نبوت غازی سید اطہر حسین شاہ گولڑوی مرحوم و مغفور کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ تخت ہزارہ تحصیل بلوال ضلع سرگودھا میں مسجد گلزار مدینہ نامی مسجد جو عرصہ دراز سے مسلمانوں کے پاس تھی اس پر علاقہ کے بااثر قادیانیوں نے قبضہ کر لیا ،جس پر سید اطہر شاہ گولڑوی نے عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے ہائی کورٹ تک عدالت میں قادیانیوں کو شکست سے دوچار کیا،جس پر 10؍ نومبر2000 ء کو قادیانیوں نے ان کو اغوا کرلیا اورشدید تشدد کر کے زخمی کر دیا۔مرزائی کہنے لگے کہ اگر ہماری مخالفت سے باز نہیں آؤ گے تو تمہیں ابھی جان سے مار ڈالتے ہیں۔ شاہ صاحب نے یقین کرلیا کہ ان کا آخری وقت ہے لہٰذا پوری قوت سے ’’نعرہ تکبیر ‘‘بلند کیا اور ارد گرد آواز پہنچی تو لوگوں نے دیوار توڑ کر انہیں نکالا۔اگر لوگ بروقت نہ پہنچتے تو مرزائی صف میں لپیٹ کرجلانے لگے تھے ، جب لوگ پہنچے تو شدید تشدد کے تنیجے میں وہ جان بلب تھے، ان کا سر کھُلا ہوا تھا، اور دماغ کا کچھ حصہ نکل کر ان کے بالوں میں تھا۔ عوام الناس ان کو فیصل آباد الائیڈ ہسپتال لے گئے جہاں وہ تقریبا ایک ماہ کومے میں رہے، ایک مہینے کے بعد ہوش آیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ زندگی عطاء فرمائی بعد ازاں وہ قائد آبا دمنتقل ہو گئے اور ختم نبوت کے کام کے لیے سرگرم کردار ادا کرنے لگے ،یوں کئی معرکے انہوں نے سرکئے ،یکم دسمبر 2018 ء کو جناب عبداللطیف خالد چیمہ کے دورے کے موقع پر جامعہ سعدیہ جوہر آباد میں کہنے لگے کہ اب میں جانے والا ہوں ،تا آنکہ تین مار چ کو یہ قلندر اپنی حسین یادیں چھوڑ کر اﷲ کے پاس چلا گیا۔ اﷲم اغفر لہ وارحمہ!
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را