سید محمد کفیل بخاری
تقربیاً دوسو ممالک اس وقت کرونا وائرس کی زدمیں ہیں۔ گزشتہ تین ماہ سے دنیا بھر کے لوگ ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہیں اور انسانی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ نظرنہ آنے والے ایک چھوٹے سے جراثیم کے آگے دنیا کی ساری سائنس وٹیکنالوجی بے بس اور ڈھیر ہو چکی ہے۔ وہ گروہ جو ساری دنیا کو ساتھ لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ ایک ہفتے میں سب کچھ تباہ کرکے افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کردے گا۔ آج انھی بین الاقوامی دہشت گردوں کا پوراکنبہ کرونا وائرس کے سامنے لاچار واپاہج ہوکر رہ گیاہے۔
سوشل میڈیا کے محققین اور تجزیہ وتبصرہ نگار بھانت بھانت کی بولیاں بول کر لایعنی بحثوں کے ذریعے چین، امریکہ ، برطانیہ کو اس وائرس کا موجو دہ ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ بالفرض اس تھیوری کو مان بھی لیا جائے تب بھی یہ ان ممالک کے اپنے اعمال کی سزا ہے۔ چین میں قرآن پاک کے نسخوں کو مسلمانوں کے گھروں سے چن چن کر اٹھایا اور جلایا اور گیا۔ سنگیانگ میں مسلمانوں کا قتل عام، اور امریکہ و برطانیہ کی طویل ظالمانہ استعماری حرکتیں ایک بڑی وجہ ہیں۔ عراق و شام فلسطین و افغانستان اور برماو میا نمار کے مظلوم وبے گناہ لوگوں پر انسانیت سوز مظالم، اُن کا قتل عام اور نسل کشی اس عذاب کا سبب ہے۔ قرآن کریم میں تو اﷲ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے ہی متوجہ فرمایا ہے۔
ــ’’خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھ کی کمائی سے فساد پھیل گیا ہے۔ تاکہ اﷲ اُن کو مزہ چکھائے اُن کے بعض اعمال کا کہ وہ باز آ جائیں‘‘ (الروم: ۴۱)
آہ! کتنے سفاک ہیں وہ لوگ کہ اس مصیبت کی گھڑی میں بے بسی کے باوجود اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع کرنے کی بجائے مقابلہ کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔ یقینا ظالم اس کا بھی مزہ چکھیں گے اور اپنے کیے کی سزاپائیں گے۔
وطن عزیز پاکستان بھی کرونا وائرس کی وبا سے متاثر ہوا ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں کی صورت حال بہت بہتر ہے۔ متاثرین بھی کم ہیں اور اموات بھی زیادہ نہیں ہوئیں۔ متاثر ہونے والوں کی اکثریت صحت یاب ہورہی ہے ۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ جناب شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ: ’’یہ درست ہے کہ کروناوائرس تفتان سے ایرانی زائرین کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوا، لیکن بعد میں چین اور یورپ سے آنے والے پاکستانیوں کے ذریعے بھی پھیلا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ تفتان سے پاکستان داخل ہونے والے زائرین کے ٹیسٹ کیوں نہیں کیے گئے؟ انہیں بارڈر پر ہی قرنطینہ میں کیوں نہیں رکھاگیا؟
حکمرانوں نے اپنی روایتی نالائقی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ماہ بعد قوم کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ قوم کو نصیحت کی کہ ایک دوسرے سے فاصلے پررہیں، مصافحے اور معانقے نہ کریں، زیادہ لوگ جمع نہ ہوں لیکن اجلاسوں، ٹی وی ہاؤسز اور دیگر مقامات پر اس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جبکہ نزلہ برعضو ضعیف کے مصداق مساجد میں نماز باجماعت کو مستقل ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ایک جاہل وزیر نے بھاشن دیا کہ وائرس مذہبی لوگوں کی وجہ سے پھیلا ہے۔
تفو بر تواے چرخ گرداں تفو!
