مجلس احراراسلام پس منظر پیش منظر
سید عطاء المنان بخاری
۲۹ دسمبر مجلس احرا ر اسلام کا یوم تاسیس ہے آج سے ۸۷ سال قبل ۱۹۲۹ میں اسی تاریخ کو دریائے راوی لاہور کے کنارے کانگریس کے اجلاس کے اختتام پر نہرو رپورٹ دریا میں بہا دی گئی، کامل آزادی کا ریزولیوشن پاس ہو ا۔ علی برادران کی طرف سے تحریک خلافت کے خاتمے کے اعلان کے بعد خلافت پنجاب کے رہنماؤں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، شیخ حسام الدین، خواجہ عبد الرحمن غازی، اور مولانا مظہر علی اظہر رحمہم اللہ جیسے سر بکف مجاہدوں نے اس انقلابی جماعت کی بنیاد رکھی۔
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری مجلس احرار اسلام کے پہلے صدر اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی پہلے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مجلس احرار اسلام کے قیام میں مولانا ابو الکلام آزاد اور علامہ محمد انور شاہ کاشمیری کی زبردست خواہش اور مشورہ شامل تھا۔ تاسیسی اجلاس سے امیر شریعت نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہر اول دستہ ثابت ہوں اور آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصے میں آئے۔ استبداد کی چکی کا دستہ گورے کے ہاتھ میں ہو یا کالے کے ہاتھ میں، چکی وہی رہتی ہے اور میں اس چکی کو توڑدینا چاہتا ہوں۔ غلامی بہت بڑا گناہ ہے، اگر اس گناہ سے نکلنا ہے تو اس سے بہتر کوئی موقع نہیں کہ ہم انگریزوں کے خلاف پر امن لڑائی میں شامل ہو جائیں۔‘‘
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ :
’’ہم نے مجلس احرار کی بنیاد رکھی، اللہ کا شکرہے کہ مسلمانوں نے ہماری آواز کو سنا اور قبول کیا۔ اگر ہم صدق د ل سے کام کرتے رہے تو میرا یقین ہے کہ عنقریب ہر گوشہ میں مجلس احرار اسلام کا نظام پھیل جائے گا۔‘‘
دین کے متوالوں اور آزادی کے علمبرداروں نے انگریزی استعمار کے شدید مظالم کے مقابلے میں دل برداشتہ اور مایوس ہونے کے بجائے عزم کامل اور پوری جرأت وشجاعت کے ساتھ حریتِ اسلامی اور آزادیِ وطن کا علم بلند کیا۔ شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید،محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، شیخ الہند محمود حسن، حافظ ضامن شہید، عبید اللہ سندھی اور انور شاہ کاشمیری رحمہم اللہ کے روحانی بیٹوں نے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی، انہیں منظم کیا، عدم تشدد کی حکمت، مخلوق کی خدمت اور پر امن جد وجہد کے اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھے اور بڑھتے ہی چلے گئے۔ انھوں نے انگریزی استبداد کے تمام تر مظالم کے مقابلے میں احرار کا چراغِ مصطفوی روشن رکھا۔ احرار کا قافلۂ ولی اللّٰہی اپنی مکمل دینی شناخت او رپہچان کے ساتھ تحریک آزادی میں کامیابی، مسلمانوں کے عقیدہ وایمان کی حفاظت اور خدمت انسانیت کے جذبوں کو پروان چڑہانے کی جدو جہد میں اپنی قربانیوں کا رنگ بھرتا چلا گیا۔ تحریک کشمیر، تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت، تحریک بحالیئ مسجد شہید گنج، تحریک مسجد منزل گاہ سکھر، تحریک امداد وتعاون زلزلہ زدگان کوئٹہ ومتأ ثر ین قحط بنگال جیسی درجنوں تحریکوں کی قیادت کی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا حق ادا کردیا۔ ہندوستان کے جید علماء ومشائخ کی دعائیں اور سرپرستی احرار کے شاملِ حال رہی۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے احرار کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کی بیس سال کے لیے رکنیت قبول کی۔ حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری رحمہ اللہ (خانقاہ دین پور شریف) نے دعاؤں کے ساتھ تائید وحمایت کی۔ حضرت مولانا احمد خان اور مولانا محمد عبد اللہ (خانقاہ سراجیہ، کندیاں) نے بھرپور سرپرستی کی۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ نے مکمل تائید وحمایت کے ساتھ ساتھ احرار کے اجتماعات میں شرکت کی۔ شاہ عبد القادر رائے پوری رحمہ اللہ تو مرشدِ احرار بن گئے۔ احرار کی نصف سے زائد قیادت حضرت رائے پور ی کے دامنِ محبت وشفقت سے وابستہ ہوگئی۔ قافلۂ احرار میں ماسٹر تاج الدین انصاری، صاحبزادہ فیض الحسن، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا محمد گل شیر شہید، مولانا غلام غوث ہزاروی، مفتی عبد القیوم پوپلزئی، مولانا محمد حیات، آغا شورش کاشمیری رحمہم اللہ اور دیگر حضرات شامل ہوئے تو بہادروں اور مخلصوں سے احرار کا سٹیج سج گیا۔ حضرت مولانا لال حسین اختر رحمہ اللہ، قادیانیت ترک کر کے افقِ احرار پر نمودار ہوئے تو قادیانیت کے لیے قہرِ الٰہی ثابت ہوئے۔ مولانا عنایت اللہ چشتی رحمہ اللہ جان ہتھیلی پر رکھ کر قادیان میں پہلے مبلغِ ختم نبوت کے طور پر تعینات ہوئے توقصرِ قادیانیت پر لرزہ طاری ہوگیا۔
تحریک آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوئی، ملک آزاد ہوا، پاکستان وجود میں آگیا۔ تقسیم ملک کے خونچکاں عمل میں لٹے پٹے مسلمان پاکستان میں منتقل ہوئے تو اقتدار کی راہداریوں میں استعماری ایجنٹ قادیانیوں نے پھر سازشیں شروع کردیں۔ سرظفر اللہ قادیانی پہلا وزیر خارجہ بنااور پاکستان کے اقتدار پر خدانخواستہ قادیانی قبضے کے منصوبے بننے لگے۔ قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین کی طرف سے بلوچستان کو ’’احمد ی اسٹیٹ‘‘ بنانے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ احرار کا بوڑھا جنریل امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ سب کچھ دیکھ سن کر تڑپ اٹھا۔ ۱۹۵۳ء میں ان کی ایک ہی للکار نے جہاں ایک طرف تمام مکاتب فکر کو تحفظ ختم نبوت کی مقدس تسبیح میں پرو دیا وہاں اسلام اور وطن کے خلاف قادیانی سازشوں کا جال توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ شہدائے ختم نبوت نے قربانی وایثار کا حق ادا کردیا۔ حکومت نے مجلس احرار اسلام کو تحفظ ختم نبوت کے ’’جرم‘‘ کی پاداش میں خلاف قانون قرار دے دیا۔ رہنما قید کر دیے اور کارکنوں کو تشدد کے ذریعے چپ کرانے کی کوشش کی گئی لیکن قافلۂ احرار کسی نہ کسی رنگ میں قوم کی رہنمائی اور خدمت کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ ستمبر ۱۹۵۸ء میں جماعت چند دنوں کے لیے بحال ہوئی اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے چوک گھنٹہ گھر ملتان میں دفتر احرار کا افتتاح اور پرچم کشائی کی اسی طرح ملک بھر میں دفاتر احرار کھلے اور پرچم کشائی کی تقاریب منعقد ہوئیں۔ ان اجتماعات سے صدر احرار شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری اور مولانا مظہر علی اظہر کے علاوہ دیگر احرار رہنماؤں نے خطاب کیا۔ لیکن اکتوبر ۱۹۵۸ میں صدر ایوب خان نے مارشل لا لگا کر تمام جماعتوں کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ مجلس احرار بھی اس پابندی کی زد میں آگئی۔ ۱۹۶۲ء میں احرار سے پابندی ختم ہوئی تو جانشین امیر شریعت مولانا سید ابوذر بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے احرا رکی قیادت اور سیادت کا علم تھاما۔ اکابر احرار کی اس عظیم وراثت کی حفاظت کا حق ادا کرتے ہوئے مجلس احرار اسلام کو از سرِ نو منظم کیا۔ انہوں نے اعتقادی وفکری بنیادوں پرقافلۂ احرار کی تشکیل نو میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی قیادت مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی اور دیگر رہنماؤں کی رفاقت میں تحریک کو کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔ شہدائے ختم نبوت کا خون بے گناہی رنگ لایا اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔
