ڈاکٹرعمرفاروق احرار
برطانوی اِستعمارنے ہندوستان کی تحریک آزادی کو ناکام بنانے کے لیے قادیانیت کی بنیادرکھی ،چونکہ قادیانیت کی تخلیق کے بنیادی مقاصدمیں انگریزسرکارکے لیے وفاداری کے جذبات پیداکرنا،جذبۂ جہادکی رُوح کا خاتمہ اورمسلمانوں میں مذہب کے نام پر نئے اِرتدادی فتنے کی ترویج تھی،اس لیے قادیانیت کی بنیادرکھتے ہی مرزاغلام احمد قادیانی نے انگریزوں کے ایما پر مرحلہ وارمجدد،مہدی اورنبوت کے دعوے کرکے اُمت مسلمہ میں انتشارواِفتراق کا بیج بویا اورجہادکے خلاف تحریروں کا آغازکیا۔مرزاقادیانی کے پُرفتن دعووں اورتوہین رسالت پر مبنی لٹریچرنے مسلمانوں کے دینی جذبات کو مجروح کردیا۔مرزاقادیانی مشرقی پنجاب(انڈیا) کے ضلع گورداس پورکے قصبہ قادیان کا رہنے والاتھا۔اِس لیے قادیانیوں کے نزدیک قادیان کو مقدس مقام کادرجہ حاصل تھا۔مرزاقادیانی کے بعدحکیم نورالدین اُس کا جانشین بنا۔جس کی موت کے بعد 1914ء میں مرزاقادیانی کے بیٹے مرزابشیرالدین کے قادیانی جماعت کی سربراہی سنبھالتے ہی قادیان میں اُس کی آمرانہ حکومت قائم ہوگئی اور غیرقادیانیوں خصوصاً مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی۔ مسلمانوں کو سماجی بائیکاٹ اورظلم و تشددکے حربوں سے اس قدرزِچ کردیاگیاتھا کہ اُن کے لیے قادیانیت قبول کرلینے یا قادیان چھوڑدینے کے سواکوئی تیسراراستہ باقی نہ رہاتھا۔
مجلس احراراسلام کے رہنما تحریک کشمیر(1930-31ء)کے اجراء اوراُس کے نتیجے میں قیدوبندسے آزاد ہوئے ہی تھے کہ اُنہی دنوں قادیان کے مظلوم مسلمانوں نے اُنہیں دادرسی کی درخواست اوروہاں کے دردناک حالات وواقعات پر مشتمل ایک خط ارسال کیا۔افسوسناک واقعات سے آگاہی پاکر احراررہنماؤں میں اضطراب کی شدید لہر دوڑگئی اور اُنہوں نے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کرلیا۔فروری 1934ء میں مولاناعنایت اﷲ چشتی ؒکو قادیان میں بحیثیت احرارمبلّغ تعینات کرکے وہاں دفتر احرارکھول دیاگیا۔یہ قادیان کی تاریخ میں پہلی بارکسی مسلمان جماعت کا قادیانی جماعت کے مقابل آنے اورقادیان میں ڈیرہ لگانے کا جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ مجلس احراراسلام نے ختم نبوت کے تحفظ، قادیانیت کے طلسم کو توڑنے اوراُس کے منفی اثرات کے خاتمے کے لیے 13؍جون 1934ء میں جماعت کا ایک غیرسیاسی شعبہ،’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کے نام سے قائم کیا۔جس کے بعد احرار رہنماؤں نے 21، 22، 23؍اکتوبر1934ء کو قادیان میں تاریخ ساز تین روزہ آل انڈیااحرارختم نبوت کانفرنس کے انعقادکا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔جسے ہندوستان بھرکے تمام دینی طبقات میں سراہاگیا۔قادیان ،ایک قادیانی ریاست کے طورپر پہچاناجاتاتھا۔جس کے کارپردازقادیانیوں کو انگریزحکام کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی ۔وہاں قادیانیوں کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کرنا ،گردن زدنی کے مترادف تھا۔