عظمت خان۔ کراچی
قادیانی مذہب کا پرچا رکرنے والے تین ملزمان کی ضمانت لاہور ہائی کورٹ نے بھی منسوخ کر دی ہے،اس سے قبل ایک ملزم محمود اقبال ہاشمی کو سیشن کورٹ سے ضمانت دی گئی تھی جس کے بعد ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے مقدمہ میں مزیددفعات شامل کی گئیں جس کے بعد ضمانت منسوخ کرکے ملزم اقبال ہاشمی کو گرفتار کرلیا گیا جب کہ ملزمان ظہیر احمد اور شیزار احمد کی بھی ضمانتیں منسوخ کی گئیں ہیں۔
شکایت کنندہ محمد عرفان نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور سے شکایت کی تھی کہ وکیل راجپوت اور عتیق نے ایک واٹس ایپ گروپ تخلیق دیا تھا،جس کا نام سندھ سلامت رکھا گیا تھا،اس وٹس ایپ گروپ میں قادیانیت کا پرچار کیا جانے لگا اور اس گروپ میں ایک ایسے شخص کو بھی ایڈ کیا گیا جس نے قرآن پاک کا اپنی مرضی سے ترجمہ کرکے اس کو بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہا تھا، جب کہ قادیانیوں کو کسی بھی طرح پاکستان میں اپنے عقیدے کا پرچار کرنے سے منع کیا گیا ہے، ایف آئی اے نے اس شکایت پر18جون 2019کو انکوائری No. 953/2019کے تحت کارروائی شروع کردی تھی۔
ایف آئی اے کو ذرائع سے معلوم ہوا کہ احمدی عقیدے کے پیروکار محمود اقبال ہاشمی جو گروپ کو چلا رہا تھاوہ اپنے مواد سمیت اپنے گھر واقع آصف بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں موجود ہے جس کے بعد ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے اسسٹنٹ کی سربراہی میں چھاپہ مار پارٹی تشکیل دی، جس میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نعیم ظفر (ہارڈ ویئر انجینئر) محمد اقبال ہاشمی کواس کے گھر سے گرفتار کیا۔محمود اقبال ہاشمی کے موبائل سے اسی وقت مرزا طاہر کی تصنیف قرآن پاک کا ممنوع ترجمہ پی ڈی ایف کی صورت میں سندھ سلامت گروپ میں اپ لوڈکیا گیا تھا، محمود اقبال ہاشمی کو گرفتار کر کے اس کے بعد 20جون 2019 کو تھانہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ لاہور میں مقدمہ نمبر 88/2019 درج کیا گیا تھا، جس میں پاکستان پینل کوڈ، 1860 (’’PPCکی دفعہ 295-A298- C اور الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ 2016 کی دفعہ 11(’’PECAبعد میں، سیکشن 295-B، 295-C، 34 اور 109 PPC شامل کی گئیں۔
اس مقدمہ میں 25 فروری 2021 کو شیراز احمد نامی احمدی کو بھی شامل کیا گیا، جس کے بعد تفتیشی افسر نے سرچ وارنٹ حاصل کر کے چٹھہ، تحصیل و ضلع حافظ آبادمیں چھاپہ ما رکر شیراز احمدکو مبینہ طور پر اپنی تبلیغ میں مصروف پا کر گرفتار کر لیا تھا جس کاموبائل فون لیپ ٹاپ، ممنوعہ کتابیں اور کچھ اسٹیشنری قبضے میں لے لی گئی تھی۔ شیراز احمد نے انکشاف کیا کہ اس نے اسے واٹس ایپ کے ذریعے موادفراہم کیا تھا جس کی استغاثہ نے تصدیق بھی کی تھی، جس کے بعد موبائل کی فرانزک رپورٹ آئی جس کے بعد ظہیر احمد نامی شخص کو بھی گرفتار کیا گیا۔ظہیر احمد اور شیراز احمد نے سیشن کورٹ پر ضمانت کیلئے درخواست دی، جسے منظور نہیں کیا جب کہ محمود اقبال ہاشم کو 22اگست 2019 کو ایڈیشنل جج نے ضمانت دے دی تھی، جس کے بعد تفتیشی افسر نے دفعہ 295-B، 109 اور 34 پی پی سی کا اضافہ کرکے ضمانت کی منسوخی کے لیے 497(5) Cr.P.C میں ایڈیشنل سیشن جج نے 9/اگست کومحموداقبال ہاشمی کودوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔ضمانتیں مسترد ہونے کے بعد ظہیر احمد اور شیراز احمد نے لاہورہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا، جہاں سے ایک بار پھر ان کی ضمانت مسترد ہو گئی ہے۔