تحریک تحفظ ختم نبوت ہو یا تحریک تحفظ ناموس رسالت، احرار نے ہر موقعے پر جرأت استقامت کے ساتھ اپنا دینی وقومی فریضہ ادا کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ابنائے امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاری، حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہما اللہ، مولانا سید عطاء المومن بخاری مدظلہٗ، حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم نے بقائے احرار کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کر دیں۔ پرچم احرار بلند رکھا اور اپنے عظیم نصب العین کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ جس کے نتیجے میں قافلۂ احرار آج بھی حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم کی قیادت میں رواں دواں ہے۔ جناب عبد اللطیف خالد چیمہ (سیکرٹری جنرل مجلس احرار اسلام) کی مدبرانہ صلاحیتوں کے نتیجے میں حلقۂ احرار وسیع ہور ہا ہے۔ ملک بھر میں تیس سے زائد دینی ادارے اور دفاتر کا نظام متحرک ہے۔ ردِّ قادیانیت پر مشتمل لٹریچر ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوکر تقسیم ہو رہا ہے۔ ۲۹؍ دسمبر کو ملک بھر میں جماعت کے یوم تاسیس کے حوالے سے پرچم کشائی کی تقاریب منعقد ہو رہی ہیں جن میں پاکستان اور احرار کے پرچم لہرائے جائیں گے۔ مرکزی تقریب دارِ بنی ہاشم ملتان میں منعقد ہوگی۔ جس میں قائد احرار حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری اور مرکزی نائب امیر سید محمد کفیل بخاری پرچم کشائی کے بعد احرار کارکنوں سے خطاب کریں گے۔ جبکہ مجلس احرار کے مرکزی ناظم نشرو اشاعت میاں محمد اویس اور رکن مرکزی مجلس شوریٰ ڈاکٹر شاہد کاشمیری ایوانِ احرار لاہور، مرکزی ناظم اعلیٰ عبد اللطیف خالد چیمہ چیچہ وطنی، مرکزی ناظم تبلیغ مولانا محمد مغیرہ چناب نگر، ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد عمر فاروق اور مولانا تنویر الحسن تلہ گنگ میں یوم تاسیس اور پرچم کشائی کی تقاریب سے خطاب کریں گے۔
وطنِ عزیز پاکستان جن حالات اور آزمائشوں سے گزر رہا ہے وہ پوری قوم کے لیے سخت امتحان ہے۔ اگرچہ ۱۹۴۷ء میں ہمیں انگریز سے آزادی ملی اور ساتھ ہی امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیے گئے۔ علماء، طلباء، دینی اداروں اور دینی جماعتوں پر جیسا برا وقت انگریزی استعمارکے دور میں آیا اس سے ملتی جلتی کیفیت آج پھر درپیش ہے۔ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے، ایک بہترین آئین ہمارے پاس ہے ہمیں پاکستان کی آزادی وخود مختاری اور بقاء وسلامتی کے تحفظ کے لیے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ایک بار پھر فیصلہ کن اور پر امن جدوجہد کرنا ہوگی۔ ملکی سیاست میں احرار کو اپنا تاریخی کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے اور آئین کے مطابق ایک مکمل اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تمام دینی قوتوں کے شانہ بشانہ متحد ہوکر زبردست جدوجہد کرنا ہوگی۔ تمام دینی قوتیں ایک دوسرے کی حلیف ہیں اگر ہم اس حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا وزن ایک پلڑے میں ڈال دیں تو موجودہ آزمائش اور امتحان میں بھی سرخرو ہوں گے۔ ان شاء اللہ