متعددعلماء کرام تحفظ ختم نبوت کی پاداش میں قادیانیوں کے ہاتھوں پِٹ چکے تھے۔ ظلم اوروحشت کی اس فضامیں قادیان میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد بہت جرأت آزما اوربڑے دل گردے کا کام تھا۔قادیان مرزائی خاندان کا ملکیتی قصبہ تھا۔اپنے علاقہ میں وہ ایسی کانفرنس کامنعقد ہونا کیسے برداشت کرسکتے تھے؟ اِس لیے کانفرنس کے لیے متعینہ جگہ کے گرد قادیانیوں نے چاردیواری تعمیرکردی ۔آخرکارقادیان کی غربی سمت آریہ ہندوؤں کے قائم کردہ ایک سکول کی کئی ایکڑ پر مشتمل وسیع اراضی کو کانفرنس کے لیے منتخب کرلیاگیا۔احرارختم نبوت کانفرنس کا شہرہ برصغیرکے کونے کونے تک پہنچ چکاتھا۔مسلمانوں کی اپنے آقامحمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت اوراُن کے ناموس پر مرمٹنے کا جذبہ دیدنی تھا۔ہندوستان کے ہرعلاقے بالخصوص پنجاب میں کہ جہاں سے قادیانیت نے جنم لیا تھا، مسلمانوں کا جوش وجذبہ اپنے عروج پر تھا۔ہندوستان کے کونے کونے سے مسلمان قادیان پہنچ رہے تھے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 2لاکھ سے زیادہ ختم نبوت کے پروانوں نے اپنے آقاصلی اﷲ علیہ وسلم کے ناموس کی حفاظت کے عزم کے لیے کانفرنس میں شرکت کی۔ہندوستان کے نامورعلماء کرام اورمشائخ عظام کی بڑی تعدادختم نبوت کانفرنس میں شریک ہوئی۔جن میں حضرت مولانا سیدحسین احمدمدنی،مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلوی،مولانا احمدعلی لاہوری، مولانا سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری،مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،مولانا ظفرعلی خان،مولانامظہرعلی اظہر،مولانا سید محمد داؤد غزنوی، صاحبزادہ سید فیض الحسن،مفتی عبدالرحیم پوپلزئی، مولاناخیرمحمدجالندھری،مولاناقاری محمدطیب ،مولانا سید ابو الحسنات محمداحمد قادری،مولاناعبدالکریم مباہلہ رحمہم اﷲ تعالیٰ، سمیت احرارکے تمام مرکزی قائدین شامل تھے۔کانفرنس حضرت امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒکی صدارت میں ہوئی۔جس میں آپ نے تاریخی تقریرفرمائی۔
مجلس احراراسلام کے قادیان میں فاتحانہ داخلے اورختم نبوت کانفرنس کی تاریخی کامیابی نے مسلمانانِ ہند کے اذہان وقلوب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ کانفرنس کا ایک منفردنتیجہ یہ ہواکہ وہ لوگ جو قادیانیوں کے کفریہ عقائد سے ناواقفیت کی بناء پر اُنہیں مسلمانوں میں شامل سمجھتے تھے اورمسئلہ ختم نبوت کو محض ’’احراری،احمدی تنازع‘‘ اورمسلم گروہوں کا فرقہ وارانہ جھگڑا خیال کرتے تھے،احرارمقررین کے مضبوط دلائل سے متاثرہوئے،نیزتمام مکاتب فکر کے رہنماؤں کوایک ہی سٹیج پربراجمان اور ختم نبوت کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد دیکھ کرقادیانیت کے خلاف اُن کے عقائدمیں مزید پختگی پیداہوگئی۔بالخصوص جدید تعلیم یافتہ مسلمان قادیانیوں کی سازشوں سے باخبرہوگئے۔ جبکہ قادیان کے مسلمانوں کو بہت حوصلہ ملا کہ اب قادیانیوں کے خلاف سینہ سپر ہونے میں سارے ہندوستانی مسلمان اُن کے پشت پناہ ہیں۔