بڑے باپ کا بڑا بیٹا،ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں کوئی خوش قسمت باپ ہوتا جس کا بیٹا اس کے علمی اثاثوں کا سچاوارث بنتا ہے۔امیر شریعت سید عطا ء اللہ بخاری ؒ کے چار بیٹے تھے ابن امیر شریعت سید عطاء المنعم ابو معاویہ ابوذ ر بخاری،ابن
امیر شریعت سید عطاء المحسن بخاری ،ابن امیرشریعت سید عطاء المومن بخاری اور ابن امیر شریعت سیدعطاء المہیمن بخاری اور یہ عظیم باپ کے وہ بیٹے تھے جو فقط ان کے عظیم ورثے ہی کے وارث نہیں بنے بلکہ ہر ایک اپنے مقام پر عظمت کا مینار بن کر جیا،ہر ایک نے اپنی اپنی عظمت کا چراغ روشن کیا اور اس کی ضو چاروں اور پھیلائی۔ امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخار ی نے جس مشن کا پرچم اٹھایا ان کے بیٹوں نے آخری سانس تک وہ پرچم پوری تندہی اور استقلال کے ساتھ تھامے رکھا اورکڑے سے کڑے وقت میں بھی ان کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آئی،خوش قسمت باپ کے چاروں فرزند اپنے ارادوں اور فیصلوں کے حوالے سے کوہ ہمالیہ تھے،جسے انہوں نے ناگوار کہا اسے گوارہ نہیں کیا وہ دینی حمیت ہویا ملکی سیاست،وہ اگر مجلس احرار کو دینی سیاسی جماعت بنالیتے تو ایک جہان تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرتا ہوا ان کے پیچھے چل پڑتا،مگر وہ جس راہ پر چلے اسے کھوٹا نہیں ہونے دیا،ان چاروں میں سے کوئی
ایک بھی عامیانہ تقلید کے عارضے میں مبتلا نہ رہا،وہ لوگوں سے بیعت بھی لیتے تھے تو اپنا ہاتھ نہیں چومنے دیتے تھے،ان کی ساری تگ و دو کا محور تاج و تختِ ختم نبوت ﷺ اور حکومت الٰہیہ کانفاذ تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا۔
ابن امیر شریعت سید عطاء المہیمن بخاری ؒجو 6فروری 2021ء کی شب ہمیں داغِ مفارقت دے گئے وہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒکے سب سے چھوٹے بیٹے تھے مجلسِ احرار پاکستان کے امیر تھے،وہی مجلس احرار جسے امیرشریعت کے بعد ان کے تینوں بیٹوں نے اپنے لہو سے سینچا تھا،وہ مجلس احرار ، شورش کاشمیری جس کے روحِ رواں رہے۔سید عطاء المہیمن ؒبخاری جنہیں پیار سے پیر جی کہتے تھے نے اپنی حیات عقیدہ ختم نبوتﷺ،ناموس تحفظ صحابہ اوراسلام وشعائر اسلام کی رفعت و سربلندی کے لئے گزاری۔
پیر جی اسلاف و اکابر کی آخری نشانی تھے،علمی و فکری داعی کی حیثیت سے انہوں نے حق و باطل کے درمیان مبارزت کا ہر ہتھیار اور دشمنان ختم نبوتﷺ کونیست و نابود کردینے کی آبدار تلوار اپنی نیام ہی میں نہیں اپنی گفتارو بیان میں بھی رکھی ہوئی تھی۔ہر باطل کے سامنے ڈٹ جانا اور حق کے راستے کی ہر دیوار گرا دینا ان کی زندگی کا منشور تھا اور اپنے منشور پر انہوں نے کبھی کوئی کمپرومائز نہیں کیا وہ کمپرومائز جو ہماری دینی سیاسی جماعتوں کا شعار بنا ہوا ہے۔وہ حقیقی نظریہ جس کی بنیاد پر ان کی جماعت وجود میں آئی انہوں نے کسی موڑ پر بھی اس سے روگردانی نہیں کی اور اپنی آخری سانس تک مغربی
جمہوری نظام کی بجائے ریاست مدینہ میں مرتب ہونے والے نظام حکومت کے علمبردار رہے۔
