تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سمجھ انجام گلشن کا……

سید محمد کفیل بخاری ملکی حالات بڑی برق رفتاری کے ساتھ خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں نے کاروبارِ زندگی مفلوج کر دیا ہے۔ قتل، اغواء، آبرو ریزی کے وحشیانہ واقعات نے عوام کے ذہنوں پر خوف طاری کر دیا ہے۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو تو صرف اپنے اقتدار کی فکر ہے۔ قوم کس کرب سے گزر رہی ہے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ ڈی چوک دھرنے سے شروع ہونے والا خطرناک کھیل، فیض آباد اور داتا دربار سے ہوتا ہوا سیال شریف پہنچ کر اختتام پذیر ہو گیا۔ لیکن اس دوران واقعات و سانحات قابلِ افسوس بھی ہیں اور باعثِ عبرت بھی۔ اگرچہ ہم تحریک پاکستان، قیامِ پاکستان، دستورِ پاکستان اور اب پیغامِ پاکستان کے قومی بیانیے تک

امیر شریعت کانفرنس(9 ؍مارچ 2018 ء)

عبداللطیف خالد چیمہ یوں تو سال مہینہ نہیں،پوری زندگی ہم نے تحریک ختم نبوت کے لیے اﷲ کی توفیق سے وقف کررکھی ہے ،لیکن تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت مارچ 1953ء کے دس ہزار شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مارچ کے مہینے میں ہم سرخ پوشانِ احرار ہر سال خاص طور پر شہداء ختم نبوت کا نفرنسز کا اہتمام کرتے ہیں ،قیام ملک کے بعد جب احرار نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد دفاع پاکستان اور تحفظ ختم نبوت پر اپنی تمام توانائیاں وقف کردیں تو مرزا بشیر الدین محمود نے بلوچستان کو احمدی اسٹیٹ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے 1952ء کو احمدیت کا سال قرار دیا ،اور وزیر خارجہ آنجہانی ظفر اﷲ خاں نے بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں

اسلامی ریاست میں حکمرانوں کی ذمہ داریاں

پروفیسر خالد شبیر احمد اسلامی ریاست میں حکمرانوں کی ذمہ داریاں ہی اس نوعیت کی ہیں کہ ہر ذمہ داری کو پورا کرنے کے بعد معاشرہ خود بخود پرسکون ہوتا چلا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کے مطابق حکمران، حکمران نہیں ہوتے بلکہ قوم کے خادم ہوتے ہیں، ان کے لیے اقتدار عیش و عشرت کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی ذمہ داری ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنے آپ کو عوام سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریوں میں سب سے زیادہ لوگوں کے دین و ایمان، جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کو ہی اہمیت دیتے ہیں کہ یہ ان کا بنیادی فریضہ ہے جسے پورا کیے بغیر لوگ معاشرے میں اپنے فرائض

سیاسی اشرافیہ اوربیوروکریسی کاکڑا اِحتساب

ڈاکٹرعمرفاروق احرار اطلاعات کے مطابق رواں برس عام انتخابات ہونے سے پہلے نیب اور حساس اداروں نے قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین کے اثاثوں کی چھان بین شروع کردی ہے۔جبکہ صوبائی حکومت کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں پر تحقیقات کا آغازکردیاگیاہے۔ذرائع کے مطابق ابھی ابتدائی چھان بین ہورہی ہے،تاہم انتخابات سے پہلے ہی باقاعدہ کارروائی کا آغازکرکے تحقیقات کا سامناکرنے والے اراکین پارلیمنٹ کوطلب بھی کیاجاسکتاہے۔نیب کی تحقیقات کا دائرہ کاردیگرمحکمہ جات تک پھیلنے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ہاؤسنگ کالونیوں ،نیزبیرون ملک جائیداد یں بنانے اور منی لانڈرنگ کرنے والے وزرا،ارکان اسمبلی اور اعلیٰ بیورو کریٹس کے خلاف اہم ثبوت اکٹھے کر لیے گئے ہیں ۔قومی اخبا ر میں فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق جن افراد کے خلاف نیب کارروائی چاہ رہی ہیں اُن

پیغامِ پاکستان

مولانا زاہد الراشدی یکم جنوری کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں پیغامِ پاکستان کے اجرا کی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور اکابرینِ امت کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ کتاب پیغام پاکستان معروضی حالات میں اسلام، ریاست اور قوم کے حوالہ سے ایک اجتماعی قومی موقف کا اظہار ہے جو وقت کی اہم ضرورت تھا اور اس کے لیے جن اداروں، شخصیات اور حلقوں نے محنت کی ہے وہ تبریک و تشکر کے مستحق ہیں۔ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تیار کردہ تمام مکاتب فکر کے متفقہ پیغامِ پاکستان میں بنیادی اور اصولی باتیں تو وہی ہیں جن کا گزشتہ دو عشروں سے مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے اور کم و بیش تمام طبقات