دوسری طرف کانفرنس کے موقع پر سولہ قادیانی مشرف بااسلام ہوئے،جبکہ اس تاریخی اجتماع کے انعقاد سے قادیانی فرعونیت کے غبارے سے ہوانکل گئی اوراحرارکے قادیان میں فاتحانہ داخلے سے تشددپسندقادیانیوں پر یہ واضح ہوگیا کہ ظلم ودھونس سے مقامی مسلمان آبادی کو مزیددبائے رکھناممکن نہیں رہا،کیونکہ اب قادیانیوں کے مقابلے میں قادیان کے نہتے اورمظلوم مسلمان ہی نہیں،بلکہ مجلس احراراسلام جیسی ملک گیردائرۂ عمل اورتنظیم رکھنے والی جماعت آچکی تھی۔جس کے مقابل آنا اب قادیانیوں کے لیے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔
غرض یہ کہ قادیان میں احرارکے فاتحانہ داخلے ،ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد اوربعدمیں مجلس احرارکے زیراِنتظام مرحلہ وارمسجدختم نبوت،مسجداحرار اورمدرسہ جامعہ محمدیہ کی تعمیراورقادیان کے غریبوں کے لیے دیسی کھڈیوں اورسکول کے قیام وغیرہ جیسے اقدامات سے وہاں کے مسلمان ،قادیانیوں کے مقابلے میں مضبوط ہوتے گئے اورقادیانیت کا مکروہ چہرہ انصاف پسندحلقوں پر مزیدواضح ہوتاگیا۔ قادیانیت کے بے نقاب ہونے سے مسلمانوں کے تمام طبقات بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقے پر قادیانیت کے اصل خدوخال واضح ہوئے اوراُس کے نتیجہ میں علامہ اقبالؒ جیسی عظیم قومی شخصیت کے قلم سے قادیانیوں کے خلاف مضامین نکلے۔جن کی بدولت قادیانیت کی اصل تصویرجدید تعلیم یافتہ طبقہ پر آشکارہوتی چلی گئی ۔
پاکستان بناتو قادیانی ملک پر اقتدارکے خواب دیکھنے لگے۔وہ بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانے کے درپے ہوئے۔سرظفراﷲ قادیانی کے وزیرخارجہ بننے کی وجہ سے ہرمحکمہ پر اُن کی حکم رسانی کا سکہ چلنے لگااورقادیانی تبلیغ وتحریص کا سلسلہ عام ہوتا چلاگیا۔انگریزگورنرپنجاب مسٹر سرفرانسس موڈی کی نظر کرم سے قادیانیوں کو چنیوٹ کے قریب وسیع اراضی الاٹ کردی گئی۔جس پر انہوں نے اپنا ارتدادی مرکز’’ربوہ ‘‘(موجودچناب نگر)قائم کرلیا۔مجلس احراراسلام نے مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ ،پاکستان کی سلامتی اوراِرتدادکی روک تھام کے لیے حکومت کے سامنے تین مطالبات پیش کیے :قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیاجائے،سرظفراﷲ کو وزارت سے برطرف کیاجائے اورتمام کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایاجائے،مگر حکمرانوں نے امریکہ کی ناراضی کا عذرپیش کرکے مسلمانوں کے ان جائزمطالبات کو ماننے سے انکارکردیا۔جس کے نتیجہ میں مجلس احراراسلام کی دعوت ومیزبانی میں 1953ء تحریک تحفظ ختم نبوت چلائی گئی۔حاکمانِ وقت نے پرامن تحریک کے دس ہزارمسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا،تحریک کوریاستی تشددسے وقتی طورپر دبا دیاگیا،لیکن تحفظ ختم نبوت کی چنگاری سلگتی رہی۔بالآخر خونِ شہیداں رنگ لایا۔جانگسل جدوجہد اوربے مثال قربانیوں کے تسلسل کے بعد بالآخر 7ستمبر1974ء کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کے کفرواِرتداد کے بارے میں قرآن وحدیث کے فیصلے کی توثیق کردی اوربالاتفاق اُنہیں آئینی طورپر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا ،جو دراصل قادیان سے شروع ہونے والی مسلمانوں کی اس بے مثال تاریخی جدوجہدکا منطقی نتیجہ تھا۔درحقیقت اخلاص اورایمانی غیرت سے آغازپانے والے اقدامات ایسے ہی شاندارنتائج اوردُوررَس اثرات سے ہم کنار ہُوا کرتے ہیں۔
