ڈاکٹر محمد دین تاثیرؒ
نہ ترنّمِ سلاسل، نہ فغاں کی نغمہ خوانی
یونہی رائیگاں نہ جائے کہیں موسمِ جوانی
مرے واسطے تو یہ بھی ہے کمالِ کامرانی
مری داستاں وہ سن لین جو کبھی مری زبانی
یہ تمام لاؤ لشکر، یہ نفیر، یہ مجدّر
یہ کلاہِ پادشاہی، یہ دُرفشِ کاویانی
ترا ناز ان پہ بیشک ہے بجا مگر یہ ڈر ہے
کہ دھری ہی رہ نہ جائے تیری نخوتِ کیانی
ترا سامنا ہے ان سے نہیں جانتے جو ڈرنا
جنھیں زندگی ہے مرنا، جنھیں غم ہے شادمانی
وہ جوان، وہ دلاور، وہ شجاع، وہ غضنفر
پرِ کاہ جن کے آگے ہے شکوہِ خسروانی
وہی سرخ پوش غازی، وہی تیغ زن نمازی
وہی بُت شکن حجازی، وہی حریت کے بانی
جو بہ بزم دوستگانی ہیں بہار جاودانی
جو عدو کی کشت ہستی کو ہیں صَرصَرِ خزانی