قوم کی دینی قیادت نے سب سے زیادہ حکومتی ہدایات کی حمایت کی اور ان پر عمل کیا۔ مدارس بندکر دیے، مساجد میں بھی سنن اور نوافل گھر پر پڑھ کر آنے کی ہدایت کی، لیکن افسوس تعاون کے باو جودانہیں ہی تضحیک وتنقید کا ہدف بنایا گیا۔ تفتان کے زائرین کے حوالے سے انتظامی کوتاہیوں پرہونے والی بجا تنقید کا بدلہ غریب ومسکین تبلیغی جماعت کو نشانہ بنا کر لیا اور حساب برابر کیا گیا۔ قرنطینہ کے نام پر انہیں حبس بے جا میں رکھا جا رہا ہے۔ ٹیسٹ نیگیٹو آنے کے باوجود وہ مساجد میں نظر بند ہیں۔ اﷲ بھلا کرے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کا جنہوں نے تبلیغی جماعت کے خلاف ظالمانہ حکومتی اقدامات کی مذمت کی اور ان کے حق میں آواز بلند کی۔ تب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے بھی نوٹس لیا اور تبلیغ میں نکلی ہوئی جماعتوں کے لیے کچھ آسانیاں پیدا ہوئیں۔ ورنہ عمران خان اور اُن کی حکومت کی کامیابی اور اُن کے فضائل ومناقب پر مشتمل ٹی وی چینل پر ’’عزائیہ دعائیں‘‘ کرنے والے تو چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبارِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ غریب دیہاڑی دار مزدور فاقے کر رہے ہیں۔ سفید پوش طبقہ نے عزت نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ اس موقع پر دینی طبقہ ہی آگے بڑھا۔ مساجد ومدارس سے مستحقین کے گھروں میں راشن پہنچایا گیا۔ جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، مجلس احرار اسلام اور دیگر جماعتوں نے خدمت انسانیت کی عظیم مثال قائم کی۔ اس مصیبت میں عورت مارچ والے لبرل، سیکولر آنٹیاں اور آنٹے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے۔ قوم نے دیکھ لیا کہ اُن کا حقیقی ہمدرد کون ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران ہماری تربیت یافتہ مہذب پولیس نے قوم کے ساتھ اپنے روایتی رویوں کاجس طرح اظہار کیا وہ بھی بدترین مثالوں میں سے ہے۔ ضروری کام سے گھروں سے نکلنے والے لوگوں کو اجتماعی شکل میں مرغا بنا کر کان پکڑ وائے گے، باپ بیٹے اور استاد شاگرد کو سڑکوں پر مرغا بنایا، بڑے بھائی کے منہ پر چھوٹے بھائی سے طمانچے مروائے۔ اُن پر لاٹھیاں برسائیں، عورتوں اور بچوں پر بھی لاٹھیاں برسائیں اور ان تمام مناظر کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئیں۔
اب چلے ہیں وزیراعظم ٹائیگر فورس بنانے۔ ہر نئی فورس قائم کرنے اور اس کا انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے پر بلا وجہ قوم کے لاکھوں کروڑوں روپے ضائع کرنے کی بجائے موجودہ اداروں سے کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ اگر یہ ادارے ایسے ہی نا اہل اور نکمے ہیں تو ان سے قوم کی نجات کا حکم صادر ہونا چاہیے۔ ٹائیگرفورس میں بھرتی کون ہواہے۔ انصافی یو تھیے اور قادیانی لونچڑے۔ انسانیت کی خدمت بہت ہی اعلی کام ہے، لیکن اس کی آڑ میں کفر و ارتداد کی تبلیغ اور مسلمانوں کے ایمانوں کو لوٹنا استعماری ومغربی طریقۂ واردات ہے۔ جسے پورا کرنے کے لیے قادیانی ٹائیگر فورس میں بھرتی ہو رہے ہیں۔ یہ اُن کا پرانا طریقۂ وار دات ہے۔
حکمرانوں نے مصیبت وآزمائش کی اس گھڑی کو غنیمت جانا۔ اپنے قوم دشمن ایجنڈے کے کئی معطل کام مکمل کیے۔ مساجد، نمازیں، نماز جمعہ بند کیے۔ اب رمضان المبارک میں تراویح بھی بند کرنے کی خواہش پر عمل در آمد کے لیے پر تولے جا رہے ہیں۔ پورے ملک میں سناٹا ہے، لوگ گھروں میں کرونائی نظر بندی کے ایام گزار رہے ہیں اور نا اہل حکمران استعماری ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ اگر حالات اسی ڈگر پر چلائے جاتے رہے تو مستقبل بہت ہی بھیانک اور خطرناک ہو گا۔ غربت سے تنگ اگر لوگ جرائم کریں گے۔ چوری ڈکیتی کی وار داتیں بڑھیں گی۔ حکومت نے غریبوں کو جو چند ہزار روپے ماہانہ ریلیف دیا ہے اس سے زیادہ بھونڈامذاق قوم کے ساتھ اور کیا ہوسکتا ہے؟ مہنگائی کم کی جائے کم ازکم تین ماہ کے لیے بجلی وگیس کے بلز معاف کیے جائیں تو شاید آئندہ دنوں میں لوگ کچھ سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
یہ تو بہ واستغفار کا وقت ہے، اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کی مہلت ہے۔ مساجد کے دروازے بندنہ کریں اور دین اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کی بد دعائیں نہ لیں۔ اس راستے پر چلتے رہے تو عذاب شدید ہوگا اور کچھ باقی نہیں بچے گا۔ اﷲ تعالیٰ حکمرانوں کو ہدایت دے پاکستان کی حفاظت فرمائے، اس ہولناک وباء کو ختم فرمائے، جو لوگ متاثر ہوئے ہیں انہیں صحت کا ملہ عطاء فرمائے اور جو اس مرض سے فوت ہوئے ہیں اﷲ انہیں شہادت کا رتبہ عطاء فرمائے (آمین )