اس تاریخی کامیابی کے بعد مجلس احراراسلام نے قادیان کی طرح قادیانیوں کے مرکزِ ثانی ربوہ(اب چناب نگر)میں فاتحانہ داخلہ کے بعد 27؍ فروری 1976ء میں مسلمانوں کی پہلی مسجد’’جامع مسجداحرار‘‘کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ سعادت فرزندانِ امیر شریعت قائد احرار، جانشین امیرشریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری، مولانا سید عطاء المحسن بخاری، مولانا سیدعطاء المومن بخاری اورمولاناسیدعطاء المہیمن بخاری رحمہم اﷲ تعالی کی جرأت مند قیادت میں ہزاروں سرخ پوش کارکنانِ احرارکے مقدرمیں آئی۔چناب نگر میں مدرسہ ختم نبوت قائم کیاگیا۔عصری تعلیم کے لیے بخاری ماڈل ہائی سکول کا قیام عمل میں لایاگیا۔مسلمانوں کے علاج معالجہ کے لیے مسلم ہسپتال کی بنیادرکھی گئی۔سالانہ شہدائے ختم نبوت کانفرنس کا انعقادکیاگیا۔12,11؍ربیع الاول کو سالانہ احرارتحفظ ختم نبوت کانفرنس اوردعوتِ اسلام ریلی کی داغ بیل ڈالی گئی۔قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے شعبہ دعوت وارشادقائم کیاگیا،جس کی محنت سے متعدد قادیانی اسلام کی آغوش میں آچکے ہیں۔چناب نگر میں احرارکے فاتحانہ داخلہ اور مرکز کے قیام کے بعدہماری دیگر دینی جماعتوں کو بھی یہاں کام کرنے کا موقع ملا۔جس کی بدولت اب چناب نگر میں تحفظ ختم نبوت کا کام زوروشورسے جاری ہے۔الحمدﷲ ! قائد احرارمولاناسیدمحمدکفیل بخاری مدظلہ امیرمجلس احراراسلام پاکستان کی ولولہ انگیز قیادت میں تحفظ ختم نبوت کی مقدس جدوجہدجاری ہے۔ملکی ومقامی سطح پر منکرین ختم نبوت کی سرگرمیوں کے سدباب کے لیے مجلس احراراسلام ہراول دستہ کاکام انجام دے رہی ہے۔مسلمانوں کو عقیدۂ ختم نبوت اورقادیانی سازشوں سے آگاہ کرنے کے لیے ماہنامہ’’نقیب ختم نبوت‘‘،ملتان اور’’فہم ختم نبوت خط کتابت کورس‘‘جاری ہے۔احرارکی ویب سائٹwww.ahrar.org.pkکوفعال کیا گیا ہے۔جس کے ذریعے عقیدۂ ختم نبوت اورتاریخ تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے بہترین کتب مسلسل اپ لوڈ کی جائیں گی ۔قادیانیوں کی سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے www.ahmadiyyawatch.com/ پر کام جاری ہے۔غرض کہ کاروانِ تحفظ ختم نبوت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اورپوری دنیامیں ختم نبوت کا پھریرا لہرانے کے عزم سے اپنی قوتیں صرف کررہاہے۔ان شاء اﷲ منکرین ختم نبوت منہ کی کھائیں گے اورختم نبوت کا عَلم ہمیشہ بلندسے بلندتر ہوتا چلاجائے گا۔
اسلام ہو پھر غلغلہ انداز جہاں میں
احرارکی یلغار پہاڑوں کو ہلادے