ایک احمدی جوڑے سے گفت گو
ڈاکٹر محمد شہباز منج
ایک یونیورسٹی کی احمدی طالبہ میری نگرانی میں ایم فل کا تھیسز لکھ رہی ہے۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں اپنے خاوند کے ساتھ میرے پاس آتی ہے۔ پہلی دفعہ تو وہ دونوں بہت گُھٹے گُھٹے سے لگے،تاہم میں نے روٹین کے مطابق ان سے بساط بھر عام نرم و مہمان نواز لہجے اور ٹون میں بات کی، اور کام سے متعلق لڑکی کی رہنمائی بھی کی۔ دی گئی رہنمائی کے مطابق کا م کرنے کے بعد وہ دونوں میاں بیوی گذشتہ روز پھر آئے۔رسمی ملاقات اور اور تھیسز سے متعلق گفت گو کے بعد میں نے کہا: میں ایک تحقیقی ذہن کا آدمی ہوں اور آپ بھی محقق ہیں، میری کسی بات کو مائینڈ نہیں کرنا، نہ میں آپ کی کوئی بات مائینڈ کروں گا، میں تفہیم کی خاطر آپ سے آپ کے مذہب کے حوالے سے ایک اہم سوال کرنا چاہتا ہوں، اگرچہ میں اپنے طور پر اس ضمن میں کچھ معلومات رکھتا ہوں، لیکن میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں یا نہیں؟لڑکی نے کہا: ہم نے مرزا صاحب کی کتابوں میں تو کہیں نہیں پڑھا کہ انھوں نے اس طرح خود کو نبی لکھا ہو، جس طرح عام لوگ سمجھتے ہیں! میں نے کہا: تو پھر مطلب یہ ہوا کہ مرزا کے ساتھیوں اور پیروکاروں نے خود سے انھیں نبی کہنا شروع کر دیا! اگر ایسا ہے تو ان لوگوں نے خود سے بھی اور مرزا صاحب سے بھی زیادتی کی! لڑکی کہنے لگی: نہیں سر! انھوں نے تو دراصل مہدی ہونے کا دعوی کیا اور اس کے بارے میں حدیثیں بھی موجود ہیں۔میں نے کہا: تو پھر یوں کہیے کہ مرزا صاحب نے نبی نہیں مہدی یا مسیح ِموعود ہونے کا دعوی کیا، تو پھر ان کو نبی کہنا غلط ہوا۔ لڑکی بولی: نہیں سر! دراصل ان کی نبوت محمد ﷺ کی نبوت کے تابع ہے، آپ کی نبوت کے اندر رہتے ہوئے آپ نے دین کی سربلندی اور تجدید کے لیے کام کیا۔ میں نے کہا: تو مجدد تو اور بھی بہت ہوئے ہیں امت میں، مرزا صاحب بھی اگر اسی طرح کے مجدد تھے، تو اس کے لیے نبوت ِ محمدی ﷺکے تابع نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ فقط مجددیت سے کام چل سکتا تھا، لاہوری جماعت نے ان کو مجدد مانا بھی ہے، اور اسی بنا پر مین سٹریم احمدیوں سے ان کا اختلاف بھی ہے۔ پھر اگر آپ مرزا صاحب کو مجدد ہی مانتے ہیں تو آپ کا لاہوریوں سے کیا اختلاف ہے؟نیز مجددیت اور نبوت میں جو کنفیوژن پیدا ہورہی ہے، اس کو آپ کیسے حل کریں گے؟ مجھے فقط یہ سمجھا دیں کہ آپ کے نزدیک مرزا صاحب کا سٹیٹس، مجددیت، نبوت اور مہدویت وغیرہ میں سے فی الواقع کیا ہے؟لڑکی احمدیت اور اسلام کے بارے میں قابلِ ذکر معلومات رکھتی تھی،لیکن مجھے وہ دوٹوک یہ بتانے میں ناکام رہی کہ ان کے نزدیک مرزا صاحب کا اصل سٹیٹس کیا ہے! وہ مختلف طریقوں سے مذکورہ تینوں چیزوں کو مرزا صاحب سے متعلق قرار دے رہی تھی۔میں نے کہا اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں محض ایک دو باتیں کر لوں! وہ بولے ضرور سر! میں نے کہا: دیکھیے: مرزا صاحب کا خود کو کھل کر نبی نہ کہنا یا اپنی نبوت کو حضورﷺ کی نبوت کے تابع قراردینا یا اپنی نبوت کی تعبیریں ظلی و بروزی نبوت وغیرہ سے کرنا، اور آپ لوگوں کا کھل کر مرزا صاحب کو نبی نہ کہنا اور اس کی مختلف تعبیریں کرنا، اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مرزا صاحب کو اس بات کا یقینی علم تھا کہ اسلام کے اندر نئی نبوت کی کوئی گنجایش نہیں، اگر انھوں نے کھل کر خود کو نبی کہا، تو وہ مسلمان ہوکر نہیں رہ سکیں گے، اور نہ اس معاملے میں ان کو کوئی مقبولیت مل سکتی ہے۔