مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت عروہ رحمتہ اﷲ علیہ کہتے ہیں: حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں فتحِ مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی ۔ اس عورت کی قوم والے گھبرا کر حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ کے پاس گئے تاکہ وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس عورت کی سفارش کردیں (اور یوں ان کی عورت چوری کی سزا سے بچ جائے)۔ جب حضرت اسامہ نے اس بارے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے بات کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک (غصہ کی وجہ سے) بدل گیا اور فرمایا: (اے اسامہ!) تم مجھ سے اﷲ کی حدود کے بارے میں (سفارش کی) بات کررہے ہو؟ (حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ سمجھ گئے کہ سفارش کر کے انھوں نے غلطی کی ہے اس لیے فوراً) حضرت اسامہ نے کہا : یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ میرے لیے استغفار فرمائیں۔ شام کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بیان فرمانے کھڑے ہوئے۔ پہلے اﷲ کی شان کے مناسب ثنا بیان کی پھر فرمایا:
اما بعد! تم سے پہلے لوگ صرف اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا طاقت ور اور معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے ، اور جب کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حدِ شرعی قائم کرتے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی جان ہے! اگر محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹوں گا۔ (أَعَاذَھَا اللّٰہُ مِنْھَا) پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا جس پر اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا، اس نے بہت اچھی توبہ کی اور اس نے شادی بھی۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں اس کے بعد وہ عورت (میرے پاس) آیا کرتی تھی اور میں اس کی ضرورت کی بات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا کرتی [۱]۔
حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں : ہم لوگ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ حنین کے موقع پر نکلے۔ جب ہمارا (دشمن سے) سامنا ہوا تو اکثر مسلمان بکھر گئے (البتہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم میدان جنگ میں جمے رہے)۔ میں نے دیکھا کہ ایک مشرک آدمی ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے۔ میں نے پیچھے سے اس مشرک کے کندھے پر تلوار کا وار کیا جس سے اس کی زرہ کٹ گئی (او رکندھے کی رگ بھی کٹ گئی۔ وہ زخمی تو ہوگیا لیکن) وہ مجھے پر حملہ آور ہوا اور مجھے اس زورسے بھینچا کہ میں مرنے کے قریب ہوگیا (لیکن زیادہ خون نکل جانے کی وجہ سے وہ کمزور ہوگیا) آخر اس پر موت کے اثرات طاری ہونے لگے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا (اور پھر وہ مرگیا) میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے ملا۔
[۱]۔ أ خر جہ البخاری ، وقد رواہ البخاری فی موضع آخر ومسلم من حدیث عائشۃ رضی اﷲ عنہا کذا فی ’’البدایۃ‘‘ (۳۱۸/۴)، وأخر جہ أیضا الأ ربعۃ عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا کمافی ’’الترغیب‘‘ (۴/ ۲۶)۔
میں نے ان سے کہا: لوگوں کو کیا ہوا؟ (کہ ان مسلمانوں کو شکست ہوگئی) انھوں نے کہا: اﷲ کا حکم ایسا ہی تھا۔ (بعد میں کفار کو مکمل شکست ہوئی اور مسلمان جیت گئے) پھر مسلمان (میدانِ جنگ سے) واپس آئے۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہے اور اس کے پاس گواہ بھی ہے تو اس مقتول کا سامان اسے ہی ملے گا۔ میں نے کھڑے ہو کر کہا:کون میرے لیے گواہی دیتا ہے؟ (جب کسی نے جواب نہ دیا تو) میں بیٹھ گیا۔
پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی طرح ارشاد فرمایا: میں نے پھر کہا: کون میرے لیے گواہی دیتا ہے؟ اور پھر میں بیٹھ گیا۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر وہی ارشاد فرمایا:میں پھر کھڑا ہو گیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوقتادہ! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سارا قصہ بتایا تو ایک آدمی نے کہا: یہ سچ کہتے ہیں، اس مقتول کافر کا سامان میرے پاس ہے۔ (یارسول اﷲ!) آپ ان کو کسی طرح مجھ سے راضی فرمادیں (کہ یہ اس مقتول کا سامان میرے پاس رہنے دیں)۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا: نہیں، اﷲ کی قسم! ایسے نہیں ہوسکتا ۔ جب ان کی بات ٹھیک ہے تو یہ سامان ان کو ہی ملنا چاہیے۔ تمہیں دینے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ اﷲ اور اس کے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے لڑنے والے اﷲ کے شیر کو ملنے والا سامان حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تمھیں دے دیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ابوبکر ٹھیک کہتے ہیں، تم ان کو وہ سامان دے دو۔ چناں چہ اس نے مجھے وہ سامان دے دیا جس سے میں نے بنو سَلَمہ کے علاقہ میں ایک باغ خریدا۔ یہ وہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں جمع کیا[۱]۔
حضرت عبداﷲ بن ابی حَدْرَد اسلمی رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں: ان کے ذمہ ایک یہودی کے چار درہم قرض تھے۔ اس یہودی نے اس قرض کی وصولی میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے مدد لینی چاہی اور یوں کہا: اے محمد! میرے اس آدمی کے ذمہ چار درہم قرض ہیں اور یہ ان درہم کے بارے میں مجھ پر غالب آچکے ہیں۔ (یعنی میں کئی مرتبہ ان سے تقاضا کرچکا ہوں لیکن یہ مجھے دیتے نہیں)حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اس کا حق اسے دے دو۔ انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے دینے کی میرے پاس بالکل گنجائش نہیں ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ا ن سے فرمایا:اس کا حق اسے دے دو۔ انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، دینے کی بالکل گنجائش نہیں اور میں نے اسے بتایا تھا کہ آپ ہمیں خیبر بھیجیں گے اور امید ہے کہ آپ ہمیں کچھ مالِ غنیمت دیں گے، اس لیے وہاں سے واپسی پر اس کا قرض ادا کردوں گا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا حق ادا کردو۔ آپ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ کسی بات کو تین دفعہ سے زیادہ نہیں فرماتے تھے۔ (تین دفعہ فرما دینا پورے اہتمام اور تاکید کی نشانی تھی) چنانچہ حضرت ابن ابی حَدْرَدبازار گئے۔ ان کے سر پر پگڑی تھی اور ایک چادر باندھ رکھی تھی، انھوں نے سر سے پگڑی اتار کر اسے لنگی بنالیا اور چادر کھول کر اس یہودی سے کہا: تم مجھ سے یہ چادر
[۱]۔ أخر جہ البخاری، وأخرجہ أیضا مسلم (۲/ ۸۶) وأبو داود (۲/ ۱۶) والترمذی (۱/ ۲۰۲) وابن ماجہ (ص:۲۰۹)والبیھقی (۵۰/۹)۔
خرید لو۔ چناں چہ وہ چادر اس یہودی کے ہاتھ چار درہم میں بیچ دی۔ اتنے میں ایک بڑھیا کا وہاں سے گزر ہوا اس نے یہ حال دیکھ کر کہا: اے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی ! تمھیں کیا ہوا؟ انھوں نے اسے سارا قصہ سنایا تو اس بڑھیا نے اپنے اوپر سے چادر اتارکر ان پر ڈال دی او رکہا: یہ چادر لے لو [۱]۔
حضرت اُمّ سَلَمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: انصار کے دو آدمی کسی ایسی میراث کا جھگڑا لے کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جس کے نشان مٹ چکے تھے اور کوئی گواہ بھی ان کے پاس نہیں تھا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس اپنے جھگڑے لے کر آتے ہو اور جس کے بارے میں مجھ پرکوئی وحی نازل نہیں ہوئی، میں اس میں اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں۔ لہٰذا جس آدمی کی دلیل کی وجہ سے میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں جس کی وجہ سے وہ اپنے بھائی کا حق لے رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کا حق ہر گز نہ لے، کیوں کہ میں تو اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں اور وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ یہ ٹکڑا اس کے گلے کا ہار بنا ہوا ہوگا۔ اس پر وہ دونوں حضرات رونے لگے اور دونوں میں سے ہر ایک نے کہا یارسول اﷲ! میں اپنا حق اسے دیتا ہوں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نے یہ ارادہ کر لیا تو جاؤ اور حق پر چلو اور اس میراث کو آپس میں تقسیم کرلو اور تقسیم کرنے کے لیے قرعہ اندازی کر لو اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد تم دونوں میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کو اپنا حق معاف کردے[۲]۔
حضرت ابوسعید رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: ایک اعرابی کا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرضہ تھا۔ وہ آکر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا تقاضا کرنے لگا اور اس نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر بڑی سختی کی یہاں تک کہ یہ کہہ دیا کہ جب تک آپ میرا قرضہ ادا نہیں کریں گے میں آپ کو تنگ کرتا رہوں گا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسے جھڑکا اور کہا: تیرا ناس ہو! تم جانتے ہو کہ تم کس سے بات کررہے ہو؟ اس نے کہا: میں تو اپنا حق مانگ رہا ہوں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے حق والے کا ساتھ کیوں نہ دیا؟ اور پھر آپ نے حضرت خولہ بنتِ قیس رضی اﷲ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر تمہارے پاس کھجوریں ہوں تو ہمیں ادھار دے دو، جب ہمارے پاس آئیں گی تو ہم تمہارا قرضہ ادا کردیں گے۔ انھوں نے کہا: ضرور، یارسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے قرض لے کر اس اعرابی کا قرض ادا کردیا اور جتنا اس کا قرض تھا اس سے زیادہ اسے دیا۔اس اعرابی نے کہا: آپ نے قرضہ پورا ادا کردیا اﷲ آپ کو پورا بدلہ دے۔ پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: حق کا ساتھ دینے والے لوگوں میں سب سے بہترین لوگ ہیں اور وہ امت پاکیزہ نہیں ہوسکتی جس میں کمزور آدمی بغیر کسی تکلیف اور پریشانی کے اپنا حق وصول نہ کرسکے[۳]۔
[۱]۔ أخر جہ بن عساکر، کذافی ’’الکنز‘‘ (۱۸۱/۳)، وأخرجہ أحمد أیضا کمافی ’’الاصابۃ‘‘ (۲/ ۲۹۵)۔
[۲]۔أخر جہ ابن أبی شیبۃ وأبو سعید النقاش، کذافی ’’الکنز‘‘ (۱۸۲/۳)۔[۳]۔ أخر جہ ابن ماجہ ، ورواہ البزار من حدیث عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا مختصرا، والطبرانی من حد یث ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ باسناد جید، کذافی ’’الترغیب‘‘ (۲۷۱/۳) حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ حضرت خولہ بنت قیس رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: بنو ساعدہ کے ایک
آدمی کی ایک وسق کھجوریں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذمہ قرض تھیں۔ (ایک وسق تقریباً سوا پانچ من کا ہوتا ہے) اس آدمی نے آکر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنی کھجوروں کا تقاضا کیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی سے فرمایا کہ اس کا قرض ادا کردو۔ انھوں نے اس کی کھجوروں سے گھٹیاقسم کی کجھوریں دینی چاہیں۔ اس آدمی نے لینے سے انکار کردیا۔ ان انصاری نے کہا: کیا تم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان کی کھجوریں واپس کرتے ہو؟ اس آدمی نے کہا: ہاں! اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ عدل کرنے کا کون حق دار ہے؟ یہ سن کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور آپ نے فرمایا: یہ ٹھیک کہتا ہے، مجھ سے زیادہ عدل کرنے کا حق دار کون ہوسکتا ہے؟ اور اﷲ تعالیٰ اس امت کو پاک نہیں فرماتے جس کاکمزور آدمی طاقت ور سے اپنا حق نہ لے سکے اور نہ اس پر زور دے سکے۔ پھر فرمایا: اے خولہ! اسے گن کر ادا کردو، کیوں کہ جس مقروض کے پاس سے قرض خواہ خوش ہو کرجائے گا اس کے لیے زمین کے جانور اور سمندروں کی مچھلیاں دعا کریں گی۔ اور جس مقروض کے پاس قرضہ کی ادائیگی کے لیے مال ہے اور وہ ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ہر دن اور رات کے بدلہ میں اس کے لیے ایک گناہ لکھتے ہیں[۱]۔
(از: حیاۃ الصحابہ، جلد: ۲، مترجم:مولانا محمد احسان الحق)
[۱] أخر جہ الطبرانی،ورواہ أحمد بنحوہ عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا با سناد جید قوی، کذافی ’’الترغیب‘‘ (۳۷۰/۳)۔