معصوم محسود اور باوردی دہشت گرد

سلیم صافی خوش شکل، خوش لباس اورخوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ نقیب اﷲ محسود خوش نصیب بھی نکلا،جو راؤانوار جیسے وحشی اور ان کے ظالم سرپرستوں کے بھیانک چہروں سے نقاب اتروانے اور اپنے جیسے لاکھوں مظلوموں کی مظلومیت کو آشکار کرنے کے مبارک عمل کا نقیب بن گیا۔ یوں تو ان کے اہل خانہ کی کہانی کم وبیش ہر قبائلی خاندان کی کہانی ہے لیکن نقیب اﷲ کا خون سب مظلوم پشتون قبائل سے دنیا کو آگاہ کرنے اور پاکستان کو جھنجھوڑنے کا ذریعہ بن گیا۔ وہ جنوبی وزیرستان کے جنت نظیر علاقے مکین کے بدرخیل قبیلے میں ملک محمد خان کے گھرپیدا ہوئے۔باپ اور دو بیٹے گزارے کی زندگی گزاررہے تھے لیکن جب عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کے گندے کھیل کی وجہ

سیکولر مغربی ممالک کی جنسی درندگی اور پاکستان پر مغرب زدگان کا حملہ

شاہنواز فاروقی قصور میں سات سالہ زینب کے ساتھ جنسی درندگی اور المناک قتل نے پورے ملک میں کہرام برپا کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں پورے معاشرے کا ردِّ عمل فطری ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کسی بھی معاشرے کے لیے شرمناک ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے کے لیے اس کی شرمناکی اور بڑھ جاتی ہے جو خود کو مسلم معاشرہ کہتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو زینب کے ساتھ ہونے والی واردات کی المناکی اور بڑھ جاتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں معاشرے کے ’’فطری رد عمل‘‘ کا یہ پہلو بجائے خود شرمناک اور ہولناک ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ صرف اس چیز کو اپنے شعور میں رجسٹر کر رہا ہے جو ذرائع ابلاغ میں موجود ہو۔ زینب

اُمّ المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا

مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اﷲ یہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادی تھیں، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی اولاد میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی تنہا یہی حقیقی بہن تھیں، ان کی والدہ زینب بنت مظعون رضی اﷲ عنہا تھیں جو مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون کی بہن تھیں اور خود بھی صحابیہ تھیں۔ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کی ولادت بعثت نبوی سے ۵ سال پہلے ہوئی تھی، اس لحاظ سے یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے قریباً ۳۵ سال چھوٹی تھیں۔ ہجرت سے پہلے ان کا نکاح حضرت خنیسؓ بن حذافہ سہمی نامی ایک صحابی سے ہوا تھا اور ان ہی کے ساتھ انھوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی تھیں۔ حضرت خنیسؓ غزوۂ بدر

سلفِ صالحین کا اﷲ کے راستے میں ثبات و قیام

ترجمہ: مولوی محمد نعمان سنجرانی ٭ حمّاد بن سَلَمہ سے روایت ہے، کہتے ہیں ہمیں علی بن زید نے حضرت سعید بن المُسیِّب رحمہ اﷲ سے روایت کی کہ انھوں نے فرمایا: حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ جب ہجرت کے لیے مدینہ کی طرف چلے تو کفار کی ایک جماعت آپ کا پیچھا کرنے لگی۔ آپ اپنی سواری سے اُترے، اپنے ترکش کے سب تیروں کو بکھیر دیا اور فرمانے لگے: تم جانتے ہو کہ میں تمھارا بہترین تیر انداز ہوں۔ اﷲ کی قسم! تم اُس وقت تک مجھے نہیں پکڑ سکتے جب تک میں اپنے سارے تیر چلا نہ لوں اور اُس کے بعد اپنی تلوار کے ساتھ تمھارا مقابلہ کروں گا۔ لیکن اگر تم چاہو تو میرا راستہ چھوڑ دو اور اس کے

حمد باری تعالیٰ

خواجہ فرقان غنی زمانے بھر کا وہی خدا ہے اسی نے سب کو دیا ہوا ہے خزانے اس کے وسیع تر ہیں تو در بھی اس کا کھلا ہوا ہے اسی سے مانگو وہی تو رب ہے اسی نے پیدا کیے سبب ہیں نہایت اعلیٰ مقام اُس کا جو اس کے در پر پڑا ہوا ہے ہوا ہے محروم وہ عطا سے جو مانگتا ہی نہیں خدا سے بہت ہے تاریک اس کی قسمت کہ ظلم خود پر کیا ہوا ہے میں جاؤں مکے حرم کو دیکھوں نہاؤں رحمت کی بارشوں میں وہاں پہ رحمت برس رہی ہے یہ حاجیوں سے سنا ہوا ہے مجھے بھی رکھنا مرے خدایا ہمیشہ دیں پر تواپنے قائم اسی نے پائی ہے کامرانی جو تیرے دیں سے جڑا ہوا

نعت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم

یوسف طاہر قریشی چاروں کھونٹ ہے پھیلی شہرت آقا کی                                                      دنیا میں مشہور ہے رحمت آقا کی اسے سرور و کیف کا ہے اک جام ملا                                              جس نے بھی ہے دیکھی صورت آقا کی دل میں ٹھاٹھیں مارے حُبِّ پیغمبر                                                           کرے حکومت من پر اُلفت آقا کی فرق مٹایا

سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ

طالب الہاشمی بَرِّ کوچک پاک و ہند میں سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتیؒ کا شمار انیسویں صدی عیسوی کی نادرۂ روزگار شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ وہ زمرۂ صوفیہ کے ایک باکمال، ذہین و فطین، زندہ دل، خوش مذاق، آزاد منش، جہاں گشت اور صاحبِ نظر بزرگ تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں گزارا۔ اثنائے سیاحت میں ہر نوع اور ہر طبقے کے افراد سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کو عجیب و غریب تجربات حاصل ہوئے۔ عمر کے آخری اٹھارہ سال انھوں نے پانی پت (بھارت) میں گزارے۔ ان کے اخلاقِ حسنہ اور روحانی کمالات نے انھیں تھوڑے ہی عرصہ میں بے شمار لوگوں کا مرجعِ عقیدت بنا دیا اور ان کے مریدانِ با صفا کا

میرے والد…… صوفی خدابخش چوہان رحمہ اﷲ

ابومحمد سلیم اﷲ چوہان سندھی۔ ڈائریکٹر مولانا عبیداﷲ سندھی اکیڈمی راجوگوٹھ میرے مربی، میرے محسن اور میرے والد گرامی صوفی خدابخش چوہان بانی مدرسہ دارالتعلیم حمادیہ گلشن امام سندھی رحمہ اﷲ اﷲ تعالیٰ کے ایک عبدِ صالح تھے، جنہوں نے اعمال صالحہ، کریمانہ اخلاق اور بے شمار خوبیوں کی وجہ اپنا نیک نام چھوڑا ہے۔ یہاں حضرت والد گرامی جناب صوفی خدابخش چوہان کی مختصر سوانح حیات لکھنے کی سعادت حاصل کر رہاہوں۔ تعارف: خدابخش بن اﷲ بخش بن خدابخش چوہان-ولادت: 1944 گوٹھ راجو چوہان تحصیل لکھی غلام شاہ ضلع شکارپور میں ہوئی۔ ت: حضرت والد محترم با ضابطہ عالم فاضل نہ تھے البتہ علماء و صلحاء کے صحبت یافتہ ضرور تھے، دنیوی تعلیم پانچ جماعتیں اپنے علیمگاؤں راجو گوٹھ میں میں حاصل کی، قرآن پاک

مِنھاجِ نُبوّت اور مرزا قادیانی

(قسط: ۱) مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ (استاد گرامی مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ ان چند علماء میں سے تھے جنھوں نے اپنے لیے فقر کے راستے کو اختیار کرنا باعثِ شرم نہیں سمجھا اور تادمِ زیست اﷲ کے دین کی ہی خدمت کرتے رہے۔ ان کو قادیانی لٹریچر کا اختصاصی مطالعہ حاصل تھا۔ ایک بار خود مجھے فرمایا کہ مرزا قادیانی کی تمام تحریرات ایک بار مکمل پڑھ چکا ہوں اور دوسری بار بھی روحانی خزائن مکمل کر چکا ہوں، ملفوظات زیرِ مطالعہ ہے۔ مولانا معاشی طور پر انتہائی کمزور تھے، مگر حرمین شریفین میں حاضری کے شدید خواہش مند تھے۔ غیب سے وسائل پیدا ہوئے اور مولانا حجاز مقدس تشریف لے گئے اور وہیں ۷؍ ربیع الثانی ۱۴۳۶ھ مطابق

خطبات بہاولپور کا علمی جائزہ…… ڈارون کا نظریۂ ارتقاء

(قسط: ۴) علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ ڈارون کا مقام ڈاکٹر صاحب کی نگاہ میں: محترم ڈاکٹر صاحب نے ڈارون کی منقبت سرائی میں بڑی فراخ دلی سے کام لیا ہے۔ ان کے ریمارکس مختصراً یوں ہیں۔ الف۔ ڈارون نے عربی زبان سیکھ لی تھی۔ ب۔ ڈارون نے اپنے عربی اساتذہ کے نام بڑے احترام سے لیے ہیں۔ ج۔ اس کا نظریۂ ارتقاء دراصل اخوان الصفا اور ابن مسکویہ جیسے حکماءِ اسلام کے نظریات کا چربہ ہے۔ د۔ ان حکماء کو ان کی زندگی میں کافر قررار نہیں دیا گیا تھا، تو ڈارون کے نظریہ کو بھی اسلام کے خلاف نہیں کہہ سکتے۔ ڈارون کو ملحد اور خدا کا منکر قرار دینا ایک مفروضہ ہے۔ بول چال میں پاکیزہ اور شُستہ زبان کا استعمال

تبصرہ کتب

نام : نعم الوجیز فی إعجاز القرآن العزیز (عربی) تالیف: حضرت مولانا عبد العزیز پرہاروی تحقیق و تعلیق: مولانا مفتی محمد عبد اﷲ شارق ضخامت: ۱۷۶ صفحات قیمت: درج نہیں تقسیم کار: کتب خانہ مجیدیہ، اردو بازار بیرون بوہڑ گیٹ، ملتان03007309593 مبصر: صبیح ہمدانی حضرت مولانا عبد العزیز پرہاروی قدس سرّہ‘ علمائے دین کی جماعت میں اس درجے کے بزرگ تھے جن کو آیۃ من آیات اﷲ کہا جاسکتا ہے۔ ان کی ذات میں اﷲ تعالی نے اپنی صفت علم کی ایسی تجلی فرمائی تھی کہ زمانے کو کم کم ہی ویسی تجلی یکجا نصیب ہوئی ہے۔حضرت قدس سرہ نے روایتی و غیر روایتی علوم و فنون میں بیش بہا تصانیف وتالیفات سے امت کے علمی خزانے کے اعتبار کا اضافہ کیا۔ تفسیر، حدیث، عقائد،

متلاشیانِ حق کے لیے دعوت فکرو عمل

مکتوب نمبر: ۸ ڈاکٹر محمد آصف بسم اﷲ الرحمن الرحیم عزیزی احمدی دوستو! قرآن کریم نے اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے کو سب سے بڑا ظالم بتایا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: فمن اظلم ممن افتریٰ علی اللّٰہ کذباً اور کذب بایٰاتہ انہ لایفلح الظالمون ترجمہ: ’’پھر (تم ہی بتاؤ کہ) جو اﷲ پر بہتان باندھے یا اس کے نشانات کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا (غرض) یہ یقینی بات ہے کہ مجرم لوگ کامیاب نہیں ہوتے۔‘‘ (سورت یونس آیت نمبر 18 ترجمہ تفسیر صغیر، مرزا بشیر الدین محمود) اسی سورت یونس کی آیت نمبر 70 تا 71 میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’تو (ان سے) کہ جو (لوگ) اﷲ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوتے۔

مسافران آخرت

ادارہ حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پورے قدس سرہٗ کے اجلّ خلیفۂ مُجاز حضرت مولانا محمد عبداﷲ دھرم کوٹی رحمہ اﷲ کے سب سے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالرحیم دھرم کوٹی نوّر اﷲ مرقدہٗ ۴؍ جمادی الاولی ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۲؍ جنوری ۲۰۱۸ء بروز پیر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی عمر تقریباً ۹۵ برس تھی۔ نماز جنازہ ۲۳؍ جنوری کو آپ کے آبائی گاؤں چک نمبر ۲۶ ایم بی ضلع خوشاب میں آپ کے برادرِ اصغر حضرت مولانا فضل الرحمن دھرم کوٹی نے پڑھائی اور اپنے والدِ بزرگوار کے پہلو میں تدفین ہوئی۔ دور دراز سے آئے ہوئے مشائخ، حفاظ اور علماء کرام نے شرکت فرمائی۔ حضرت مولانا عبدالرحیم دھرم کوٹی رحمہ اﷲ نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں حضرت شیخ

نقیب

گزشتہ شمارے

2018 February

سمجھ انجام گلشن کا……

امیر شریعت کانفرنس(9 ؍مارچ 2018 ء)

اسلامی ریاست میں حکمرانوں کی ذمہ داریاں

سیاسی اشرافیہ اوربیوروکریسی کاکڑا اِحتساب

پیغامِ پاکستان

معصوم محسود اور باوردی دہشت گرد

سیکولر مغربی ممالک کی جنسی درندگی اور پاکستان پر مغرب زدگان کا حملہ

اُمّ المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا

سلفِ صالحین کا اﷲ کے راستے میں ثبات و قیام

حمد باری تعالیٰ

نعت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم

سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ

میرے والد…… صوفی خدابخش چوہان رحمہ اﷲ

مِنھاجِ نُبوّت اور مرزا قادیانی

خطبات بہاولپور کا علمی جائزہ…… ڈارون کا نظریۂ ارتقاء

تبصرہ کتب

متلاشیانِ حق کے لیے دعوت فکرو عمل

مسافران آخرت