یعنی وہ مسلمانوں میں ختم نبوت کے واضح سٹیٹس کو جانتے تھے، جبھی تو وہ اس کی تاویلیں کرتے تھے، اور جبھی آپ لوگ اس کی تاویلیں کر رہے ہیں! مزید یہ کہ یہ جو بات کی گئی کہ خاتم النبیین کے قرآنی الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے خاتم الاولیا یا خاتم المفسرین وغیرہ کے الفاظ، تو اس سے ثابت تو یہ کیا جاتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور آپ ﷺ کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے، جیسا کہ خاتم الاولیا یا خاتم المفسرین کے بعد بھی ولی یا مفسر ہو سکتے ہیں، لیکن دوسری طرف مرزاصاحب خود کو کھل کر نبی بھی نہیں کَہ رہے۔سوال یہ ہے کہ جب شرعاً نیا نبی آ سکتا ہے، تو اس میں شرمانے اور کان کو اِدھر اُدھر سے پکڑنے کی ضرورت کیا ہے، بلا کسی تاویل اور خوف و جھجک کے مرزا صاحب کو بھی کہنا چاہیے تھا کہ وہ نبی ہیں اور آپ لوگوں یا ان کے پیروکاروں کو بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہنا چاہیے کہ وہ نبی ہیں! بہ الفاظِ دیگر مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں کا رویہ خود بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک خاتم النبیین کی مذکورہ تعبیر درست نہیں اوروہ جانتے ہیں کہ اسلام میں کسی نئے نبی کی کوئی گنجایش نہیں، ورنہ نہ مرزا صاحب اپنے سٹیٹس کو یوں کنفیوز رکھتے اور نہ ان کے پیروکار ہمیشہ کے لیے کنفیوژن میں پڑے رہتے۔ وہ میاں بیوی میری باتوں پر کافی غور کر رہے تھے، اور اکثر جگہ اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں میری کسی بات سے وہ اپنے کسی نظریے پر نظرثانی کریں گے یا نہیں۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر ان کا خوف اتار کر کھلے ماحول میں ان سے مکالمہ اور گفت گو ہو تو قادیانیت کی تفہیم بھی صحیح ہو سکے گی، اور ان کے بہت سے لوگ دائر? اسلام میں واپس بھی آ جائیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کے اپنے خول میں بند ہونے کے بہت حد تک ذمے دار مسلمان ہیں۔ واﷲ! ان لوگوں کے پاس ایک دلیل ایسی نہیں، جو کسی ذرا سے سنجیدہ مسلمان کو قائل کر سکتی ہو اور ایک عام سے سنجیدہ مسلمان کے پاس سو دلیلیں ہیں، جو ان کو قائل کر سکتی ہیں،یا کم ازکم سوچنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ یہ جوڑا ذرا کھلا تو ایک عجیب بات سامنے آئی۔لڑکی کے خاوند نے کہا: سر! میرا تو خود اس سے اختلاف رہتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ قادیانیت غلط ہے،لیکن یہ نہیں مانتی، میں نے ان کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، مرزا صاحب ایک جگہ خود کو نبی کہتے ہیں اور کچھ آگے جاکر اس کا انکار کر دیتے ہیں۔لڑکی بولی سر! ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے انھوں نے میرے بھائی سے کہا کہ میں نے بیعتِ خلافت کر لی ہے، اور میرے خاندان والوں نے مجھ سے تعلق توڑ لیا ہے، مجھے کوئی رشتہ نہیں دیتا، انھوں نے جماعت میں بات کی تو لوگوں نے کہا کہ آپ اپنے گھر سے ابتدا کریں، اپنی بہن اس سے بیاہ دیں۔یوں (گویا تالیف قلب کے طور پر)ان سے میری شادی ہو گئی۔شادی کے کچھ دن بعد ہی انھوں نے مجھ سے اختلاف کرنا شروع کر دیا۔دراصل ان کا خیال تھا کہ رشتہ تو کریں، مذہب تو مرد کا ہی ہوتا ہے، وہ عورت کو قائل کر لیتا ہے، لہذا یہ مجھے قائل کر کے گھر لے جائیں گے اور بڑا ثواب پائیں گے،لیکن ایسا ہوا نہیں، اس کو میرے پاس آنا پڑا ہے۔ہمارے دو بچے ہیں۔ یہ ہماری رسمیں بھی ادا کرتا ہے، اور بیچ بیچ میں ہمیں غلط بھی کہنے لگتا ہے۔ہمارا اختلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔واضح رہے کہ لڑکے کی تعلیم واجبی سی ہے اور لڑکی ایم فل اسلامیات کر رہی ہے۔
(ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرنوالہ، فروری 2017ء)