محمد قاسم چیمہ
2جون2020ء کے ’’روزنامہ جنگ ‘‘میں ڈاکٹر صفد ر محمود کا کالم’’ ایک تاریخی واقعے کی تصحیح‘‘ نظر سے گزرا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب اپنے گزشتہ کالم (جو کہ 19مئی کو’’ جنگ‘‘ میں شائع ہوا) کا حوالہ دیتے ہوئے ایک لایعنی بحث کا آغاز کر رہے ہیں۔ صفدر محمودصاحب نے 19مئی کے کالم میں قائداعظم محمد علی جناح کے حلف نامے کے حوالے سے چند باتیں کیں۔ حلف لینے سے قبل قائداعظم گورنر جنرل کی کرسی پر بیٹھے تھے یا حلف لینے کے بعد۔اس واقعے کو اس قدر اہمیت دینا عقل سے ماورا ہے۔ خود صفدر محمود صاحب نے کالم کے آخر میں لکھا کہــــ’’ قائداعظم کا کرسی پر بیٹھنا اور اٹھنا افسانہ ہے‘‘ تو اس افسانے پر پورا کالم لکھ دینا کن حقائق سے پردہ چاک کررہا ہے۔صفدر محمود صاحب نے لکھا کہ ’’اگرچہ حلف برطانوی حکومت کی طرف سے ملا تھا لیکن قائداعظم نے خود اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کرلی تھیں۔قائداعظم پر برطانیہ سے وفاداری کا الزام لگانے والوں کو یہ علم ہی نہیں کہ قائد اعظم کے حلف کے آخری الفاظ یہ تھے(میں پاکستان کے بننے والے آئین کا وفادار رہوں گا)‘‘۔دوسری جانب قائد اعظم کے حلف نامے کے الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں اور بے شمار کتب، رسائل و جرائد اور اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔پاکستان کا معروف انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘( جس کے بانی بذات خود قائد اعظم ہیں، اب ہیں یا نہیں ڈاکٹر صفدر محمود ہی بتاسکتے ہیں) نے 4فروری 2013ء کو اخبار کی جانب سے ایک مضمون Transfer of power and Jinnahشائع کیا جس میں قائداعظم کے حلف نامے کے الفاظ موجود ہیں۔
Pursuant to the commission issued by King George VI Mohammad Ali Jinnah took the following oath of office:
“I, Mohammad Ali Jinnah, do solemnly affirm true faith and allegiance to the Constitution of Pakistan as by law established and that I will be faithful to His Majesty King George VI, in the office of Governor general of Pakistan.”
اسی طرح حلف نامے کا اردو حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیے :
میں محمد علی جناح، قانون کے مطابق قائم ہونے والے پاکستان کے دستور حکومت سے سچی عقیدت اور وفاداری کا عہد مصمم کرتا ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے شہنشاہ معظم جارج ششم اور ان کے ولی عہدوں اور جانشینوں کا وفادار رہوں گا۔
(پاکستان کے سربراہان مملکت’’ محمد اسلم لودھی‘‘صفحہ 80طبع اول2004ء، اردو سائنس بورڈ، لاہور)
یہ دونوں حوالے پاکستانی اخبار اور نیم سرکاری ادارے کے ہیں۔اسی طرح ایک طرف تو صفدر محمودصاحب کو اس بات کا یقین ہے کہ قائداعظم کے حلف نامے سے قبل قرآن پاک کی تلاوت کی گئی اور اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ ایک اچھی کاوش تھی تو دوسری جانب ڈاکٹر صاحب کو ’’اصرار‘‘ہے کہ قیام پاکستان کے وقت پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی کی بجائے قائد اعظم نے خود کی تھی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔کسی بھی شخص سے نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اپنے دلائل کی کمزوری کو مولوی سے عمومی نفرت کے سہاروں سے مستحکم مت کریں۔اس کے بھی حوالہ جات موجودہیں۔
پھرصفدر محمود صاحب نے 2جون کو’’روزنامہ جنگ‘‘ میں چھپنے والے کالم میں اپنی من پسند بات کو درست ثابت کرنے کے لئے منیر احمد منیر کا حوالے کے طو رپر خط اپنے کالم کی زینت بنایا۔اس خط میں منیر احمد منیر نے لکھا کہ ـ’’یہ احراری جہالت کی دلدل اور پاکستان دشمنی کی اذیت سے ابھی تک نہیں نکلیـ‘‘۔پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’ آپ نے ایک احراری مولوی کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے کہ اس سے یہ صاف واضح ہے کہ انہوں نے آج تک پاکستان کو تسلیم کیا ہے نہ قائداعظم کو۔ان کی سوئی آج بھی پاکستان مخالفت اور اس کی بدخواہی پرپوری شد و مد سے وہیں اٹکی ہوئی ہے۔آپ ان کی مساجد، مدارس، کتب، رسائل، نجی محفلیں اور خاص طور سے اس مقصد کے لئے قائم کردہ ان کے اشاعتی ادارے دیکھ لیں۔ سب واضح ہوجاتا ہے۔‘‘اسی طرح آگے چل کر صفدر محمودصاحب منیر احمد منیر کے خط کو نقل کرتے ہیں جس میں لکھا ہے کہ ’’خود ان احراریوں کے مالی مربی،فکری رہنما،ہندو احیاپرست،مسلمانوں اور اسلام کے اٹل بیری پنڈت جواہر لال نہرو کا جو چلن تھااس کا ذکر یہ نہیں کرتے نہ اس کے حلف برداری کی عبارت کا۔‘‘ اسی طرح آگے لکھتے ہیں کہ ’’ان احراری مولوی صاحب کو ڈومینین اسٹیٹس والے بھارت کے لئے اٹھایا ہوا حلف نظر نہیں آئے گا۔لارڈ ماونٹ بیٹن بھارت کا پہلا گورنر جنرل تھا۔21جون 1948ء کو اس نے یہ چارج چھوڑ دیا تھا جس کی جگہ راج گوپال اچاریہ نے گورنر جنرل شپ کا حلف اٹھایا تھا، اس میں بھی تاج برطانیہ سے وفاداری موجود تھی۔وہ ان احراری مولوی صاحبان کو نظر نہیں آئے گی۔‘‘
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی خدمت میں چند گزارشات ہیں کہ قائد اعظم کے حلف کو مجلس احرار نے تو موضوع بحث نہیں بنایا، یہ ہمارا مسئلہ نہیں کہ قائد اعظم نے کون سا حلف اٹھایاتھا اور نہرو نے کون سا؟یہ تاریخ کا معاملہ ہے، آپ جانیں اور تاریخ جانے ۔ ہم تو پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کی بات کرتے ہیں ۔اگر آپ کے نزدیک یہ بھی احرار کا جرم ہے تو پھر آپ کی دانش کو سو سلام ۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ نے تو قیام پاکستان کے بعد اپنی رائے کی شکست کا برملا اعتراف کیا، پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا اور اس لڑائی کو ختم کردیا ۔اس وقت سے آج تک مجلس احرار کی ایک سر گرمی بھی ملک کے خلاف نہیں ۔
مجلس احرار کے بانی امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے قیام پاکستان کے بعد مجلس احرار کی سیاسی حیثیت تک ختم کردی اور 1949ء میں لاہور دہلی دروازے میں دفاع پاکستان احرار کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلم لیگ سے ہمارا اختلاف صرف یہ تھا کہ ملک کا نقشہ کس طرح بنے۔ یہ نہیں کہ ملک نہ بنے۔ یہ کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھا۔ نہ حلال و حرام کا، نہ گناہ و ثواب کا اور نہ مذہب کا۔ ایک نظریے کا اختلاف تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ پورے چھ صوبے ملیں۔ ہمارا اختلاف صرف مرکز کی علیحدگی پر تھا۔ہم چاہتے تھے کہ آزادی مل جائے ، ذرا سنبھل لیں اور دس سال بعد مرکز سے الگ ہوجائیں لیکن لیگ کہتی تھی کہ نہیں۔ مرکز کے ساتھ ہمارا کوئی الحاق نہیں رہ سکتا۔پس اب ملک بن چکا ہے اب مسلم لیگ سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں، نہ ہم ولی ہیں نہ لیگ والے قطب۔ہمارا اور لیگ کا اختلاف صرف مرکز سے علیحدگی پر تھا اور داغ کے الفاظ میں یوں کہنا چاہیے:
مدت سے میری ان کی قیامت کی ہے تکرار
بات اتنی ہے کہ وہ کل کہتے ہیں میں آج
(حیات امیرشریعت از جانباز مرزا صفحہ 323-324-325)
اسی طرح سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے یہ بھی فرمایا کہ’’ تم میری رائے کو خود فروشی کا نام مت دو۔ میری رائے ہار گئی اب اس کہانی کو یہیں ختم کردو۔پاکستان نے جب بھی پکارا۔واﷲ باﷲ میں اس کے ذرے ذرے کی حفاظت کروں گا۔مجھے یہ اتنا ہی عزیز ہے جتنا کوئی اور دعوی کرسکتا ہے۔میں قول کا نہیں عمل کا آدمی ہوں۔اس طرف(پاکستان) کسی نے آنکھ اٹھائی تو وہ پھوڑ دی جائے گی۔کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ کاٹ دیاجائے گا۔میں اس وطن اور اس کی عزت کے مقابلے میں اپنی جان عزیز رکھتا ہوں نہ اولاد۔ میرا خون پہلے بھی تمہارا تھا اور اب بھی تمہارا ہے۔
(پاکستان میں کیا ہوگا؟ مرتب سید محمد کفیل بخاری صفحہ97)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ منیر احمد منیر کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ احرار نے پاکستان کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ احرار قیادت پہلے بھی قائد اعظم کا احترام کرتی تھی اور اب بھی۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب میں بالخصوص دو ہی بڑی سیاسی قوتیں تھیں۔ مجلس احرار اور مسلم لیگ۔ مجلس احرار نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تاکہ مسلم لیگ سے تعاون کیا جاسکے۔ اس کے باوجود صفدر محمود صاحب مجلس احرار سے پاکستان کی وفاداری کا سرٹیفیکیٹ مانگ رہے ہیں۔ اگر منیر احمد منیر اور صفدر محمود صاحب کی یہ خواہش ہے کہ انہیں بھی قائد اعظم جیسا احترام دیا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک 72 برسوں سے احرار کو مطعون کیا جا رہا ہے، اس کے جواب میں مجلس احرار کی جانب سے آپ کس رویے کی توقع رکھتے ہیں؟ احرار نے تو لڑائی ختم کردی تھی، لیکن مسلم لیگ کے نادان دوستوں نے ابھی تک نہیں کی۔ احرار پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان میں رہتے ہیں، آئین کا احترام اور پاسداری کرتے ہیں، پھر ان کی حب الوطنی پر شکوک کیوں پیدا کیے جاتے ہیں؟ جبکہ قادیانی کھلے عام آئین پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، منیر احمد منیر اور صفدر محمود صاحب کو ان سے کیا ہمدردی ہے کہ ان کے خلاف ایک لفظ بھی لکھنے کی توفیق نہیں۔ صفدر محمود صاحب کو قادیانیوں کی پاکستان سے وفاداری پر شک کیوں نہیں ہوتا؟
منیر احمد منیر اور صفدر محمود صاحب یہ بھی بتائیں کہ وہ قادیانیوں کو کیا سمجھتے ہیں؟ جبکہ قادیانی پوری امت مسلمہ کو کافر سمجھتے ہیں ۔قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین نے اکھنڈ بھارت کا عقیدہ پیش کیا اورقادیانی اپنی میتوں کو پاکستان میں امانتاََ دفن کرتے ہیں ۔ سر ظفراﷲ نے قائد اعظم کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیا ۔منیر احمد منیر اور صفدر محمودصاحب قائداعظم کا جنازہ نہ پڑھنے کی تاویل اور سر ظفراﷲ کادفاع کریں گے؟
اگر حقائق پر روشنی ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ قائد اعظم کے نام نہاد وارثوں نے نفرت اور تعصب کے بیج بوئے اور اس کی فصل آج تک کاشت کر رہے ہیں۔اس گورکھ دھندے میں آدھا ملک تک گنوا بیٹھے۔ مشرقی پاکستان، مجلس احرار نے تو ختم نہیں کیا۔ یہ کارنامہ بھی قائد اعظم کے وارثوں نے ہی انجام دیا ۔شیخ مجیب الرحمن بھی مسلم لیگی تھے ۔ نوجوانی میں تحریک پاکستان کے پر جوش کارکن تھے ۔ قائد اعظم کے بیانات بلیٹن کی صورت میں سائیکلو سٹائل مشین سے پرنٹ کر کے عوام میں تقسیم کرتے تھے۔ حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے تھے۔ منیر احمد منیر اور صفدر محمود جیسے محب وطن لیگیوں نے ہی مجیب الرحمن کو اپنا مخالف بنایا ۔صفدر محمود صاحب اس بات کا تعین بھی فرمادیں کہ ایک نامعلوم عام آدمی کی بات کو بنیاد بناکر مجلس احرار کے سر جھوٹ کے انبار لگانا، تنقید کے تیر و نشتر چلانا اور کالم بھرتی کرنا صحافت کی کونسی صنف ہے؟
قائداعظم کے وارثوں سے ایک سوال یہ بھی کرنا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ آزادی ایک ہی ہے ، ہمیں اور انہیں ایک جتنا وقت ملا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوری اقدار اس قدر مضبوط ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے یہ نہیں ہوسکتا کہ فوج اقتدار پر شب خون مارے اور آئین کو ردی کی ٹوکری کی زینت بنائے۔قائد اعظم کے وارث یہ بھی بتائیں کہ وہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تاحال جمہوری اقداراور سیاسی نظام کو مستحکم کیوں نہ کرسکے۔مجلس احرار تو اس راہ میں رکاوٹ نہیں ،پھر تاحال ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت مکمل کیوں نہ کرسکا؟ حد درجہ کمال کی بات یہ ہے کہ صفدر محمود صاحب کو پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مابین سیاسی اختلاف رائے قبول ہے لیکن مجلس احرار اور مسلم لیگ کا اختلاف قبول نہیں۔پاکستان کی تقسیم ایک سیاسی اور انتظامی معاملہ تھا جس پر اختلاف غیر معمولی بات نہیں اور نہ ہی یہ کفرو اسلا م کا مسئلہ ہے۔
صفدر محمود صاحب کی خدمت میں آخری گزارش یہ ہے کہ ہر تین چار ماہ بعدبے مقصد بحث کا آغاز کرنے اور گڑے مردے اکھیڑنے کا اب کوئی فائد ہ نہیں۔ 72برس بیت گئے، ہمارا ملک کئی نشیب و فراز سے گزرچکا۔ ہمیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر وطن عزیز پاکستان کی فلاح و بہبود، تعمیر و ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا۔احمد فراز نے کہا تھا کہ:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے