تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

فاعتبروا یا اولی الابصار…… نواز شریف ایک بار پھر نااہل قرار

سید محمد کفیل بخاری چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ۲۱؍ فروری ۲۰۱۸ء کو انتخابی اصلاحات ۲۰۱۷ء کیس کا مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی کی صدارت کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیا۔ فیصلے کے مطابق آرٹیکل ۶۲،۶۳ پر پورا نہ اترنے والا پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا۔ نااہل شخص پارٹی سربراہ بنے تو پارلیمانی نظام تباہ ہو جائے گا۔ ۲۸؍ جولائی ۲۰۱۷ء کے بعد سینیٹ امیدواروں کی نامزدگی سمیت تمام فیصلے کالعدم ہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ نواز شریف کا نام پارٹی صدارت سے ہٹا دیا جائے۔ ن لیگ نے پارٹی چیئرمین راجہ

امیر شریعت کانفرنس کی صدائے باز گشت!

عبداللطیف خالد چیمہ تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت مارچ۱۹۵۳ ء میں دس ہزار نفوس قدسیہ منصب رسالت (ﷺ) پر قربان ہوگئے، لاہور کے مال روڈ کو شہیدوں کے خون نے ترکردیا، ان پاک طینت شہیدوں کی لاشوں کوراوی میں بہایا گیا یا پھر چھانگا مانگا میں جلایا گیا، بالآخر لاہوری وقادیانی مرزائی اسمبلی کے فلور پر غیر مسلم اقلیت قرار پائے، اس مہینے میں ہم ہرسال شہداء ۵۳ ء کو بطور خاص یاد کرتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ۹؍ مارچ، جمعۃ المبارک کو بعد نمازِ مغرب ایوان اقبال لاہور میں ’’امیر شریعت کانفرنس‘‘ کے انعقاد کا اعلان آپ بار بار پڑھ چکے ہیں، امیر شریعت، احرار اور تحفظ ختم نبوت دراصل ایک ہی کام کے مختلف نام ہیں ۔حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ

دین پر کسی کا اجارہ نہ ہونا، تحریف اور من مانی کے لیے لائسنس؟

حامد کمال الدین کہتا ہے میں اوپن ایئر میں کیمروں کے آگے جنازے کی اگلی صف کے اندر خواتین کو کھڑا کروں گا۔ مجھے خود دین کی بہت سمجھ ہے تم زیادہ درس مت دو، دین پر کسی کا اجارہ ہے اور نہ مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت۔ یعنی اسلام کو تعبیر (interpret) کرنے کی کھلی آزادی۔ جس کی سمجھ میں جو آئے۔ اور وہ دوسرا جو خدا کو (معاذ اﷲ) اپنے پیچھے سکوٹر پر بٹھا لے جانے کو ’ادب‘ کی دلیل سے جائز کرتا ہے اور اسے بتانے پر کہ اہل اسلام کے ہاں خدائے مالک الملک کی بابت ایسی زبان روا نہیں، اس کی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ خدا اور مذہب کی اپنی تعبیر کیوں نہیں کر سکتا، اسے

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

پروفیسر خالد شبیر احمد عہدِ حاضر کے مستشرقین یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام قصۂ پارینہ ہے۔ اب دین کی جگہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے لے لی ہے اور یہی زمانے کی قیادت کا فرض ادا کرے گی۔ المیہ تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کے اندر بھی ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو انھی خیالات کا پرچار دن رات کرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس بات پر اصرار ہے کہ قرآن و سنت دورِ حاضر کے مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتے۔ بھلا ’’سٹار وار‘‘ ’’سائبر وار‘‘ کے دور میں قرآن کیا رہنمائی پیش کر سکتا ہے۔ جبکہ سائنسی علوم، فنی مہارت اور جدید فلسفۂ حیات کے تحت بنی نوعِ انسان مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور دن بہ دن سائنسی

قادیانی سربراہ مرزا مسرور احمد کے نام کھلا خط

ابوعمار زاہد الراشدی (مولانا زاہد الراشدی کا ایک اہم خط جو انھوں نے اب سے تقریباً ربع صدی قبل اس وقت کے قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد کے نام لکھا تھا۔ جو ان کو بھجوانے کے ساتھ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے ستمبر ۱۹۹۵ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مرزا طاہر احمد ، مرزا قادیانی کے پوتے تھے، اور مرزا مسرور احمدکے دادا مرزا شریف ہیں جو مرزا قادیانی کے چھوٹے بیٹے تھے۔ اگر چہ احوال میں اسی طرح کی کچھ جزوی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں [مثلا وارث دین محمد مرحوم کے انتقال کے بعد لوئیس فرّخان کے ارتدادکا حال] مگر مرکزی صورتحال جوں کی توں ہے اس لیے مولانا راشدی نے وہی خط اب قادیانی امت کے موجودہ سربراہ مرزا مسرور

آزادکشمیراسمبلی میں’’ختم نبوت بل ‘‘کی منظوری اور تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کا کردار

محرک قرارداد ختم نبوت میجر (ر) محمد ایوب خان شہید ؒ سے وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان تک کا پس منظر محمد مقصود کشمیری ریاست کی مقامی جماعت تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کی جانب سے پوری امت مسلمہ کے لیے باعث خوشی ہے کہ تحریک آزادی کے بیس کیمپ کی قانون ساز اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں ۶ فروری ۲۰۱۸کو ۳ بجکر ۵۲ منٹ ۵۷ سیکنڈ پر ایک بل متفقہ طور پر اراکین کی جانب سے منظور کیا گیا، جسے ختم نبوت بل کہا جاتا ہے، ۶ فروری کا دن آزادکشمیر کی تاریخ میں پوری امت مسلمہ کے لیے ایک اعزاز اور یاد گار کے طور پر محفوظ ہو گیا کہ اس دن آزادکشمیر کی اسمبلی سے منکرین ختم نبوت قادیانیوں (

عمل بہت کم…… فوائد بہت زیادہ! (احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں)

اخذ و ترتیب: حاجی عبدالستار مغل کیا آپ مغفرت کا حصول چاہتے ہیں؟ ٭ کیا آپ کو رحمتِ الٰہی مل جانے کی خواہش ہے؟ ٭ کیا آپ کو رزق کی تلاش ہے؟ تو ان سوالوں کا جواب مندرجہ ذیل روایت میں موجود ہے: ٭ ایک دیہاتی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے بھلائی سکھلائیے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کہو: ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَاْ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ واللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ پھر دیہاتی اٹھا اور واپسی کی راہ لی۔ تھوڑی دیرجا کر ذرا رُکا اور سوچ میں پڑ گیا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ’’ضرورت مند شخص سوچ میں پڑ گیا ہے‘‘۔ پھر وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم

فضائل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ

امام ابو عبداﷲ احمد بن حنبل رحمہ اﷲ (ترجمہ: نوید احمد بشار ) سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے منبر پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا: بے شک میرا پاؤں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں یا حوضِ کوثر کے دہانے پر ہے اور بے شک اﷲ نے اپنے کسی بندے کو (دو باتوں میں ایک بات کا) اختیار دیا ہے؛ وہ جی بھر کر دنیا میں رہے اور اس میں من پسند کھائے۔ یا اﷲ سے ملاقات کے لیے کمر بستہ ہو جائے ۔ اور اس بندے نے لقائے الٰہی کو پسند کر لیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ منبرِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلو

سلفِ صالحین اور کثرتِ عبادت کا صحیح طریقہ

محمد نعمان سنجرانی ابوعثمان نہدی سے روایت ہے، کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنی سواری پر سوار تھے اور جھکے ہوئے تھے، اُن کا رُخ مشرق(۱) کی طرف تھا۔ میں سمجھا اُن کی آنکھ لگ گئی ہے۔ میں اُن کے پاس آیا، میں نے عرض کیا: حضرت کیا آپ سو رہے ہیں؟ فرمایا: نہیں، بلکہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ (۲) ٭ حضرت احنف سے کہا گیا: آپ بوڑھے ہیں اور روزے سے آپ کو کمزوری ہو گی۔ فرمانے لگے: میں اِس کو ایک لمبے سفر کے لیے تیار کر رہا ہوں اور بتایا گیا ہے کہ حضرت احنف اکثر نوافل رات کے وقت ادا فرماتے تھے۔ وہ اپنی انگلی کو چراغ پر رکھتے تو کہتے حَسِّ(یعنی

نعت

حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ لولاک ذرّۂ زِ جہانِ محمد است سبحانَ مَنْ یراہُ! چہ شانِ محمد است سی پارۂ کلامِ الٰہی خدا گواہ آں ہم عبارتے ز زبانِ محمد است نازد بنامِ پاکِ محمّد کلامِ پاک نازم بآں کلام کہ جانِ محمد است توحید را کہ نقطۂ پرکارِ دینِ ماست دانی؟ کہ نکتۂ ز بیانِ محمد است سرِّ قضا و قدر ہمین است اے ندؔیم پیکانِ امرِ حق ز کمانِ محمد است شانِ ورود: اس کے متعلّق خود فرمایا: ’’کادیان یا بٹالہ میں منعقد ہونے والے کسی جلسہ یا احرار کانفرنس کو (غالباً رمضان 1363ھ/جون 1944ء میں) جب مرزائیوں کے اشارہ سے حکومت نے ممنوع قرار دے دیا تو لاہور میں مجلس کی طرف سے احتجاجی جلسہ

نعت

حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ہزار صبِح بہار از نگاہ می چکدش جنوں زِ سایۂ زلفِ سیاہ می چکدش چمن چمن گل و نسریں زِ عکسِ رخ ریزد سبد سبد گلِ خنداں ز راہ می چکدش بہ پیشگاہِ جمالش جلال سر بہ سجود چہ خندہ و چہ تبسّم کہ جاہ می چکدش صد آفتاب بہ زیرِ گلیم می رخشد زِ دلقِ فقر چہ گویم کہ ماہ می چکدش چہ شور ہاست بجانم ز خندہ نمکیں چہ فتنہ ہا کہ ز چشمِ سیاہ می چکدش ہزار حشر بدامن، ہزار فتنہ بجیب ہزار فتنہ ز چشمِ سیاہ می چکدش چہ گفتگو چہ تبسُّم شہادتے بحدوث زِ نورِ چہرہ قِدم را گواہ می چکدش قِدم بہ جلوہ بین و حدوث را

غزل

پروفیسر خالد شبیر احمد درد رکھتے ہیں آہ رکھتے ہیں اہل دل بھی سپاہ رکھتے ہیں آستینوں میں ہم فقیر اپنی تابشِ مہر و ماہ رکھتے ہیں وہ ہیں بیزرا پھر بھی ہم ان سے چاہتیں بے پناہ رکھتے ہیں جن کو اپنی خبر نہیں ہوتی ہم اُنھیں سربراہ رکھتے ہیں اہل دنیا کو وہ کہاں حاصل اہلِ دل جو نگاہ رکھتے ہیں ہم نے اکثر سنا ہے اہلِ ہوس دیدہ و دل سیاہ رکھتے ہیں مجھ بے ننگ و نام سے یارو وہ کہاں رسم و راہ رکھتے ہیں ہم بھی خالد انا کی ٹھوکر پہ سطوتِ کج و کلاہ رکھتے ہیں

امیرشریعت سیّدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ……ایک ہمہ جہت شخصیت

ڈاکٹرعمرفاروق احرار امیرشریعت مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی انمول یادوں کے روح پرور تذکرے جس طرح اہلِ اسلام کے دلوں میں تازہ ہیں۔ محسوس ہوتاہے کہ شاہ صاحبؒ اب بھی ہم میں موجودہیں۔حالانکہ انہیں اِس عالم سے رخصت ہوئے نصف صدی سے زائدعرصہ بیت چکاہے،مگر اُن کی یادوں کی خوشبوآج بھی سروسمن کی وسعتوں سے دارورسن کی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ سیدعطاء ﷲ شاہ بخاری 23؍ستمبر1892ء میں صوبہ بہار(انڈیا) کے علاقہ پٹنہ میں پیداہوئے ۔خاندانی نجیب الطرفین ہونااُن کا مقدر بنا۔اوائل عمری میں ہی اردوزبان وبیان کے رموزسے بہرہ ورہوئے۔علم کی پیاس پٹنہ سے امرتسرکے مردم خیزخطّے میں لے آئی۔تعلیم تکمیل کو پہنچا ہی چاہتی تھی کہ ہندوستان میں تحریک خلافت کا آغازہوگیا۔امرتسر اُن دنوں سیاست کامرکزتھا۔شاہ صاحب بھی سیاست کی

شب ِ تاریک میں کرتے ہو سحر کی باتیں

عبدالمنان معاویہ مولانا عبید اﷲ سندھی ؒبرصغیر کی آزادی کے جانباز سپہ سالار وقافلہ حریت کے فردِ فرید تھے، حضرت سندھی ؒ کے بارے میں ایک واقعہ نہایت مشہور ہے کہ حضرت سندھی ؒ موجودہ پیرصاحب پگاڑا کے جدِ امجد کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ اپنے مریدوں کو جنگ آزادی کے لیے تیا رکریں، پیر صاحب نے فرمایا کہ سائیں ان بیچاروں نے تو کبھی مرغی ذبیح نہیں کی، یہ انگریز سرکار سے کیا لڑیں گے، حضرت سندھی ؒ نے فرمایا کہ پیر صاحب چند مرید میرے حوالے کردیں میں انہیں تیا رکیے دیتا ہوں پیر صاحب نے چند نوجوان مرید حضرت سندھی ؒ کے حوالے کیے، امام انقلاب مولانا سندھیؒ نے کچھ عرصہ انہیں ٹریننگ دی اور ایک روز پیر صاحب کے

مِنھاجِ نُبوّت اور مرزا قادیانی

قسط: ۲ مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ معیار نمبر۳: انبیاء دنیا سے شرک مٹاتے ہیں: انبیاء علیہم السلام دنیا میں شرک مٹانے آتے ہیں اور ہمارا کام بھی شرک مٹانا ہے نہ کہ شرک قائم کرنا۔ (سیرت المھدی، جلد اوّل، ص: ۲۹۵ روایت نمبر ۳۱۹) مرزا قادیانی اپنے اس دعویٰ پر پورا نہ اترا۔ انبیاء کرام بلاشبہ شرک مٹانے کے لیے ہی مبعوث ہوتے ہیں۔ پورا قرآن مجید اس کی تائید سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی نبی تھا اور کیا اس نے شرک کو ختم کیا ہے۔ ان ہر دو سوالوں کا جواب نفی میں ہے اس کے اقوال اور مزعومہ وحی شرک سے بھری ہوئی ہے۔ چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔ ۱۔ انت منی بمنزلۃ

متلاشیانِ حق کے لیے دعوت فکرو عمل

  مکتوب نمبر: ۹ ڈاکٹر محمد آصف بسم اﷲ الرحمن الرحیم عزیز احمدی دوستو! مرزا صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: تحریر نمبر3: اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت او روثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لیے آواز آئے گی ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی اب سوچو یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے لیکن وہ حدیث جو معترض صاحب نے پیش کی

مسافران آخرت

ادارہ مولانا رشید احمد لدھیانوی رحمۃ اﷲ علیہ: جمعیت علماءِ اسلام پنجاب کے سابق امیر مولانا رشید احمد لدھیانوی مختصر علالت کے بعد ۱۷؍ فروری ۲۰۱۸ء کو رحیم یار خان میں انتقال کر گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ مولانا رشید احمد لدھیانوی ۱۹۴۳ء میں رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے حقیقی بھائی حضرت مفتی حسن رحمۃ اﷲ علیہ (فاضل دار العلوم دیوبند) کے ہاں لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں جامعہ خیر المدارس ملتان سے دینی تعلیم مکمل کی۔ ۱۹۵۸ء میں ہندوستان جانا ہوا تو چار ماہ دار العلوم دیوبند میں بھی پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی نوّر اﷲ مرقدہٗ کے گھر قیام و طعام کی سعادت حاصل ہوئی۔ مولانا رشید احمد

نقیب

گزشتہ شمارے

2018 March

فاعتبروا یا اولی الابصار…… نواز شریف ایک بار پھر نااہل قرار

امیر شریعت کانفرنس کی صدائے باز گشت!

دین پر کسی کا اجارہ نہ ہونا، تحریف اور من مانی کے لیے لائسنس؟

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

قادیانی سربراہ مرزا مسرور احمد کے نام کھلا خط

آزادکشمیراسمبلی میں’’ختم نبوت بل ‘‘کی منظوری اور تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کا کردار

عمل بہت کم…… فوائد بہت زیادہ! (احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں)

فضائل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ

سلفِ صالحین اور کثرتِ عبادت کا صحیح طریقہ

نعت

نعت

غزل

امیرشریعت سیّدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ……ایک ہمہ جہت شخصیت

شب ِ تاریک میں کرتے ہو سحر کی باتیں

مِنھاجِ نُبوّت اور مرزا قادیانی

متلاشیانِ حق کے لیے دعوت فکرو عمل

مسافران آخرت