سید عطاء المہیمن بخاری ؒایک صوفی منش انسان تھے مگر صوفیاء کے اس مشرب سے لاتعلق جو انسان کو فطرت الٰہیہ سے دور کردیتا ہے وہ فقر کے وقار اور عجز کی تمکنت سے آشنا تھے اس لئے استغنا اور سادگی کو حرز جاں بنائے رکھا،وہ خالق سے سب کچھ ہونے اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کے نظریئے پر کاربند تھے،وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے والے مذہبی پیشوا نہیں بلکہ کندھوں پر بوجھ اٹھا اٹھاکر کمائے ہوئے رزق سے اپنا پیٹ پالتے تھے ان کی پوری جوانی رزق حلال کمانے سے تعبیر تھی اور جب جماعت کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آئی تو اسے بھی معیشت کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ نشرواشاعت کو وسیلہ معاش بنایا مگر جس فکری اور نظریاتی جماعت کی امارت سنبھالی اسے مروجہ سیاسی آلودگی کے دلدل کی نذر نہیں ہونے دیاوہ دلدل جس سے مولانا مودودی بھی اپنی جماعت کو نہ بچا سکے۔
پیر جی میرے بڑے بھائی حافظ محمد ابراہیم سلیم کے ہم مکتب اور ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے،ان کی نشست وبرخواست کا معاملہ روزانہ کی بنیاد پر تھا۔لکڑی کے دروازے پر لگی لوہے کی کنڈی سے دستک دینے کا ان کا انداز ایسا تھا جو گھر کے ہر فرد کواز
بر تھا،جونہی وہ دستک دیتے میری امی جان برجستہ فرماتیں ”برکت کی دستک ہے“۔ان کا فرماناتھا”پیر جی جب آتے ہیں تو اپنے اور ہمارے حصے کا رزق ساتھ لاتے ہیں“۔
پھر پیر جی راہی ء حجاز ہوئے مگر ان کا ذکر خیر جاری رہا۔بڑی بھائی سکول،کالج اور یونیورسٹی کی فضاؤں میں گم ہوگئے مگر ایک فن جو انہوں نے پیرجی سے لیا وہ ”فنِ تقریر و تحریر“ جس پر انہیں بھی بہت ناز تھا۔اللہ غریق رحمت فرمائے وہ جنوری 2006ء میں راہیء عدم ہوئے۔مگر پیرجی کے ذکر کے چرچے تو ابا جی حافظ عبدالکریم کی زندگی تک قائم و دائم رہے۔
میں بنیادی طور پر ابن امیر شریعت سید عطاء المحسن شاہ صاحب بخاریؒ کا شاگرد ِ خاص رہا ہوں،سانحہ رحلت سے ایک دن پہلے بھی نشتر ہسپتال میں شرف زیارت نصیب ہوا،اگلے دن یعنی 12نومبر1999ء کو ان کا انتقال ہوا،صاحبِ طرز خطیب،انشاپرداز ایسے کہ ہر سطر بار بار پڑھنے کو جی چاہتا،کلام پاک کی تلاوت فرماتے تو یوں محسوس ہوتا کائنات کی حرکت رک گئی ہو،والد امیر شریعت ؒ کا لحن پایا تھا اور سراپا محبت بھی ان ہی کی طرح تھے۔مگر میری بدنصیبی دیکھئے جن سے طرز تکلم سیکھا،جن سے حرف و صوت کے معانی ومفاہیم جانے جن سے قلم کی حرمت کا سبق یاد کیا،ان کی رحلت پر ایک جملہ لکھنے کی ہمت و سکت بھی نصیب ناں ہوئی،یہ خواہش ناتمام دل میں لئے آج پیر جی پر لکھنے بیٹھا ہوں تو جملے پے بہ پے بنتے چلے جا رہے ہیں۔پیر جی کا سرخ سپید دمکتا ہوا چہرہ،چمکتی ہوئی روشن آنکھیں،تمتماتی ہوئی کشادہ پیشانی،میرے سامنے ان کا جسد اقدس ایسے پڑا ہے جیسے سرخ گلاب کے پھولوں کا ڈھیر،احرار کی یہی تو نشانی ہے کہ وہ سفید کفن میں نہیں اپنے سرخ پرچم میں لپٹے آسودہ ء خاک ہوتے ہیں